چبھی ہے دل میں وہ نوکِ سنانِ وہم و گماں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احبابِ کرام ! ایک پرانی غزل پیشِ محفل ہے ۔ امید ہے کچھ اشعار آپ کو پسند آئیں گے ۔


چبھی ہے دل میں وہ نوکِ سنانِ وہم و گماں
ہوا ہے نقشِ سویدا نشانِ وہم و گماں

میں ایک سایۂ لرزاں ہوں ہست و نیست کے بیچ
مرا وجود ہے بارِ گرانِ وہم و گماں

نہ کھا فریب خریدارِ رنگ و بوئے چمن
محیطِ صحنِ چمن ہے دکانِ وہم و گماں

قدم قدم پہ ہے دامن کشاں یقینِ بہار
روش روش پہ ہویدا خزانِ وہم و گماں

وہ ایک لفظ حقیقت مدار ہے جس پر
لکھا ہوا ہے کہیں دربیانِ وہم و گماں

عیاں تھا عالمِ خواب و خیال میں کیا کیا
کھلی جو آنکھ تو سب داستانِ وہم و گماں

تمام حکمتیں باطل ہیں عشق کے آگے
تمام فلسفے سودا گرانِ وہم و گماں

بدونِ میرِ سفر ہیں جو رہروانِ ہدیٰ
بھٹک رہے ہیں پسِ کاروانِ وہم و گماں

مرے لہو میں جزیرہ تری محبت کا
یقین زارِ حقیقت میانِ وہم و گماں !

نویدِ عالمِ امکان ہے خیال ترا
سمٹ رہا ہےمسلسل جہانِ وہم و گماں

ظہیر ؔناوکِ بے زور ہے سخن بھی ترا
گرفتِ فکر بھی جیسے کمانِ وہم و گماں


٭٭٭


ظہیرؔ احمد ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ مئی 2016




مئی ۲۰۱۶

 
احبابِ کرام ! ایک پرانی غزل پیشِ محفل ہے ۔ امید ہے کچھ اشعار آپ کو پسند آئیں گے ۔


چبھی ہے دل میں وہ نوکِ سنانِ وہم و گماں
ہوا ہے نقشِ سویدا نشانِ وہم و گماں

میں ایک سایۂ لرزاں ہوں ہست و نیست کے بیچ
مرا وجود ہے بارِ گرانِ وہم و گماں

نہ کھا فریب خریدارِ رنگ و بوئے چمن
محیطِ صحنِ چمن ہے دکانِ وہم و گماں

قدم قدم پہ ہے دامن کشاں یقینِ بہار
روش روش پہ ہویدا خزانِ وہم و گماں

وہ ایک لفظ حقیقت مدار ہے جس پر
لکھا ہوا ہے کہیں دربیانِ وہم و گماں

عیاں تھا عالمِ خواب و خیال میں کیا کیا
کھلی جو آنکھ تو سب داستانِ وہم و گماں

تمام حکمتیں باطل ہیں عشق کے آگے
تمام فلسفے سودا گرانِ وہم و گماں

بدونِ میرِ سفر ہیں جو رہروانِ ہدیٰ
بھٹک رہے ہیں پسِ کاروانِ وہم و گماں

مرے لہو میں جزیرہ تری محبت کا
یقین زارِ حقیقت میانِ وہم و گماں !

نویدِ عالمِ امکان ہے خیال ترا
سمٹ رہا ہےمسلسل جہانِ وہم و گماں

ظہیر ؔناوکِ بے زور ہے سخن بھی ترا
گرفتِ فکر بھی جیسے کمانِ وہم و گماں


٭٭٭


ظہیرؔ احمد ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ مئی 2016




مئی ۲۰۱۶

خوبصورت خوبصورت۔

حضرت کیا ہم آپ کی غزلوں میں آپ کے نام کا ٹیگ نہ شامل کردیں۔ مشکل کام ہے لیکن اس کے بعد محفلین بیک جنبشِ قلم آپ کی تمام غزلیں دیکھ سکیں گے۔

جیسے ہم نے اس غزل میں شامل کیا ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خوبصورت خوبصورت۔
حضرت کیا ہم آپ کی غزلوں میں آپ کے نام کا ٹیگ نہ شامل کردیں۔ مشکل کام ہے لیکن اس کے بعد محفلین بیک جنبشِ قلم آپ کی تمام غزلیں دیکھ سکیں گے۔
بہت شکریہ خلیل بھائی ! جیسے آپ کی مرضی ۔ آپ جو چاہے سلوک کیجئے ان غزلوں کے ساتھ۔ :):):)
کلام تو پیش ہی اس لئے کرتا ہوں کہ پڑھنے والے پڑھ لیں ۔ آپ احباب قدر افزائی کرتے ہیں ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ۔
 
بہت عمدہ۔ کمال اشعار۔
میں ایک سایۂ لرزاں ہوں ہست و نیست کے بیچ
مرا وجود ہے بارِ گرانِ وہم و گماں

نہ کھا فریب خریدارِ رنگ و بوئے چمن
محیطِ صحنِ چمن ہے دکانِ وہم و گماں

قدم قدم پہ ہے دامن کشاں یقینِ بہار
روش روش پہ ہویدا خزانِ وہم و گماں

وہ ایک لفظ حقیقت مدار ہے جس پر
لکھا ہوا ہے کہیں دربیانِ وہم و گماں

بدونِ میرِ سفر ہیں جو رہروانِ ہدیٰ
بھٹک رہے ہیں پسِ کاروانِ وہم و گماں
 

فاخر رضا

محفلین
میں تو پہلے ہی شعر میں اٹک گیا پھر اگر کوئی کام آیا تو وہ محفل ہی کی ایک لڑی
یہ صحیح ہے کہ محفل یا لائبریری میں محفل میں استعمال کئے گئے مشکل الفاظ کا ایک ذخیرہ ہو بمع معانی

سویدا کا کیا مطلب ہے؟؟؟؟

اس لنک سے ایک بات اور پتہ چلتی ہے کہ محفل کی سطح اب وہ نہیں رہی جو پہلے ہوتی تھی. وجہ کچھ بھی ہو مگر المیہ ضرور ہے. ایسے میں ظہیراحمدظہیر ایک دیا ہیں جو ٹمٹما نہیں رہا بلکہ دوسروں کو روشن کررہا ہے. آپ کی شاعری قدیم روایت اور جدید سماجی مسائل سے پیدا ہونے والے تاثرات کا حسین امتزاج ہے. آپ کو چاہیے کہ جلد از جلد کچھ ماہ کی چھٹی لے کر اپنا تمام کلام یکجا کریں اور اسے برقی کتاب کی شکل میں چھپوا دیں. وقت کسی کے ہاتھ میں نہیں اور وقت کا کسی کو معلوم نہیں
 

فاخر رضا

محفلین
خوبصورت خوبصورت۔

حضرت کیا ہم آپ کی غزلوں میں آپ کے نام کا ٹیگ نہ شامل کردیں۔ مشکل کام ہے لیکن اس کے بعد محفلین بیک جنبشِ قلم آپ کی تمام غزلیں دیکھ سکیں گے۔

جیسے ہم نے اس غزل میں شامل کیا ہے۔
اس تجویز کو کم از کم پانچ ہزار متفق ملنے چاہئیں مگر آپ ہمارے ایک ہی متفق پر عمل کرتے ہوئے یہ کام کر ڈالیے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
لاجواب غزل ہے ظہیر بھائی۔ کمال ۔۔۔ ماشاءاللہ۔۔۔
نہ کھا فریب خریدارِ رنگ و بوئے چمن
محیطِ صحنِ چمن ہے دکانِ وہم و گماں

وہ ایک لفظ حقیقت مدار ہے جس پر
لکھا ہوا ہے کہیں دربیانِ وہم و گماں

بدونِ میرِ سفر ہیں جو رہروانِ ہدیٰ
بھٹک رہے ہیں پسِ کاروانِ وہم و گماں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں تو پہلے ہی شعر میں اٹک گیا پھر اگر کوئی کام آیا تو وہ محفل ہی کی ایک لڑی
یہ صحیح ہے کہ محفل یا لائبریری میں محفل میں استعمال کئے گئے مشکل الفاظ کا ایک ذخیرہ ہو بمع معانی

سویدا کا کیا مطلب ہے؟؟؟؟

اس لنک سے ایک بات اور پتہ چلتی ہے کہ محفل کی سطح اب وہ نہیں رہی جو پہلے ہوتی تھی. وجہ کچھ بھی ہو مگر المیہ ضرور ہے. ایسے میں ظہیراحمدظہیر ایک دیا ہیں جو ٹمٹما نہیں رہا بلکہ دوسروں کو روشن کررہا ہے. آپ کی شاعری قدیم روایت اور جدید سماجی مسائل سے پیدا ہونے والے تاثرات کا حسین امتزاج ہے. آپ کو چاہیے کہ جلد از جلد کچھ ماہ کی چھٹی لے کر اپنا تمام کلام یکجا کریں اور اسے برقی کتاب کی شکل میں چھپوا دیں. وقت کسی کے ہاتھ میں نہیں اور وقت کا کسی کو معلوم نہیں

بہت نوازش ہے فاخر بھائی ! اللہ آپ کو فلاحِ دارین عطا فرمائے ۔ عزت افزائی کے لئے دل سے ممنون ہوں۔ آپ نے تو اپنے تبصرے میں بعینہ میرا فلسفۂ شعر بیان کردیا ۔ میری شعوری کوشش ہوتی ہے کہ غزل کی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے بدلتے حالات ، جدید مسائل اوران سے پیدا ہونے والی جدید حسّیات پر روشنی ڈالی جائے ۔ اس میں کہاں تک کامیاب ہوتا ہوں اس کا فیصلہ تو پڑھنے والے ہی کریں گے ۔آپ احباب حوصلہ افزائی کرتے ہیں اس کے لئے بہت ممنون ہوں ۔ برقی کتاب کی کوششیں جاری ہیں ۔ جلد ہی کچھ نتیجہ نکلنا چاہئے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ماشاءاللّٰہ،
کیا ہی لاجواب شعر ہے
بہت زبردست غزل ہے۔
بہت نوازش معان بھائی ! خوشی ہوئی کہ آپ کو یہ شعر پسند آیا۔
اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ ٹانگ کا کیا حال ہے ؟ کب تک چلنا پھرنا شروع کریں گے؟ اللہ کریم آپ کو جلد از جلد شفائے کاملہ عطا فرمائے اور آپ کی پریشانی کو دور کرے ۔ آمین ۔
 

بافقیہ

محفلین
احبابِ کرام ! ایک پرانی غزل پیشِ محفل ہے ۔ امید ہے کچھ اشعار آپ کو پسند آئیں گے ۔


چبھی ہے دل میں وہ نوکِ سنانِ وہم و گماں
ہوا ہے نقشِ سویدا نشانِ وہم و گماں

میں ایک سایۂ لرزاں ہوں ہست و نیست کے بیچ
مرا وجود ہے بارِ گرانِ وہم و گماں

نہ کھا فریب خریدارِ رنگ و بوئے چمن
محیطِ صحنِ چمن ہے دکانِ وہم و گماں

قدم قدم پہ ہے دامن کشاں یقینِ بہار
روش روش پہ ہویدا خزانِ وہم و گماں

وہ ایک لفظ حقیقت مدار ہے جس پر
لکھا ہوا ہے کہیں دربیانِ وہم و گماں

عیاں تھا عالمِ خواب و خیال میں کیا کیا
کھلی جو آنکھ تو سب داستانِ وہم و گماں

تمام حکمتیں باطل ہیں عشق کے آگے
تمام فلسفے سودا گرانِ وہم و گماں

بدونِ میرِ سفر ہیں جو رہروانِ ہدیٰ
بھٹک رہے ہیں پسِ کاروانِ وہم و گماں

مرے لہو میں جزیرہ تری محبت کا
یقین زارِ حقیقت میانِ وہم و گماں !

نویدِ عالمِ امکان ہے خیال ترا
سمٹ رہا ہےمسلسل جہانِ وہم و گماں

ظہیر ؔناوکِ بے زور ہے سخن بھی ترا
گرفتِ فکر بھی جیسے کمانِ وہم و گماں


٭٭٭


ظہیرؔ احمد ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ مئی 2016




مئی ۲۰۱۶

بڑی مدت بعد !!! کوئی کلاسیکی غزل حال میں لکھی پڑھنے میں آئی ہے۔۔۔

اب کہاں کلاسیکی ذوق رکھنے والے رہے!!!

ظہیر ؔناوکِ بے زور ہے سخن بھی ترا
گرفتِ فکر بھی جیسے کمانِ وہم و گماں
مقطع پر اقبال کا یہ شعر یاد آگیا:۔
ہو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون؟
اٹھ گیا ناوک فگن، مارے گا دل پر تیر کون؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کھلی جو آنکھ تو سب داستانِ وہم و گماں
بھئی تما م کی تمام غزل ہی شاندار ہے ۔ ظہیر بھائی ۔ کئی جگہ قلبی واردات ( بلکہ اس کے تفرد اورتنوع ) کو خوب سمیٹا ہے ۔ :)
کھلی جو آنکھ تو سب داستانِ وہم و گماں ۔واہ ۔
تمام فلسفے سودا گرانِ وہم و گماں ۔واہ ۔
 
Top