بچوں کے لئے نظمیں ، کیسے لکھی جائیں؟

محمداحمد

لائبریرین
السلام علیکم،

آج کل ہمارے محترم محمد خلیل الرحمٰن بھائی اپنی خوش ذوقی کو کام میں لاتے ہوئے بچوں کے لئے بہت ہی پیاری پیاری نظمیں تخلیق کر رہے ہیں اور اُنہی کی ایک نظم کی لڑی میں جناب الف نظامی صاحب نے ہماری توجہ بھی اس طرف مبذول کروائی ہے ۔ لیکن ہم آج تک بچوں کے لئے کوئی نظم نہیں لکھ سکے۔

سو ہماری خواہش ہے کہ محترم خلیل الرحمٰن بھائی اور دیگر شعراء و ادباء اور احبابِ محفل اس سلسلے میں ہماری رہنمائی فرمائیں اور اپنے مفید مشوروں سے نوازیں۔

بچوں کی نظموں میں کس قسم کا مواد ہونا چاہیے یہ بھی بتائیں۔ زبان کی سادگی و سلاست برقرار رکھنے کے گُر بھی سمجھائیں۔ اور بھی جو کچھ آپ کو لگے کہ اس سلسلے میں زیرِ بحث آنا چاہیے اُسے یہاں آ کر بتائیے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
صوفی تبسم کو جو مصنف ِ کتاب ہونے کے علاوہ "والدین" بھی ہیں اور استاد بھی، یہ گوارا نہ ہوا کہ بچوں کو تو بہلایا جائے اور والدین اور استادوں کی پروا نہ کی جائے۔ اس لئے قرار پایا کہ وہ بچوں کو نظمیں سنائیں اور میں والدین کو باتوں میں لگائے رکھوں۔
بچوں کا بہلانا سہل ہے، بڑوں کا بہلانا سہل نہیں۔ بچوں نے تو یہ پڑھا کہ ٍ"چیچوں چیچوں چاچا۔گھڑی پہ چوہا ناچا" اور خوش ہو لئے۔ بڑے کہیں گے چیچوں ہم نے تو کسی لغت میں دیکھا نہیں اور اگر چاچا سے مراد چچا ہے تو یہ شائستہ لوگوں کی زبان نہیں۔ اور یہ گھڑی پہ چوہا ناچا تو آخر کیوں؟ اور بہر حال اس تک بندی کا نتیجہ کیا؟ اس سے بچوں کو کون سا سبق حاصل ہوا؟

یہ سب سوال نہایت ہی ذمہ دارانہ ہیں۔ بالفاظ دیگر ان لوگوں کے سوال ہیں جو اپنا بچپن بھلا بیٹھے ہیں۔ یا جو یہ تہیہ کیے بیٹھے ہیں کہ جن باتوں سے ان کا بچپن رنگین ہوا تھا وہ اس دنیا میں اب نہ دہرائی جائیں گی۔تک ملانا بے فائدہ بات ہے۔ بوجھوں مارنا چاہیے۔

خدا کا شکر ہے، صوفی تبسم کو ایک ایسی دانائی عطا ہوئی ہے کہ وہ نادانی کی لذت سے ابھی محروم نہیں ہوئے۔ وہ جانتے ہیں کہ بچوں کا ذہن وہ عجیب و غریب دنیا ہے جس میں پیڑوں پر ناگ ناچتے ہیں اور بلیاں بیر کھاتی ہیں اور ٹر ٹر موٹر۔ چھم چھم ٹم ٹم میں آہنگ اور لے کی وہ تمام لذتیں سما جاتی ہیں جو بڑے ہو کر تان سین کی کرامات سے بھی حاصل نہیں ہوتیں۔ یہ وہ دنیا ہے جس میں گڑیاں اور جانور اور پرندے اور انسان سے ایک دوسرے کے دوست ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہتے ہیں۔ گویا سب مخلوق ایک ہی خدا کی مخلوق ہوتی ہے۔ بڑے ہو کر ذہن انسانی ہزار فلسفیانہ کشمکش اور خیال آفرینی کے بعد بھی مشکل سے اس سطح پر پہنچا ہے۔

اس لئے قابل رشک ہیں صوفی تبسم کہ بلا تکلف اس رنگین دنیا میں چہچہا رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ صوفی تبسم ایک خوش ذوق سخن سنج اور سخن گو ہیں۔ اردو فارسی غزل استادانہ کہتے ہیں اور جذبے اور ادا کی باریکیوں کو‌ خوب سمجھتے ہیں۔ یہ مجموعہ ان کی شاعری میں اتوار کا دن ہے اور یوں اتوار منانے میں انہوں نے بڑے بڑے اساتذہ کا تتبع کیا ہے۔ لیکن یہ نہ سمجھیے کہ اس دن بالکل ہی خالی الذہن ہو کر بیٹھتے ہیں اور جو منہ میں آئے کہہ ڈالتے ہیں۔ غور سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ یہ کام قافیے اور وزن اور آہنگ اور الفاظ کی نزاکتوں پر قادر ہوئے بغیر ممکن نہ تھا۔ اس لئے صوفی تبسم کی پختہ کاری اور طباعی کے شواہد اس میں جا بجا اس کو نظر آئیں گے۔ ایسے کلام کا درجہ مہمل ممتنع کا درجہ ہے۔ جیسے سہل ممتنع سہل نہیں ہوتا اسی طرح مہمل ممتنع بھی مہمل نہیں ہوتا۔
دعا ہے کہ صوفی تبسم کا یہ بچپن ہمیشہ قائم رہے ! اور ان کے قدر دان ہمیشہ انہیں یہ کہنے کے قابل ہوں کہ

چہل سال عمر عزیزت گزشت
مزاج تو از حال طفلی نہ گشت

دہلی 5 جون 1946 عیسوی
پطرس
 

محمد وارث

لائبریرین
یادش بخیر، آج سے آٹھ دس سال پہلے جب میری بیٹی چھوٹی تھی تو اس کے لیے کچھ نظمیں کہہ کر اس کی زبان پر چڑھا دیتا تھا، اب سب کچھ خیر فکرِ دنیا کی نذر ہو گیا۔

بچوں کی نظموں میں دو تین چیزیں لازمی ہوتی ہیں:

چھوٹی بحر، بس چند ہی الفاظ کے مصرعے۔

بھاری بھرکم الفاظ سے پاک، لیکن یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کس عمر کے بچوں کی نظم ہے۔ مثال کے طور پر غالب کی 'قادر نامہ' مثنوی، عربی فارسی اردو کی فرہنگ ہے اور چھوٹے بچوں کے لیے تھی۔ اس وقت کے بچوں کو شاید وہ الفاظ مشکل نہ لگتے ہوں، اب تو خیر "بڑے بڑے" بڑے بھی ان کو ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ :)

قافیہ: میرے ذاتی تجربے کے مطابق، بچوں کی نظموں میں قافیہ بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ قافیہ جتنا زیادہ مقید ہوگا بچوں کو وہ اتنا ہی زیادہ مرغوب ہوگا۔ مثال کے طور، اگر الف کو روی مان کر اس پر قافیہ کا مدار کیا جائے تو "رہتا" اور "جیسا" اور "کمرہ" قافیہ بن جائیں گے (جیسے ناصر کاظمی کی غزل 'اپنی دھن میں رہتا ہوں') لیکن اگر بچوں کی نظم ہے تو 'رہتا' کے ساتھ مقید قافیہ "سہتا"، "بہتا" زیادہ مناسب رہے گا اور بچوں کی زبان پر جلدی چڑھ جائے گا۔ اس کی ایک واضح مثال، ہمارے بچپن میں بچوں کی لوک پنجابی نظمیں تھیں (دیگر علاقائی زبانوں میں بھی یقینی طور پر ہونگی) جن میں ساری نظم کا مدار ہی قافیے پر ہوتا تھا، چاہے قافیے جتنے بے معنی ہوں۔
 

فرقان احمد

محفلین
صوفی تبسم کو جو مصنف ِ کتاب ہونے کے علاوہ "والدین" بھی ہیں اور استاد بھی، یہ گوارا نہ ہوا کہ بچوں کو تو بہلایا جائے اور والدین اور استادوں کی پروا نہ کی جائے۔ اس لئے قرار پایا کہ وہ بچوں کو نظمیں سنائیں اور میں والدین کو باتوں میں لگائے رکھوں۔
بچوں کا بہلانا سہل ہے، بڑوں کا بہلانا سہل نہیں۔ بچوں نے تو یہ پڑھا کہ ٍ"چیچوں چیچوں چاچا۔گھڑی پہ چوہا ناچا" اور خوش ہو لئے۔ بڑے کہیں گے چیچوں ہم نے تو کسی لغت میں دیکھا نہیں اور اگر چاچا سے مراد چچا ہے تو یہ شائستہ لوگوں کی زبان نہیں۔ اور یہ گھڑی پہ چوہا ناچا تو آخر کیوں؟ اور بہر حال اس تک بندی کا نتیجہ کیا؟ اس سے بچوں کو کون سا سبق حاصل ہوا؟

یہ سب سوال نہایت ہی ذمہ دارانہ ہیں۔ بالفاظ دیگر ان لوگوں کے سوال ہیں جو اپنا بچپن بھلا بیٹھے ہیں۔ یا جو یہ تہیہ کیے بیٹھے ہیں کہ جن باتوں سے ان کا بچپن رنگین ہوا تھا وہ اس دنیا میں اب نہ دہرائی جائیں گی۔تک ملانا بے فائدہ بات ہے۔ بوجھوں مارنا چاہیے۔

خدا کا شکر ہے، صوفی تبسم کو ایک ایسی دانائی عطا ہوئی ہے کہ وہ نادانی کی لذت سے ابھی محروم نہیں ہوئے۔ وہ جانتے ہیں کہ بچوں کا ذہن وہ عجیب و غریب دنیا ہے جس میں پیڑوں پر ناگ ناچتے ہیں اور بلیاں بیر کھاتی ہیں اور ٹر ٹر موٹر۔ چھم چھم ٹم ٹم میں آہنگ اور لے کی وہ تمام لذتیں سما جاتی ہیں جو بڑے ہو کر تان سین کی کرامات سے بھی حاصل نہیں ہوتیں۔ یہ وہ دنیا ہے جس میں گڑیاں اور جانور اور پرندے اور انسان سے ایک دوسرے کے دوست ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہتے ہیں۔ گویا سب مخلوق ایک ہی خدا کی مخلوق ہوتی ہے۔ بڑے ہو کر ذہن انسانی ہزار فلسفیانہ کشمکش اور خیال آفرینی کے بعد بھی مشکل سے اس سطح پر پہنچا ہے۔

اس لئے قابل رشک ہیں صوفی تبسم کہ بلا تکلف اس رنگین دنیا میں چہچہا رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ صوفی تبسم ایک خوش ذوق سخن سنج اور سخن گو ہیں۔ اردو فارسی غزل استادانہ کہتے ہیں اور جذبے اور ادا کی باریکیوں کو‌ خوب سمجھتے ہیں۔ یہ مجموعہ ان کی شاعری میں اتوار کا دن ہے اور یوں اتوار منانے میں انہوں نے بڑے بڑے اساتذہ کا تتبع کیا ہے۔ لیکن یہ نہ سمجھیے کہ اس دن بالکل ہی خالی الذہن ہو کر بیٹھتے ہیں اور جو منہ میں آئے کہہ ڈالتے ہیں۔ غور سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ یہ کام قافیے اور وزن اور آہنگ اور الفاظ کی نزاکتوں پر قادر ہوئے بغیر ممکن نہ تھا۔ اس لئے صوفی تبسم کی پختہ کاری اور طباعی کے شواہد اس میں جا بجا اس کو نظر آئیں گے۔ ایسے کلام کا درجہ مہمل ممتنع کا درجہ ہے۔ جیسے سہل ممتنع سہل نہیں ہوتا اسی طرح مہمل ممتنع بھی مہمل نہیں ہوتا۔
دعا ہے کہ صوفی تبسم کا یہ بچپن ہمیشہ قائم رہے ! اور ان کے قدر دان ہمیشہ انہیں یہ کہنے کے قابل ہوں کہ

چہل سال عمر عزیزت گزشت
مزاج تو از حال طفلی نہ گشت

دہلی 5 جون 1946 عیسوی
پطرس
اس سے بڑھ کر موضوع کی مناسبت سے کیا مراسلہ ہو گا! زبردست!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یادش بخیر، آج سے آٹھ دس سال پہلے جب میری بیٹی چھوٹی تھی تو اس کے لیے کچھ نظمیں کہہ کر اس کی زبان پر چڑھا دیتا تھا، اب سب کچھ خیر فکرِ دنیا کی نذر ہو گیا۔
بچوں کی نظموں میں دو تین چیزیں لازمی ہوتی ہیں:
چھوٹی بحر، بس چند ہی الفاظ کے مصرعے۔
بھاری بھرکم الفاظ سے پاک، لیکن یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کس عمر کے بچوں کی نظم ہے۔ مثال کے طور پر غالب کی 'قادر نامہ' مثنوی، عربی فارسی اردو کی فرہنگ ہے اور چھوٹے بچوں کے لیے تھی۔ اس وقت کے بچوں کو شاید وہ الفاظ مشکل نہ لگتے ہوں، اب تو خیر "بڑے بڑے" بڑے بھی ان کو ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ :)
قافیہ: میرے ذاتی تجربے کے مطابق، بچوں کی نظموں میں قافیہ بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ قافیہ جتنا زیادہ مقید ہوگا بچوں کو وہ اتنا ہی زیادہ مرغوب ہوگا۔ مثال کے طور، اگر الف کو روی مان کر اس پر قافیہ کا مدار کیا جائے تو "رہتا" اور "جیسا" اور "کمرہ" قافیہ بن جائیں گے (جیسے ناصر کاظمی کی غزل 'اپنی دھن میں رہتا ہوں') لیکن اگر بچوں کی نظم ہے تو 'رہتا' کے ساتھ مقید قافیہ "سہتا"، "بہتا" زیادہ مناسب رہے گا اور بچوں کی زبان پر جلدی چڑھ جائے گا۔ اس کی ایک واضح مثال، ہمارے بچپن میں بچوں کی لوک پنجابی نظمیں تھیں (دیگر علاقائی زبانوں میں بھی یقینی طور پر ہونگی) جن میں ساری نظم کا مدار ہی قافیے پر ہوتا تھا، چاہے قافیے جتنے بے معنی ہوں۔

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو ۔۔۔۔۔۔ الخ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احمد بھائی دعوتِ اظہارِ خیال کا شکریہ ۔ تمام بنیادی اہم نکات وارث صاحب نے اپنے اوپر مراسلے میں لکھ ہی دیئے ہیں ۔ اب اس اجمال کی تفصیل میں تو بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن آپ کو تفصیل کی ضرورت نہیں ۔ ماشاء اللہ قلم آپ کے پاس ہے بس محرک چاہئے ۔ اور محرک بھی یقیناً کہیں آس پاس ہی کھیل رہی ہوگی ۔ اللہ آپ کی گڑیا کو سلامت ، ہنستا کھیلتا رکھے اور آپ کے دل کا سکون بنائے رکھے۔ آمین۔ قلم اٹھائیے اور شروع ہوجائیے ۔:):):)
چھوٹے بچے سب سے پہلے دو حرفی الفاظ بولنا ہی سیکھتے ہیں اس لئے ننھے بچوں کے لئے چھوٹے وزن کی ہندی بحر ہی مناسب لگتی ہے ۔ اکثر مشہور شعراء نے نرسری کی نظموں میں ایسا ہی کیا ہے ۔ (چوں چوں چا چا ، چوہا ناچا وغیرہ )۔ مجھے یاد ہے کہ اسکول کی ابتدائی کتابوں میں صوفی تبسمؔ ، خوشی محمد ناظرؔ اور قیوم نظرؔ صاحبان وغیرہ کی نظمیں چھوٹی بحر اور مانوس الفاظ پر ہی مشتمل ہوتی تھیں ۔ وزن اور الفاظ کے مناسب انتخاب کے علاوہ نظم کا موضوع بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ بلکہ یوں کہیئے کہ موضوع خود اپنی لفظیات منتخب کرتا ہے ۔ اگر مشاہیر کی نظموں پر غور کیا جائے تو چند موضوعات اور کردار مکرر سامنےآتے ہیں ۔ بنیادی بات یہ ہے کہ نظم کسی مانوس سی چیز کے بارے میں ہونی چاہئے کہ جس سے بچے نہ صرف واقف ہوں بلکہ اس میں دلچسپی بھی رکھتے ہوں ۔نظم مثبت اور خوش کن چیزوں یا باتوں کے بارے میں لکھنا چاہئے۔ مثلاً فطری عناصر بادل ، بارش ، ہوا ، چاند، سورج ، ستارے ، رنگ ، پھول، تتلی، جگنو وغیرہ ۔ مانوس کردار مثلاً بلی، چوہا ، مرغی ،خرگوش ، گلہری ، مچھلی، بطخ وغیرہ کی بات ہونی چاہئے کہ یہ بچوں کے لئے عمومی دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں ۔ گمبھیر اور اداس کرنے والی باتوں سے پرہیز لازمی ہے کہ بچوں کی نفسیات پر اچھا اثر نہیں چھوڑتیں ۔
قافیہ بندی اور غنائیت بچوں کی نظم کا سب سے اہم نکتہ ہے ۔ خواہ بے معنی الفاظ ہی کیوں نہ استعمال کرنے پڑیں لیکن غنائیت اور صوتی زیر و بم کا التزام نظم کو ازحد موثر بناتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
احمد بھائی ، اگلے دس دن کے اندر تین عدد چھوٹے سائزکی بچگانہ نظمیں آپ کی طرف سے اردو محفل پر لگنی چاہئیں ورنہ میں اپنا یہ مراسلہ واپس لے لوں گا۔ بلکہ غزلوں پر داد بھی نہیں دوں گا۔ :):):)
 

بافقیہ

محفلین
بچو بچو جلدی آؤ
جلدی آؤ کھانا کھاؤ

مرغی سالن چاول دال
نان پوری حلوہ کھاؤ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیاری گڑیا دوڑ کے آنا
گھر میں آیا نیا کھلونا

نیا کھلونا جیسے آیا
خوشیاں ہی خوشیاں لے آیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری خالہ دبئی سے آئی
ساتھ نئے کھلونے لائی

چشمہ ٹوپی کپڑے لائی
دیکھو تو بھئی جوتے لائی


(رواروی میں لکھی ہیں)
میرے خیال سے اس طرح کی نظمیں ۔۔۔ اس میں تو غلطیاں بھی ہوں گی۔۔۔ اور کلام غیر معیاری بھی ہوگا۔۔۔ مگر نئے میدان میں قدم رکھنے کیلئے کچھ نقوش اور مثالوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس میں نے دے دیں۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
صوفی تبسم کو جو مصنف ِ کتاب ہونے کے علاوہ "والدین" بھی ہیں اور استاد بھی، یہ گوارا نہ ہوا کہ بچوں کو تو بہلایا جائے اور والدین اور استادوں کی پروا نہ کی جائے۔ اس لئے قرار پایا کہ وہ بچوں کو نظمیں سنائیں اور میں والدین کو باتوں میں لگائے رکھوں۔
بچوں کا بہلانا سہل ہے، بڑوں کا بہلانا سہل نہیں۔ بچوں نے تو یہ پڑھا کہ ٍ"چیچوں چیچوں چاچا۔گھڑی پہ چوہا ناچا" اور خوش ہو لئے۔ بڑے کہیں گے چیچوں ہم نے تو کسی لغت میں دیکھا نہیں اور اگر چاچا سے مراد چچا ہے تو یہ شائستہ لوگوں کی زبان نہیں۔ اور یہ گھڑی پہ چوہا ناچا تو آخر کیوں؟ اور بہر حال اس تک بندی کا نتیجہ کیا؟ اس سے بچوں کو کون سا سبق حاصل ہوا؟

یہ سب سوال نہایت ہی ذمہ دارانہ ہیں۔ بالفاظ دیگر ان لوگوں کے سوال ہیں جو اپنا بچپن بھلا بیٹھے ہیں۔ یا جو یہ تہیہ کیے بیٹھے ہیں کہ جن باتوں سے ان کا بچپن رنگین ہوا تھا وہ اس دنیا میں اب نہ دہرائی جائیں گی۔تک ملانا بے فائدہ بات ہے۔ بوجھوں مارنا چاہیے۔

خدا کا شکر ہے، صوفی تبسم کو ایک ایسی دانائی عطا ہوئی ہے کہ وہ نادانی کی لذت سے ابھی محروم نہیں ہوئے۔ وہ جانتے ہیں کہ بچوں کا ذہن وہ عجیب و غریب دنیا ہے جس میں پیڑوں پر ناگ ناچتے ہیں اور بلیاں بیر کھاتی ہیں اور ٹر ٹر موٹر۔ چھم چھم ٹم ٹم میں آہنگ اور لے کی وہ تمام لذتیں سما جاتی ہیں جو بڑے ہو کر تان سین کی کرامات سے بھی حاصل نہیں ہوتیں۔ یہ وہ دنیا ہے جس میں گڑیاں اور جانور اور پرندے اور انسان سے ایک دوسرے کے دوست ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہتے ہیں۔ گویا سب مخلوق ایک ہی خدا کی مخلوق ہوتی ہے۔ بڑے ہو کر ذہن انسانی ہزار فلسفیانہ کشمکش اور خیال آفرینی کے بعد بھی مشکل سے اس سطح پر پہنچا ہے۔

اس لئے قابل رشک ہیں صوفی تبسم کہ بلا تکلف اس رنگین دنیا میں چہچہا رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ صوفی تبسم ایک خوش ذوق سخن سنج اور سخن گو ہیں۔ اردو فارسی غزل استادانہ کہتے ہیں اور جذبے اور ادا کی باریکیوں کو‌ خوب سمجھتے ہیں۔ یہ مجموعہ ان کی شاعری میں اتوار کا دن ہے اور یوں اتوار منانے میں انہوں نے بڑے بڑے اساتذہ کا تتبع کیا ہے۔ لیکن یہ نہ سمجھیے کہ اس دن بالکل ہی خالی الذہن ہو کر بیٹھتے ہیں اور جو منہ میں آئے کہہ ڈالتے ہیں۔ غور سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ یہ کام قافیے اور وزن اور آہنگ اور الفاظ کی نزاکتوں پر قادر ہوئے بغیر ممکن نہ تھا۔ اس لئے صوفی تبسم کی پختہ کاری اور طباعی کے شواہد اس میں جا بجا اس کو نظر آئیں گے۔ ایسے کلام کا درجہ مہمل ممتنع کا درجہ ہے۔ جیسے سہل ممتنع سہل نہیں ہوتا اسی طرح مہمل ممتنع بھی مہمل نہیں ہوتا۔
دعا ہے کہ صوفی تبسم کا یہ بچپن ہمیشہ قائم رہے ! اور ان کے قدر دان ہمیشہ انہیں یہ کہنے کے قابل ہوں کہ

چہل سال عمر عزیزت گزشت
مزاج تو از حال طفلی نہ گشت

دہلی 5 جون 1946 عیسوی
پطرس

زبردست!

یہ تو بے حد کام کا اقتباس ہے۔۔۔۔!

میں سمجھتا ہوں کہ مجھے کچھ دن بچوں کی سب نظمیں پڑھنی چاہیے! :)
 

محمداحمد

لائبریرین
یادش بخیر، آج سے آٹھ دس سال پہلے جب میری بیٹی چھوٹی تھی تو اس کے لیے کچھ نظمیں کہہ کر اس کی زبان پر چڑھا دیتا تھا، اب سب کچھ خیر فکرِ دنیا کی نذر ہو گیا۔
ماشاءاللہ!

کیا بات ہے!
بچوں کی نظموں میں دو تین چیزیں لازمی ہوتی ہیں:
چھوٹی بحر، بس چند ہی الفاظ کے مصرعے۔

درست!
بھاری بھرکم الفاظ سے پاک، لیکن یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کس عمر کے بچوں کی نظم ہے۔ مثال کے طور پر غالب کی 'قادر نامہ' مثنوی، عربی فارسی اردو کی فرہنگ ہے اور چھوٹے بچوں کے لیے تھی۔ اس وقت کے بچوں کو شاید وہ الفاظ مشکل نہ لگتے ہوں، اب تو خیر "بڑے بڑے" بڑے بھی ان کو ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ :)
قادر نامہ تو ہمارا امتحان لینے کے لئے بھی کافی ہوگا۔ :)
قافیہ: میرے ذاتی تجربے کے مطابق، بچوں کی نظموں میں قافیہ بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ قافیہ جتنا زیادہ مقید ہوگا بچوں کو وہ اتنا ہی زیادہ مرغوب ہوگا۔ مثال کے طور، اگر الف کو روی مان کر اس پر قافیہ کا مدار کیا جائے تو "رہتا" اور "جیسا" اور "کمرہ" قافیہ بن جائیں گے (جیسے ناصر کاظمی کی غزل 'اپنی دھن میں رہتا ہوں') لیکن اگر بچوں کی نظم ہے تو 'رہتا' کے ساتھ مقید قافیہ "سہتا"، "بہتا" زیادہ مناسب رہے گا اور بچوں کی زبان پر جلدی چڑھ جائے گا۔ اس کی ایک واضح مثال، ہمارے بچپن میں بچوں کی لوک پنجابی نظمیں تھیں (دیگر علاقائی زبانوں میں بھی یقینی طور پر ہونگی) جن میں ساری نظم کا مدار ہی قافیے پر ہوتا تھا، چاہے قافیے جتنے بے معنی ہوں۔

واقعی!

نغمگی کے لئے قافیے سب سے اہم کام انجام دیتے ہیں!
 

محمداحمد

لائبریرین

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی دعوتِ اظہارِ خیال کا شکریہ ۔ تمام بنیادی اہم نکات وارث صاحب نے اپنے اوپر مراسلے میں لکھ ہی دیئے ہیں ۔ اب اس اجمال کی تفصیل میں تو بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن آپ کو تفصیل کی ضرورت نہیں ۔ ماشاء اللہ قلم آپ کے پاس ہے بس محرک چاہئے ۔ اور محرک بھی یقیناً کہیں آس پاس ہی کھیل رہی ہوگی ۔ اللہ آپ کی گڑیا کو سلامت ، ہنستا کھیلتا رکھے اور آپ کے دل کا سکون بنائے رکھے۔ آمین۔ قلم اٹھائیے اور شروع ہوجائیے ۔:):)
:in-love:

ہانیہ تو ابھی یک لفظی جملوں پر گزارا کر رہی ہے۔ لیکن عنقریب ضرورت پڑے گی اُس کے لئے نظموں کی۔ :)

چھوٹے بچے سب سے پہلے دو حرفی الفاظ بولنا ہی سیکھتے ہیں اس لئے ننھے بچوں کے لئے چھوٹے وزن کی ہندی بحر ہی مناسب لگتی ہے ۔ اکثر مشہور شعراء نے نرسری کی نظموں میں ایسا ہی کیا ہے ۔ (چوں چوں چا چا ، چوہا ناچا وغیرہ )۔ مجھے یاد ہے کہ اسکول کی ابتدائی کتابوں میں صوفی تبسمؔ ، خوشی محمد ناظرؔ اور قیوم نظرؔ صاحبان وغیرہ کی نظمیں چھوٹی بحر اور مانوس الفاظ پر ہی مشتمل ہوتی تھیں ۔ وزن اور الفاظ کے مناسب انتخاب کے علاوہ نظم کا موضوع بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ بلکہ یوں کہیئے کہ موضوع خود اپنی لفظیات منتخب کرتا ہے ۔ اگر مشاہیر کی نظموں پر غور کیا جائے تو چند موضوعات اور کردار مکرر سامنےآتے ہیں ۔ بنیادی بات یہ ہے کہ نظم کسی مانوس سی چیز کے بارے میں ہونی چاہئے کہ جس سے بچے نہ صرف واقف ہوں بلکہ اس میں دلچسپی بھی رکھتے ہوں ۔نظم مثبت اور خوش کن چیزوں یا باتوں کے بارے میں لکھنا چاہئے۔ مثلاً فطری عناصر بادل ، بارش ، ہوا ، چاند، سورج ، ستارے ، رنگ ، پھول، تتلی، جگنو وغیرہ ۔ مانوس کردار مثلاً بلی، چوہا ، مرغی ،خرگوش ، گلہری ، مچھلی، بطخ وغیرہ کی بات ہونی چاہئے کہ یہ بچوں کے لئے عمومی دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں ۔ گمبھیر اور اداس کرنے والی باتوں سے پرہیز لازمی ہے کہ بچوں کی نفسیات پر اچھا اثر نہیں چھوڑتیں ۔

بہت خوب!

بہت شکریہ!

قافیہ بندی اور غنائیت بچوں کی نظم کا سب سے اہم نکتہ ہے ۔ خواہ بے معنی الفاظ ہی کیوں نہ استعمال کرنے پڑیں لیکن غنائیت اور صوتی زیر و بم کا التزام نظم کو ازحد موثر بناتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔

درست!

ویسے آج کل شاعری کی طرف کچھ دھیان نہیں ہے، جبھی تو اس قسم کی نثری باتیں (نثری باتیں :p) یاد آ رہی ہیں۔ :):D:p
 

محمداحمد

لائبریرین
بچو بچو جلدی آؤ
جلدی آؤ کھانا کھاؤ

مرغی سالن چاول دال
نان پوری حلوہ کھاؤ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیاری گڑیا دوڑ کے آنا
گھر میں آیا نیا کھلونا

نیا کھلونا جیسے آیا
خوشیاں ہی خوشیاں لے آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری خالہ دبئی سے آئی
ساتھ نئے کھلونے لائی

چشمہ ٹوپی کپڑے لائی
دیکھو تو بھئی جوتے لائی

(رواروی میں لکھی ہیں)
میرے خیال سے اس طرح کی نظمیں ۔۔۔ اس میں تو غلطیاں بھی ہوں گی۔۔۔ اور کلام غیر معیاری بھی ہوگا۔۔۔ مگر نئے میدان میں قدم رکھنے کیلئے کچھ نقوش اور مثالوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس میں نے دے دیں۔۔۔


بہت خوب!

عمدہ ہے اور اچھی مثال ہے۔

بے حد شکریہ!
 

ابو ہاشم

محفلین
اگر الف کو روی مان کر اس پر قافیہ کا مدار کیا جائے تو "رہتا" اور "جیسا" اور "کمرہ" قافیہ بن جائیں گے (جیسے ناصر کاظمی کی غزل 'اپنی دھن میں رہتا ہوں')
'الف کو روی مان کر' کی سمجھ نہیں آئی۔ براہِ کرم اس کی وضاحت کر دیجیے
 
بچوں کے لیے نظمیں کیسے لکھی جائیں؟ نظموں ہی پر کچھ موقوف نہیں ، بچوں کا ادب کیسے لکھا جائے؟ ہمارے نزدیک اس کا ایک نہایت آسان فارمولہ ہے۔آپ آسان پر ضرور چونک اٹھے ہیں۔جی ہاں، بہت آسان ۔ اساتذہ اور معزز محفلین کے بیان کیے گئے تکنیکی بیانات اپنی جگہ پر بالکل درست ہیں لیکن ان سے بھی پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بچوں کے لیے لکھتے وقت خود بچے بن جائیں۔ خود کو ایک بچے کے روپ میں مکمل ڈھال لیں۔ نہ صرف الفاظ و تراکیب کے لحاظ سے بلکہ اس حیرت کو بھی اپنا لیں جو بچوں کے مزاج کا خاصہ ہے۔ بڑوں کے لیے روزمرہ واسطہ پڑنے والی کوئی بات حیرت انگیز نہیں۔ البتہ ناقابلِ یقین قسم کی کسی بھی بات یا واقعے کو تسلیم کرنے سے وہ انکار کردیتے ہیں۔ بچوں کے لیے اس دنیا کی ہر بات نئی اور قابلِ یقین ہے۔ وہ ہر واقعے کو قبول کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

ایمان صاحبہ ایک دن گھر تشریف لائیں تو ان کے بارے سے کچھ فلیش کارڈز نکلے۔ ہم والدین کی زمہ داری بچے کو ان فلیش کارڈز کی مشق کروانا تھی۔ وہ الفاظ یہ تھے؛

نرم۔ بلی۔ پسند۔ لال۔گلابی۔کالا۔ میری۔ میں۔ ہوں ۔ ہرا۔ نیلا۔ پیلا۔
پہلے تو کچھ دیر مشق کرواتے رہے۔ پھر ہم نے انہیں بغیر کیس ترتیب کے الماری کے شیشے پر چپکادیا۔

اب ہمارے اندر کا شاعر جاگا اور ہم نے مندرجہ ذیل نظم ایک خاص دھن میں بنائی اور گانے لگے۔ کچھ ہی دیر میں ایمان بھی ہمارے ساتھ یہ نظم اسی جوش و خروش سے گارہی تھیں۔ نظم پیشِ خدمت ہے؛

نرم پسند میری
میں ہوں بلی
لال کالا ہرا،
نیلا پیلا گلابی
لال کالا ہرا،
نیلا پیلا گلابی
نیلا پیلا گلابی
پیلا گلابی
کتنا اچھا گانا پپا نے بنایا
ہم دونوں نے بنایا
ہم سب نے بنایا
ہے۔

یہ بے معنی نظم ہمارے بچوں، بھتیجوں بھجیجیوں سب کو آج بھی یاد ہے اور کبھی کبھی جب ہم مل بیٹھتے ہیں، یا کبھی پکنک وغیرہ پر موقع ملتا ہے تو اسی جوش سے ایک مرتبہ یہ گیت ضرور گاتے ہیں۔

بچوں کی جتنی نظمیں ہم نے محفل میں پیش کی ہیں ، پہلے اپنے بیوی بچوں کو ان گنت مرتبہ لہک لہک کر سناچکے ہیں۔

مزید کیا کہیں!!!
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
'الف کو روی مان کر' کی سمجھ نہیں آئی۔ براہِ کرم اس کی وضاحت کر دیجیے
آپ کو حرفِ روی پر زیادہ مباحث اصلاح سخن فورم میں ملیں گے۔ بس یوں سمجھیے کہ کسی قافیے کا دارو مدار حرفِ روی پر ہوتا ہے اور اس حرف سے پہلے حرکت پر جیسے خبر اور نظر میں حرفِ رے 'ر' روی ہے اور اس سے پہلے زبر کی حرکت اور یہ جو خبر اور نظر میں "اَر" کی مشترک آواز بن رہی ہے وہی قافیہ ہے۔ اسی طرح 'رہتا' اور 'جیسا' میں آخری الف حرفِ روی ہے اور اس سے پہلے زبر کی حرکت تو "آ" کی آواز قافیہ بن رہی ہے۔
 
Top