وزیراعظم نے ملک سے برطانوی نظامِ تعلیم ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا

محمد وارث

لائبریرین
ہم اپنے بچوں کو اپنا پیٹ کاٹ کر بھی اچھی تعلیم دلانا چاہیں تو یہ بات لغو اور لچر گردانہ جاتی ہے۔
آپ کی اس بات کو خلیل صاحب اس طرح بھی لیا جا سکتا ہے کہ "اچھی تعلیم" جس کے لیے ہم آپ سب بلاشبہ اپنا پیٹ کاٹ رہے ہیں وہی ان کو بھی ملے جو اپنا پیٹ کاٹ کر بھی یہ تعلیم اپنے بچوں کو نہیں دلا سکتے۔ کیوں نہ پاکستان میں ایک ایسا یکساں بلند معیار نظام تعلیم ہو جو سب کی پہنچ میں ہو نہ یہ کہ ایلیٹ کلاس ملک سے باہر بچے پڑھا لے، اپر اور اپر مڈل کلاس یہاں اعلیٰ سے اعلیٰ اور مہنگے مہنگے اسکولوں میں پڑھا لیں، لوئر مڈل کلاس بھی کسی نہ کسی طرح بچے پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھا لیں اور نچلا اکثریتی طبقہ باوجود خواہش اور محنت کے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم نہ دلوا سکے۔

طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کرنے کا یہ مطلب تو شاید کسی کا نہیں ہے کہ اچھی تعلیم ہی بند کر دی جائے اور سب کو زبردستی گورنمنٹ اسکولوں میں بھرتی کر لیا جائے بلکہ شاید اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسی تعلیم سب کو مہیا کی جائے جو اعلیٰ درجے کی ہو اور سب کی پہنچ میں بھی ہو۔
 

محمد سعد

محفلین
آپ کی اس بات کو خلیل صاحب اس طرح بھی لیا جا سکتا ہے کہ "اچھی تعلیم" جس کے لیے ہم آپ سب بلاشبہ اپنا پیٹ کاٹ رہے ہیں وہی ان کو بھی ملے جو اپنا پیٹ کاٹ کر بھی یہ تعلیم اپنے بچوں کو نہیں دلا سکتے۔ کیوں نہ پاکستان میں ایک ایسا یکساں بلند معیار نظام تعلیم ہو جو سب کی پہنچ میں ہو نہ یہ کہ ایلیٹ کلاس ملک سے باہر بچے پڑھا لے، اپر اور اپر مڈل کلاس یہاں اعلیٰ سے اعلیٰ اور مہنگے مہنگے اسکولوں میں پڑھا لیں، لوئر مڈل کلاس بھی کسی نہ کسی طرح بچے پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھا لیں اور نچلا اکثریتی طبقہ باوجود خواہش اور محنت کے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم نہ دلوا سکے۔

طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کرنے کا یہ مطلب تو شاید کسی کا نہیں ہے کہ اچھی تعلیم ہی بند کر دی جائے اور سب کو زبردستی گورنمنٹ اسکولوں میں بھرتی کر لیا جائے بلکہ شاید اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسی تعلیم سب کو مہیا کی جائے جو اعلیٰ درجے کی ہو اور سب کی پہنچ میں بھی ہو۔
میرے خیال میں اس اپروچ پر سب متفق ہو سکتے ہیں۔
 
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
پوری بحث پڑھنے کے بعد یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یکساں نظام تعلیم سے خطرہ کیاہے، کیا کچھ لوگ جوخود کواشرافیہ یابرہمن سمجھتے ہیں ان کو ڈر ہے کہ ان کو یکساں نظام تعلیم میں اچھوتوں اورہریجنوں کے برابر لاکھڑاکیاجائے گا اور برسوں سے ان کی جو برہمنیت قائم ہے وہ ختم ہوجائے گی، یکساں نظام تعلیم پر ہونے والے تمام اعتراضات لچرپوچ اورفالتو عقل کی پیداوار ہیں اورکسی میں کوئی معقولیت نہیں ہے۔
معیار تعلیم اچھاکرنے اورزیادہ سے زیادہ بچے تعلیم حاصل کریں ،اس سے انکار کس کو ہے، لیکن یہ کام یکساں نظام تعلیم کے دائرے میں بھی توہوسکتاہے کیوں اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک میں برہمن ،چھتری ،ویش اور اچھوتوں کیلئے الگ الگ نظام تعلیم قائم کیاجائے۔ایک نظام تعلیم ہوناچاہئے، چاہئے پرائیویٹ اسکول ہوں،یاپھر سرکاری اسکول نظام تعلیم ایک ہی رہناچاہئے۔

آپ نے درست فرمایا، کچھ ایسا ہی ہورہا ہے، کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے ، یہی کوئی 162 سال پہلے کی بات ہے ، جب تک ملاء کا نظام تعلیم قائم تھا، ایک دارلعلوم دیوبند کہلاتا تھا اور دوسرا دارلعلوم بریلی، سارے نقشبندی، فاروقی، علوی، اور طرح طرح کے براہمنوں کے لئے ہندوستان میں صرف دو اسکول تھے، یہیں کے نکلے ہوئے اعلی ذات کے گھوڑے، قاضی بنتے تھے ، گورنر بنتے تھے ، ملاء اور مفتی (قانون ساز ) بنتے تھے۔ گویا چاروں گھی میں اور سر کڑاھی میں ۔ مجھ جیسے اور آپ جیسے ہریجن، کھتری، اچھوتوں قسم کی ذاتیوں یعنی پٹھانوں اور اسی قسم کی نچلی ذاتوں کا سایا بھی ان دارالعلوموں کے پاس نہیں پڑ سکتا تھا۔ پھر انگریز آ گیا اور اس نے پیلے اسکول قائم کردئے ، صرف 90 برس کے معمولی عرصے میں سارے ہندوستان میں ان پیلے اسکولوں کے پیلے شیطان ، نکل کر ملاء کی آنکھ میں آنکھ ڈالنے لگے۔ جن کم ذاتوں کو پڑھنے نہیں دیا جاتا تھا۔ وہی لوگ ملاء کو حقارت سے دیکھنے لگے، ملاء کے سارے حلوے مانڈے ماند پڑنے لگے۔ جب سرسید احمد خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تو ان میں سے ہزار عدد قابل ملاؤں نے فتوی دیا کہ سید احمد خان کافر ہے۔ سید احمد خان کی یونیورسٹی کی طرز پر قائم ہونے والے اسکولوں نے ملاء کے تعلیمی نظام اور اس نظام سے ہونے والے استحصال کا خاتمہ کیا ، ورنہ آج آپ اور میں کامل جاہل ہوتے، اس فورم پر کچھ لکھنے کے قابل بھی نا ہوتے، کیوں کے آپ کے نام میں ، اور میرے نام میں بھی، نا کوئی نقشبندی ہے ، نا علوی ہے، نا تھانوی ہے ۔ اور نا ہی میرے اور آپ کے والدین اس قابل ہوتے کہ آپ کو یا مجھ کو دارلعلوم دیوبند یا دارالعلوم بریلی بھیج پاتے۔

ملاء کے نظام کی یہ تباہی، ملاء کو نہیں بھائی، وہ آج بھی ملاء کے مدرسے کی نشاۃ ثانیہ کے لئے کوشاں ہے۔ اور وہی نظام واپس لانا چاہتا ہے جس میں جاہل اور عامی، قابل اور علامہ فلامہ ، مفتی مفتے کو ڈھائی فیصد زکواۃ دیں اور راجے کا باجہ ، جنگوں کی مدد سے بجتا رہے۔ اس کے لئے ملاء کو ملی روایات کی کتب، کہ اس کی مدد سے اس نے عورتوں کی تذلیل کی، غلامی کو فروغ دیا، اور معاشرت کو تباہ کیا اور معیشیت کا خاںہ خراب کیا۔ ملاء کا تعلیمی نظام تھا ہی اس لئے کہ عام آدمی جاہل رہے۔ اور ملاء کماتا رہے، قاضی (جج ) رہے، مفتی (قانون ساز ) رہے اور گورنر رہے۔

مسلم ممالک کی 1200 سال کی تاریخ گواہ ہے ، نا کوئی نہری نظام بنا، نا کوئی بنکاری نظام بنا، نا کوئی اسکولوں کا نظام بنا، نا کوئی ڈاک کا نظام بنا، ناکوئی ریلوے کا نظام بنا۔ جب کہ ملاء کے اس نظام کا خاتمہ ہوتے ہی، صرف 90 سال کی قلیل مدت میں سارے پاک و ہند مین یہ سارے نظام تشکیل پا گئے۔ پھر بھی ملاء باز نہیں آیا ، اپنے پراپیگینڈے سے۔ اور لگا ہوا ہے کہ اس برطانوی ، امریکی، کافرانہ ، نظام کو ختم کرکے وہی مدرسہ واپس لے آئے ، بیس فی صد ٹیکس کی جگہ ڈھائی فی صد ٹیکس ، ملاء کو واجب الادا ہو ، نا کہ حکومت کو اور ملاء کے نظام تعلیم سے پھر وہی مزے ہوں جو کہیں کھو گئے ہیں۔ یکساں نظام تعلیم ، ملاء کی اسی خواہش کا شاخسانہ ہے ، ورنہ کیا مشکل تھا کہ مدرسوں میں بھی فزکس ، کیمسٹری، الجبرا، حساب پڑھایا جاتا؟

ملاء کے نظریات نے سارے عالم اسلام کو تباہ کیا ہے، یہ مذہب کی آڑ میں ذاتی خواہشات کا پرچار کرتا ہے، عالم اسلام کا سب سے بڑا مرض، ٹیکس کا نا دینا ہے، اللہ تعالی نے 20 فی صد ٹیکس فرض کیا، ملاء نے سب کو ڈھائی فی صد ٹیکس باور کروادیا۔ آج یہ حال ہے کہ کسی بھی اسلامی ملک کے پاس مالی وسائیل نہیں کیوں کہ لوگ ٹیکس دینا غلط سمجھتے ہیں لیکن یہی لوگ بھاگے بھاگے مسجد کو عطیہ، زکواۃ، نذرانہ، فطرانہ دے کر سب کی زندگی کو جہنم بنا کر یہ سمجھتے ہیں اس طرح جنت میں محل تعمیر ہورہا ہے۔ یہ لوگ ملاء کے بہکاوے میں آ کر یہ نہیں سوچتے کہ " ایک دن اللہ کا نور سب کچھ جگمگا دے گا اورجس دن یہ کتاب رکھ دی جائے گی، نبیوں اور گواہوں کو بلایا جائے گا ، اس دن کسی کے ساتھ ظلم نہیں ہوگا" ، اس دن " جس شے سے بھی اضافہ ہو، اس میں پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے" کو نا ماننے والے کتنے مسلمان ہونگے، اور ملاء کا ڈھائی فی صد ادا کرنے والے کتنے؟

ملاء کے نظام تعلیم کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ ساری نہریں بس ملاء کی طرف بہتی ہیں، حکومت وقت کو کچھ تیکس نہیں ملتا۔ نا تعلیم کے لئے کچھ ہوتا ہے، نا ترقی کے لئے۔
جب ٹیکس ہی ادا نہیں ہوگا، تو سائنس فاؤنڈیشن، کی فنڈنگ کیسے ہوگی؟ ریسرچ کیسے ہوگی، قوم آگے کیسے بڑھے گی؟ چاند تک کیا چاند دیکھنے والی کمیٹی جائے گی؟
اسی تعلیمی نظام کا شاخسانہ ، ڈھائی فی صد زکواۃ جب ملاء کو ادا ہوگی تو سڑکیں کیسے بنیں گی، نہریں کیسے بنیں گی، بنیادی صحت کا نظام کیسے بنے گا، بنکاری کا نظام کیسے تعمیر ہوگا؟ پارک کیسے بنیں گے؟ تجربہ کار لوگوں کی صحت اور بچوں کی تعلیم کے لئے نظام کیسے وجود میں آئے گا۔

ملاء اپنی نثاط ثانیہ کے لئے وہی نظام لانا چاہتا ہے جس میں 40 روایات رٹ کے اور 40 سورے رٹ کے ، ڈاکٹر ، انجینئر، وکیل، استاد سے دس گنا زیادہ کمایا جاتا ہے۔ لیکن قوم کو سب سے نچھلے کھڈے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔

ملاء کے اس
دھرم میں لپٹی ملاء گردی، کیا کیا سوانگ رچائے گی
مسلی کلیاں، اجڑا گلشن، زرد خزاں دکھلائے گی۔
یورپ، جس وحشت سے اب بھی سہما سہما رہتا ہے
خطرہ ہے ، وہ وحشت میرے ملک میں آگ لگائے گی
جرمن گیس کدوں سے اب تک خون کی بدبو آتی ہے
اندھی ملاء گردی ہم کو اس رستے پر لے جائے گی
اندھے کنویں میں، جھوٹ کی ناؤ، تیز چلی تھی مان لیا
لیکن باہر روشن دنیا ، تم سے سچ بلوائے گی
نفرت میں جو پلے بڑھے ہیں، نفرت میں جو کھیلے ہیں
نفرت ان سے آگے آگے کیا کچھ نا کروائے گی
مدرسوں ، روایتوں کے متوالے ، ہر روز چراغاں کرتے ہیں
پوچھو کتنے چپ بیٹھے ہیں ، شرم انہیں کب آئے گی؟
یہ مت کھاؤ، وہ مت پہنو، عشق تو بالکل کرنا مت
بابو جی کی چھاپ تمہارے اوپر بھی لگ جائے گی
یہ مت بھولو، اگلی نسلیں ، روشن شعلہ ہوتی ہیں
آگ کریدو گے تو چنگاری دامن تک تو آئے گی
(شاعر سے معذرت کے ساتھ)
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
علاقائی زبانوں، مقامی کلچر اور تاریخ سے واقفیت۔ اس طرح کی چیزیں۔

ان علوم کی شمولیت پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ان سب کو ملا جلا کر ایک سبجیکٹ تک محدود کر دیا جائے تو باقی مضامین میں یکسانیت کا اہتمام ہو سکے گا۔
 

زیک

مسافر
پاکستان میں برطانوی نظام تعلیم ختم کرنے کا سیدھا سا طریقہ تو یہ ہے کہ مقامی سسٹم کو بہتر کریں لیکن ایسا کچھ ہوتا تو نظر نہیں آتا۔ باقی طبقاتی نظام تعلیم پر تو بہت صفحے کالے ہو گئے
 

محمد سعد

محفلین
پاکستان میں برطانوی نظام تعلیم ختم کرنے کا سیدھا سا طریقہ تو یہ ہے کہ مقامی سسٹم کو بہتر کریں لیکن ایسا کچھ ہوتا تو نظر نہیں آتا۔ باقی طبقاتی نظام تعلیم پر تو بہت صفحے کالے ہو گئے
متفق۔ بدقسمتی سے یہاں کسی مسئلے کے حل کے نام پر چیزیں اکھاڑنے پر تو بات ہو سکتی ہے لیکن تعمیر کرنے کی بات کرنے والا آپ کو دن کی روشنی میں لالٹین لے کر گھومنے سے بھی نہیں ملے گا۔
 
پاکستان میں برطانوی نظام تعلیم ختم کرنے کا سیدھا سا طریقہ تو یہ ہے کہ مقامی سسٹم کو بہتر کریں لیکن ایسا کچھ ہوتا تو نظر نہیں آتا۔ باقی طبقاتی نظام تعلیم پر تو بہت صفحے کالے ہو گئے

متفق۔ بدقسمتی سے یہاں کسی مسئلے کے حل کے نام پر چیزیں اکھاڑنے پر تو بات ہو سکتی ہے لیکن تعمیر کرنے کی بات کرنے والا آپ کو دن کی روشنی میں لالٹین لے کر گھومنے سے بھی نہیں ملے گا۔

متفق۔ یہی بات ہم بھی کہتے ہیں کہ متوازی نظام جائے تعلیم کے پیچھے لٹھ لے کر پڑنے کے بجائے گورنمنٹ اسکولوں کی پہلے حالت درست کریں۔ حکومتی اسکولوں میں مفت بہترین تعلیمی سہولیات میسر ہوں تو والدین کو بھی پاگل کتے نے نہیں کاٹا کہ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو مہنگے ترین پرائیویٹ اسکولوں میں بھجوائیں۔
 

عثمان

محفلین
"یکساں نظام تعلیم" سے کیا مراد ہے؟ یکساں وسائل، یکساں معیار، یکساں نصاب یا یکساں زبان؟
یا پھر یہ محض ایک کلیشے ہے جو مسئلہ کے تجزیہ اور اس کی پیچیدگیوں پر غور کیے بغیر ایک عمومی نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
 

عثمان

محفلین
ایک ایسی تعلیم سب کو مہیا کی جائے جو اعلیٰ درجے کی ہو
ان مختلف طبقات کو ایک معیار پر کیسے راضی کریں گے؟
مثلاً "برطانوی نظام تعلیم" میں سے وہ کون کون سی باتیں نکال دی جائیں کہ یہ اہل مدرسہ کے لیے ناصرف قابل قبول بلکہ معیاری بھی ہوجائے۔ برطانوی نظام تعلیم سے مستفید ہونے والے کیونکر اس تبدیلی پر راضی ہونگے؟
ان طبقات کو اپنا اپنا معیار بہتر کرنے لیے وسائل کیوں نہ مہیا کیے جائیں۔ دیگر کئی ترقی یافتہ ممالک میں نظام کی یکسانیت پر کوئی اصرار نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ


آپ نے درست فرمایا، کچھ ایسا ہی ہورہا ہے، کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے ، یہی کوئی 162 سال پہلے کی بات ہے ، جب تک ملاء کا نظام تعلیم قائم تھا، ایک دارلعلوم دیوبند کہلاتا تھا اور دوسرا دارلعلوم بریلی، سارے نقشبندی، فاروقی، علوی، اور طرح طرح کے براہمنوں کے لئے ہندوستان میں صرف دو اسکول تھے، یہیں کے نکلے ہوئے اعلی ذات کے گھوڑے، قاضی بنتے تھے ، گورنر بنتے تھے ، ملاء اور مفتی (قانون ساز ) بنتے تھے۔ گویا چاروں گھی میں اور سر کڑاھی میں ۔ مجھ جیسے اور آپ جیسے ہریجن، کھتری، اچھوتوں قسم کی ذاتیوں یعنی پٹھانوں اور اسی قسم کی نچلی ذاتوں کا سایا بھی ان دارالعلوموں کے پاس نہیں پڑ سکتا تھا۔ پھر انگریز آ گیا اور اس نے پیلے اسکول قائم کردئے ، صرف 90 برس کے معمولی عرصے میں سارے ہندوستان میں ان پیلے اسکولوں کے پیلے شیطان ، نکل کر ملاء کی آنکھ میں آنکھ ڈالنے لگے۔ جن کم ذاتوں کو پڑھنے نہیں دیا جاتا تھا۔ وہی لوگ ملاء کو حقارت سے دیکھنے لگے، ملاء کے سارے حلوے مانڈے ماند پڑنے لگے۔ جب سرسید احمد خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تو ان میں سے ہزار عدد قابل ملاؤں نے فتوی دیا کہ سید احمد خان کافر ہے۔ سید احمد خان کی یونیورسٹی کی طرز پر قائم ہونے والے اسکولوں نے ملاء کے تعلیمی نظام اور اس نظام سے ہونے والے استحصال کا خاتمہ کیا ، ورنہ آج آپ اور میں کامل جاہل ہوتے، اس فورم پر کچھ لکھنے کے قابل بھی نا ہوتے، کیوں کے آپ کے نام میں ، اور میرے نام میں بھی، نا کوئی نقشبندی ہے ، نا علوی ہے، نا تھانوی ہے ۔ اور نا ہی میرے اور آپ کے والدین اس قابل ہوتے کہ آپ کو یا مجھ کو دارلعلوم دیوبند یا دارالعلوم بریلی بھیج پاتے۔

ملاء کے نظام کی یہ تباہی، ملاء کو نہیں بھائی، وہ آج بھی ملاء کے مدرسے کی نشاۃ ثانیہ کے لئے کوشاں ہے۔ اور وہی نظام واپس لانا چاہتا ہے جس میں جاہل اور عامی، قابل اور علامہ فلامہ ، مفتی مفتے کو ڈھائی فیصد زکواۃ دیں اور راجے کا باجہ ، جنگوں کی مدد سے بجتا رہے۔ اس کے لئے ملاء کو ملی روایات کی کتب، کہ اس کی مدد سے اس نے عورتوں کی تذلیل کی، غلامی کو فروغ دیا، اور معاشرت کو تباہ کیا اور معیشیت کا خاںہ خراب کیا۔ ملاء کا تعلیمی نظام تھا ہی اس لئے کہ عام آدمی جاہل رہے۔ اور ملاء کماتا رہے، قاضی (جج ) رہے، مفتی (قانون ساز ) رہے اور گورنر رہے۔

مسلم ممالک کی 1200 سال کی تاریخ گواہ ہے ، نا کوئی نہری نظام بنا، نا کوئی بنکاری نظام بنا، نا کوئی اسکولوں کا نظام بنا، نا کوئی ڈاک کا نظام بنا، ناکوئی ریلوے کا نظام بنا۔ جب کہ ملاء کے اس نظام کا خاتمہ ہوتے ہی، صرف 90 سال کی قلیل مدت میں سارے پاک و ہند مین یہ سارے نظام تشکیل پا گئے۔ پھر بھی ملاء باز نہیں آیا ، اپنے پراپیگینڈے سے۔ اور لگا ہوا ہے کہ اس برطانوی ، امریکی، کافرانہ ، نظام کو ختم کرکے وہی مدرسہ واپس لے آئے ، بیس فی صد ٹیکس کی جگہ ڈھائی فی صد ٹیکس ، ملاء کو واجب الادا ہو ، نا کہ حکومت کو اور ملاء کے نظام تعلیم سے پھر وہی مزے ہوں جو کہیں کھو گئے ہیں۔ یکساں نظام تعلیم ، ملاء کی اسی خواہش کا شاخسانہ ہے ، ورنہ کیا مشکل تھا کہ مدرسوں میں بھی فزکس ، کیمسٹری، الجبرا، حساب پڑھایا جاتا؟

ملاء کے نظریات نے سارے عالم اسلام کو تباہ کیا ہے، یہ مذہب کی آڑ میں ذاتی خواہشات کا پرچار کرتا ہے، عالم اسلام کا سب سے بڑا مرض، ٹیکس کا نا دینا ہے، اللہ تعالی نے 20 فی صد ٹیکس فرض کیا، ملاء نے سب کو ڈھائی فی صد ٹیکس باور کروادیا۔ آج یہ حال ہے کہ کسی بھی اسلامی ملک کے پاس مالی وسائیل نہیں کیوں کہ لوگ ٹیکس دینا غلط سمجھتے ہیں لیکن یہی لوگ بھاگے بھاگے مسجد کو عطیہ، زکواۃ، نذرانہ، فطرانہ دے کر سب کی زندگی کو جہنم بنا کر یہ سمجھتے ہیں اس طرح جنت میں محل تعمیر ہورہا ہے۔ یہ لوگ ملاء کے بہکاوے میں آ کر یہ نہیں سوچتے کہ " ایک دن اللہ کا نور سب کچھ جگمگا دے گا اورجس دن یہ کتاب رکھ دی جائے گی، نبیوں اور گواہوں کو بلایا جائے گا ، اس دن کسی کے ساتھ ظلم نہیں ہوگا" ، اس دن " جس شے سے بھی اضافہ ہو، اس میں پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے" کو نا ماننے والے کتنے مسلمان ہونگے، اور ملاء کا ڈھائی فی صد ادا کرنے والے کتنے؟

ملاء کے نظام تعلیم کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ ساری نہریں بس ملاء کی طرف بہتی ہیں، حکومت وقت کو کچھ تیکس نہیں ملتا۔ نا تعلیم کے لئے کچھ ہوتا ہے، نا ترقی کے لئے۔
جب ٹیکس ہی ادا نہیں ہوگا، تو سائنس فاؤنڈیشن، کی فنڈنگ کیسے ہوگی؟ ریسرچ کیسے ہوگی، قوم آگے کیسے بڑھے گی؟ چاند تک کیا چاند دیکھنے والی کمیٹی جائے گی؟
اسی تعلیمی نظام کا شاخسانہ ، ڈھائی فی صد زکواۃ جب ملاء کو ادا ہوگی تو سڑکیں کیسے بنیں گی، نہریں کیسے بنیں گی، بنیادی صحت کا نظام کیسے بنے گا، بنکاری کا نظام کیسے تعمیر ہوگا؟ پارک کیسے بنیں گے؟ تجربہ کار لوگوں کی صحت اور بچوں کی تعلیم کے لئے نظام کیسے وجود میں آئے گا۔

ملاء اپنی نثاط ثانیہ کے لئے وہی نظام لانا چاہتا ہے جس میں 40 روایات رٹ کے اور 40 سورے رٹ کے ، ڈاکٹر ، انجینئر، وکیل، استاد سے دس گنا زیادہ کمایا جاتا ہے۔ لیکن قوم کو سب سے نچھلے کھڈے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔

ملاء کے اس
دھرم میں لپٹی ملاء گردی، کیا کیا سوانگ رچائے گی
مسلی کلیاں، اجڑا گلشن، زرد خزاں دکھلائے گی۔
یورپ، جس وحشت سے اب بھی سہما سہما رہتا ہے
خطرہ ہے ، وہ وحشت میرے ملک میں آگ لگائے گی
جرمن گیس کدوں سے اب تک خون کی بدبو آتی ہے
اندھی ملاء گردی ہم کو اس رستے پر لے جائے گی
اندھے کنویں میں، جھوٹ کی ناؤ، تیز چلی تھی مان لیا
لیکن باہر روشن دنیا ، تم سے سچ بلوائے گی
نفرت میں جو پلے بڑھے ہیں، نفرت میں جو کھیلے ہیں
نفرت ان سے آگے آگے کیا کچھ نا کروائے گی
مدرسوں ، روایتوں کے متوالے ، ہر روز چراغاں کرتے ہیں
پوچھو کتنے چپ بیٹھے ہیں ، شرم انہیں کب آئے گی؟
یہ مت کھاؤ، وہ مت پہنو، عشق تو بالکل کرنا مت
بابو جی کی چھاپ تمہارے اوپر بھی لگ جائے گی
یہ مت بھولو، اگلی نسلیں ، روشن شعلہ ہوتی ہیں
آگ کریدو گے تو چنگاری دامن تک تو آئے گی
(شاعر سے معذرت کے ساتھ)
زبردست۔ اور جب ایک مولانا کے مدرسوں کو حکومت اپنی تحویل میں لے کر اصلاحات کی کوشش کرتی ہے تو وہ اپنا دھرنا لے کر اسلام آباد کی طرف مارچ کرتا ہے :)
 

جاسم محمد

محفلین
ان مختلف طبقات کو ایک معیار پر کیسے راضی کریں گے؟
مثلاً "برطانوی نظام تعلیم" میں سے وہ کون کون سی باتیں نکال دی جائیں کہ یہ اہل مدرسہ کے لیے ناصرف قابل قبول بلکہ معیاری بھی ہوجائے۔ برطانوی نظام تعلیم سے مستفید ہونے والے کیونکر اس تبدیلی پر راضی ہونگے؟
ان طبقات کو اپنا اپنا معیار بہتر کرنے لیے وسائل کیوں نہ مہیا کیے جائیں۔ دیگر کئی ترقی یافتہ ممالک میں نظام کی یکسانیت پر کوئی اصرار نہیں ہے۔
آپ برطانوی نظام تعلیم کو ایک طرف رکھ دیں۔ وہ پاکستانی نژاد جو خود برطانیہ میں مقیم ہیں قومی نصاب اپنے بچوں کو پڑھانا نہیں چاہتے۔
کچھ عرصہ قبل برمنگھم، برطانیہ جہاں اکثریت پاکستانی انگریزوں کی ہے نے اپنے بچوں کو سرکاری اسکول سے صرف اس لئے اٹھوا لیا کیونکہ وہاں جنسی تعلیم دی جا رہی تھی۔
Birmingham school stops LGBT lessons after parents protest
 

جاسم محمد

محفلین
اپنے وزیرِ اعظم کے بچوں کو بھی پاکستان بلوالیجیے گورنمنٹ اسکول میں پڑھنے کے لئے، یا پاکستان میں صرف وہی برہمن ہیں؟
صرف برہمن؟ دیوتا کہیے دیوتا حضرت! وہ نہ صرف لکھ پڑھ چکے بلکہ اربوں کھربوں کے مالک بھی ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ ان کا والد جس ملک کا وزیر اعظم کہلواتا ہے اس ملک کے وہ شہری ہی نہیں!
بوجھو تو جانیں! :)
عمران خان کے بچے اربوں کھربوں کے مالک اس لئے ہیں کیونکہ بچوں کی والدہ برطانوی پاؤنڈز میں ارب پتی ہے۔ یہ دولت بچوں کے نانا نے برطانیہ کی لوٹ مار کر کے حاصل نہیں کی بلکہ یہ جدی پشتی معروف یہودی گولڈسمتھ خاندان سے تعلق رکھنے والے بہت امیر سرمایہ دار لوگ ہیں۔
اب چونکہ بچوں کی ماں انگریز ہے اور باپ فل ٹائم سیاست میں تھا تو عملا ان کی کفالت ماں کو ہی کرنی تھی۔
 

محمد سعد

محفلین
ایک بار پھر ہم موضوع سے ادھر ادھر جھولنے لگ گئے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ یکساں نظام تعلیم کی بات کرنے والوں کے نزدیک اس یکسانیت سے مراد کیا ہوتی ہے۔
جیسا کہ عثمان نے بہت عمدہ الفاظ میں کہا۔
"یکساں نظام تعلیم" سے کیا مراد ہے؟ یکساں وسائل، یکساں معیار، یکساں نصاب یا یکساں زبان؟
یا پھر یہ محض ایک کلیشے ہے جو مسئلہ کے تجزیہ اور اس کی پیچیدگیوں پر غور کیے بغیر ایک عمومی نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک بار پھر ہم موضوع سے ادھر ادھر جھولنے لگ گئے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ یکساں نظام تعلیم کی بات کرنے والوں کے نزدیک اس یکسانیت سے مراد کیا ہوتی ہے۔
یکساں نظام تعلیم سے یکساں قومی نصاب ہے جو محکمہ تعلیم ملک کے ہر بچے کیلئے طے کرتا ہے۔ کم از کم ہم جو مغرب میں مقیم ہیں نے یہاں یہی دیکھا کہ جو نصاب محکمہ تعلیم بناتا ہے وہ ملک کر ہر سکول خواہ وہ سرکاری ہو، مذہبی ہو یا نجی ہو میں لاگو ہو جاتا ہے۔ اس یکساں سرکاری نصاب سے ہٹ کر تعلیم نہیں جا سکتی۔ ایسا کرنے والے اسکولوں کا لائسنس کینسل کر دیا جاتاہے۔ غالبا عمران خان ایسا ہی سسٹم پاکستان میں متعارف کروانا چاہتے ہیں۔ جہاں اسکول سسٹم مختلف ہونے کے باوجود نصاب ایک قومی ہی ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں مغرب میں قومیں جبکہ ادھر پاکستان میں مختلف تعلیمی نصاب کی وجہ سے جتھے یا ہجوم ہیں۔ اگر ہمیں ایک قوم بننا ہے تو کم از کم تعلیمی نصاب ایک جیسا کرنا ہوگا۔ ذرا سوچئے ایچی سن کالج سے نکلنے والا اور ایک مدرسے فارغ التحصیل پاکستانی ایک دوسرے کو ہم وطن کیسے تسلیم کرے گا؟
 

زیک

مسافر
یکساں نظام تعلیم سے یکساں قومی نصاب ہے جو محکمہ تعلیم ملک کے ہر بچے کیلئے طے کرتا ہے۔ کم از کم ہم جو مغرب میں مقیم ہیں نے یہاں یہی دیکھا کہ جو نصاب محکمہ تعلیم بناتا ہے وہ ملک کر ہر سکول خواہ وہ سرکاری ہو، مذہبی ہو یا نجی ہو میں لاگو ہو جاتا ہے۔ اس یکساں سرکاری نصاب سے ہٹ کر تعلیم نہیں جا سکتی۔ ایسا کرنے والے اسکولوں کا لائسنس کینسل کر دیا جاتاہے۔ غالبا عمران خان ایسا ہی سسٹم پاکستان میں متعارف کروانا چاہتے ہیں۔ جہاں اسکول سسٹم مختلف ہونے کے باوجود نصاب ایک قومی ہی ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں مغرب میں قومیں جبکہ ادھر پاکستان میں مختلف تعلیمی نصاب کی وجہ سے جتھے یا ہجوم ہیں۔ اگر ہمیں ایک قوم بننا ہے تو کم از کم تعلیمی نصاب ایک جیسا کرنا ہوگا۔ ذرا سوچئے ایچی سن کالج سے نکلنے والا اور ایک مدرسے فارغ التحصیل پاکستانی ایک دوسرے کو ہم وطن کیسے تسلیم کرے گا؟
کونسے مغرب کی بات کر رہے ہیں؟
 

محمد سعد

محفلین
یکساں نظام تعلیم سے یکساں قومی نصاب ہے جو محکمہ تعلیم ملک کے ہر بچے کیلئے طے کرتا ہے۔ کم از کم ہم جو مغرب میں مقیم ہیں نے یہاں یہی دیکھا کہ جو نصاب محکمہ تعلیم بناتا ہے وہ ملک کر ہر سکول خواہ وہ سرکاری ہو، مذہبی ہو یا نجی ہو میں لاگو ہو جاتا ہے۔ اس یکساں سرکاری نصاب سے ہٹ کر تعلیم نہیں جا سکتی۔ ایسا کرنے والے اسکولوں کا لائسنس کینسل کر دیا جاتاہے۔ غالبا عمران خان ایسا ہی سسٹم پاکستان میں متعارف کروانا چاہتے ہیں۔ جہاں اسکول سسٹم مختلف ہونے کے باوجود نصاب ایک قومی ہی ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں مغرب میں قومیں جبکہ ادھر پاکستان میں مختلف تعلیمی نصاب کی وجہ سے جتھے یا ہجوم ہیں۔ اگر ہمیں ایک قوم بننا ہے تو کم از کم تعلیمی نصاب ایک جیسا کرنا ہوگا۔ ذرا سوچئے ایچی سن کالج سے نکلنے والا اور ایک مدرسے فارغ التحصیل پاکستانی ایک دوسرے کو ہم وطن کیسے تسلیم کرے گا؟
کیا یہاں موجود باقی افراد بھی اس تعریف سے اتفاق کرتے ہیں؟
براہ مہربانی اس موضوع پر اپنی آراء پیش کریں تاکہ محض ایک کلیشے جملے سے آگے گفتگو بڑھ سکے۔
 
Top