سوچا ہے اس جہان میں بن کے رہیں گے اجنبی----برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
--------
مفتَعِلن مفاعلن مفتَعِلن مفاعلن
-----------
سوچا ہے اس جہان میں بن کے رہیں گے اجنبی
اپنا نہیں ہے دیس یہ آنا نہیں ہے پھر کبھی
-----------
اچھا لگے نہ کچھ مجھے دل بھی بہت اداس ہے
لگتا نہیں ہے دل یہاں رہتی ہے اس میں بے کلی
------------
دل میں مرے تُو ڈال دے اپنا ہی خوف اے خدا
دنیا کا ڈر نکال دے دل میں تری ہو روشنی
-------------
تیرا ہی حکم مان کر دنیا سے پیار ہے کیا
وہ ہی مرا نصیب ہو میری ہو جس میں بہتری
-------------
رکھنا مجھے امان میں تُو ہی مرا ہے آسرا
تیرے لئے ہے دوستی تیرے لئے ہے دشمنی
-------------
کرنا پڑے گا کام اب دیر بہت ہے ہو چکی
یا رب اسے نکال دے جتنی ہے مجھ میں کاہلی
----------------
لیتا ہو نام آپ کا جتنا بھی مجھ سے ہو سکا
سیکھی نہیں ہے آپ سے میں نے کبھی بھی سرکشی
------------------
 

عظیم

محفلین
سوچا ہے اس جہان میں بن کے رہیں گے اجنبی
اپنا نہیں ہے دیس یہ آنا نہیں ہے پھر کبھی
----------- پہلے میں 'کے' کی جھہ۔مکمل 'کر' لائیں روانی کے لیے۔ دوسرے میں کہیں 'یہاں' کی کمی لگتی ہے

اچھا لگے نہ کچھ مجھے دل بھی بہت اداس ہے
لگتا نہیں ہے دل یہاں رہتی ہے اس میں بے کلی
------------ 'لگے نہ' وہ معنی پیدا کرتا ہوا نہیں لگ رہا جو درکار ہیں، یعنی کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ اور بیان کے اعتبار سے بھی عجیب سا ہے۔ دوسرے میں 'یہاں' سے مراد یہ جہان ہے یہ بھی واضح نہیں۔ 'دل بھی بہت اداس ہے' کے ٹکڑے کو ہٹا کر دنیا وغیرہ کا ذکر ہو جائے تو بہتر ہو

دل میں مرے تُو ڈال دے اپنا ہی خوف اے خدا
دنیا کا ڈر نکال دے دل میں تری ہو روشنی
------------- 'دل میں تری ہو روشنی' پورے شعر سے بے ربط لگ رہا ہے

تیرا ہی حکم مان کر دنیا سے پیار ہے کیا
وہ ہی مرا نصیب ہو میری ہو جس میں بہتری
------------- 'ہے' کی جگہ 'تھا' ٹھیک رہے گا۔ 'وہ ہی' کے بارے میں بہت بار بات ہوئی ہے کہ 'وہی' بہتر ہوتا ہے۔ بے ربطی بھی ہے شعر میں

رکھنا مجھے امان میں تُو ہی مرا ہے آسرا
تیرے لئے ہے دوستی تیرے لئے ہے دشمنی
------------- 'تو ہی ہے میرا آسرا' بہتر ہو گا۔ دوستی اور دشمنی کس سے ہو گی اس کا ذکر نہیں۔
اور اس بات کا ربط بھی پہلے مصرع سے سمجھ نہیں آتا

کرنا پڑے گا کام اب دیر بہت ہے ہو چکی
یا رب اسے نکال دے جتنی ہے مجھ میں کاہلی
---------------- پہلا بحر میں نہیں لگ رہا۔

لیتا ہو نام آپ کا جتنا بھی مجھ سے ہو سکا
سیکھی نہیں ہے آپ سے میں نے کبھی بھی سرکشی
------------------ لیتا ہو شاید ٹائپو ہے۔ لیتا ہوں کی ہونا چاہیے۔ اور 'ہو سکا' کی جگہ بھی 'ہو سکے' بہتر ہو گا۔
 
الف عین
عظیم
(اصلاح کے بعد دوبارا )
------------
اپنا نہیں جہان یہ ہم ہیں یہاں پہ اجنبی (اگر --(یہاں پر اجنبی) لکھوں تو پر وزن میں نہیں آتا)
دل کو لگائیں کیوں یہاں آنا نہیں ہے پھر کبھی
------------
دل ہی اداس ہو گیا اچھا لگے نہ یہ جہاں
اب تو نظر ہے حشر پر دل کو تبھی ہے بے کلی
------------
دل میں مرے تُو ڈال دے اپنا ہی خوف اے خدا
دنیا کا ڈر نہ ہو مجھے دل سے نکال بزدلی
---------
دنیا کا پیار چھوڑ کر تجھ سے ہے دل لگا لیا
مجھ کو وہی عطا ہو اب جس میں مری ہو بہتری
-------------
تیری امان چاہئے تیرے لئے مرا ہے سب
------یا
تیری امان چاہئے تجھ سے ملی ہے زندگی
تیرے لئے ہے دوستی تیرے لئے ہی دشمنی
------------
ہو یہ مرے نصیب میں چلوں تری ہی راہ پر
یا رب اسے نکال دے جتنی ہے مجھ میں کاہلی
--------------
لیتا ہوں نام آپ کا جتنا بھی مجھ سے ہو سکے
سیکھی نہیں ہے آپ سے میں نے کبھی بھی سرکشی
-----------
میرا نہیں تھا کچھ یہاں سب یہ عطا ہے آپ کی
بخشا سکون آپ نے مجھ کو ملی ہے ہر خوشی
--------------
 

الف عین

لائبریرین
اپنا نہیں جہان یہ ہم ہیں یہاں پہ اجنبی (اگر --(یہاں پر اجنبی) لکھوں تو پر وزن میں نہیں آتا)
دل کو لگائیں کیوں یہاں آنا نہیں ہے پھر کبھی
------------ جہاں پہ اور پر دونوں ممکن ہوں تو پر استعمال کرنا چاہیے ورنہ جہاں بحر میں صرف پہ (یعنی پ) کی گنجائش ہو، وہاں اسی کو رکھا جاتا ہے
میں اکثر کہتا ہوں کہ روانی اس بیانیہ میں بہتر لگتی ہے جو نثر کے قریب یو۔ اب پہکے مصرع کو ہی لو
'یہ جہاں' بہتر لگتا ہے کہ 'جہان یہ'؟

دل ہی اداس ہو گیا اچھا لگے نہ یہ جہاں
اب تو نظر ہے حشر پر دل کو تبھی ہے بے کلی
------------ ایک ٹکڑے میں ماضی کا صیغہ کیوں؟
دل بھی اداس ہے بہت.....
یہاں دل بھی بہت.. نثر کے قریب ہے مگر 'بِبہت' میں تنافر ہو جاتا ہے

دل میں مرے تُو ڈال دے اپنا ہی خوف اے خدا
دنیا کا ڈر نہ ہو مجھے دل سے نکال بزدلی
--------- دل سے ہو دور بزدلی. بہتر ہو گا

دنیا کا پیار چھوڑ کر تجھ سے ہے دل لگا لیا
مجھ کو وہی عطا ہو اب جس میں مری ہو بہتری
------------- دنیا کا موہ کہو تو کیسا ہے؟
... جس میں ہو میری بہتری... بہتر ہو گا

تیری امان چاہئے تیرے لئے مرا ہے سب
------یا
تیری امان چاہئے تجھ سے ملی ہے زندگی
تیرے لئے ہے دوستی تیرے لئے ہی دشمنی
------------ دوسرا متبادل بہتر ہے اس صورت میں یہ بھی مطلع ہو جاتا ہے

ہو یہ مرے نصیب میں چلوں تری ہی راہ پر
یا رب اسے نکال دے جتنی ہے مجھ میں کاہلی
-------------- دو لخت ہے، پہلے مصرع میں کچھ پھرتی کا ذکر ہونا تھا، جیسے
تیرے ہر ایک حکم کو دوڑ کے میں کروں ادا

لیتا ہوں نام آپ کا جتنا بھی مجھ سے ہو سکے
سیکھی نہیں ہے آپ سے میں نے کبھی بھی سرکشی
----------- کس سے خطاب ہے؟ وہ کون ہے جو سرکشی سکھا سکتا تھا؟ یہ شعر ہی نکال دو

میرا نہیں تھا کچھ یہاں سب یہ عطا ہے آپ کی
بخشا سکون آپ نے مجھ کو ملی ہے ہر خوشی
------------- ملی کی جگہ دی کہا جائے تو بہتر ہو، الفاظ بدل کر۔
 
Top