جب بھی فوج مداخلت کرتی ہے نتائج برے ہوتے ہیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

جاسم محمد

محفلین
جب بھی فوج مداخلت کرتی ہے نتائج برے ہوتے ہیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
اکتوبر 19, 2019
F14EBE66-0E54-48E4-BEBC-87924D240810_cx1_cy28_cw84_w1023_r1_s.jpg

لاہور —
سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ’’جب بھی کوئی فوجی ڈکٹیٹر ملکی معاملات میں مداخلت کرتا ہے تو حالات خراب ہوتے ہیں‘‘۔

لاہور میں عاصمہ جہانگیر 2019ء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل پانچ ہر شہری کو آئین کے ساتھ وفاداری پر زور دیتا ہے۔ بقول ان کے، ’’جنرل مرزا، جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا اور جنرل مشرف نے آئین پاکستان کو اپنے پیروں تلے روندا اور لوگوں کی آواز کو دبایا اور اُنہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا‘‘۔

’قانون کی حکمرانی‘ کے عنوان پر نشست سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے مزید کہا کہ ’’آئین نے لوگوں کو جو بنیادی حققوق دیے ہیں عدالتیں اُس کی محافظ ہیں‘‘۔

ان کے الفاظ میں، "جب آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ آئین کے ساتھ وفادار ہیں تو خواتین و حضرات اِسی میں ہماری نجات ہے اور ہمیشہ سے اِسی میں ہماری نجات رہی ہے۔ اور جب بھی ہم اِس سے دور ہوئے تو ہم نے نتائج دیکھ لیے ہیں۔ ہم پہلے ہی آدھا ملک کھو چکے ہیں اور باقی آدھے ملک کا حال آپ دیکھ رہے ہیں۔ جب بھی کوئی ڈکٹیٹر آتا ہے تو نتائج ہمیشہ لوگوں اور ملک کے لیے برے ہوتے ہیں"۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ’’جنرل ضیا نے اپنے لیے جو ریفرینڈم کرایا تھا اُس کے نتائج ماضی میں کرائے گئے تمام عام انتخابات کے نتائج سے زیادہ تھے اور مشرف والے ریفرینڈم کے نتائج اُس سے بھی زیادہ تھے‘‘۔

بقول ان کے، "ضیا کے ریفرینڈم کے وقت میں ہر ملنے والے شخص سے ہوچھتا تھا کہ کیا تم نے ووٹ دیا اور وہ کہتا تھا نہیں۔ میں کسی بھی ایسے شخص کو نہیں ملا جس نے کہا ہو کہ ہاں میں نے ریفرینڈم کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ لیکن پھر بھی اُس ریفرینڈم کے نتائج 98 فیصد سے زیادہ تھے۔ مشرف نے بھی سنہ 2002ء میں ریفرینڈم کرایا اور وہ ریفرینڈم بھی 98 فیصد مشرف کے حق میں تھا، جس کے نتیجے میں مشرف اگلے پانچ سال کے لیے صدر بن گئے"

’اظہار رائے کی آزادی‘ کے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے، نامور صحافی حامد میر نے کہا کہ ’’جس ملک کی عدلیہ آزاد نہ ہو اور جس ملک کی پارلیمنٹ آزاد نہ ہو اُس ملک کا میڈیا بھی آزاد نہیں ہو سکتا‘‘۔

حامد میر نے اپنی گفتگو میں کہا کہ عدلیہ کا ’’جو بھی جج تھوڑی سی آزادی اظہار کی حمایت میں سامنے آتا ہے آپ اُس کو بھی عبرت کا نمونہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو سیاست دان تھوڑا سچ بول دے اُس کو بھی آپ عبرت کا نمونہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو صحافی سچ لکھتا ہے اُس کو بھی آپ عبرت کا نمونہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔

ان کے بقول، "پاکستان کے وہ ادارے جنہوں نے میڈیا پر سینسر شپ لگائی، انہوں نے اِس ریاست کی نظریں بھی جھکا دی ہیں۔ اِس ریاست کی گردن بھی جھکا دی ہے۔ اور اُن میں اتنی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ وہ مانیں کہ ہاں ہم نے میڈیا پر قدغنیں لگائی ہیں‘‘۔

حامد میر نے کہا کہ ’’پاکستان کے حکمران ایک طرف تو بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ذرائع ابلاغ پر پابندیاں لگانے کی مذمت کرتے ہیں اور دوسری طرف اُن کے اپنے ملک میں آئے روز میڈیا پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں‘‘۔

انھوں نے کہا کہ "یہ کہاں کی حب الوطنی ہے۔ پہلے جب اُنہوں نے آصف زرداری صاحب پر پابندی لگائی تو ہم نے پوچھا کہ آپ نے پابندی کیوں لگائی ہے۔ تو جواب آیا کہ ہم آصف زرداری کی کوریج کی اجازت نہیں دے سکتے، کیونکہ ان پر مقدمہ چل رہا ہے۔ پھر مریم نواز پر پابندی لگا دی۔ ہم نے پوچھا کیوں لگائی تو جواب ملا کہ وہ سزا یافتہ ہے اُس کی کوریج کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اب مولا فضل الرحمٰن پر پابندی لگا دی ہے۔ جواب دیا کہ اِس بات کا کوئی جواب نہیں ہے۔ بس مولانا صاحب کی کوریج نہ کی جائے‘‘۔

حامد میر نے کہا کہ ’’اِس وقت مودی جو کشمیر کے ساتھ کر رہا ہے، مودی وہاں جو میڈیا پر پابندیاں لگا رہا ہے وہ بہت غلط کر رہا ہے۔ آپ مودی کے راستے پر چلتے ہوئے، پاکستانی ذرائع ابلاغ پر پابندیاں لگا رہے ہیں؟"

کانفرنس میں شریک ڈان اخبار کے صحافی سرل المیڈا نے کہا کہ وہ خود ’’ایک خوفناک صورتحال‘‘ سے گزرے ہیں۔ اور یہ کہ، محض ایک انٹرویو کی بناد پر اُن کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا گیا اور اُن کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا۔

بقول ان کے، "جب آپ میڈیا کی آزادی کی بات کرتے ہیں اور جب آپ لوگوں کے بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں تو عدالتیں ہی لوگوں کے حقوق کا خیال کرتی ہیں اور اُنہیں اُن کے بنیادی حقوق دلواتی ہیں"۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی آزادی، حقوق نسواں، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی آواز اٹھانے والی عاصمہ جہانگیر کی یاد میں دو روزہ کانفرنس سجائی گئی ہے، جس میں پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں سے وکلا، صحافی، لکھاری، ادیب، سیاستدان اور سول سوسائٹی کے نمائندے شریک ہیں۔
 
جابر حکمران کے سامنے حق بات کہنا کسی بھی فرد کے لیے انفرادی طور پر جہاد کا اعلیٰ ترین درجہ ہے (انفرادی طور پر تلوار اٹھانا فرد پر لازم نہیں آتا).

ظالم و جابر حکمران کے سامنے حق بات کہنا گویا امام احمد بن حنبل کی یاد تازہ کرنا ہے جن کے بارے میں مختار مسعود نے کیا خوب کہا کہ جن کمروں کو بعض حکمران کوڑے مارنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ہیں ان پر لوگ صدیوں کا بوجھ اٹھالیتے ہیں۔ آفرین ہے حق کہنے والوں پر!
 

یاسر شاہ

محفلین
جابر حکمران کے سامنے حق بات کہنا کسی بھی فرد کے لیے انفرادی طور پر جہاد کا اعلیٰ ترین درجہ ہے (انفرادی طور پر تلوار اٹھانا فرد پر لازم نہیں آتا).

ظالم و جابر حکمران کے سامنے حق بات کہنا گویا امام احمد بن حنبل کی یاد تازہ کرنا ہے جن کے بارے میں مختار مسعود نے کیا خوب کہا کہ جن کمروں کو بعض حکمران کوڑے مارنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ہیں ان پر لوگ صدیوں کا بوجھ اٹھالیتے ہیں۔ آفرین ہے حق کہنے والوں پر!

واہ خلیل بھائی کیا جرّات مندانہ مراسلہ پیش کیا-جج نے ما شاء الله بڑی دلیرانہ تقریر کی ہے -الله جل جلالہ جج صاحب کی حفاظت فرمائے آمین -ویسے اس معاملے میں ہر شخص کا امتحاں ہوتا ہے صرف ججوں کا نہیں ،ایک عام آدمی کا بھی کہ جب ایک جابر حکمران مسلّط کر دیا جاتا ہے یہ دیکھنے کے لیے کہ کون اس کے خلاف کلمۂ حق بلند کرتا ہے اور کون نہیں ؟-میں تو ایک بزدل آدمی ہوں اس لیے سیاسی تبصروں سے دور ہی رہتا ہوں -کبھی ملکی حالات خراب ہوں تو اخبار پڑھنے سے اخلاق خراب ہوجاتے ہیں اور غصّہ ادھر ادھر نکلتا ہے، جیسے آجکل:) -اپنی سنائیے،آپ خاصے دلیرانہ تبصرے کرتے ہیں ،دور پرے کی تو بات رہنے دیجیے ،کیا اپنے شہر کراچی میں ظالم جابر حکمران الطاف حسین کے سیاہ دور میں کبھی آپ نے بھی کوئی نعرہ حق بلند کیا ؟چلو سامنے نہ کیا ہو ایک مراسلہ ہی کوٹ کر دیجیے ان ساڑھے سات ہزار مراسلوں میں سے کہ جس میں الطاف چریے کے خلاف کچھ کھل کے لکھا ہو،جب موصوف کراچی کی اندھیر نگری کے چوپٹ راجہ تھے اور ٹیلی فون پہ اوٹ پٹانگ خطاب فرمایا کرتے تھے کہ ٹی وی فرج بیچو کلاشن خریدو، ہمیں معلوم ہے ڈرل مشین سے جسم میں کیسے سوراخ کیا جاتا ہے،،بچہ پیدا ہونے کا پورا پراسس بیان کرتے تھے وغیرہ وغیرہ افسوس چند بیہودہ لوگ ان تقریروں پر بھی "جی بھائی ،جی بھائی" کہتے نہیں تھکتے تھے -


آپ سے یہ سوال اس لیے بھی کر رہا ہوں کہ آپ پی ٹی آئی،عمران خان، طالبان،پاک فوج اور اسٹبلشمنٹ کی برملا ،بار بار اور بعض اوقات بیجا مخالفت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،اور اس وقت ان سب سے اختلاف کرنے میں آپ کا ایک ہی ہمنوا ہے اور وہ ہے الطاف حسین جس کا ان سب اختلافات کے پیچھے ایک ہی مقصد ہے جس کو ٹیبل پہ طبلہ بجا کر وہ بیان بھی کرتا ہے "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا.... حالانکہ موصوف کو خبر نہیں کہ اقبال نے اس نظریے سے بعد میں رجوع کر لیا تھا اور اس شعر کا نیا ورژ ن پیش کیا تھا :

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

افسوس کہ پاکستان میں مہاجروں کو جتنا "چ" بنایا گیا شاید ہی کسی کو بنایا گیا ہو -ان کے اپنے ہی رہنماؤں نے، غیروں کو تو رہنے دیجیے ،ان سے اپنے ہی مہاجروں اور انصاریوں کا خون کروایا ،پھر شہیدان حق پرست قبرستان بنوا کر لاشوں پر سیاست کی گئی -اس لیے ہمیں چاہیے کہ ظالم حکمران کے خلاف نعرہ حق بلند کرنے اور کسی کے بھڑکاؤ بھاشن میں آکر unguided missile بننے میں فرق کرنا سیکھیں -کراچی کے انسانوں اور کراچی کی ان دیواروں میں بہر حال فرق ہونا چاہیے جن پر محض ذاتی عناد کے سبب "عمران زانی" ،"عمران کتا"،"عمران یہودی ایجنٹ" لکھوا دیا گیا ہو-بلکہ اس سے بڑھ کر رونا تو یہ ہے کہ کراچی کی دیواروں کی بھی اصلاح ہو جائے مگر کراچی کے انسانوں کے ذہن پہ کندہ کیے گئے یہ بے سر و پا نقوش کبھی مٹ نہ سکیں - کیا خوب کہا ہے کسی نے اس وقت مسلمانوں کو جذباتیت نہیں جذبے کی ضرورت ہے -

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
فی زمانہ ہمارے پیارے ملک میں حق صرف اُن لوگوں کی زبان پر جاری ہوتی ہے جن کے اپنے ذاتی چھوٹے موٹے تخت کے پائے ہل چکے ہوتے ہیں مثال کے طور پر ریٹائرڈ جنرلز، از کار رفتہ سول سرونٹس، معتوب ججز، کواکب کی گردش میں آیاہوا میڈیا وغیرہ وغیرہ اور ہر کوئی"آدھے حق" سے بس دوسروں کے پول کھولتا ہے!

یہ ایک تلخ حقیقت ہے پاکستان میں جب بھی جنرلز نے آئین کو کالعدم یا معطل کیا تو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے ہمیشہ ان کا ساتھ دے کر ان کے اس فعل کو قانونی کور اور جواز مہیا کیا!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ ایک تلخ حقیقت ہے پاکستان میں جب بھی جنرلز نے آئین کو کالعدم یا معطل کیا تو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے ہمیشہ ان کا ساتھ دے کر ان کے اس فعل کو قانونی کور اور جواز مہیا کیا!
اور دوسری تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو جج حضرات سیاسی حکومتوں کے "بڑے معاملات" میں جانبداری کر کے کرتے رہے ہیں ۔
 

فلک شیر

محفلین
سیاست گر و عساکر ، ہر دو ناخدایانِ ملت اصل میں چاہتے یہ ہیں کہ پاپوش شریف ان کے ہاتھ میں ہو اور باقی سب انواع و اقسامِ خلق ان کے آگے کالانعام جگالی کیا کریں اور اس سلسلہ میں ان کی باہمی چشمک جاری رہتی ہے ۔ چونکہ پاپوش ہائے عساکر حجم میں نسبتاً بڑے ہوتے ہیں ، سو وہ اپنا حق اولیٰ گردانتے ہیں اور عقلمند سیاست گر ابتداً انہی کے دست شفقت سے اکھاڑے میں اترتے ہیں ، رفتہ رفتہ البتہ ان پہ "سول بالادستی" کا جنون طاری ہوتا جاتا ہے ، جو انہی پاپوش ہائے مبارک سے نکالا جاتا ہے :)
 
Top