زیرک کے پسندیدہ قطعات

زیرک

محفلین
تجھ سے کیا چیز قیمتی ہو گی
تُو تو پیارے! میرا حبیب ہوا
دو ہی با ذوق آدمی ہیں، عدم
میں ہوا، یا میرا رقیب ہوا
عبدالحمید عدم​
 

زیرک

محفلین
تُو نے عصمت فروخت کی ہے فقط
ایک فاقے کو ٹالنے کے لیے
لوگ یزداں کو بیچ دیتے ہیں
اپنا مطلب نکالنے کے لیے
عبدالحمید عدم​
 

زیرک

محفلین
اب مِری حالتِ غمِناک پہ کڑھنا کیسا
کیا ہوا مجھ کو اگر آپ نے ناشاد کیا
حادثہ ہے مگر ایسا تو المناک نہیں
یعنی اِک دوست نے اِک دوست کو برباد کیا
عبدالمحید عدم​
 

زیرک

محفلین
وہ دشمن جاں، جان سے پیارا بھی کبھی تھا
اب کس سے کہیں کوئی ہمارا بھی کبھی تھا
ہر دوست یہاں ابرِ گریزاں کی طرح ہے
یہ شہر، یہی شہر، ہمارا بھی کبھی تھا
احمد فراز​
 

زیرک

محفلین
دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے
یہ قناعت ہے اطاعت ہے کہ چاہت ہے فراز
ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے
احمد فراز​
 

زیرک

محفلین
یہ جدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں
جو گیا وہ پھر نہ آیا مِری بات مان جاؤ
کسی بے وفا کی خاطر یہ جنوں فراز کب تک
جو تمہیں بھلا چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ
احمد فراز​
 

زیرک

محفلین
یہاں نہ رک، یہاں خواب جلائے جاتے ہیں
لوگ اٹھ نہ جائیں، ایسے سلائے جاتے ہیں
پتہ بھی ہے کہ دوجے سرے نہیں منصف
لوگ عجب ہیں کہ زنجیر ہلائے جاتے ہیں​
 

زیرک

محفلین
فرض کرو ہم منصف ہوں، فرض کرو چوکیدار ہوں
فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں، بے کار ہوں
فرض کرو یہ ڈیم سے ڈیم کا ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
فرض کرو یہ ڈیم ہو جھوٹا، فرض کرو یہ مایا ہو​
 

زیرک

محفلین
یوں ہم کو حادثوں نے کیا رہزنوں کی نذر
جیسے کہ ہم تھے مالِ غنیمت بشر نہ تھے
ٹکرا کے سر کو اپنا لہو آپ چاٹتے
اچھا ہوا کہ دشت میں دیوار و در نہ تھے
اختر ہوشیارپوری​
 

زیرک

محفلین
رہے دو دو فرشتے ساتھ اب انصاف کیا ہو گا
کسی نے کچھ لکھا ہو گا، کسی نے کچھ لکھا ہو گا
ملے گی شیخ کو جنت، ہمیں دوزخ عطا ہو گا
بس اتنی بات ہے جس کے لیے محشر بپا ہو گا
اختر ہوشیارپوری​
 

زیرک

محفلین
جب تشنگی بڑھی تو مسیحا نہ تھا کوئی
جب پیاس بجھ گئی تو سمندر ملا مجھے
نازک خیالیوں کی مجھے یہ سزا ملی
شیشہ تراشنے کو بھی پتھر ملا مجھے
اختر سعیدی​
 

زیرک

محفلین
تم اتنا بوجھ اٹھانے میں تھک نہیں جاتے؟
غرور و قہر کو دن بھر اٹھائے پھرتے ہو
خدا تمہارے تکبر کی خیریت رکھے
سنبھل کے رہنا بہت سر اٹھائے پھرتے ہو​
 

زیرک

محفلین
زباں تو کھول نظر تو ملا جواب تو دے
میں کتنی بار لٹا ہوں، حساب تو دے
تیرے بدن کی لکھاوٹ میں ہے اتار چڑھاؤ
میں تجھ کو کیسے پڑھوں گا مجھے کتاب تو دے
راحت اندوری​
 

زیرک

محفلین
مگر تم سے سیکھا محبت بھی ہو تو
دغا کیجئے گا،۔۔۔ مُکرجائیے گا
فقط میرے دل سے اُترجائیے گا
بچھڑنا مبارک،۔ بچھڑ جائیے گا
خلیل الرحمٰن قمر​
 

زیرک

محفلین
پیار اک شخص کے اقرار سے مشروط نہ کر
شرط اقرار پہ انکار بھی ہو سکتا ہے
مجھ سے دامن نہ چھڑا مجھ کو بچا کر رکھ لے
مجھ سے اک روز تجھے پیار بھی ہو سکتا ہے
خلیل الرحمٰن قمر​
 

زیرک

محفلین
ہٹا دو چہرے سے گر دوپٹہ، تم اپنے اے لالہ فام! آدھا
تو ہو یہ ثابت کہ نکلا ابرِ سیاہ سے ماہِ تمام آدھا
ہوا تو ہے تیرے ہجر میں دل ہمارا جل کر کباب ساقی
کسر اگر ہے تو اتنی ہی ہے کہ پختہ آدھا ہے، خام آدھا​
 

زیرک

محفلین
ہوا کو لینے گیا ہے مجھے دِیا کر کے
شدید کرب میں ہوں میں اسے خدا کر کے
عجب ہے میرے ستمگر کے ہاتھ کی لذت
پرانا زخم بھی دیتا ہے وہ نیا کر کے

فرخ عدیل​
 

زیرک

محفلین
درد اٹھتا ہے رگ و پے میں سرور اٹھتا ہے
حسن انگرائی جو لیتا ہے فتور اٹھتا ہے
ہم نے دیکھی ہیں وہ اٹھتی ہوئی آنکھیں فرخ
ہم کو معلوم ہے کس طور سے نور اٹھتا ہے

فرخ عدیل​
 

زیرک

محفلین
خونِ دل سے سنوارتے ہیں سخن
اور منّت کشِ دوات بھی ہیں
شاعری مسئلہ تو ہے، لیکن
کچھ محبت کے واجبات بھی ہیں

افتخار حیدر​
 

زیرک

محفلین
ہجوم ہوتا ہے غم خوار تھوڑی ہوتے ہیں
یہ میرے ساتھ مِرے یار تھوڑی ہوتے ہیں
یہ لوگ دیکھنے آتے ہیں غم، مناتے نہیں
تماش بین، عزا دار، تھوڑی ہوتے ہیں

افتخار حیدر​
 
Top