اُجلی رِدائے عکس کو میلا کہیں گے لوگ

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دو سال پرانی ایک غزل آپ احباب کے حضور پیشِ خدمت ہے ۔ اس میں چند اشعار تازہ اضافہ کئے ہیں ۔ شاید آپ کو پسند آئیں ۔ آپ کی باذوق بصارتوں کی نذر!

٭

اُجلی رِدائے عکس کو میلا کہیں گے لوگ
آئینہ مت دکھائیے ، جھوٹا کہیں گے لوگ

شاخیں گرا رہے ہیں مگر سوچتے نہیں
پھر کس شجر کی چھاؤں کو سایہ کہیں گے لوگ

واقف ہیں رہبروں سے یہ عادی سراب کے
دریا دکھائیے گا تو صحرا کہیں گے لوگ

شہرت کی روشنی میں مسلسل اُچھا لئے
پتھر کو آسمان کا تارا کہیں گے لوگ

آغازِ داستاں ہے ذرا سنتے جائیے
آگے تو دیکھئےابھی کیا کیا کہیں گے لوگ

جو کچھ برائے زیبِ بیاں کہہ رہے ہو آج
کل اُس کو داستان کا حصہ کہیں گے لوگ

لوگوں کو اختیار میں حصہ تو دیجئے
اربابِ اختیار کو اپنا کہیں گے لوگ

فردِ عمل پہ کر کے رقم اپنے فیصلے
اپنے لکھے کو بخت کا لکھا کہیں گے لوگ

شکوہ کرو نہ دیدۂ ظاہر پرست کا
جیسے دکھائی دیتے ہو ویسا کہیں گے لوگ

کس شہرِخود فریب میں جیتے ہو تم ظہیرؔ
اپنا سمجھ رہے ہیں نہ اپنا کہیں گے لوگ

٭٭٭


ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2017
 
دو سال پرانی ایک غزل آپ احباب کے حضور پیشِ خدمت ہے ۔ اس میں چند اشعار تازہ اضافہ کئے ہیں ۔ شاید آپ کو پسند آئیں ۔ آپ کی باذوق بصارتوں کی نذر!

٭

اُجلی رِدائے عکس کو میلا کہیں گے لوگ
آئینہ مت دکھائیے ، جھوٹا کہیں گے لوگ

شاخیں گرا رہے ہیں مگر سوچتے نہیں
پھر کس شجر کی چھاؤں کو سایہ کہیں گے لوگ

واقف ہیں رہبروں سے یہ عادی سراب کے
دریا دکھائیے گا تو صحرا کہیں گے لوگ

شہرت کی روشنی میں مسلسل اُچھا لئے
پتھر کو آسمان کا تارا کہیں گے لوگ

آغازِ داستاں ہے ذرا سنتے جائیے
آگے تو دیکھئےابھی کیا کیا کہیں گے لوگ

جو کچھ برائے زیبِ بیاں کہہ رہے ہو آج
کل اُس کو داستان کا حصہ کہیں گے لوگ

لوگوں کو اختیار میں حصہ تو دیجئے
اربابِ اختیار کو اپنا کہیں گے لوگ

فردِ عمل پہ کر کے رقم اپنے فیصلے
اپنے لکھے کو بخت کا لکھا کہیں گے لوگ

شکوہ کرو نہ دیدۂ ظاہر پرست کا
جیسے دکھائی دیتے ہو ویسا کہیں گے لوگ

کس شہرِخود فریب میں جیتے ہو تم ظہیرؔ
اپنا سمجھ رہے ہیں نہ اپنا کہیں گے لوگ

٭٭٭


ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2017
خوبصورت خوبصورت!

خاص طور پر یہ جملہ
اس میں چند اشعار تازہ اضافہ کئے ہیں

اتنی خوبصورت غزل پر بہت سی داد کے ساتھ مزید پھڑکتی ہوئی پرانی اور تازہ غزلوں کے منتظر!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
واہ ظہیر بھائی ۔ خوب چوٹیں لگائیں ہیں اس غزل میں تو ۔
آئینہ مت دکھائیے ، جھوٹا کہیں گے لوگ-واہ
کل اُس کو داستان کا حصہ کہیں گے لوگ-واہ
بہت عمدہ ۔جی خوش ہوا۔ بہت پسند آیا انداز ۔ہمیشہ سلامت رہیئے ۔
 
دو سال پرانی ایک غزل آپ احباب کے حضور پیشِ خدمت ہے ۔ اس میں چند اشعار تازہ اضافہ کئے ہیں ۔ شاید آپ کو پسند آئیں ۔ آپ کی باذوق بصارتوں کی نذر!

٭

اُجلی رِدائے عکس کو میلا کہیں گے لوگ
آئینہ مت دکھائیے ، جھوٹا کہیں گے لوگ

شاخیں گرا رہے ہیں مگر سوچتے نہیں
پھر کس شجر کی چھاؤں کو سایہ کہیں گے لوگ

واقف ہیں رہبروں سے یہ عادی سراب کے
دریا دکھائیے گا تو صحرا کہیں گے لوگ

شہرت کی روشنی میں مسلسل اُچھا لئے
پتھر کو آسمان کا تارا کہیں گے لوگ

آغازِ داستاں ہے ذرا سنتے جائیے
آگے تو دیکھئےابھی کیا کیا کہیں گے لوگ

جو کچھ برائے زیبِ بیاں کہہ رہے ہو آج
کل اُس کو داستان کا حصہ کہیں گے لوگ

لوگوں کو اختیار میں حصہ تو دیجئے
اربابِ اختیار کو اپنا کہیں گے لوگ

فردِ عمل پہ کر کے رقم اپنے فیصلے
اپنے لکھے کو بخت کا لکھا کہیں گے لوگ

شکوہ کرو نہ دیدۂ ظاہر پرست کا
جیسے دکھائی دیتے ہو ویسا کہیں گے لوگ

کس شہرِخود فریب میں جیتے ہو تم ظہیرؔ
اپنا سمجھ رہے ہیں نہ اپنا کہیں گے لوگ

٭٭٭


ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2017
بہت عمدہ ظہیر بھائی
 
دو سال پرانی ایک غزل آپ احباب کے حضور پیشِ خدمت ہے ۔ اس میں چند اشعار تازہ اضافہ کئے ہیں ۔ شاید آپ کو پسند آئیں ۔ آپ کی باذوق بصارتوں کی نذر!

٭

اُجلی رِدائے عکس کو میلا کہیں گے لوگ
آئینہ مت دکھائیے ، جھوٹا کہیں گے لوگ

شاخیں گرا رہے ہیں مگر سوچتے نہیں
پھر کس شجر کی چھاؤں کو سایہ کہیں گے لوگ

واقف ہیں رہبروں سے یہ عادی سراب کے
دریا دکھائیے گا تو صحرا کہیں گے لوگ

شہرت کی روشنی میں مسلسل اُچھا لئے
پتھر کو آسمان کا تارا کہیں گے لوگ

آغازِ داستاں ہے ذرا سنتے جائیے
آگے تو دیکھئےابھی کیا کیا کہیں گے لوگ

جو کچھ برائے زیبِ بیاں کہہ رہے ہو آج
کل اُس کو داستان کا حصہ کہیں گے لوگ

لوگوں کو اختیار میں حصہ تو دیجئے
اربابِ اختیار کو اپنا کہیں گے لوگ

فردِ عمل پہ کر کے رقم اپنے فیصلے
اپنے لکھے کو بخت کا لکھا کہیں گے لوگ

شکوہ کرو نہ دیدۂ ظاہر پرست کا
جیسے دکھائی دیتے ہو ویسا کہیں گے لوگ

کس شہرِخود فریب میں جیتے ہو تم ظہیرؔ
اپنا سمجھ رہے ہیں نہ اپنا کہیں گے لوگ

٭٭٭


ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2017
زبردست!
آپ کے اشعار بسا غنیمت ہیں کہ وہ اقوالِ حکمت سے بھرے ہوتے ہیں۔ :)
 
زبردست!
آپ کے اشعار بسا غنیمت ہیں کہ وہ اقوالِ حکمت سے بھرے ہوتے ہیں۔ :)
ایسا ہی ہے۔
ہر شعر الگ توجہ چاہتا ہے، فکر کے الگ زاویے پیش کرتا ہے، کسی شعر پر دل کہہ اٹھتا ہے کہ میں نے یہ جانا کہ گویا۔۔۔
اور کسی شعر پر کہتا ہے کہ ارے یہی تو تشخیص ہے فلاں مرض کی۔ یہی دوا ہے فلاں مرض کی۔
اس لیے ہر شعر الگ اقتباس کا مستحق ہے۔ :)
اُجلی رِدائے عکس کو میلا کہیں گے لوگ
آئینہ مت دکھائیے ، جھوٹا کہیں گے لوگ

شاخیں گرا رہے ہیں مگر سوچتے نہیں
پھر کس شجر کی چھاؤں کو سایہ کہیں گے لوگ

واقف ہیں رہبروں سے یہ عادی سراب کے
دریا دکھائیے گا تو صحرا کہیں گے لوگ

شہرت کی روشنی میں مسلسل اُچھا لئے
پتھر کو آسمان کا تارا کہیں گے

آغازِ داستاں ہے ذرا سنتے جائیے
آگے تو دیکھئےابھی کیا کیا کہیں گے لوگ

جو کچھ برائے زیبِ بیاں کہہ رہے ہو آج
کل اُس کو داستان کا حصہ کہیں گے لوگ

لوگوں کو اختیار میں حصہ تو دیجئے
اربابِ اختیار کو اپنا کہیں گے لوگ

فردِ عمل پہ کر کے رقم اپنے فیصلے
اپنے لکھے کو بخت کا لکھا کہیں گے لوگ

شکوہ کرو نہ دیدۂ ظاہر پرست کا
جیسے دکھائی دیتے ہو ویسا کہیں گے لوگ

کس شہرِخود فریب میں جیتے ہو تم ظہیرؔ
اپنا سمجھ رہے ہیں نہ اپنا کہیں گے لوگ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عمدہ غزل ہے ظہیر صاحب قبلہ، انتہائی جاندار مطلع ہے، واللہ۔ :)
بہت نوازش! آپ جیسے سخن فہم اور سخن ور کی پذیرائی میرے لئے اعزاز ہوتی ہے ۔ مطلع آپ کو پسند آیا تو پھر یقیناً کچھ جان ہوگی اس میں ۔ :)
عزت افزائی کے لئے بہت ممنون ہوں جناب۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے ، شاد آباد رکھے ۔ آمین ۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خوبصورت خوبصورت!
اتنی خوبصورت غزل پر بہت سی داد کے ساتھ مزید پھڑکتی ہوئی پرانی اور تازہ غزلوں کے منتظر!
آداب ! تسلیمات ! بہت شکریہ خلیل بھائی ! حوصلہ افزائی کے لئے ممنون ہوں ۔
بس اب دس پندرہ پرانی غزلیں ہی باقی ہوں گی ۔ جب دیکھتا ہوں تو شش و پنج میں پڑجاتا ہوں کہ یہ پوسٹ کرنے کے قابل ہیں بھی یا نہیں ۔ بہرحال، دیکھتا ہوں اور کوشش کرکے وقتاً فوقتاً لگاتا رہوں گا ۔ خلیل بھائی ، نسبتاً تازہ غزلیں بھی دو تین ہیں لیکن ابھی مکمل نہیں ہوئیں ۔ نظرِ ثانی کا موقع نہیں مل پاتا ۔ جیسے ہی کچھ بنا تو ان شاء اللہ یہیں پوسٹ کروں گا ۔ اور کہاں جانا ہے ۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت عمدہ ۔جی خوش ہوا۔ بہت پسند آیا انداز ۔ہمیشہ سلامت رہیئے ۔
آداب ، آداب! سراپا سپاس ہوں عاطف بھائی ۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے ، آپ اس قدر عزت افزائی کرتے ہیں ۔ بہت شکریہ!
واہ ظہیر بھائی ۔ خوب چوٹیں لگائیں ہیں اس غزل میں تو ۔
عاطف بھائی ، وہ آپ ہی کے مرزا غالبؔ کہہ گئے ہیں نا کہ :
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
تو بس کبھی کبھی کچھ ایسی ہی حالت ہوجاتی ہے ۔ لاکھ کوشش کے باوجود کچھ کھردراہٹ آہی جاتی ہے لہجے میں ۔ ان کٹھ پتلی بکاؤ سیاستدانوں سے اللہ سمجھے ایک کھلونا بنایا ہوا ہے ملک کو ۔ بنگلہ دیش جیسے پسماندہ ملک کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور ہم ابھی تک اپنی سمت ہی متعین نہیں کرپائے ہیں ۔ اب تو ڈر لگنے لگا ہے کہ آخر ہوگا کیا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
زبردست!
آپ کے اشعار بسا غنیمت ہیں کہ وہ اقوالِ حکمت سے بھرے ہوتے ہیں۔ :)
حکیم حکمت علی خان کے ساتھ رہنے کا کچھ تو اثر ہونا تھا آخر۔ :):):)
بہت بہت شکریہ عبید بھائی ! اللہ آپ کو خوش رکھے ۔ ذوق سلامت رکھے ۔ شاد آباد رہیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایسا ہی ہے۔
ہر شعر الگ توجہ چاہتا ہے، فکر کے الگ زاویے پیش کرتا ہے، کسی شعر پر دل کہہ اٹھتا ہے کہ میں نے یہ جانا کہ گویا۔۔۔
اور کسی شعر پر کہتا ہے کہ ارے یہی تو تشخیص ہے فلاں مرض کی۔ یہی دوا ہے فلاں مرض کی۔
اس لیے ہر شعر الگ اقتباس کا مستحق ہے۔ :)
بہت نوازش ، بہت شکریہ تابش بھائی ! یہ تو سراسر آپ کی خوش نظری ہے ۔ جی خوش ہوا آپ کا تبصرہ پڑھ کر۔ اللہ کریم بہت نوازے آپ کو! آمین ۔
 

سید رافع

محفلین
اُجلی رِدائے عکس کو میلا کہیں گے لوگ
آئینہ مت دکھائیے ، جھوٹا کہیں گے لوگ

واقف ہیں رہبروں سے یہ عادی سراب کے
دریا دکھائیے گا تو صحرا کہیں گے لوگ

شکوہ کرو نہ دیدۂ ظاہر پرست کا
جیسے دکھائی دیتے ہو ویسا کہیں گے لوگ

کس شہرِخود فریب میں جیتے ہو تم ظہیرؔ
اپنا سمجھ رہے ہیں نہ اپنا کہیں گے لوگ

بہت عمدہ۔ دل شکستگی اور تلخی۔ لیکن بہت خوب۔

یہ کون تھے؟
 
حکیم حکمت علی خان کے ساتھ رہنے کا کچھ تو اثر ہونا تھا آخ


حکیم حکمت علی خاں اپنے دور کے بڑے جید حکماء میں شمار ہوتے تھے۔ کہتے ہیں کہ حکمت ان کے گھر کی ایک لونڈی تھی۔حاکمِ وقت بھی ان کی حکمت سے استفادہ کیا کرتے ، اکثر ان کے مطب کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے نظر آتے۔حکیم صاحب بھی اس کی حاکمیت کو حکمِ حاکم مرگِ مفاجات سمجھ کر حکم بجالاتے۔ ان کے ہم عصر ناظم حکمت نے بڑے حکیمانہ انداز میں ان کی حکمت کا حال لکھا ہے۔ لکھتے ہیں؛
’’حکیم صاحب کی فلسفیانہ حکمت سے بھری ابحاث سن کر کسی منچلے نے یوں پھبتی کسی، ’’ نیم حکیم خطرہء جان، نیم فلسفی خطرہء ایقان۔

ان کا ایک حکیمانہ قول زباں زدِ عام ہے کہ حکمت اور حکومت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

ہمارے ڈاکٹر صاحب ہومیو پیتھی اور حکیمانہ طریقہء علاج سے یوں تو الرجک ہیں لیکن حکیم صاحب کی صحبت کے باعث ان کی کچھ حکیمانہ ابحاث میں کسبِ فیض کرتے نظر آتے ہیں، جس کا اظہار انہوں نے مذکورہ بالا بحث میں کیا ہے۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حکیم حکمت علی خاں اپنے دور کے بڑے جید حکماء میں شمار ہوتے تھے۔ کہتے ہیں کہ حکمت ان کے گھر کی ایک لونڈی تھی۔حاکمِ وقت بھی ان کی حکمت سے استفادہ کیا کرتے ، اکثر ان کے مطب کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے نظر آتے۔حکیم صاحب بھی اس کی حاکمیت کو حکمِ حاکم مرگِ مفاجات سمجھ کر حکم بجالاتے۔ ان کے ہم عصر ناظم حکمت نے بڑے حکیمانہ انداز میں ان کی حکمت کا حال لکھا ہے۔ لکھتے ہیں؛
’’حکیم صاحب کی فلسفیانہ حکمت سے بھری ابحاث سن کر کسی منچلے نے یوں پھبتی کسی، ’’ نیم حکیم خطرہء جان، نیم فلسفی خطرہء ایقان۔

ان کا ایک حکیمانہ قول زباں زدِ عام ہے کہ حکمت اور حکومت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

ہمارے ڈاکٹر صاحب ہومیو پیتھی اور حکیمانہ طریقہء علاج سے یوں تو الرجک ہیں لیکن حکیم صاحب کی صحبت کے باعث ان کی کچھ حکیمانہ ابحاث میں کسبِ فیض کرتے نظر آتے ہیں، جس کا اظہار انہوں نے مذکورہ بالا بحث میں کیا ہے۔
:):):)

کیا بات ہے خلیل بھائی! بہت خوب!
کہیں پہ نگاہیں ، کہیں ۔۔۔۔۔
اگرچہ بندوق ہمارے کندھے پر رکھ کر چلائی گئی ہے لیکن اس عمدگی سے چلائی ہے کہ ذرا جھٹکا محسوس نہیں ہوا ۔ :):):)
 
Top