تجھ سے کروں گا پیار ارے بابا نہ بابا---(طوائف کے لئے ) برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
-----------
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
------------
تجھ سے کروں گا پیار ارے بابا نہ بابا ؟
کرتا ہوں میں انکار ارے بابا نہ بابا
------------یا
توبہ مری سو بار ارے بابا نہ بابا
------------------
تیری ان اداؤں نے ہے کتنوں کو رلایا
جھوٹا ترا ہے پیار ارے بابا نہ بابا
---------------
دولت کی پجارن ہے حیا کو تُو نہ جانے
بس آتی ہے جھنکار ارے بابا نہ بابا
-------------
ایمان ہے کھویا تُو نے پیسے ہی کی خاطر
تُو کتنی ہے بدکار ارے بابا نہ بابا
-----------
ساری میں کمائی بھی جو تجھ پر ہی لُٹا دوں
آئے گا نہ یہ ہار ارے بابا نہ بابا
--------------
ڈرتا ہے خدا سے یہی ارشد کی ہے عادت
ہے میرا تو انکار ارے بابا نہ بابا
-------------
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
-----------
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
------------
تجھ سے کروں گا پیار ارے بابا نہ بابا
کرتا ہوں میں انکار ارے بابا نہ بابا
------------یا
توبہ مری سو بار ارے بابا نہ بابا
------------------
تیری ان اداؤں نے ہے کتنوں کو رلایا
چھوٹا ترا ہے پیار ارے بابا نہ بابا
---------------
دولت کی پجارن ہے حیا کو تُو نہ جانے
بس آتی ہے جھنکار ارے بابا نہ بابا
-------------
ایمان ہے کھویا تُو نے پیسے ہی کی خاطر
تُو کتنی ہے بدکار ارے بابا نہ بابا
-----------
ساری میں کمائی بھی جو تجھ پر ہی لُٹا دوں
آئے گا نہ یہ ہار ارے بابا نہ بابا
--------------
ڈرتا ہے خدا سے یہی ارشد کی ہے عادت
ہے میرا تو انکار ارے بابا نہ بابا
-------------
اس نظم کا سیاق و سباق کیا ہے اور یہ بابا کون ہیں
اصلاح کی ضرورت تو اساتذہ بتائیں گے مگر یہ یقین رکھیں کہ پڑھنے ابھی تک آدھی محفل آ چکی ہوگی. عنوان ہی ایسا ہے
 
بھائی خلیل الرحمن کے مشورے کے مطابق اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے
تجھ سے نہ کروں پیار کہ توبہ مری توبہ
کرتا ہوں میں انکار کہ توبہ مری توبہ
------------------
تیری ان اداؤں نے ہے کتنوں کو رلایا
جھوٹا ترا ہے پیار کہ توبہ مری توبہ
---------------
دولت کی پجارن ہے حیا کو تُو نہ جانے
بس آتی ہے جھنکار کہ توبہ مری توبہ
-------------
ایمان ہے کھویا تُو نے پیسے ہی کی خاطر
تُو کتنی ہے بدکار کہ توبہ مری توبہ
-----------
ساری میں کمائی بھی جو تجھ پر ہی لُٹا دوں
آئے گا نہ یہ ہار کہ توبہ مری توبہ
--------------
ڈرتا ہے خدا سے یہی ارشد کی ہے عادت
ہے میرا تو انکار کہ توبہ مری توبہ
-------------
 

الف عین

لائبریرین
توبہ ردیف میں بھی ' کہ' اضافی ہے۔ اگر مان بھی لیں تو....
تجھ سے نہ کروں پیار کہ توبہ مری توبہ
کرتا ہوں میں انکار کہ توبہ مری توبہ
------------------ دو لخت ہے

تیری ان اداؤں نے ہے کتنوں کو رلایا
جھوٹا ترا ہے پیار کہ توبہ مری توبہ
--------------- دوسرا مصرع مفعول فاعلات ہو گیا ہے، جھوٹا ہے ترا پیار مفعول مفاعیل ہوتا ہے. ردیف بھی معنی خیز نہیں

دولت کی پجارن ہے حیا کو تُو نہ جانے
بس آتی ہے جھنکار کہ توبہ مری توبہ
------------- جھنکار آنا مطلب؟

ایمان ہے کھویا تُو نے پیسے ہی کی خاطر
تُو کتنی ہے بدکار کہ توبہ مری توبہ
----------- تو نے تُ نِ تقطیع درست نہیں

ساری میں کمائی بھی جو تجھ پر ہی لُٹا دوں
آئے گا نہ یہ ہار کہ توبہ مری توبہ
-------------- ردیف بے معنی ہے

ڈرتا ہے خدا سے یہی ارشد کی ہے عادت
ہے میرا تو انکار کہ توبہ مری توبہ
------------- واضح نہیں
مختصر یہ کہ اس پر مزید محنت نہ کی جائے تو بہتر ہے
 
Top