مجید امجد کیا روپ دوستی کا؟ کیا رنگ دشمنی کا؟ ۔ مجید امجد

فرخ منظور

لائبریرین
کیا روپ دوستی کا؟ کیا رنگ دشمنی کا؟
کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا

اک تنکا آشیانہ، اک راگنی اثاثہ
اک موسمِ بہاراں، مہمان دو گھڑی کا

آخر کوئی کنارا اس سیلِ بےکراں کا؟
آخر کوئی مداوا اس دردِ زندگی کا؟

میری سیہ شبی نے اک عمرآرزو کی
لرزے کبھی افق پر تاگا سا روشنی کا

شاید اِدھر سے گزرے پھر بھی ترا سفینہ
بیٹھا ہوا ہوں ساحل پر نے بلب کبھی کا

اس التفات پر ہوں لاکھ التفات قرباں
مجھ سے کبھی نہ پھیرا رخ تو نے بےرخی کا

اب میری زندگی میں آنسو ہیں اور نہ آہیں
لیکن یہ ایک میٹھا میٹھا سا روگ جی کا

او مسکراتے تارو! او کھلکھلاتے پھولو!
کوئی علاج میری آشفتہ خاطری کا

(مجید امجد)



 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوبصورت!!
فرخ بھائی ، بہت شکریہ اس اعلیٰ غزل میں شریک کرنے کا ۔ مجید امجد نے اس پائے کی غزل بھی لکھی ہے یہ معلوم نہ تھا ۔ میرا تعارف تو نظموں کی حد تک ہی تھا ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوبصورت!!
فرخ بھائی ، بہت شکریہ اس اعلیٰ غزل میں شریک کرنے کا ۔ مجید امجد نے اس پائے کی غزل بھی لکھی ہے یہ معلوم نہ تھا ۔ میرا تعارف تو نظموں کی حد تک ہی تھا ۔

جی ان کی غزلیں بھی بہت کمال ہیں۔ مجید امجد کی یہ غزل تو بہت مشہور ہے۔
 
Top