ایک اور تازہ کاوش برائے اصلاح

اے مری رات کے ستارے سُن
میری خاموشیوں کے نالے سُن

کیوں زمانے سے اپنا درد کہا
اب یہ سب کھوکھلے دِلاسے سُن

فصل جن کے سروں کی کاٹی گئی
بولتے کیا ہیں اُن کے لاشے سُن

شہر میں اس سکوت کے پیچھے
شور کرتے ہیں جو وہ نعرے سُن

کل تری بزم یوں سجے نہ سجے
آج کی رات شکوے سارے سُن

سُن ذرا پیار کی حکایت سُن
سُن مرے درد کے فسانے سُن

کیسا منتر پڑھا گیا کہ شکیل
ہوش والے ہوئے دِوانے سُن

محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن

رہنمائی اور حوصلہ افزائی کا منتظر
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ اصلاح کی ضرورت نہیں
اور یہ بھی خوشی ہوئی کہ اس غزل میں اس پر عمل کیا گیا ہے جس کا ابھی دوسری غزل میں مشورہ دے چکا ہوں
 
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ اصلاح کی ضرورت نہیں
اور یہ بھی خوشی ہوئی کہ اس غزل میں اس پر عمل کیا گیا ہے جس کا ابھی دوسری غزل میں مشورہ دے چکا ہوں
حوصلہ افزائی کا شکریہ استادِ محترم،
میں نے کبھی شعر گوئی شعوری کوشش کے تحت نہیں کی اس لئے موضوع بھی شعوری نہیں ہوتے۔
وقت بڑا ظالم مرہم ہے، درد کو پالتے رہنے کی تمام تر خواہش کے باوجود زندگی کی جانب کھینچ لاتا ہے۔ یہی ہو رہا ہے انشااللہ مزید بہتری بھی آ ہی جائے گی۔
 
Top