مرد و عورت کے بیچ یادداشت کی صلاحیت میں عدم فرق اور عورت کی ناقص العقلی کا معمہ

سین خے

محفلین
Women in Islamic Law: Examining Five Prevalent Myths | Yaqeen Institute for Islamic Research

یہاں دو عورتوں کی گواہی پر بہت اچھا تجزیہ کیا گیا ہے۔ مختلف علماء اور فقہاء کے یہاں اس سلسلے میں جو بھی نقطہ نظر پایا جاتا ہے، ان سب کو باری باری زیر بحث لایا گیا ہے۔

پہلی تفہیم تو وہی ہے کہ عورتوں اور مردوں میں جسمانی لحاظ سے فرق ہے اسلئے دو عورتوں کی گواہی رکھی گئی ہے۔ کچھ معاملات میں عورتوں کی اکیلی گواہی ہی کافی سمجھی جاتی ہے جبکہ لین دین کے معاملات میں نہیں۔ رازی کی تحقیق کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ آؤٹ ڈیٹڈ ریسرچ ہے۔

ایک اور تفہیم یہ بتائی گی ہے کہ عورتوں کے معاشرتی کردار اور گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے ایسا رکھا گیا ہے۔ مگر یہ قانون ہمیشہ عالمگیر نہیں رہا ہے۔ امیر معاویہ نے ام سلمہ کی گواہی کی بنیاد پر ایک رہائشی تنازعہ کا فیصلہ کیا تھا۔

اب اگر احادیث کو روایت کرنے کے معاملے کو دیکھا جائے تو یہ زیادہ مشکل کام ہے۔ حدیث روایت کرنے کے لئے دو معیار رہے ہیں۔ ایک تو یاددشت کا اچھا ہونا (ضبط) اور دوسرا دیانت داری (عدالت)۔ اب اگر حدیث سائنس کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر عورت کی یادداشت کا کم ہونا کبھی بنیاد نہیں بنایا گیا۔ حضرت عائشہ کا شمار حدیث کے پانچ بڑے راویوں میں شمار ہوتا ہے۔ اکرم الندوی نے آٹھ ہزار سے زائد خواتین کی کہانیاں درج کی ہیں جنھوں نے ناصرف احادیث روایت کیں بلکہ نامور علماء کی استاد بھی رہی ہیں۔

اسی بنیاد پر ابن تیمیہ اور ابن القیم نے دو عورتوں کی گواہی کو ضروری نہیں سمجھا ہے۔ ان کے نزدیک احادیث کو روایت کرنے میں ایسا کوئی فرق نہیں رکھا گیا حالانکہ حدیث روایت کرنے میں زیادہ احتیاط اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب عورتوں کی روایت کی گئی احادیث کو قابل قبول سمجھا جاتا ہے تو اگر عورت اپنے آپ کو دیگر معاشرتی معاملات میں گواہی دینے کے لئے اہل ثابت کر لیتی ہے تو عورت کی گواہی کو قبول کر لیا جانا چاہئے۔

ابن القیم نے مذکورہ قرآن کی آیت پر یہ تفہیم لکھی ہے

There is no doubt that the reason for a plurality [of women in the Qur’anic verse] is [only] in recording testimony. However, when a woman is intelligent and remembers and is trustworthy in her religion, then the purpose [of testimony] is attained through her statement just as it is in her transmissions [in] religious [contexts].[90]

ابن القیم لکھتے ہیں کہ اگر ام سلمہ کی گواہی کو لیا جائے تو ان کی گواہی دیگر عام مرد گواہان سے زیادہ قابل اعتبار سمجھی جائے گی۔
 
بالکل! وہ اسلام والا حال تو نہیں کہ ابھی تک غلامی حلال کرتے پھر رہے ہیں
چونکہ اسلام کی بنیاد وحی پر ہے، اس لئے اسلام کی تعلیمات عالمگیر اور ابدی ہیں۔
سائنس سے متعلق یہ بات کہ
سائنسی تحقیقات و تجزیات سے تو آپ واقف ہی ہیں، آج کچھ اور کل کچھ۔
اس سے مقصود سائنس کی تحقیر نہیں ہے، یہ ایک عظیم علم اور فن ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمایا ہے اور خود مسلمان سائنسدانوں نے اس کی بنیادیں فراہم کی ہیں (اگرچہ یہ اس دور کی بات ہے جب ’’اپنی اصلیت پہ قائم تھا تو جمعیت بھی تھی‘‘ اب تو ’’ تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من‘‘ والا حال ہے)۔ بہرحال، میں نے اپنی پوسٹ کے آخر میں اس اعتبار سے مغرب کا شکریہ ادا کیا ہے کہ انہوں نے اس علم و فن کو پروان چڑھایا اور انسانیت کے لئے سہولتوں کے دروازے کھول دئے۔ لیکن انسانی رویوں اور طرز ہائے عمل کے لحاظ سے صحیح اور غلط میں فرق، حق و باطل میں امتیاز اور اعلیٰ اخلاق و کردار کے جو پیمانے ہمیں اسلام نے فراہم کئے ہیں الحمد للہ وہ آج بھی ہمارے لئے کافی ہیں اور رہتی دنیا تک کافی رہیں گے۔
 

محمد سعد

محفلین
جہاں تک سائنسی تحقیقات کی بات ہے تو مجھے نہیں سمجھ آتی کہ جب ایک چیز عقلِ عام (کامن سینس) سے سمجھ میں آسکتی ہے تو اس کے لئے اتنی اسٹڈیز کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔
ایسی بات کر کے آپ صرف یہی ثابت کر رہے ہیں کہ آپ کو "کامن سینس" کی کمزوریوں اور سائنسی طریقہ تحقیق کے متعلق کچھ معلوم نہیں۔

آپ تاریخ میں موجود بڑے بڑے سائنس دانوں کا جائزہ لے لیں، بڑے بڑے لیڈرز کے بارے میں سرچ کر لیں، بڑے بڑے تاجروں کی تاریخ دیکھ لیں۔ آپ کو اکثریت مردوں کی دکھائی دے گی۔
یہ رجحانات بدلتے بھی رہتے ہیں۔ ایک دور میں کمپیوٹر پروگرامنگ اور ناسا جیسے اداروں کے لیے بڑی بڑی کیلکولیشنز کرنا ایک طرح سے خواتین کا ہی شعبہ بنا ہوا تھا۔ شماریات یعنی سٹیٹسٹکس بھی خواتین کا شعبہ سمجھا جاتا تھا۔ آج ان تینوں شعبوں میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے۔ کیا اس وقت خواتین اس کام میں بہتر تھیں یا اب مرد اس کام میں بہتر ہیں یا یہ محض وقتی رجحانات اور تغیرات ہیں؟

حواسِ خمسہ کی بھی ایک حد ہے اور عقل کی بھی۔ جہاں ان تمام ذرائع کی حدود اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہیں اس سے آگے رہنمائی کا ذریعہ وحیِ اِلٰہی ہے۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ یادداشت کی کارکردگی کی پیمائش ایسا موضوع ہے کہ جس کا احاطہ سائنسی یا عقلی طریقے میں ممکن ہی نہیں؟

لہذا پہلے تو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ عقلِ انسانی برتر ہے یا عقلِ الٰہی جس کا ظہور ہم پر وحی کے ذریعے ہوا ہے۔
بحیثیت مسلمان ہمارا دعویٰ ہے کہ ہمارے پاس اس سب کائنات کو بنانے والے خدا کا حقیقی پیغام موجود ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ کائنات کی جانچ پرکھ کے دیگر ذرائع سے ملنے والا علم، وحی کے بالکل مطابق ہونا چاہیے۔ ورنہ یہ دعویٰ تو ہندو بھی کر سکتے ہیں کہ عقل سے معلوم ہونے والی چیزیں غلط جبکہ ان کے مذہب میں موجود چیزیں حتمی سچائی ہیں۔

پھر سائنسی تحقیقات و تجزیات سے تو آپ واقف ہی ہیں، آج کچھ اور کل کچھ۔ ابھی حال ہی میں ایک بہت بڑے امریکی تحقیقاتی ادارے نے کولیسٹرول کے بارے میں جو نئی تحقیق پیش کی اور سابقہ نصف صدی سے کولیسٹرول کے حوالے سے کی گئی تحقیقات کو رد کیا وہ ایک ادنیٰ سی مثال ہے۔
ریسرچ پیپر کا حوالہ دے سکتے ہیں؟

البتہ یہ جملہ مجموعی حیثیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ اس جنس کے افراد میں مجموعی طور پر اس صفت میں کچھ کمی پائی جاتی ہے۔
کیا آپ نے پیش کردہ ریسرچ پیپرز کا خلاصہ ہی پڑھ لیا ہے؟ یہ اسی سوال کے حوالے سے کی گئی تحقیقات ہیں کہ کیا مردوں اور خواتین میں مجموعی طور پر یادداشت کی صفت میں کوئی فرق ہے یا نہیں۔
اگر آپ چاہیں تو آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ ان کی میتھڈالوجی میں کیا کمزوریاں ہیں اور اس کی "درست" تحقیق کیسے کی جانی چاہیے تھی۔
 

La Alma

لائبریرین
نوٹ: (یہ مراسلہ مختلف جگہوں سے کاپی پیسٹ کیا گیا ہے)

“اے عورتوں کی جماعت ! صدقہ کرو ، کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ تم ہی کو دیکھا ہے۔
انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ، ایسا کیوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو ، باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے ، میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا نہیں دیکھا۔
عورتوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ہمارے دین اور ہماری عقل میں نقصان کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : کیا عورت کی گواہی ، مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟ انہوں نے کہا : جی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پوچھا : کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے ، نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟ عورتوں نے کہا : ایسا ہی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : یہی اس کے دین کا نقصان ہے.”


۲۳۵ ہجری سے پہلے وفات پانے والے محدثین کی کتب میں ان روایات میں یہ الفاظ موجود نہیں ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بعد میں کہیں اضافہ ہوئے ہیں۔ مثلاً ابو داؤد طیالسی(متوفی ۲۰۴ ھ)۲۰؂ کی مسند، حمیدی (متوفی ۲۱۹ھ)۲۱؂ کی مسند، ابن الجعد (متوفی ۲۳۰ھ)۲۲؂ کی مسند، ابن ابی شیبہ (متوفی ۲۳۵ھ)۲۳؂ کی مصنف، وغیرہ میں یہ الفاظ موجود نہیں ہیں۔لگتا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ آہستہ آہستہ نبی اکرم سے نسبت پا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے سب سے پہلے یہ الفاظ سلمی۲۴؂ (متوفی ۲۳۸ھ) کی کتاب ''ادب النساء'' میں ملتے ہیں:

حضرت زینب، یعنی زوجہ عبد اللہ ابن مسعود نے ناقصاتِ عقل والا جملہ نقل ہی نہیں کیا، جو براہ راست اس واقعہ کی شاہد تھیں۔ صحیح بخاری ومسلم کی مذکورہ بالا روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شایدنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ و خیرات پر ابھارنے کی یہ بات حضرت زینب ہی کو دیکھ کر شروع کی تھی، کیونکہ آپ صاحبِ ثروت خاتون تھیں۔اس لیے اگر وہ ناقصاتِ عقل والی بات کسی روایت میں نہیں بتاتیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات نبی پاک نے کی ہی نہیں

‎بعض راویوں نے 'قال عبد اللّٰہ' (حضرت عبد اللہ نے کہا) کو حکایت کے عام طریقے پر محض 'قال'( کہا) کردیا ہو گا، جب کہ ان کی نیت میں اس کا فاعل حضرت عبد اللہ ہی ہوں گے۔ لیکن سننے والے راوی نے اس 'قال' کی ضمیرِ فاعل کا مرجع (referent) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دے دیا ہوگا ، اور
‎اسی فہم کو آگے روایت کر دیا ہو گا۔

‎ناقصاتِ عقل و دین کی توضیح والا جملہ سیاق و سباق سے میل نہیں کھاتا۔ جب عورت کی تخلیق ہی اس طرح سے ہوئی ہے کہ وہ عقل میں ناقص ہے۔ وہ اس پیدایشی نقص کے سبب سے مرد کی عقل پر اثرانداز ہوتی ہے تو اس کا تو قصور ہی نہ ہوا، اس لیے کہ اس کا یہ پیدایشی نقص اس کے لیے عذر ہے۔اسے ایک چیز کی سمجھ ہی نہیں ہے ، تو وہ مجرم کس طرح سے ہوئی۔جرم تو تب تھا کہ وہ مکمل عقل و شعور کی مالک ہونے کے بعد ایسا کرتی۔ اس لیے دوزخ میں عورتوں کے زیادہ ہونے کی وجہ ناقابل فہم ہے۔

‎دین کے تمام احکام سے ثابت ہے کہ عورت مرد ہی کی طرح دین کی پوری پوری مکلف ہے۔ مثلاًدونوں ارتکابِ شرک پر دوزخ میں جائیں گے، اگر عورت کم عقل ہے تو اسے تو سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ شرک کیا ہے اور کیا نہیں ہے، پھر سزا کس بات کی؟ وغیرہ۔ لہٰذا حدیث کے متن پر یہ اضافہ دین کی باقی تمام تعلیمات کی نفی کرتا ہے۔جن کا مدارقطعی نصوص پر ہے۔ لہٰذا ادرست بات یہ ہے کہ ان کے زیادہ دوزخ میں جانے کا سبب یہی ہوناچاہیے کہ ان کو عقل و شعور تو پورا پورا ہے، لیکن اس کے ہوتے ہوئے وہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ گناہ کرتی ہیں ۔

‎واضح رہے کہ غلام عورت کو زنا کی آدھی سزا دی گئی ہے، اس لیے کہ معاشرے میں اس کے مقام کی وجہ سے اسے اس درجہ کا احصان۲۷؂ وتحفظ حاصل نہیں تھا جو آزاد عورت کو حاصل تھا۔ لہٰذا اس کی سزا تو کم ہو گئی، لیکن ایک عورت جو خدا کی طرف سے تھی ہی ناقصِ عقل ، اسے بعض چیزیں سمجھ ہی نہیں آسکتیں تو اس کی سزا کم کیوں نہ ہوئی؟ حد یہ ہے کہ تمام جرائم میں عورت کو مرد کے برابر سزا دی گئی ہے۔ مثلاً چوری کی سزا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے فاطمہ نامی عورت کے ہاتھ بھی کاٹے ہیں۔ کیوں یہ بات اس وقت پیش نظر نہ رہی کہ وہ ناقص العقل ہے!
 
بخاری شریف کی یہ روایت ہے، متعلقہ جملہ بالڈ کیا ہے:
عن أبي سعید الخدري، قال: خرج رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في أضحی أو فطر إلی المصلی، فمر علی النساء، فقال: ''یا معشر النساء تصدقن فإني أریتکن أکثر أہل النار''، فقلن: وبم یا رسول اللّٰہ؟ قال: ''تکثرن اللعن، وتکفرن العشیر، ما رأیت من ناقصات عقل ودین أذہب للب الرجل الحازم من إحداکن''، قلن: وما نقصان دیننا وعقلنا یا رسول اللّٰہ؟ قال: ''ألیس شہادۃ المرأۃ مثل نصف شہادۃ الرجل''، قلن: بلی، قال: ''فذلک من نقصان عقلہا، ألیس إذا حاضت لم تصل ولم تصم''، قلن: بلی، قال: ''فذلک من نقصان دینہا''.(بخاری، رقم ۳۰۴)

یہ ترمذی شریف کی روایت ہے، متعلقہ جملہ اس میں بھی بالڈ کیا ہے:
عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ فَوَعَظَہُمْ ثُمَّ قَالَ: ''یَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ فَإِنَّکُنَّ أَکْثَرُ أَہْلِ النَّارِ''، فَقَالَتِ امْرَأَۃٌ مِنْہُنَّ: وَلِمَ ذَاکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ''لِکَثْرَۃِ لَعْنِکُنَّ، یَعْنِیْ وَکُفْرِکُنَّ الْعَشِیْرَ''. قَالَ: ''وَمَا رَأَیْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِیْنٍ أَغْلَبَ لِذَوِي الْأَلْبَابِ، وَذَوِي الرَّأْيِ مِنْکُنَّ''، قَالَتِ امْرَأَۃٌ مِنْہُنَّ: وَمَا نُقْصَانُ دِیْنِہَا وَعَقْلِہَا؟ قَالَ: ''شَہَادَۃُ امْرَأَتَیْنِ مِنْکُنَّ بِشَہَادَۃِ رَجُلٍ، وَنُقْصَانُ دِیْنِکُنَّ، الحَیْضَۃُ، تَمْکُثُ إِحْدَاکُنَّ الثَّلاَثَ وَالْأَرْبَعَ لَا تُصَلِّی''.(سنن الترمذی، رقم ۲۶۱۳)

روایات کی مد میں میری ریسرچ کچھ اس طرح ہے کہ یہ تمام کی تمام کتب ، اپنی اصل صورت میں دستیاب نہیں ہیں۔ لہذا یہ کہنا کہ اس میں کیا درست ہے اور کیا نہیں بہت ہی مشکل کام ہے۔ امام ابن الحجر العسقلانی لکھتے ہیں کہ ، احادیث یعنی روایات کے بہت سارے ورژن ہین، جو ورژن میں سمجھتا ہوں کہ درست ہے اور رسول اکرم نے ایسا کہا ہوگا، وہ میں نے فتح الباری ، صحیح البخاری میں درج کردئے ہیں۔ ( یہ ریفرنس بھی کتنا درست ہے، کہا نہیں جاسکتا ) ، گویا ، ان کتب کے نئے ایڈیشن، کوئی سات سو سال پرانے ہیں۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علی ہوسلم کی زبان سے قرآن مبارک ہم تک پہنچا، قرآن حکیم میں ایک بھی آیت عورتوں کی اس طرح تذلیل نہیں کرتی نظر آتی، تو کیا وجہ ہے کہ جو آیات خواتین کو عزت عطا کرتی ہیں، ان آیات کے مقابلے میں یہ روایات رکھی جائیں اور رسول اکرم سے منسوب کیا جائے کہ عورتیں ناقصات عقل کی نشانیاں رکھتی ہیں؟

جو لوگ اپنی ہی ماؤں ، بہنوں ، بیویوں کو ناقص العقل قرار دیتے ہیں ، وہ بھول جاتے ہیں کہ رسول اکرم بھی کسی محترم خاتون کی اولاد تھے اور کسی محترم خاتون کے شوہر اور کسی محترم خاتون کے والد محترم۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ ان ناقص العقل خواتین کی فہرست میں حضرت آمنہ، حضرت ہاجرہ ، حضرت فاطمہ ، حضرت خدیجہ اور حضرت مریم بھی شامل ہیں؟ نعوذ باللہ ، کچھ اللہ تعالی کا خوف کیجئے اور ایسی روایات پرا ایمان رکھنے سے اجتناب کیجئے جو عقل کے کسی پیمانے پر پوری نہیں اترتی ہیں۔

اللہ تعالی ، حضرت مریم کے بارے میں فرماتے ہیں

سارے جہان کی عورتوں پراصطفی عطا کیا، پاکیزگی و بزرگی عطا فرمائی۔
3:42 وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ
اور جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! بیشک اﷲ نے تمہیں منتخب کر لیا ہے اور تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور تمہیں آج سارے جہان کی عورتوں پر برگزیدہ کر دیا ہے

یہاں لفظ استعمال ہوا ہے "اصطفی" جس سے مصطفی بنا ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ جن خواتین کو اللہ تعالی نے اصطفی عطا کیا ہو، ان کو کم تر خواتین کی لسٹ میں نبی اکرم اس طرح شامل کرسکتے ہیں؟


یہی وہ روایات ہیں، جن کی مدد سے عورتوں کی تذلیل، مردوں کو غلامی پر مجبور کیا جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر، ان ہی کتب کی مدد سے، قرآن کی 20 فیصد زکواۃ کو ڈھائی فی صد قرار دے کر سارے عالم اسلام کی معیشیت تباہ و برباد کردی گئی ہے۔ ذرا آپ امریکہ ڈھائی فی صد ٹیکس کی مدد سے چلا کر دکھا دیجئے؟ وقت آگیا ہے کہ مسلمان بے مصرف روایات کے بارے میں یہ سوال کریں کہ آیا یہ روایت قرآن کریم سے ثابت ہے یا نہیں؟

میری رائے میں قران حکیم کی آیات خواتین کو عزت عطا کرتی ہیں ، ان کی تدابیر کو سراہتی ہیں۔ ایس روایت بالکل بھی قرآن حکیم کے بنیادی پیغام کے خلاف ہے۔ چاہے وہ کسی بھی کتاب میں ہو۔ ان کتب پر ایمان رکھنے کا حکم نا تو نبی اکرم نے دیا تھا اور نا ہی اللہ تعالی نے دیا ہے۔ لہذا بہتر ہے کہ آیسی روایات کو شئر کرنے سے پہلے ، ان کو قرآن حکیم کی کسوٹی پر پرکھ لیا جائے۔


خاتون کے دئے ہوئے "فتوی" کے ایک بہترین مثال قرآن حکیم سے ، حضرت صفیہ ، حضرت موس علیہ السلام کے بارے میں عقل و دانش سے بھرپور بیان دیتی ہیں۔ یہ دانش ، کم از کم قرآن حکیم میں کسی مرد کے حصے میں نہیں آئی۔ کیا سارے مرد ، ناقص العقل ثابت ہوتے ہیں؟

28:26 قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ
ان میں سے ایک (لڑکی) نے کہا: اے (میرے) والد گرامی! انہیں (اپنے پاس مزدوری) پر رکھ لیں بیشک بہترین شخص جسے آپ مزدوری پر رکھیں وہی ہے جو طاقتور امانت دار ہو (اور یہ اس ذمہ داری کے اہل ہیں)

تو کن کتب پر ایمان رکھنا ہے، ؟؟
2:136 (اے مسلمانو!) تم کہہ دو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس (کتاب) پر جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس پر (بھی) جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب (علیھم السلام) اور ان کی اولاد کی طرف اتاری گئی اور ان (کتابوں) پر بھی جو موسیٰ اور عیسیٰ (علیھما السلام) کو عطا کی گئیں اور (اسی طرح) جو دوسرے انبیاء (علیھم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی گئیں، ہم ان میں سے کسی ایک (پر بھی ایمان) میں فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی (معبودِ واحد) کے فرماں بردار ہیں
3:84 آپ فرمائیں: ہم اﷲ پر ایمان لائے ہیں اور جو کچھ ہم پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب (علیھم السلام) اور ان کی اولاد پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ موسٰی اور عیسٰی اور جملہ انبیاء (علیھم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کیا گیا ہے (سب پر ایمان لائے ہیں)، ہم ان میں سے کسی پر بھی ایمان میں فرق نہیں کرتے اور ہم اسی کے تابع فرمان ہیں

معاف کیجئے گا بخاری اور ترمذی پر کچھ بھی نازل نہیں ہوا جس پر ایمان لانا ضروری ہو۔
والسلام
 
آخری تدوین:

سین خے

محفلین
نوٹ: (یہ مراسلہ مختلف جگہوں سے کاپی پیسٹ کیا گیا ہے)

“اے عورتوں کی جماعت ! صدقہ کرو ، کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ تم ہی کو دیکھا ہے۔
انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ، ایسا کیوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو ، باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے ، میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا نہیں دیکھا۔
عورتوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ہمارے دین اور ہماری عقل میں نقصان کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : کیا عورت کی گواہی ، مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟ انہوں نے کہا : جی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پوچھا : کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے ، نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟ عورتوں نے کہا : ایسا ہی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : یہی اس کے دین کا نقصان ہے.”


۲۳۵ ہجری سے پہلے وفات پانے والے محدثین کی کتب میں ان روایات میں یہ الفاظ موجود نہیں ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بعد میں کہیں اضافہ ہوئے ہیں۔ مثلاً ابو داؤد طیالسی(متوفی ۲۰۴ ھ)۲۰؂ کی مسند، حمیدی (متوفی ۲۱۹ھ)۲۱؂ کی مسند، ابن الجعد (متوفی ۲۳۰ھ)۲۲؂ کی مسند، ابن ابی شیبہ (متوفی ۲۳۵ھ)۲۳؂ کی مصنف، وغیرہ میں یہ الفاظ موجود نہیں ہیں۔لگتا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ آہستہ آہستہ نبی اکرم سے نسبت پا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے سب سے پہلے یہ الفاظ سلمی۲۴؂ (متوفی ۲۳۸ھ) کی کتاب ''ادب النساء'' میں ملتے ہیں:

حضرت زینب، یعنی زوجہ عبد اللہ ابن مسعود نے ناقصاتِ عقل والا جملہ نقل ہی نہیں کیا، جو براہ راست اس واقعہ کی شاہد تھیں۔ صحیح بخاری ومسلم کی مذکورہ بالا روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شایدنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ و خیرات پر ابھارنے کی یہ بات حضرت زینب ہی کو دیکھ کر شروع کی تھی، کیونکہ آپ صاحبِ ثروت خاتون تھیں۔اس لیے اگر وہ ناقصاتِ عقل والی بات کسی روایت میں نہیں بتاتیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات نبی پاک نے کی ہی نہیں

‎بعض راویوں نے 'قال عبد اللّٰہ' (حضرت عبد اللہ نے کہا) کو حکایت کے عام طریقے پر محض 'قال'( کہا) کردیا ہو گا، جب کہ ان کی نیت میں اس کا فاعل حضرت عبد اللہ ہی ہوں گے۔ لیکن سننے والے راوی نے اس 'قال' کی ضمیرِ فاعل کا مرجع (referent) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دے دیا ہوگا ، اور
‎اسی فہم کو آگے روایت کر دیا ہو گا۔

‎ناقصاتِ عقل و دین کی توضیح والا جملہ سیاق و سباق سے میل نہیں کھاتا۔ جب عورت کی تخلیق ہی اس طرح سے ہوئی ہے کہ وہ عقل میں ناقص ہے۔ وہ اس پیدایشی نقص کے سبب سے مرد کی عقل پر اثرانداز ہوتی ہے تو اس کا تو قصور ہی نہ ہوا، اس لیے کہ اس کا یہ پیدایشی نقص اس کے لیے عذر ہے۔اسے ایک چیز کی سمجھ ہی نہیں ہے ، تو وہ مجرم کس طرح سے ہوئی۔جرم تو تب تھا کہ وہ مکمل عقل و شعور کی مالک ہونے کے بعد ایسا کرتی۔ اس لیے دوزخ میں عورتوں کے زیادہ ہونے کی وجہ ناقابل فہم ہے۔

‎دین کے تمام احکام سے ثابت ہے کہ عورت مرد ہی کی طرح دین کی پوری پوری مکلف ہے۔ مثلاًدونوں ارتکابِ شرک پر دوزخ میں جائیں گے، اگر عورت کم عقل ہے تو اسے تو سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ شرک کیا ہے اور کیا نہیں ہے، پھر سزا کس بات کی؟ وغیرہ۔ لہٰذا حدیث کے متن پر یہ اضافہ دین کی باقی تمام تعلیمات کی نفی کرتا ہے۔جن کا مدارقطعی نصوص پر ہے۔ لہٰذا ادرست بات یہ ہے کہ ان کے زیادہ دوزخ میں جانے کا سبب یہی ہوناچاہیے کہ ان کو عقل و شعور تو پورا پورا ہے، لیکن اس کے ہوتے ہوئے وہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ گناہ کرتی ہیں ۔

‎واضح رہے کہ غلام عورت کو زنا کی آدھی سزا دی گئی ہے، اس لیے کہ معاشرے میں اس کے مقام کی وجہ سے اسے اس درجہ کا احصان۲۷؂ وتحفظ حاصل نہیں تھا جو آزاد عورت کو حاصل تھا۔ لہٰذا اس کی سزا تو کم ہو گئی، لیکن ایک عورت جو خدا کی طرف سے تھی ہی ناقصِ عقل ، اسے بعض چیزیں سمجھ ہی نہیں آسکتیں تو اس کی سزا کم کیوں نہ ہوئی؟ حد یہ ہے کہ تمام جرائم میں عورت کو مرد کے برابر سزا دی گئی ہے۔ مثلاً چوری کی سزا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے فاطمہ نامی عورت کے ہاتھ بھی کاٹے ہیں۔ کیوں یہ بات اس وقت پیش نظر نہ رہی کہ وہ ناقص العقل ہے!

اگر کاپی پیسٹ ہے تو حوالہ جات بھی شامل کر دیں تو اچھا رہے گا :)
 
Top