لوگ بستی کے سدا یوں ہی رہا کرتے ہیں---برائے اصلاح

عمران سرگانی کی زمیں میں پاؤں رکھنے کی جسارت
الف عین
عظیم
شاہد شاہنواز
-----------
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
-------------
لوگ بستی کے سدا یوں ہی رہا کرتے ہیں
پیار کرتے ہیں کسی سے تو وفا کرتے ہیں
--------------
دل سے نفرت کے چراغوں کو بجھانا ہو گا
------یا
دل میں نفرت کے جو شعلے ہیں بجھا دو ان کو
گھر تو ایسے ہی چراغوں سے جلا کرتے ہیں
-------------
خیر آتی ہے زمانے میں محبّت سے ہی
کام الفت کی نگاہوں سے بنا کرتے ہیں
-----------------
مجھ سے کرتا ہے جو نیکی تو دعا دیتا ہوں
رب کے بندے تو سدا ایسے ہی کیا کرتے ہیں
----------------
آگ نفرت کی بجھا کر ہی محبّت ہو گی
دل ہمیشہ ہی ملاتے سے ملا کرتے ہیں
---------------
جان دینے سے کبھی ڈرتے نہیں دل والے
عشق والے تو سدا یوں ہی جیا کرتے ہیں
------------
اس کی ارشد کے سدا دل نے گواہی دی ہے
دل کے رشتے تو نبانے سے نبھا کرتے ہیں
------------
 

عظیم

محفلین
لوگ بستی کے سدا یوں ہی رہا کرتے ہیں
پیار کرتے ہیں کسی سے تو وفا کرتے ہیں
-------------- کس بستی کے؟ کسی خاص علاقے کا ذکر ہونا چاہیے، مثلاً گاؤں وغیرہ

دل سے نفرت کے چراغوں کو بجھانا ہو گا
------یا
دل میں نفرت کے جو شعلے ہیں بجھا دو ان کو
گھر تو ایسے ہی چراغوں سے جلا کرتے ہیں
------------- پہلے کا متبادل بہتر لگ رہا ہے، صرف دوسرے میں 'تو' بھرتی کا لگتا ہے۔ اس کی جگہ 'کچھ' استعمال کیا جا سکتا ہے

خیر آتی ہے زمانے میں محبّت سے ہی
کام الفت کی نگاہوں سے بنا کرتے ہیں
----------------- محبت سے ہی کی جگہ محبت ہی سے' بہتر ہو شاید
'الفت کی نگاہ' کچھ عجیب لگ رہا ہے۔ کون سے کام ہیں اس کی بھی وضاحت ضروری لگتی ہے

مجھ سے کرتا ہے جو نیکی تو دعا دیتا ہوں
رب کے بندے تو سدا ایسے ہی کیا کرتے ہیں
---------------- پہلا مصرع اچھا ہے۔ دوسرے میں 'سدا ایسے ہی' کا ٹکڑا جچ نہیں رہا۔
شاید 'یوں ہی' بہتر ہو، یا کچھ اور سوچیں

آگ نفرت کی بجھا کر ہی محبّت ہو گی
دل ہمیشہ ہی ملاتے سے ملا کرتے ہیں
--------------- ملاتے؟ ٹائپو ہے شاید۔ باقی درست

جان دینے سے کبھی ڈرتے نہیں دل والے
عشق والے تو سدا یوں ہی جیا کرتے ہیں
------------ ٹھیک تو ہے لیکن دوسرے مصرع کے الفاظ اگر بدل سکیں تو بہتر ہے۔ 'تو سدا' کو پچھلے ایک دو اشعار میں بھی استعمال میں لایا گیا ہے

اس کی ارشد کے سدا دل نے گواہی دی ہے
دل کے رشتے تو نبانے سے نبھا کرتے ہیں
------------ نبانے؟ 'سدا' پچھلے اشعار میں بھی ایک دو بار آیا ہے۔ اس کو اگر بدلا جا سکے تو بہتر ہے۔
 
عمران سرگانی کی زمیں میں پاؤں رکھنے کی جسارت
الف عین
عظیم
شاہد شاہنواز
-----------
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
-------------
لوگ بستی کے سدا یوں ہی رہا کرتے ہیں
پیار کرتے ہیں کسی سے تو وفا کرتے ہیں
--------------
دل سے نفرت کے چراغوں کو بجھانا ہو گا
------یا
دل میں نفرت کے جو شعلے ہیں بجھا دو ان کو
گھر تو ایسے ہی چراغوں سے جلا کرتے ہیں
-------------
خیر آتی ہے زمانے میں محبّت سے ہی
کام الفت کی نگاہوں سے بنا کرتے ہیں
-----------------
مجھ سے کرتا ہے جو نیکی تو دعا دیتا ہوں
رب کے بندے تو سدا ایسے ہی کیا کرتے ہیں
----------------
آگ نفرت کی بجھا کر ہی محبّت ہو گی
دل ہمیشہ ہی ملاتے سے ملا کرتے ہیں
---------------
جان دینے سے کبھی ڈرتے نہیں دل والے
عشق والے تو سدا یوں ہی جیا کرتے ہیں
------------
اس کی ارشد کے سدا دل نے گواہی دی ہے
دل کے رشتے تو نبانے سے نبھا کرتے ہیں
------------
خیال تو میرا ہے چلو آپ کی مدد کر دیتا ہوں

سادگی سے جو بھلے لوگ رہا کرتے ہیں
پیار کرتے ہیں کسی سے تو وفا کرتے ہیں
 
الف عین
عظیم
( تصحیح کے بعد )
غم چھپا کر وہ زمانے سے جیا کرتے ہیں
پیار کرتے ہیں کسی سے تو وفا کرتے ہیں
-----------
دل میں نفرت کے جو شعلے ہیں بجھا دو ان کو
گھر کچھ ایسے ہی چراغوں سے جلا کرتے ہیں
-------------
خیر آتی ہے زمانے میں محبّت ہی سے
کام بگھڑے بھی محبّت سے بنا کرتے ہیں
-------------
مجھ سے کرتا ہے جو نیکی تو دعا دیتا ہوں
رب کے بندے تو ہمیشہ یوں ہی کیا کرتے ہیں
----------------
آگ نفرت کی بجھا کر ہی محبّت ہو گی
دل ہمیشہ ہی ملانے سے ملا کرتے ہیں
---------------
جان دینے سے کبھی ڈرتے نہیں دل والے
عشق والے تو وفا کر کے جیا کرتے ہیں
------------
اس کی ارشد کے سدا دل نے گواہی دی ہے
دل کے رشتے تو نبھانے سے نبھا کرتے ہیں
---------
 

الف عین

لائبریرین
غم چھپا کر وہ زمانے سے جیا کرتے ہیں
پیار کرتے ہیں کسی سے تو وفا کرتے ہیں
.. کون؟

دل میں نفرت کے جو شعلے ہیں بجھا دو ان کو
گھر تو ایسے ہی چراغوں سے جلا کرتے ہیں
... اس سے لگتا ہے کہ گھر جلنا مثبت بات ہے، جیسے کہیں 'گھر روشن ہوتے ہیں' ۔ میرے خیال میں 'تو' نکالنے کے علاوہ بھی جلا کی جگہ 'جل جایا' ہونا چاہیے یعنی مصرع ایسا ہو کہ ایسی نثر بنے کہ 'ایسے چراغوں سے گھر جل جایا کرتے ہیں'

خیر آتی ہے زمانے میں محبّت ہی سے
کام بگھڑے بھی محبّت سے بنا کرتے ہیں
------------- بگڑے؟ یہاں بھی عجز بیان ہے۔ شاید یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ کام بگڑ بھی جائے تو محبت سے بن جایا کرتے ہیں

مجھ سے کرتا ہے جو نیکی تو دعا دیتا ہوں
رب کے بندے تو ہمیشہ یوں ہی کیا کرتے ہیں
-------- عظیم نے 'کیا' پر غور نہیں کیا؟ یہاں اسی کِ یَ ا کا محل ہے، کیا سوالیہ کا نہیں جس میں ی تقطیع میں شامل نہ ہو
باقی اشعار ٹھیک لگ رہے ہیں
 
Top