بچوں سے زیادتی کرکے لائیو ویڈیو بنانے والا انٹرنیشنل ڈارک ویب کا سرغنہ گرفتار

جاسم محمد

محفلین
بچوں سے زیادتی کرکے لائیو ویڈیو بنانے والا انٹرنیشنل ڈارک ویب کا سرغنہ گرفتار
ویب ڈیسک منگل 12 نومبر 2019
1877776-sohail-1573545344-174-640x480.jpg

سہیل عرف علی کا 30 بچوں کو بدفعلی کا نشانہ بنانے کا اعتراف فوٹو:سوشل میڈیا

راولپنڈی پولیس نے تھانہ روات کے علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے بچوں سے زیادتی کی براہ راست ویڈیوز نشر کرنے والے بین الاقوامی ڈارک ویب کے سرغنہ کو گرفتار کرلیا۔

سی پی او راولپنڈی فیصل رانا نے بتایا کہ بچوں سے زیادتی کرکے لائیو ویڈیو چلانے والا انٹرنیشنل ڈارک ویب کا سرغنہ گرفتار کرلیا۔ ایک محنت کش کے بچے سے بدفعلی کی اطلاع پر اس کی گرفتاری عمل میں آئی اور دوران تفتیش ہولناک انکشافات سامنے آئے کہ وہ اس مکروہ کام کا عادی مجرم ہے اور بیرون ملک سزا بھی کاٹ چکا ہے۔

سرکاری کنسلٹینٹ

پولیس کے مطابق سہیل ایاز خیبر پختون خوا کے سول سیکرٹریٹ محکمہ منصوبہ بندی کو کنسلٹینسی دے رہا تھا اور حکومت سے ماہانہ 3 لاکھ روپے تنخواہ لیتا ہے، وہ برطانیہ میں بین الاقوامی شہرت کے حامل فلاحی ادارے میں بھی ملازمت کرچکا ہے۔

درجنوں بچوں سے زیادتی

پولیس حکام کے مطابق مجرم سہیل پاکستان میں 30 بچوں کو بدفعلی کا نشانہ بنانے کا اعتراف کر چکا ہے، اگر زیادتی کاشکار بچوں کے والدین خوف یا بدنامی کے ڈر سے مقدمے میں مدعی نہ بنے تو پولیس ان وارداتوں کی مدعی بنے گی، مجرم سے بچوں کی برہنہ ویڈیوز اورتصاویر بر آمد کرنے کے لئے ایف آئی اے سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

برطانیہ اور اٹلی سے ڈی پورٹ

فیصل رانا نے بتایا کہ سہیل ایازعرف علی کو برطانوی حکومت نے ڈی پورٹ کیا تھا اور وہ بچوں کو بدفعلی کا نشانہ بنانے کے جرم میں برطانوی جیل سے سزا کاٹ چکا ہے۔ اس نے برطانیہ میں بچوں کے تحفظ کے ادارے میں ملازمت کی اور وہاں یہ مکروہ دھندہ شروع کیا تھا۔

پولیس حکام کے مطابق مجرم سہیل اٹلی میں بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کے مقدمات میں عدالتی مقدمہ بھگت چکا ہے اور اسے اٹلی سے بھی ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا، پاکستان واپس آکر اس نے تھانہ روات کے علاقہ میں رہائش اختیار کی جہاں اس نے متعدد بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ حال ہی میں قہوہ بیچنے والے محنت کش کے بچے سے بدفعلی اور ویڈیو بنانے کے بعد اس کی گرفتاری عمل میں آئی۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ

ایس پی صدر رائے مظہر اقبال نے بتایا کہ ملزم سہیل ایاز چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے جو انتہائی ذہین اور ڈارک ویب کو استعمال کرنے کا ماہر ہے، اس کا تعلق اسلام آباد کے علاقے نیلور سے ہے۔

رشتے دار لاتعلق

اس کی بیوی 9 سال قبل اس کو چھوڑ کر چلی گئی تھی جبکہ اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے اس کے والدین اور بہن بھائی بھی اس سے لاتعلق ہوگئے، تاہم انہوں نے پولیس کو اس قبیح فعل کی اطلاع دینا ضروری نہ سمجھا۔
 

فاخر

محفلین
’’لاتأخذبہما رأفۃ ‘‘
اللہ کے واسطے ایسے لوگوں کو قرارواقعی سزا ملنی چاہیے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
استغفراللہ۔
الفاظ ناکام ہیں اس شخص اور اس بندے کے افعال کی مذمت کے لیے۔
یا اللہ ساری دنیا کے بچوں کی حفاظت فرما۔ یا اللہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھنا۔ اور ایسے افراد کو وہی سزا دیجیے گا جو ان کے جرم کے عین مطابق ہو۔ آمین!
ثم آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
حیرت ہے کہ ایک شخص دو ملکوں سے اس قبیح فعل کی وجہ سے دی پورٹ ہو کے آیا اور ہمارے کسی ادارے نے اس بات پہ توجہ ہی نہیں دی۔۔۔
 
درندگی کی تمام حدیں پار ہوگئیں.ڈاکٹروں کے مطابق ایسے افراد کے دماغوں میں ایک خاص قسم کا فتور ہوتا ہے اور درندگی کے اس مکروہ و قبیح فعل کے دوران معصوم بچوں کو پہنچنے والی اذیت سے ایسے انسان نما حیوان محظوظ ہوتے ہیں .
 

جاسمن

لائبریرین
میرے جیسے انسان کے لیے اس طرح کی خبریں پڑھنا سننا انتہائی مشکل ہے۔ مشکل ترین۔
ہم اپنی نسلوں کے لیے کیسا معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں!
ہم کیا دے کر جائیں گے اپنے بچوں کو!
اتنا عدم تحفظ!
اس قدر درندگی!
حیوان بھی شرمائے گا ان افعال پہ۔
کس کے لیے کرتے ہیں یہ سب؟
پیسے کے لیے؟
ذہنی تسکین کے لیے؟
استغفراللہ۔
استغفراللہ۔
اس سب طرح کے حالات میں میرے جیسا انسان سوچتا ہے کہ میری کیا ذمہ داریاں ہیں؟
کیا میں انھیں پورا کر پا رہی ہوں؟
مجھے اپنے حصے کے فرائض ادا کرنے چاہئیں اور پھر اپنے رب سے امن کا طالب ہونا چاہیے۔
یا اللہ! بغیر الفاظ کے تجھ سے دعا گو ہوں۔۔۔۔قبول فرما۔ آمین!
ثم آمین!
 

جاسم محمد

محفلین
بچوں کا جنسی استحصال: پاکستان میں ’سیکس اوفینڈر رجسٹر‘ کیوں موجود نہیں؟
بلال کریم مغل اور دانش حسین بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
  • 13 نومبر 2019

پاکستان میں بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات کوئی نئی چیز نہیں تاہم چار برس قبل قصور میں ایسے منظم واقعات کی ویڈیوز اور پھر گذشتہ برس اسی ضلعے میں پیش آنے والے زینب کیس کے سامنے بعد اس سلسلے میں عوامی تشویش بڑھی ہے۔

حکومت کی جانب سے ایسے واقعات کی روک تھام اور ان میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائیوں کے لیے قانون سازی بھی کی گئی ہے تاہم ان اقدامات کے باوجود پاکستان میں بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات سامنے آنے کا سلسلہ رک نہیں رہا۔

منگل کو صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں پولیس نے ایک ایسے ہی شخص کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس نے پولیس کے بقول 30 بچوں سے جنسی زیادتی اور ان کی ویڈیوز فروخت کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

پولیس کے مطابق یہ شخص ماضی میں برطانیہ اور اٹلی جیسے یورپی ممالک میں ایسے جرائم میں ملوث رہ چکا ہے اور برطانیہ میں ایک بچے سے جنسی زیادتی کا جرم ثابت ہونے پر چار سال قید کی سزا بھی بھگت چکا ہے۔

برطانوی حکام نے سہیل ایاز نامی اس شخص کو اس جرم کی بنا کر ملک بدر کر کے واپس پاکستان بھیجا تھا اور واپسی کے بعد وہ خیبر پختونِخوا کی صوبائی حکومت کے ایک منصوبے میں بطور مشیر کام بھی کرتے رہے۔

پاکستان میں اب اسی قسم کے جرائم کے الزام میں ان کی دوبارہ گرفتاری کے بعد یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ آیا ملک میں بچوں سے جنسی بدسلوکی یا استحصال میں ملوث افراد کی نشاندہی کے لیے کوئی نظام موجود کیوں نہیں۔

سیکس اوفینڈرز رجسٹر کیا ہے؟
پاکستان کے ہمسایہ ملک انڈیا سمیت دنیا کے کئی ممالک میں اس مسئلے کے تدارک کے لیے سیکس اوفینڈر رجسٹر نامی ایک فہرست مرتب کی جاتی ہے جس میں جنسی جرائم کے مرتکب افراد کے نام شامل کیے جاتے ہیں۔

لندن میں مقیم وکیل مزمل مختار کے مطابق برطانیہ میں سنہ 2003 میں پاس ہونے والے قانون کے تحت 'وائلنٹ اینڈ سیکس اوفینڈرز رجسٹر' رکھا جاتا ہے جس میں ہر اس شخص کا نام درج کیا جاتا ہے جو سیکس سے متعلقہ کسی بھی نوعیت کے جرم میں سزا یافتہ ہو۔

’اگر کسی شخص کو سیکس سے متعلقہ جرم میں چھ ماہ یا اس سے زائد عرصے کی سزا ہوتی ہے تو اس کا نام رجسٹر میں اگلے دس برس تک کے لیے درج کر لیا جاتا ہے اور اگر سزا 30 ماہ سے زائد ہے تو ایسے مجرم کا نام غیر معینہ مدت تک کے لیے رجسٹر میں درج رہتا ہے۔‘

مزمل مختار کے مطابق ڈیٹا پروٹیکشن کے قوانین کے تحت عوام کو اس رجسٹر تک براہ راست رسائی نہیں ہوتی تاہم معلومات تک رسائی کے قوانین کے تحت کوئی بھی شخص پولیس سے کسی مشتبہ شخص کے حوالے سے معلومات لے سکتا ہے کہ آیا اس کا نام رجسٹر میں موجود ہے یا نہیں۔

اس رجسٹر کا مقصد سیکس سے متعلقہ جرائم میں ملوث مجرمان کو مستقبل میں عوام بالخصوص بچوں سے دور رکھنا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں عام طریقہ کار یہ ہے کہ کسی بھی کمپنی یا ادارے میں نوکری دینے سے قبل درخواست گزار سے ایک فارم دستخط کروایا جاتا ہے جس میں اس کی نوکری کو کریمینل ریکارڈ کی چھان بین سے مشروط کیا جاتا ہے۔

’نوکری دینے سے قبل یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ کسی نئے آنے والے ملازم کا ماضی میں کوئی کریمینل ریکارڈ تو نہیں ہے، یا کسی کیس میں وہ زیر تفتیش تو نہیں۔‘

ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ان کی ذاتی رائے میں سیکس میں متعلقہ جرم میں سزا یافتہ شخص جس کا نام رجسٹر میں موجود ہو اس کے لیے برطانیہ میں نوکری ملنے کا امکان تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

اس جرم میں ملوث شخص جب جیل سے باہر بھی آ جاتا ہے تو اس پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالت پر منحصر ہوتا ہے کہ جیل سے باہر انھیں اس نوعیت کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس فہرست میں شامل افراد پر کئی طرح کی پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں مثلاً انٹرنیٹ کا استعمال، سکولوں یا ڈے کیئر سینٹرز کے پاس رہائش، بچوں کے پاس موجودگی وغیرہ وغیرہ۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن اور قانون دان رانا آصف حبیب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ابھی تک ایسا کوئی مرکزی ڈیٹابیس موجود نہیں ہے جو جنسی جرائم میں ملوث شخص کی نشاندہی کر سکے اور ان پر مسلسل نظر رکھ سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ ممالک کے ساتھ اگر مجرمان کے ڈیٹا کے تبادلے کے دو طرفہ معاہدے ہوں تو اس طرح کے واقعات کو مزید روکا جا سکتا ہے۔

چائلڈ پروٹیکشن بیورو لاہور کے ایک افسر کے مطابق ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں سرکاری یا نجی اداروں میں نوکری سے قبل درخواست گزار سے پولیس سرٹیفیکیٹ نہیں مانگا جاتا۔

'یہ مانگا جاتا ہے مگر یہ صرف کاغذی کارروائی کی حد تک ہوتا ہے جس میں متعلقہ تھانے سے یہ فارم سائن کروانا ہوتا ہے کہ درخواست گزار کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔ جب پولیس کا نظام کمپیوٹرائیزڈ ہی نہیں تو یہ کیسے پتا چلے کہ مجرمانہ ریکارڈ ہے یا نہیں؟'

انھوں نے کہا کہ 'سیکس اوفینڈرز رجسٹر' بنانے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر قانون سازی کی ضرورت ہے اور ای سی ایل کی طرز پر سیکس اوفینڈرز کا ریکارڈ رکھنے کی ضرورت ہے۔'

سہیل ایاز کے معاملے پر بات کرتے ہوئے رانا آصف کا کہنا تھا کہ ہر ڈی پورٹ ہونے والے شخص کے ساتھ مکمل دستاویزی ثبوت ہوتے ہیں کہ انھیں کیوں ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے اور سوال یہ ہے کہ ڈی پورٹ ہونے والے اس شخص کا ریکارڈ پاکستان میں اب تک کیوں اعلیٰ سطح تک نہیں پہنچایا گیا۔

انھوں نے کہا کہ اس طرح کے امیگریشن ڈیٹا کو اگر مرتب کر کے تمام سرکاری اداروں کے لیے قابلِ رسائی رکھا جائے تو دیگر ممالک سے جرائم کر کے پاکستان آنے والے افراد پر نظر رکھنی ممکن ہو سکتی ہے۔

بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی پاکستانی تنظیموں پر مشتمل ادارے چائلڈ رائٹس موومنٹ (سی آر ایم) کے نیشنل کوآرڈینیٹر ممتاز گوہر بھی رانا آصف حبیب کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قصور میں زینب کے قتل کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ یہ ’ٹیسٹ کیس‘ ثابت ہوگا اور اس طرح کے جرائم کی روک تھام اور ان کے ارتکاب پر سخت سزاؤں کے حوالے سے قانون سازی کی جائے گی مگر کچھ خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر زینب الرٹ بل متعارف تو کروایا گیا مگر یہ اب تک منظور نہیں ہو سکا ہے۔ یہ اور اس کے علاوہ دیگر قانونی سقم دور کرنے سے ہی اس طرح کے واقعات کو روکا جا سکتا ہے۔

ممتاز گوہر کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جہاں اب فارینسک سائیکاٹری کے ذریعے مجرموں کا نفسیاتی تجزیہ کر کے وہ وجوہات جانی جاتی ہیں جن کی بنا پر وہ ایسے جرائم پر آمادہ ہوتے ہیں، وہیں پاکستان میں اب تک یہ تصور ناپید ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر مجرموں کی نفسیات کا تجزیہ کیا جائے تو کئی باتیں واضح ہوسکتی ہیں جن میں انھیں اس جرم پر مائل کرنے والے عوامل اور ان کے دوبارہ جرم کرنے کے امکانات شامل ہیں، جنھیں پرکھ کر انھیں خصوصی ڈیٹابیس کا حصہ بنانا چاہیے۔

اس سے ان کے مطابق اس طرح کے لوگوں پر نظر رکھنے میں مدد ملے گی جس سے جنسی جرائم کی شرح میں کمی آ سکتی ہے۔
 

ابن جمال

محفلین
یہاں ایک بات کی طرف توجہ دلاناضروری ہے کہ اس سے بہت ہلکے واقعات اگرکسی مولوی کی جانب منسوب ہوں تو نام نہاد روشن خیال اور سارے مولویوں کومطعون کرنے والے اب کیوں نہیں عصری تعلیم یافتہ لوگوں کو مطعون کررہے ہیں کہ ملزم اعلیٰ تعلیم یافتہ چارٹرڈ اکائونٹنٹ تھا اگریہ جواب کہ اچھے برے سبھی لوگوں میں ہوتے ہیں (جوصحیح بھی ہے) تو اس کا اطلاق دوسرے واقعات پر بھی کیاجائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ڈارک ویب بدفعلی وڈیوز معاملہ بین الاقوامی جرم کی شکل اختیار کرگیا
صالح مغل / ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے
1888825-sohailx-1574272498-972-640x480.jpg

ملزم سہیل ایاز 2005 سے 2007 کے دوران افغانستان میں بھی رہا فوٹو: فائل

راولپنڈی: پولیس نے کم عمر بچوں کے ساتھ بدفعلی کرکے وڈیوز و تصاویر بنا کر مبینہ طور پرڈارک ویب پے نشر کرنے والے گینگ کے سرغنہ سہیل ایاز عرف علی کیس کی تفتیش کا دائرہ خیبر پختون خوا تک وسیع کرتے ہوئے پشاور میں ملزم کے زیر استعمال رہائش گاہوں پر چھاپے مارے ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق راولپنڈی کے تھانہ روات کے علاقے سے پولیس نے سہیل ایاز عرف علی نامی ملزم کو گرفتار کرکے قہوہ فروخت کرنے والے معصوم بچے کی والدہ کی درخواست پر مقدمہ درج کیا تو پولیس کے مطابق ملزم کے حوالے سے انکشاف ہوا کہ ملزم برطانیہ اور اٹلی میں بچوں سے زیادتی اور وڈیو بنا کر ڈارک ویب کو مہیا کرنے کے الزام میں سزا پاکر جیل کاٹ چکا ہے اور ڈی پورٹ کیاگیا ، ابتدائی تفتیش میں 30 بچوں سے زیادتی اور وڈیو بنانے کا اعتراف کرچکا ہے، ملزم انتہائی اعلی تعلیم یافتہ پیشے کے اعتبار سے چارٹرڈاکاوٹنٹ، کے پی حکومت اور عالمی ادرے کے تحت چلائے جانے والے پروگرام میں مالی معاملات میں کنسلٹینسی فراہم کرکے ماہانہ 3 لاکھ روپے تنخواہ کماتا ہے، بیوی اور بچے ملزم سے علیحدہ ہوچکے ہیں۔

مقدمے کے اندراج کے بعد پولیس نے پیرودھائی کے علاقے سے ملزم کے خرم کالا نامی ساتھی کو گرفتار کرکے کھنہ کے رہائشی ایک مزید بارہ سالہ بچے کا سراغ لگایا اور اس وقت تک متاثرہ بچوں کے حوالے سے ملزم کے خلاف 3 الگ الگ مقدمات درج ہوچکے ہیں جن کی تفتیش پولیس کی 8 رکنی ٹیم کررہی ہے۔

ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ تفتیش کے دوران پولیس کی ایک ٹیم نے باقاعدہ مجاز اتھارٹی سے اجازت سے ملزم کو ہمراہ لے کر پشاور میں اس کی خفیہ رہائش گاہ پر چھاپہ مارا، جہاں سے پولیس ٹیم نے چند اہم شواہد بھی حاصل کیے ہیں۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم واردات کے دوران استعمال ہونے والی منشیات جہاں سے حاصل کرتا ان کا بھی پتہ لگا کر انہیں بھی شامل تفتیش کرلیا گیا ہے اور تفتیش کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ملزم کا گروہ خیبر پختون خوا میں حیات آباد اور محلقہ علاقوں جب کہ راولپنڈی میں مزکورہ سوسائٹی اور پیرودھائی وغیرہ کے علاقوں کو اپنی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتا تھا۔ پولیس ٹیم نے تفتیش کے دوران کردار سامنے آنے پر پشاور میں 2 ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے لیکن پولیس کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

ادھر پولیس کو یہ بھی پتہ چلا کہ ملزم سہیل ایاز برطانیہ ، اٹلی اور دیگر ممالک میں رہا ہے، 2005 سے 2007 کے دوران ایک عالمی ادارے کے پروگرام سے منسلک ہوکر افغانستان میں بھی تعینات رہا اور افغانستان میں اس کی سرگرمیوں کے حوالے سے تفتیش کی جارہی ہے۔

دوسری جانب ملزم کی جانب سے زبردستی کانشانہ بنایا جانے والا دوسرا 12 سالہ بچہ گزشتہ دو دنوں سے اپنے گھر سے پراسرار طور پر ایک مرتبہ پھر لاپتہ ہوگیا اس حوالے سے اس کے لواحقین کا کہنا تھا کہ اسلام آباد پولیس کو بچے کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے رجوع کیا ہے۔
 
Top