حسان خان

لائبریرین
«کُردستان» کے ایک «کُرد» شاعر کی ایک فارسی بیت:

سرگُذشتِ من و دل‌دارِ جفاپیشهٔ من
داستانی‌ست که از قصّهٔ مجنون بتر است
(میرزا فضل‌الله 'شکیبی' کُردستانی)


میری اور میرے دل‌دارِ جفاپیشہ کی سرگُذشت اِک ایسی داستان ہے کہ جو «مجنون» کے قِصّے سے بدتر [و غم‌ناک‌تر] ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
من ز هجرانِ تو مانندهٔ ابرم گِریان
تو به حالِ منِ بی‌چاره چو گُل می‌خندی
(جهان‌ملِک خاتون)


میں تمہارے ہجر کے باعث ابر کی مانند گِریاں ہوں۔۔۔ [اور] تم مجھ بےچاری کے حال پر گُل کی طرح ہنستے ہو۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
برگِ گُل را شورِ لب‌خندت گریبان‌چاک کرد
شد قیامت در چمن برپا ز آشوبِ لبت
(میرزا داراب بیگ جویا کشمیری)


برگِ گُل کو تمہارے لب‌خَند (تبسُّم) کے فِتنہ و آشوب نے گریباں‌چاک کر دیا۔۔۔ تمہارے لب کے آشوب سے چمن میں قِیامت برپا ہو گئی۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
شرق‌شِناس «ای جی براؤن» نے اپنی مشہور کتاب «فارس کی ادبی تاریخ» میں مندرجۂ ذیل بیت کو «صائب تبریزی» سے منسوب کر دیا تھا، جس کے باعث میں کئی مُدّت تک اِس بیت کو «صائب» کی سمجھتا آیا تھا، لیکن «صائب» کی غزلیات میں مجھے وہ بیت مِل نہ سکی تھی۔ ابھی «قُدسی مشهدی» کے تصحیح‌شدہ مطبوعہ دیوان میں مجھے وہ بیت ایک غزل میں نظر آ گئی ہے، جس کی بِنا پر یہ سمجھنا چاہیے کہ بیتِ مذکور «صائب» کی نہیں، بلکہ «قُدسی» کی ہے:

سُبحه بر کف، توبه بر لب، دل پُر از ذَوقِ گُناه
معصیت را خنده می‌آید ز استغفارِ ما
(قُدسی مشهدی)


دست میں تسبیح، لب پر توبہ، اور دل گُناہ کی لذّت و رغبت سے پُر۔۔۔ ہمارے [ایسے] اِستِغفار سے [خود] گُناہ کو ہنسی آتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
یہ مشہور رسم رہی ہے کہ شب کے وقت سُلانے کے لیے داستانیں اور افسانے سُنائے جاتے ہیں اور داستان سُنتے سُنتے سامِع کو نیند آ جاتی ہے اور وہ عالَمِ خواب میں چلا جاتا ہے۔۔۔۔ علاوہ بریں، آپ کو شاید معلوم ہو گا کہ بختِ نامُساعِد و بختِ بد کو «بختِ خُفتہ/خوابیدہ» یعنی سویا ہوا بخت کہا جاتا ہے۔۔۔ ایک «کشمیری» شاعر کی بیت دیکھیے جس میں وہ اپنے بخت سے گِلہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ:

نرسیدی دمی ای بخت به فریادِ دلم
بهرِ خوابِ تو مگر ناله‌ام افسانه شده‌ست
(میرزا داراب بیگ جویا کشمیری)


اے بخت! تم کسی [بھی] لمحہ میرے دل کی فریاد پر نہیں پہنچے۔۔۔ شاید میرا نالہ تمہاری نیند کے لیے افسانہ بن گیا ہے۔۔۔ (یعنی شاید تم میرا نالہ سُنتے سُنتے سو گئے ہو۔)
 

حسان خان

لائبریرین
ایک نعتیہ مِصرع:

گوشِ جهان حلقه‌کشِ میمِ اوست
(نظامی گنجَوی)


دُنیا کا کان اُن کی مِیم کا حلقہ‌کَش ہے

(یعنی دُنیا کے کان پر میمِ مُحمّدی غُلامی کے حلقے کے طور پر موجود ہے، اور دُنیا اُس مِیم کی حلقہ بگوش ہے، جو اِس چیز کی علامت ہے کہ دُنیا حضرتِ محمد کی غُلام و مُطیع ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
آپ نے یقیناً دیکھا ہو گا کہ بہتے ہوئے آب میں (مثلاً دریا وغیرہ میں) چیزوں کا عکس بھی ساکِن و غیرمُتَحَرِّک نہیں ہوتا اور ذرا حرَکت کرتا رہتا ہے۔۔۔ دیکھیے ایک «کشمیری» شاعر نے اِس کے ذریعے سے کیسا شعری مضمون باندھا ہے:

می‌شود در چشمِ گریانم خیالش شوخ‌تر
باشد آری عکس بی‌آرام در آبِ روان
(میرزا داراب بیگ جویا کشمیری)


میری چشمِ گِریاں میں اُس (یار) کا خیال شوخ‌تر ہو جاتا ہے۔۔۔ ہاں! آبِ رواں میں عکس بےآرام و بےسُکون ہوتا ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
زُهد و تقویٰ را تو ای زاهد شفیعِ خویش ساز
من کسی دارم که در محشر به فریادم رسد
(طالب آمُلی)


زُہد و تقویٰ کو، اے زاہد، تم اپنا شفیع بناؤ!۔۔۔ میں تو اِک [ایسا] شخص رکھتا ہوں کہ جو محشر میں میری فریاد کو پہنچے گا۔۔۔ (یعنی اے زاہد! زُہد و تقویٰ کی شفاعت‌گری کی ضرورت تم کو ہے، مجھ کو نہیں۔ لہٰذا اُن چیزوں کو اپنا شفیع تم ہی بناؤ!۔۔۔ میرے پاس تو بہ روزِ محشر میری فریاد کو پہنچنے والا اور میری شفاعت کرنے والا ایک شخص موجود ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
اسلامی روایات میں «حضرتِ رسول» سے ایک مُعجِزہ منسوب ہے کہ اُنہوں نے انگُشت کے اشارے سے ماہِ آسمان کو دوپارہ کر دیا تھا، اور اُس مُعجِزے کو «مُعجِزهٔ شقُّ القمر» کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ «محمد فُضولی بغدادی» ایک فارسی نعتیہ بَیت میں اُس روایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اُس مُعجِزے کے لیے اِس شاعرانہ حُسنِ تعلیل کو بروئے کار لائے ہیں:

از آن دو پاره به انگُشتِ مُعجِزت شد ماه
که باشد از پَیِ اِثباتِ دعویت دو گواه
(محمد فُضولی بغدادی)


آپ کی انگُشتِ مُعجِز سے ماہ اِس لیے دو نِیم ہوا تاکہ آپ کے دعوے کے اِثبات کے لیے دو گواہ ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
«نِظامی گنجَوی» ایک نعتیہ بیت میں «حضرتِ یوسف» پر «حضرتِ محمد» کی برتری بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

گر آمد بُرون ماهِ یوسف ز چاه
شد آن چشمه از چاه بر اوجِ ماه
(نظامی گنجَوی)


اگر ماہِ «یوسُف» (یعنی ماہ جیسا «یوسُف») چاہ سے بیرون آیا تھا تو وہ چشمہ (یعنی «حضرتِ مُحمّد») تو چاہ سے [نِکل کر] اَوجِ ماہ پر پہنچ گیا۔ (چاہ = کُنواں)
 

حسان خان

لائبریرین
«حضرتِ محمّد» یتیم تھے، یعنی اُن کے والِدَین اُن کی طِفلی میں وفات کر گئے تھے۔۔۔ شہرِ «سیالکوٹ» کے شاعر «رایج سیالکوتی» (وفات: ۱۱۵۰ھ) نے ایک نعتیہ بیت میں اُن کی یتیمی کی جانب یوں اِشارہ کیا ہے:

بر بی‌کسان نظر که فِگَندی به چشمِ لُطف
نِسبت نبودی ار به جنابت یتیم را
(رایج سیالکوتی)


اگر یتیم کی نِسبَت آپ کی درگاہ (یا آپ کی شخصیتِ عالی) کے ساتھ نہ ہوتی تو بے‌کَسوں پر چشمِ لُطف کے ساتھ نظر کون ڈالتا؟
 

حسان خان

لائبریرین
ایک نعتیہ بَیت:

از چه شد شقُّ القمر دانی؟ ز شَوقِ رُویِ او
سینه را مه چاک زد در وقتِ پیراهن‌دری
(نظیری نیشابوری)


[کیا] تم جانتے ہو کہ «شقُّ القمر» کس لیے ہوا؟۔۔۔ اُن کے چہرے کے اِشتِیاق کے باعث ماہ نے پیراہن پھاڑنے کے وقت [اپنے] سینے کو چاک کر دیا۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
«صائب تبریزی» نے ایک بَیت میں اپنے معشوق کے رُخسار کی زیبائی کی سِتائش کرتے ہوئے «شقُّ القمر» کی جانب اشارہ کیا ہے:

این شُکوهی که به رُخسارِ تو داده‌ست خُدا
بیمِ آن است کُنَد شق چو قمر آینه را
(صائب تبریزی)


مجھے اِس چیز کا خَوف ہے کہ خُدا نے جو یہ شَوکت و جلالت و بُزُرگواری تمہارے رُخسار کو دی ہے، وہ آئینے کو قمر کی طرح شق کر دے گی۔۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
دَورِ گردون گر دو روزی بر مُرادِ ما نرفت
دائماً یک‌سان نباشد حالِ دَوران غم مخور
(حافظ شیرازی)


اگر گردشِ فلک ایک دو روز ہماری مُراد کے مُوافِق نہیں چلی تو غم مت کھاؤ کیونکہ حالِ زمانہ ہمیشہ یکساں نہیں رہتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
از چه درگیرد زبانم هر نفَس مانندِ شمع
نیست آهِ من اگر با آتش از یک دودمان
(میرزا داراب بیگ جویا کشمیری)


آگر میری آہ اور آتش دونوں ایک ہی خاندان سے نہیں ہیں تو پھر میری زبان ہر دم شمع کی مانند کیوں جلنے لگتی ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
«رایج سیالکوتی» کی ایک بیت میں «کاشُروں» کے وطن «کشمیر» کا ذِکر:

اشک و آهم چه قدر روح‌افزاست
عشق ازین آب و هوا کشمیر است
(رایج سیالکوتی)


میرے اشک و آہ کس قدر رُوح‌افزا ہیں!۔۔۔ عِشق اِس آب و ہوا سے «کشمیر» [بن گیا] ہے۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تو خندہ زناں می گذری بے خبر از من
من گریہ کناں می کنم از دُور دعائے


مولانا عبدالرحمٰن جامی

تُو ہنستا مسکراتا ہوا، میری موجودگی سے بے خبر ہی گزر جاتا ہے، میں گریہ کناں، دُور ہی سے تیرے لیے دعائے خیر کر دیتا ہوں۔
 
شیخ سعدی کے اس شعر کا ترجمہ درکار ہے:

مرو با سر رشته بار دگر
مبادا که دیگر کند رشته سر

دوسری روایت:
مرو بر سر رشته بار دگر
مبادا که ناگه كشد رشته سر

پہلی اور دوسری روایت کے پہلے مصرع میں "سر رشتہ" کا مفہوم ٹھیک سے سمجھ نہیں آرہا۔ اسی طرح "مبادا کہ دیگر کند" کا مفہوم۔
از راہِ کرم رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ
حسان خان محمد وارث اریب آغا وغیرہ
یہ شعر دونوں طریقوں سے موجود ہے۔ گنجور نے اول الذکر شعر جبکہ لغت نامہ دہخدا نے موخر الذکر شعر کو درج کیا ہے۔
غلام عباس ماہو نے اس شعر کا ترجمہ یوں کیا ہے:
نہروا کی جڑ کی طرح پھر دوبارہ نہ جانا، ایسا نہ ہو کہ دوبارہ نہروا سر ابھارے.

لغت نامہ دہخدا کے مطابق، دوسرے مصرعے میں موجود رشتہ سر کردن کا معنی بیماریِ رشتہ شروع کرنا۔ بیماریِ رشتہ کو فارسی ہی میں پیوک بھی کہا جاتا ہے اور انگریزی میں Dracunculiasis کہا جاتا ہے۔ غلام عباس ماہو کے ترجمے کے مطابق، اسے اردو میں شاید ’’نہرا‘‘ کہا جاتا ہے۔
سید شہاب الدین دسنوی اور فہمیدہ بیگم (ترقیِ اردو بیورو، دہلی) کی کتاب ’’جامع اردو لغات‘‘ کے مطابق، ’’نہروا‘‘ کا یہ معنی درج ہے:
رشتہ کی بیماری۔وہ گول تاگا سا جو بدن میں سے نکلتا چلا آتا ہے۔
 
آخری تدوین:
یہ شعر دونوں طریقوں سے موجود ہے۔ گنجور نے اول الذکر شعر جبکہ لغت نامہ دہخدا نے موخر الذکر شعر کو درج کیا ہے۔
غلام عباس ماہو نے اس شعر کا ترجمہ یوں کیا ہے:
نہرو کی جڑ کی طرح پھر دوبارہ نہ جانا، ایسا نہ ہو کہ دوبارہ نہرو سر ابھارے.
"نہرو" کیا ہے؟ طرح یا طرف؟ ذرا وضاحت فرما دیں۔ شکریہ
 
Top