جاسم محمد

محفلین
تحریک انصاف کی حکومت کو چاہیے کہ مولانا صاحب کو ایک آدھ کنٹینر فراہم کرے، دھرنے کے ممکنہ انتظامات کرے اور ان کا کیتھارسس ہونے دے۔ پھر، یہ واپس چلے جائیں گے۔ بہتر ہو گا کہ ایف نائن پارک میں انتظام کر دیا جائے۔ تاہم، جس طرح تحریک انصاف کے رہنما سن دو ہزار چودہ میں ڈی چوک آنے پر بضد تھے، اسی مثال کے پیش نظر موجودہ دھرنے باز بھی اسی 'سہولت' کا تقاضا کریں گے۔ کاش، حکومت اور اپوزیشن مل کر احتجاج اور دھرنے کے حوالے سے کوئی معاملہ طے کر لیں تاکہ عوام کو دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بہتر ہو گا کہ مولانا صاحب جلسہ وغیرہ کر کے تشریف لے جائیں۔ یہ ملک ایسے دھرنوں کا متحمل نہیں۔
ویسے سچ پوچھیں تو حکومت کو اس دھرنے کا بہت فائدہ ہوا ہے۔ کیونکہ جب ماضی میں تحریک انصاف نے ن لیگی حکومت کے خلاف دھرنا دیا تھا تو ملک کی تمام اپوزیشن "نظام" بچانے کیلئے حکومت کی حمایت میں کھڑی ہو گئی تھی۔
اب وہی اپوزیشن نظام گرانے کیلئے خود دھرنا دینے جا رہی ہے اور تحریک انصاف حکومت ماضی کی طرح پھر اکیلی ہے۔ اس واضح منافقت سے قوم کو حقیقی سیاسی قیادت اور کرپٹ مفاد پرست سیاسی ٹولے میں فرق ازبر ہو جائے گا۔
 

فرقان احمد

محفلین
ویسے سچ پوچھیں تو حکومت کو اس دھرنے کا بہت فائدہ ہوا ہے۔ کیونکہ جب ماضی میں تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف دھرنا دیا تھا تو ملک کی پوری اپوزیشن "نظام" بچانے کیلئے حکومت کی حمایت میں کھڑی ہو گئی تھی۔ اب وہی اپوزیشن خود دھرنا دینے جا رہی ہے اور تحریک انصاف حکومت پھر اکیلی ہے۔ اس منافقت سے قوم کو حقیقی سیاسی قیادت اور کرپٹ مفاد پرست ٹولے میں فرق ازبر ہو جائے گا۔
احتجاج تک معاملہ درست ہے۔ دھرنا دینا گو کہ اپوزیشن کا آئینی و قانونی حق ہے تاہم اس حوالے سے عوام کو اذیت سے دوچار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو اس دھرنے پر اُکسانے میں وزیراعظم عمران خان کا اپنا ہاتھ بھی ہے۔ جب آپ مخالف سیاسی قوتوں کو باقاعدہ چیلنج کریں گے تو پھر ریسپانس کا آنا قدرتی بات ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ خان صاحب کو احتسابی منجن بذاتِ خود فروخت کر کے احتسابی عمل کو سیاسی رنگ دینے سے دانستہ طور پر گریز کرنا چاہیے تھا تاہم وہ حکومت میں آنے کے بعد بھی مخالفین کو نام لے لے کر جیلوں میں ڈالنے کی باتیں کرتے رہے۔ یہ دھرنا اسی سیاسی چپقلش کا ایک فطری نتیجہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جرنیلوں سے نہیں ڈرتا، انہیں سیاسی تجزیے کی بجائے ہتھیاروں سے متعلق بات کرنی چاہئے: مفتی کفایت اللہ
16/10/2019 نیوز ڈیسک



جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مفتی کفایت اللہ نے کہا ہے کہ میں جرنیلوں سے ڈرتا نہیں ہوں۔ جنرنیلوں کو سیاسی تجزیے دینے کی بجائے ہتھیاروں سے متعلق بات کرنی چاہئے ۔

دنیا نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مفتی کفایت اللہ نے کہا کہ عمران خان کو لانے سے پہلے ان کا منہ کھول کر دانت نہیں گنے گئے۔ ہم نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ ہم اقوام متحدہ میں 16 ممالک اکٹھے نہیں کر سکے اور سارا نزلہ ملیحہ لودھی پر گرا دیا ہے۔

مفتی کفایت اللہ کا کہنا تھا کہ آج کشمیر بک گیا ہے اور اب صرف بات مظفر آباد کی ہو رہی ہے اور پھر اسلام آباد کی ہو گی۔ یہ بچہ سقہ کی حکومت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی نا اہل لوگوں کو منصب پر بٹھایا جائے تو ایسے ہی ہو گا۔ مولانا رومی نے کہا ہے کہ ایک ہزار آدمی کو قتل کر دیا جائے، یہ اتنا بڑا گنا ہ نہیں ہے جتنا ایک نا اہل آدمی کو ایک ہزار لوگوں کا سردار بنا دینا ہے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان اب کشتی کا بوجھ ہیں
16/10/2019 حبیب اکرم

عربی کہاوت ہے ، ”اکثر باتیں کہنے والے کو کہتی ہیں ، ہمیں مت کہو‘‘۔ مطلب یہ کہ جو بات غیر ضروری طور پر کی جائے وہ اپنے گلے آجاتی ہے۔ اس کہاوت سے جڑی حکایت ہے کہ کوئی بادشاہ ایک ٹیلے پر اپنے غلام اور وزیر کے ساتھ کھڑا تھا۔ غلام مسلسل ٹیلے کی ڈھلوان کو دیکھتا جارہا تھا۔ بادشاہ نے اس کی محویت دیکھی تو پوچھا ، کیا دیکھتا ہے۔ غلام نے فوراً بات بنائی اور کہا، ”بادشاہ سلامت میں سوچ رہا ہوں کہ اس ڈھلوان پر اگر کسی کو ذبح کیا جائے تو اس کا خون کہاں تک جائے گا‘‘۔ بادشاہ سلامت کو یہ نکتہ اتنا پسند آیا کہ انہوں نے فوری طورپر جلّاد کو حکم دیا کہ نکتہ سنج غلام کو اسی ڈھلوان پر ذبح کرکے دیکھے کہ اس کا خون کہاں تک بہتا ہے۔
ظاہر ہے جلّاد نے آقا کا حکم بجا لانا تھا؛ البتہ اس نے غلام کواس کی گردن کاٹنے سے پہلے اتنا ضرور سمجھا دیا کہ بہت سی باتیں کہنے کی نہیں ہوتیں۔
دنیا کی بے شمار کہاوتوں اور حکایتوں کی طرح اس کہانی کا سبق بھی صدیوں سے نظر انداز ہوتا آیا ہے۔ البتہ ایسے تاریخی مواقع کم آتے ہیں جب کوئی بڑا آدمی اس طرح کے آزمودہ نسخے پر عمل نہ کرے اور اس کے نتائج کا سامنا کرتا نظر آئے ۔ سو ہماری خوش قسمتی ہے کہ تاریخ کے اس عہد میں زندہ ہیں جہاں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ عمران خان جیسی تاریخی شخصیت نے بے محابا گفتگو فرمانے کی جو رسم ڈالی آج خود اس کی زد میں ہیں۔ وہ تمام باتیں جو انہوں نے دوہزار چودہ کے دھرنے کے دوران کنٹینر پر چڑھ کر کیں، آج ان کے گلے کو آرہی ہیں۔ وہ تمام فرمودات جو انہوں نے دوہزار سولہ میں اسلام آباد کے لاک ڈاؤن کی کوششوں کے دوران جاری کیے، ان کے پاؤں کی بیڑی بنتے جارہے ہیں۔جس طوفان میں وہ اپنی پیشرو حکومت کو غر ق کرنا چاہتے تھے، بالکل اسی طرح کے سیلاب کی رہنمائی کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن انہیں ڈبونا چاہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کو زیر کرنے کے لیے بالکل وہی طریقہ اختیار کیا ہے جو انہوں نے نواز شریف کو حکومت سے نکالنے کے لیے دو ہزار چودہ میں اختیار کیا تھا۔ عمران خان صاحب نے دو ہزار تیرہ کے الیکشن کے نتیجے میں نواز شریف حکومت کے ٹھیک چار سو پینتیس دن بعد سڑکوں پر آ کر ان کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ مولانا نے بھی عمران خان کی حکومت کے خلاف دھرنے کی تاریخ کا اعلان یوں کیا کہ دھرنا ٹھیک چارسو پینتیس دن بعد پڑے۔ خان صاحب نے بھی دھرنے کے لیے خصوصی کنٹینر بنوایا ، مولانا کے لیے بھی ایک کنٹینر تیار ہوا ہے جو اس وقت تک کسی محفوظ مقام پر کھڑا ہے۔
خان صاحب کے نزدیک دو ہزار تیرہ کا الیکشن دھاندلی میں لتھڑا ہوا تھا، مولانا کے خیال میں دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں تاریخی دھاندلی ہوئی۔ خان صاحب لاہور سے نکلتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے، مولانا وزیر اعظم عمران خان کے استعفے کو اپنا ہدف قرار دیے ہوئے ہیں۔ آں جناب اسلام آباد میں آئے اور ایک سو چھبیس دن تک جمے رہے۔ ایں جناب کا ارشاد بھی وہی ہے کہ آئیں گے تو جم کر بیٹھیں گے۔
وہ اپنے دھرنے کو سو فیصد دستوری حدود میں ہونے کی خلعت پہناتے تھے یہ بھی اپنے دھرنے کو آئین میں دیے گئے جمہوری حق سے تعبیر کرتے ہیں۔ہمیں تو یہ بھی یاد ہے کہ جس طرح نواز شریف نے بطور وزیر اعظم قوم سے خطاب کیا تھا بالکل اسی طرح عمران خان نے بھی قوم سے خطاب کا ڈرامہ کیا تھا۔
ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں جس طرح زعمائے ریاست گارڈ آف آنر لیا کرتے ہیں، مولانا فضل الرحمن بھی اپنے کارکنوں کو سلامی کے چبوترے پر کھڑے چپ راست کرتے دیکھ رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی دونوں دھرنوں کے درمیان یہ مماثلت بیان کرے تو عمران خان غصے میں آجاتے ہیں اور مولانا ہنس پڑتے ہیں۔ مولانا کی ہنسی کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تحریک انصاف کو بیانیے کے میدان میں مات دے دی ہے۔ ان پر ساری دنیا اعتراض کرتی پھرے مگر تحریک انصاف نہیں کر سکتی۔ دلیل کے فقدان سے پیدا ہونے والی بے بسی ہی ہے کہ اب تحریک انصاف کے پاس اپنے مؤقف کی بالا دستی ثابت کرنے کے لیے سوائے حکومتی طاقت کے کچھ نہیں رہا۔
حکومتی طاقت کے بارے میں بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی تحریک انصاف اسے مؤثر انداز میں استعمال کر پائے گی؟ وزیروں کے ہجوم کو چھوڑ کر ایسا کون ہے جو یقین سے اس بارے میں کچھ کہہ پائے۔ میں نے کئی سیاسی تحریکوں میں دیکھا ہے کہ تحریک سے پہلے پولیس اور دیگر ادارے حکومت کو سب اچھا ہے کی رپورٹ دے رہے ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی عوامی دباؤ پڑتا ہے یہ سب ہوا ہو جاتے ہیں۔
میں نے اپنی آنکھوں سے دو ہزار نو میں بھی دیکھا کہ جب نواز شریف لاہور سے اسلام آباد کی طرف عدلیہ بحال کرانے کے لیے نکلے تھے تو اس وقت گورنر سلمان تاثیر مرحوم کے سخت ترین احکامات کے باوجود پولیس نے مظاہرین کے مقابلے میں پسپائی اختیار کرلی تھی۔ خود عمران خان کو تجربہ ہے کہ ان کے دھرنوں میں بھی پولیس اور دیگر ادارے ہی تھے جو طاقت کے استعمال سے احکامات کے باوجود گریز کر رہے تھے۔ لہٰذا یہ تو امکان سے ہی باہر ہے کہ حکومت مولانا فضل الرحمن کو اپنی مرضی کے دن اور مقام پر احتجاج سے روک پائے۔ اسے ہمارے نظام کی خوبی کہہ لیجیے کہ حکومت اپنے خلاف کوئی تحریک تشدد سے کچلنے کی سوچے بھی تو کچھ کر نہیں پاتی‘ لہٰذا مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کو سیاسی ذرائع سے تو روکا جا سکتا ہے، انتظامی طور پر ایسا کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔
سیاسی طور پر اپنے خلاف تحریک روکنے کے لیے عمران خان صاحب کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ گزشتہ چودہ ماہ میں ان کی حکومتی کارکردگی اتنی ناقص رہی ہے کہ وہ عوام کے سامنے سوائے ایک لنگر خانے اور چند خالی پڑی پناہ گاہوں کے کچھ بھی پیش نہیں کر سکتے۔ بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ہر شخص کی آمدن عملاً آدھی ہو چکی ہے۔ بند ہوتی ہوئی صنعتوں کی وجہ سے بے روزگاروں کی ایک فوج ہے جس کے ہاتھ حکومت کے گریبان تک پہنچنے کو بے تاب ہیں۔ حکومتی ڈھانچے میں اصلاحات تو دور کی بات ہے، تحریک انصاف ہر طرح کی قوت سے لیس ہونے کے باوجود اس سے کوئی ایک کام بھی نہیں لے سکی۔
نالائق ترین لوگوں کو وزیر وں کی صورت ارد گرد جمع کرکے عمران خان نے اپنے دوستوں کو بھی مایوس کردیا ہے۔ ان کی اپنی جماعت کے اراکین نااہل لوگوں کی سرپرستی پر خفا ہوتے جارہے ہیں،حالت یہ ہے کہ دوہزار اٹھارہ کے انتخابات کے دوران جو کاروباری لوگ تحریک انصاف کی حکومت کو ”بزنس فرینڈلی‘‘ قرار دے رہے تھے آج در بدر اس کے نکمّے پن کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں۔
چودہ ماہ کے ناقابل یقین پھوہڑ پن کا خاتمہ بلا شبہ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ سے تو نہیں ہو سکتا لیکن اب بھی اتنا ہوسکتا ہے کہ عمران خان اپنی حکومت کو ازسرنو تشکیل دیں۔ حالات کا جائزہ لے کر اپنی ناکامیوں کے اسباب کا تعین کریں۔خود ساختہ عظمت کے خول سے باہر نکلیں۔ دوسرے ملکوں کے اختلافات میں الجھنے کی بجائے اپنے ملک کی طرف توجہ کریں۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور رضا باقر جیسے ماہرین معاشیات سے معذرت کریں اور وعدے کے مطابق ملک میں اصلاحات کا آغاز کریں۔
یہ سارے کام آئندہ ایک ہفتے میں ہوتے ہوئے دکھنے لگیں تو ان کے دوست دوبارہ ان سے آن ملیں گے اور ان کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوجائیں گے۔ اگر وہ اب بھی یہ نہیں کرپاتے تو پھر ان کے چاہنے والے ایک طرف کھڑے انہیں ہارتا ہوا دیکھتے رہیں گے۔ عمران خان اب بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں، بشرطیکہ نالائقوں کے نرغے سے نکل آئیں، وہ ایسا نہ کرپائے تو پھر انہیں جانا ہی پڑے گا۔ وہ کمزور ہوچکے ہیں، مولانا کا وار انہیں گرا نہ سکا تو کمزور تر ضرور کرڈالے گا، پھر ہوا کا ہلکا سا جھونکا بھی ان کے لیے کافی ہو جائے گا۔
نا خدا عمران خان کو ان کے ساتھیوں کی وجہ سے کشتی کا بوجھ سمجھنے لگے ہیں۔ اس بوجھ کو وہ خود ہی کم کرلیں تو اچھا ہے۔ ناخدا کیا فیصلہ کر بیٹھے، کوئی نہیں جانتا۔
بشکریہ روزنامہ دنیا
 

جاسم محمد

محفلین
مذاکرات صرف وزیراعظم کے استعفے کے بعد ہوں گے: مولانا کا دوٹوک مؤقف
59d5545d351a961fa6fbdb5ede0d9c48_1.jpg


جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ۔ ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومتی کمیٹی سے مذاکرات کا امکان مسترد کردیا۔

وزیراعظم عمران خان نے پارٹی کی کور کمیٹی اجلاس میں جے یو آئی (ف) سے مذاکرات کیلئے وزیردفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

تاہم اب مولانا فضل الرحمان نے حکومتی کمیٹی سے مذاکرات کا امکان مسترد کردیا ہے۔

اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ نہ انہیں کسی حکومتی کمیٹی کا علم ہے اور نہ ہی کسی نے ہم سے رابطہ کیا ہے، مذاکرات صرف وزیراعظم کے استعفے کے بعد ہوں گے۔

ملک کو بچانےکیلئے حکومت کو گھر بھیجنا ضروری ہے، احسن اقبال
مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ ملک کو بچانےکیلئے حکومت کو گھر بھیجنا ضروری ہے لہٰذا فوری طور پر نئے انتخابات کرائے جائیں۔

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ حکومت کو جانا پڑے گا اور حکومت کو گھر بھیجنے کے مطالبے پر مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہیں لہٰذا کارکن اور عہدیدار جمعیت علمائے اسلام (ف) کا ساتھ دیں۔

یاد رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے حکومت کے خلاف 27 اکتوبر کو آزادی مارچ کا اعلان کررکھا ہے جس کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے حمایت کی ہے۔

11 اکتوبر کو حکومتی ترجمانوں کے اجلاس کے اختتام پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ کا تذکرہ ہوا تھا اور شرکائے اجلاس نے وزیراعظم سے سوال کیا تھا کہ کیا جے یو آئی سے مذاکرات کیلئے کوئی کمیٹی قائم کی گئی ہے؟

اس پر وزیراعظم نے جواب میں کہا کہ کمیٹی کے قیام کی فی الحال ضرورت نہیں مگر مذاکرات کا آپشن کھلا ہے، اگر کوئی خود بات کرنا چاہے تو دروازے بند نہیں ہیں۔

وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ مدرسہ ریفارمز سمیت اہم ایشوز پر کوئی بات کرنا چاہے تو اعتراض نہیں۔

تاہم اب تحریک انصاف کی کور کمیٹی اجلاس میں جے یو آئی (ف) سے مذاکرات کیلئے پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

فضل الرحمان کیوں دھرنا دینا چاہتے ہیں؟
25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی ، معاشی بدحالی اور حکومتی ناہلی کے خلاف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 27 اکتوبر سے حکومت کیخلاف اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔

19 اگست 2019 کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) اسلام آباد میں ہوئی جس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین شریک ہوئے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کمر کے درد اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پارٹی دورے کے باعث اے پی سی میں شریک نہیں ہوئے۔

اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں ملک کو مختلف بحرانوں سے دوچار کردیا گیا ہے، اس وقت پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہے اور حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے نتیجے میں ملک کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاشی صورتحال انتہائی ابتر ہے، معاشی بدحالی سے روس ٹکرے ہوگیا اور ہمیں ایسے ہی حالات کا سامنا ہے، ملک میں قومی یکجہتی کا فقدان ہے، ملک کا ہر طبقہ پریشانی میں مبتلا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کل تک ہم سوچ رہے تھے، سری نگر کیسے حاصل کرنا ہے؟ آج ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ مظفر آباد کیسے بچانا ہے؟ عمران کہتا تھا مودی جیتے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا، موجودہ حکمران کشمیر فروش ہیں اور ان لوگوں نے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔

سربراہ جے یو آئی نے الزام عائد کیا کہ ہم عالمی سازش کا شکار ہیں اور ہمارے حکمران اس کا حصہ ہیں، جب تک میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا تو کشمیر کو کوئی نہیں بیچ سکا لیکن میرے جانے کے بعد کشمیر کا سودا کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں اتفاق کیا ہے کہ سب اکٹھے اسلام آباد آئیں گے اور رہبر کمیٹی ایک ہفتے میں چارٹر آف ڈیمانڈ دے گی تاکہ جب اسلام آباد کی طرف آئیں گے تو ہمارے پاس متفقہ چارٹر آف ڈیمانڈ ہو۔

فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن آج سے حکومت کے خلاف تحریک کی طرف بڑھ رہی ہے، ان حکمرانوں کو ہٹانے کیلئے قوم ہمارا ساتھ دے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمارے لاک ڈاؤن میں عوام آئیں گے، انہیں کوئی نہیں اٹھا سکتا، ہمارے لوگ عیاشی کیلئے نہیں آئیں گے اور ہر سختی برداشت کرلیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا دھرنے اور ایکس ٹنشن میں کوئی تعلق ہے؟
16/10/2019 عمار مسعود

آرمی چیف جناب جنرل قمر باجوہ کی ایکسٹنشن ایسا موضوع ہے جس پر میڈیا میں بہت کم بات ہوتی ہے۔ کچھ کے پر جلتے ہیں کچھ ازراہ احتیاط خاموش رہتے ہیں۔ لیکن موجودہ ملکی صورت حال کا تقاضا ہے کہ اس موضوع پر سنجیدہ بات کی جائے۔ پاکستان کو اس وقت کئی بین الاقوامی چیلنجز کا سامنا ہے۔ کشمیر پر بھارتی مظالم اور مقبوضہ کشمیر پر بھارتی ظالمانہ قبضہ سب سے بڑا چیلنج ہے، ایران اور سعودی عرب تعلقات کی کشیدگی میں بھی ہم برسرپیکار نظر آتے ہیں۔ امریکی فوجوں کا افغانستان سے انخلاء اور امریکی انتخابات بھی ہم پر کسی نہ کسی شکل میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ تمام دنیا کی نظر میں پاکستان کی نیوکلیئر صلاحیت کھٹک رہی ہے۔ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کا دباؤ ہم پر روز بروز بڑھ رہا ہے۔

ملک کی اندرونی صورت حال بھی تشویشناک ہے۔ معشیت اپنے زوال کی آخری حد تک جا چکی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے عوام کی زندگی دشوار ہو رہی ہے۔ اشیائے صرف کی قیمتیوں میں آئے روز اضافے سے عوام کی کمر ٹوٹ رہی ہے۔ گورننس کے نام پر موجودہ حکومت کی جانب سے ایک تماشا ہو رہا ہے۔ سیاسی انتقام کی پالیسی جا ری ہے اور آئے روز نت نئے مقدمات کی خبر سنائی دیتی ہے۔ اپوزیشن احتجاج کے موڈ میں ںظر آرہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن بپھرے ہوئے ہیں۔ نواز شریف کے بیان نے ن لیگ کا موقف بھی واضح کر دیا ہے۔ ستائیس اکتوبر کو آزادی مارچ کا علان کر دیا گیا ہے۔ ان سب عوامل کو مدنظر رکھ کر سپہ سالار کی ایکسٹنشن کے فیصلے پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔

مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی تاریخ بہت اہم ہے۔ یہ آزادی مارچ ایکسٹینشن سے ٹھیک ایک ماہ پہلے وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ ن لیگ کے ایک طبقہ فکر نے مولانا کو بہت سمجھایا کہ یہ احتجاج اگر مارچ میں نہیں تو کم از کم دسمبر تک موخر ضرور کر دیں۔ بعض حلقے یہ بھی بتاتے ہیں کہ مولانا کی اس دوران کچھ بہت بڑے مقتدر لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی ہےجنہوں نے انہیں ان عزائم سے باز رکھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن شنید یہ ہے کہ مولانا نے اپنے رویے میں کسی قسم کی لچک دکھانے سے انکار کر دیا ہے۔ ن لیگ کا وہ طبقہ جو مولانا کے پاس آزادی مارچ کے التوا کی درخواستیں لے کر جا رہا تھا ان کی امیدوں پر نواز شریف نے خود پانی پھیر دیا ہے۔ عدالت میں چند لمحوں کی وڈیوز میں انہوں نے وہ پیغام دے دیا ہے جو بہت سے کارکن سننا چاہ رہے تھے اور جس سے بہت سی ن لیگ کی قیادت اجتناب کرنا چاہ رہی تھی۔

مولانا فضل الرحمن کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ کچی زمین پر پاوں نہیں دھرتے۔ اس بات کا سب کو ادراک ہے کہ مولانا اگر چاہیں تو پورے ملک میں پہیہ جام تن تنہا بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کی جماعت کے مذہبی رنگ کو سیاسی رنگ میں بدلنے کے لیئے انہیں سیاسی جماعتوں کی ہم رکابی درکار ہے۔ لیکن اگر ان کی جماعت کی سٹریٹ پاور کی بات کی جائے تو مولانا ہر شہر میں اپنی قوت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ ان کے کارکن ان کے جانثار ہیں ۔ پورے ملک میں پہیہ جام یا لاک ڈاون کروانا انکے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اے این پی نے بھی مولانا کی کشتی میں قدم رکھ دیا ہے اور آزادی مارچ میں شرکت کا اعلان کر دیا ہے۔ ایک لمحے کو تصور کریں کہ مولانا کے ملک بھر میں پھیلے جانثار کارکن ، ن لیگ کا جی ٹی روڈ کا ہجوم اور اے این پی کے غیور پشتون کارکن اگر سڑکوں پر نکل آتے ہیں تو ملک کی کیا صورت حال ہو گی۔

کتنے دن اس احتجاج کو برداشت کیا جائے گا۔ اور اسی ہنگامے کے دوران ایکسٹینشن کی تاریخ سر پر آکھڑی ہو گی۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے جس بے طرح اس حکومت کی حمایت کی ہے وہ سہولت ماضی میں کسی بھی حکومت کو میسر نہیں رہی۔ الیکشن سے لیکر میڈیا کی زبان بندی تک ہر وار پہلی دفعہ اسٹیبلیشمنٹ نے اپنے سینے پر سہا ہے اور موجود حکومت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ ایسے میں جب پورے ملک میں کہرام مچا ہوگا تو کیا اسٹیلبشمنٹ حکومت کی پشت پناہی کرے گی یا ماضی قریب کی بساط کے نقشے پر نظر ثانی کرے گی۔ کیا سول اور ملٹری ایک پیج پر رہیں گے یا کتاب سے یہ صفحہ ہی پھاڑ دیا جائے گا؟ اہم سوال یہ ہے کہ جب ملک میں بچہ بچہ حکومت کے خلاف احتجاج میں شامل ہو گا تو کیا اس حکومت کو فخریہ لانے والے اس کی بدترین کارکردگی پر پردہ ڈالیں گے یا پھر اس احتجاج میں غیر جانبدار رہیں گے؟

فرض کیجئے کہ فیصلہ حکومت کی پشت پناہی کا ہوتا ہے تو کیا کوئی نعرہ مقتدر قوتوں کے خلاف بھی لگ سکتا ہے۔ احتجاج کا رخ ان کی طرف بھی موڑا جا سکتا ہے؟عمران خان کے مستعفی ہونے کے علاوہ بھی کوئی تقاضہ ہو سکتا ہے؟ دوسری صورت میں اگر حکومت کے خلاف اس چارج شیٹ کو تسلیم کیا جاتا ہے تو اس حکومت کو لانے کے لیے جو برسوں کے کشٹ اٹھائے گئے وہ سالوں کی محنت ضائع ہو سکتی ہے۔ بنا بنایا کھیل بگڑ سکتا ہے۔

مولانا کا احتجاج اگر زور پکڑتا ہے تو حکومت کی پہلے ہی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ اس وقت حکومت کی لگام کس کے پاس ہے۔ حکومت کو چلتا کرنا کوئی بہت بڑا مشکل کام نہیں ہو گا ۔ یہ کام کسی بھی لمحے ایک عدالتی فیصلے سے ہو سکتا ہے۔ اب اگر ارباب اختیار یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ حکومت کا ساتھ ہر قیمت پر دینا ہے تو حالات ناقابل تصور حد تک بگڑ سکتے ہیں۔

ماضی میں بھی ملک گیر احتجاج کو بہانہ بنا کر اس ملک پر آمریت مسلط کر دی گئی تھی۔ اس وقت کوئی بات یقینی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔ لیکن امکانات کا اظہار ضرور کیا جا سکتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ کیا مولانا اس آزادی مارچ کو ملک گیر تحریک بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟ ن لیگ کا ووٹر اپنی پابند سلاسل قیادت کے باوجود سڑکوں پر نکلتا ہے یا نہیں؟ حکومت اس آزادی مارچ کے راستے میں رکاوٹِیں ڈالتی ہے اور تشدد کا راستہ اختیار کرتی ہے یا امن اور صلح کا پیغام دیا جاتا ہے؟ عوام کا احتجاج بڑھ جا تا ہے تو کیا حکومت مستعفی ہوتی ہے یا نہیں؟

یہ سب سوال ابھی تشنہ جواب ہیں لیکن صرف ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر یہ آزادی مارچ اسی شدت سے وقوع پذیر ہو گیا جس شدت سے مولانا دعوی کر رہے ہیں تو ستائیس اکتوبر کے بعد سے کچھ عرصے کے لئے ایک ایک دن اس ملک کی تاریخ کا اہم دن ہو گا۔

شنید یہ ہے کہ مولانا کے آزادی مارچ میں دو بنیادی نعرے ہوں گے ایک کا تعلق کشمیر سے اور دوسرے پر ابھی بات کرنا مناسب نہیں ۔ ہمارے ملک میں حکومتوں کا آنا جانا عام سی بات ہے۔ اس آزادی مارچ میں جو چیز بہت غور سے دیکھنی ہے کہ کیا مولانا کا یہ مارچ ’’ ایکسٹینشن‘‘ کے فیصلے سے کسی سطح پر منسلک ہو سکے گا یا محض چائے کی پیالی میں طوفان ہی ثابت ہو گا؟
 

جاسم محمد

محفلین
’مارشل لا لگا تو احتجاج کا رخ اس کی جانب ہو جائے گا‘
21935D5A-9216-4BDF-86CF-1F6839CF03EE_w1023_r1_s.jpg

واشنگٹن —
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وہ ریاستی اداروں کے ساتھ براہ راست تصادم نہیں چاہتے۔ حکومت استعفیٰ دے اور نئے شفاف انتخابات کرائے جائیں۔ اسلام آباد پہنچ کر آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے۔ ملک میں جمہوریت بچانے کے لیے نکلے ہیں۔ آزادی مارچ کے نتیجے میں مارشل لا لگا تو احتجاج کا رخ اس کی جانب ہو جائے گا۔

مولانا فضل الرحمان اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کر رہے تھے۔ انھوں نے اکتوبر کے آخری ہفتے میں حکومت کے خلاف احتجاج کی کال دی ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق مولانا فضل الرحمان سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ماضی میں ایسے حالات پیدا کیے جاتے تھے کہ فوجی جرنیل مارشل لا لگا کر نجات دہندہ بن جاتا تھا لیکن موجودہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی اپنی مسلط کردہ ہے۔ وہی اس کے ذمے دار ہیں۔ ہم ریاستی اداروں سے براہ راست تصادم نہیں چاہتے لیکن شکوہ ضرور ہے۔ انتخابی عمل میں ان کی غلط مداخلت سے وجود میں آئی ناجائز حکومت ہمارا ہدف ہے۔

حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے بارے میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وزرا کا لب و لہجہ اور توہین آمیز رویہ مذاکرات کی خواہش کی عکاسی نہیں کرتا۔ حکومت سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ جب تک ان کی تضحیک کا رویہ برقرار ہے، سنجیدہ گفتگو کیسے ہو سکتی ہے؟ ہمارا بنیادی مطالبہ حکومت کا مستعفی ہونا اور دوبارہ انتخابات ہیں۔ موجودہ صورت حال میں ان سے مذاکرات ممکن نہیں۔

خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی نے جے یو آئی کے باوردی رضاکاروں کے خلاف کاروائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلح جتھے بنانا آئین اور نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی ہے۔ اس بارے میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ قائداعظم کی تحریک میں نیشنل گارڈ اجتماع کے انتظامات سنبھالتے تھے۔ جے یو آئی کے رضاکار انصار الاسلام کے پلیٹ فارم سے ان کے اجتماع کے انتظامات سنبھالتے رہے ہیں۔ وہ اپنی وردی کے ساتھ الیکشن کمیشن میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پلیٹ فارم سے رجسٹرڈ ہیں۔ منشور میں ان کے فرائض کی وضاحت کی گئی ہے۔ حکمران اس قدر حواس باختہ ہیں کہ جلسوں کے خدام کو بھی دہشت گردوں کی طرح سمجھتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمارے پرامن رہنے کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ ہم نے لاکھوں لوگوں کے مارچ کیے۔ کبھی کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس بار کچھ ہوا تو حکومت کے اداروں کی جانب سے ہو سکتا ہے۔ ہم قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کریں گے۔

وائس آف امریکہ نے سوال کیا کہ اسلام آباد پہنچنے کے بعد کیا دھرنا بھی ہو گا؟ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم نے کبھی دھرنے کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ 27 اکتوبر کو پورے ملک میں کشمیریوں کے ساتھ یوم سیاہ مناتے ہوئے یکجہتی کا اعلان کیا ہے جس کے بعد قافلے روانہ ہو جائیں گے اور 31 اکتوبر کو ہم اسلام آباد میں داخل ہو جائیں گے۔ عوام جب جمع ہو جائیں گے تو پھر اگلے اقدامات کا فیصلہ کیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر آ گئی ہیں اور سب آزادی مارچ کی حمایت کر رہی ہیں۔ ملک کی تمام سیاسی، سماجی اور پیشہ ورانہ تنظیمیں بھی ان کے ساتھ احتجاج ریکارڈ کرائیں گی۔ پوری قوم اس میں شریک ہونے کے لیے آمادہ ہے کیونکہ یہ مارچ بقول ان کے ’’نااہل حکومت‘‘ کے خلاف امید کی کرن ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ جمہوری حکومت نہیں کٹھ پتلی ہے اصل حکومت تو اسٹیبلشمنٹ کررہی ہے، فضل الرحمان
ویب ڈیسک جمعرات 17 اکتوبر 2019
1845741-fazlulrehman-1571311132-445-640x480.jpg

وزیراعظم اب سلیکٹیڈ نہیں ریجیکٹیڈ ہے، مولانا فضل الرحمان فوٹو:فائل


پشاور: جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کےسربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ یہ جمہوری حکومت نہیں بلکہ کٹھ پتلی ہے اصل حکومت تو اسٹیبلشمنٹ کررہی ہے۔

جمعیت علمائے اسلام کےسربراہ مولانا فضل الرحمان نے پشاور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم انتہا پسند نہیں، اگر ہم انتہا پسند ہوتے توطالبان کی مخالفت نہ کرتے، ہم نے اسلحہ اٹھانے اورخودکش حملوں کی مخالفت کی۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 27اکتوبر کوکشمیری عوام سے اظہاریکجہتی مناتے ہوئے قافلے نکلیں گےاور31اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے، حکمران ہمارے رضاکاروں کے ڈنڈوں سے خوفزدہ کیوں ہیں، حکمران بسیں روکیں گے تو ہم گھوڑوں، پیدل، سائیکلوں اورکشتیوں میں آئیں گے چاہےدوماہ بھی انتظارکیوں نہ کرناپڑے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ملک میں اسرائیل کوتسلیم کرنے کی مہم چل رہی ہے، عالمی سطح پرگریٹ گیم جاری ہے اورامریکا نئی جغرافیائی تقسیم کرناچاہتاہے، بوڑھے ریٹائرڈ جرنیل کشمیرحاصل کرنےکاطریقہ بتانے کی بجائے اسرائیل تسلیم کرنے پردلائل دیتے ہیں، یہ ریٹائرڈ جرنیل اپنی حدود میں رہیں ہمیں سیاست کرنا نہ سکھائیں۔

مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ یہ جمہوری حکومت نہیں بلکہ کٹھ پتلی ہے، اصل حکومت تو اسٹیبلشمنٹ کررہی ہے، جعلی حکومت کے خلاف پوری اپوزیشن یکجاہے، وزیراعظم اب سلیکٹیڈ نہیں بلکہ ریجیکٹیڈ ہے، جب آئین پرڈاکہ ڈالاگیاتوہم کیسے خاموش رہ سکتے ہیں، قران وسنت کے مطابق ہی پاکستان میں قوانین بنیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہیں کواکب کچھ‘ مگر کیا؟
جمعه 18 اکتوبر 2019ء

ملک کی صورتحال کچھ ایسی الجھی ہوئی اور گھمبیر سی لگ رہی ہے کہ اکثر وہ لوگ جو خود کو صورتحال سے واقف اور معلومات کا منبع سمجھتے ہیں، سوالات کرتے نظر آ رہے ہیں اور ان سے اگر کوئی سوال کیا جائے تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ اس طرح کی صورتحال کو غیر یقینی کہنا شاید چھوٹی بات لگے کیونکہ کچھ حکومتی اور ادارتی پالیسیوں میں تو غیر یقینی کا عنصر شامل ہو سکتا ہے لیکن پورا ملک اور جس طرف دیکھیں اگر یہی شکل نظر آئے تو شاید گڑ بڑ کچھ زیادہ ہی ہو گی۔ میری ایک ایسے ہی میڈیا کے بڑے، اندر کی معلومات رکھنے والے دوست سے بات ہو رہی تھی اور وہ حال ہی میں بڑے بڑے لوگوں سے بھی ملتے رہے ہیں لیکن ان کے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھا اور خاصے پریشان تھے۔ میں نے تین چار سوال کئے تو جواب سمجھ میں نہیں آئے۔ مثلاً میں نے پوچھا کیا ان کو اندازہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کیا چاہتے ہیں۔ ان کے عمران خان کو ہٹانے کا سیاسی مطالبہ الگ رکھیں لیکن اس کے علاوہ اگر مذاکرات کرنے ہوں تو وہ کون سی باتیں ہو نگی۔ جواب ندارد، صرف یہ کہ مولانا صاحب کا ذاتی مسئلہ ہے خان صاحب سے اور وہ کوئی حساب برابر کرنا چاہتے ہیں اسی لئے باقی سیاسی پارٹیاں بھی کھل کر ساتھ دینے کو تیار نہیں اور دو قدم آگے، تین پیچھے۔ آئیں بائیں شائیں کے علاوہ کوئی تیار نہیں کہ قدم آگے بڑھائے۔ مولانا کا شو اگر اچھا ہوا تو تقریریں کرنے سب آ جائیں گے کمر میں درد ہو یا کہیں اور، ورنہ مولانا خود بھگتیں۔

حکومت نے مولانا کو زیادہ گھاس نہیں ڈالی اور نہ ان کی دھمکیاں سیریس لیں۔ چنانچہ وہ آگے ہی بڑھتے گئے اور میڈیا کے ایک بڑے حصے سے مل کر اپنی قیمت بڑھانے کے چکر میں گارڈ آف آنر بھی وصول کرنے لگے۔ TVکے لئے تو یہ تصویریں اور فٹیج بڑی مزے کی لگتی ہے لیکن یہی مولانا کو قانون کی گرفت میں لانے کے لئے کافی ہیں۔ پھر لوگوں نے حکومت پر زور دیا کہ معاملہ کہیں زیادہ ہی نہ بڑھ جائے تو ایک بے دلی کے ساتھ کمیٹی بنا دی گئی جس کے ساتھ مولانا نے ملنے سے ہی انکار کر دیا کہ انہیں پہلے عمران خان کا استعفیٰ چاہیے۔ وہ تو آ نہیں رہا سو معاملہ آگے بڑھ گیا ہے۔ میرے میڈیا کے دوست کہنے لگے انہیں ایک بڑی گہری چال یا سیڑھی نظر آ رہی ہے، حکومت اور اس کے خیر خواہوں کی۔ وہ کیا بھائی؟ تو بولے حکومت بہت سارے محاذوں پر لڑ رہی ہے۔ معیشت اتنی خراب تھی کہ حالات قابو میں آنا مشکل ہو رہا تھا تو آئی ایم ایف کو بلایا گیا اور یہ تانگہ ان کے حوالے کر دیا گیا۔ اپنی سواریاں بھی وہ خود لے کر آ گئے اور لوگوں کو چابک مار کر گھوڑے کو کم ازکم دلکی چال تک لانے کی کوشش جاری ہے۔ بڑے کڑوے فیصلے کرنا پڑے اور مزید کرنے پڑیں گے مگر کم از کم عمران خان یہ تو کہہ سکیں گے کہ ہم نے دیوالیہ ہونے سے بچا لیا اور زیادہ تر فیصلے آئی ایم ایف والوں نے کئے جو ہمیں مجبورا ماننے پڑے کہ حالات ہی ایسے تھے پھر گرے اور بلیک لسٹ کا مسئلہ بھی دبائو کے تحت حل کیا جا رہا ہے چوروں کو پکڑکر اور منی لانڈرنگ کے بڑے بڑے کیس کھول کر دنیا کو بتایا جا رہا ہے کہ چوروں اور لٹیروں کے لئے کوئی این آر او نہیں ہے۔ اس پر بھی بہت سیاسی دبائو ہے۔ تیسرا پہاڑ مہنگائی کا، اوپر سے ڈینگی، کچرا کنڈیاں اور سب سے بڑا سوال پنجاب میں کیا ہو رہا ہے اور کیسے؟ تویہ سب مسئلے جب اکٹھے ہوئے تو دو طرف سے اللہ کی مدد آئی۔ ایک مودی نے کشمیر میں کھڑاک کر کے عمران خان کو ایک ایسا بڑا چوکے اور چھکے مارنے کا موقع دیا کہ خان صاحب سارے مسئلے بھول گئے اور دنیا بھر میں اپنی تقریروں اور اپنے اعتماد اور امیج کو خوب بیچا۔ لوگ ان کی خود اعتمادی اور دنیا کے بڑے بڑے لیڈروں کے سامنے دبنگ طریقے سے بات کرنے کو خوب سراہنے لگے اور نواز شریف یا زرداری کو بھول گئے کہ اب انہیں ایک عالمی سطح کا لیڈر مل گیا۔ کشمیر میں تو جو کرنا ہے مودی اور کشمیریوں نے کرنا ہے مگر خان صاحب نے اپنی سیاست کو چار نہیں کئی چاند لگائے اور کچھ دن کے لئے لوگ وہ کڑوے فیصلے اور مہنگائی کی چیخ و پکار بھول گئے۔ تو یہ اس گہری سٹریٹجی کا پہلا فائدہ ہوا اور اس کا کریڈٹ مودی کو دینا چاہیے کئی ہفتے اس میں گزر گئے اور مزید کئی ہفتے گزر سکتے ہیں، جب تک کشمیری گھروں سے نکل کر کوئی بڑا ہنگامہ نہیں کر دیتے اور مودی گھبرا کر سوپچاس لوگوں کا قتل عام نہیں کر دیتے پھر شاید دنیا بھی اس مسئلے میں دلچسپی لینے لگے۔

ابھی کشمیر چل ہی رہا تھا کہ گھر کے فرنٹ پر مولانا فضل الرحمن نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ اندھا کیا مانگے دو آنکھیں۔ خان صاحب اور ان کے مشیر یہ جان گئے کہ مولانا بلف کر رہے ہیں اور اسلام آباد پر حملہ کرنے کا کوئی سیاسی قانونی اور آئینی یا اخلاقی جواز تو ہے نہیں۔ صرف بازوئوں کے زور پر دھمکی ہے کہ بھاگ جائو ورنہ میں آ رہا ہوں۔ اپنی پوری کوشش کے باوجود جواز پیدا نہ ہو سکا۔ تو حکومت نے بھی میڈیا کو خوب کھلی چھٹی دی کہ اٹھائو مولانا کو اور اس غبارے میں خوب ہوا بھرو۔ چال کام آ گئی اور مولانا پھولتے گئے۔ ہر وقت ٹی وی پر ان کا ہی چرچا۔ حکومت کی یہ سوچ رہی کہ جتنا اونچا اڑائیں گے اتنی ہی زور سے گریں گے اور جہاں جہاں چوٹ لگنی ہے لگے گی۔


تو اس عرصے میں خان صاحب دنیا بھر کے مسئلوں کے درمیان ثالثی کے مشن پر نکل کھڑے ہوئے۔ کشمیر میں ان کو ایک لنگڑا لولا ثالث واشنگٹن میں مل گیا مگر اس نے خان صاحب کو بھی اچھے کام پر لگا دیا کہ جائو امریکہ اور ایران کی دوستی کرائو۔ طالبان سے جان چھڑائو۔ سعودیہ اور ایران میں جنگ رکوائو اور بھی کوئی اگر لڑائی کے موڈ میں ہو تو اسے روکو۔ بڑا ٹیلر میڈ رول دیا گیا۔ جس سے خان صاحب کی عالمی سطح پر اور ایک منجھے ہوئے سٹیٹس مین کی امیج ابھری اور وہ اس میں بالکل فٹ بھی ہوتے ہیں۔ یعنی اگر کبھی ضرورت پڑے تو وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی بنائے جا سکتے ہیں اور اگر طالبان یا ایران کے ساتھ وہ کوئی ڈیل کرنے یا کروانے میں کامیاب ہو گئے تو نوبل انعام کے بھی حقدار ٹھہر سکتے ہیں۔

تو داخلی محاذ پر خان صاحب نے فیصلوں کا اختیار ان لوگوں کو دے دیا جو پہلے بھی کافی الجھے ہوئے مسئلوں کو چٹکی بجا کر حل کرواتے رہے ہیں۔ یعنی جب سے الیکشن ہوئے اور ان کی پارٹی کو اتنی سیٹیں نہیں ملیں کہ وہ خود حکومت بنا سکتے تو سب نے مل جل کر کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑہ اکٹھا کر کے پنجاب اور مرکز میں انہیں وزیر اعظم بنوا دیا۔ پھر جب اسمبلی میں ضرورت پڑی اللہ تعالیٰ کی مدد ان کے ساتھ رہی اور بل بھی پاس ہوئے۔ قبائلی علاقوں کا کے پی میں انضمام بھی ہو گیا حالانکہ دو تہائی اکثریت چاہیے تھی۔ پھر سینٹ کے صدر کا بھی انتخاب ہو گیا اور جب ان کو نکالنے کی کوشش کی گئی تو سارے حلف اور قسمیں ایک طرف رہ گئیں اور سنجرانی صاحب بدستور اپنی جگہ قائم ہیں۔

تو اس گھمبیر نظر آتی شکل میں میڈیا کے دوست کہتے ہیں مولانا کا آزادی مارچ بھی وہیں لوگ سنبھال لیں گے جو اس قسم کے کام میں ماہر ہیں اور بلکہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیں۔ یہ تو میں بھی ماننے کو تیار ہوں کہ وزیر اعظم کو کوئی ایسا خطرہ لاحق نہیں، جیسا سنجرانی صاحب کو سینیٹ میں تھا اور سارا ہمنوا اورموافق میڈیا اور سیاسی پنڈت گرج برس رہے تھے کہ اب سینٹ حکومت کے ہاتھ سے گئی اور حزب اختلاف کا کوئی کاغذی شیر جلد اس کرسی پر سوار ہو گا۔ جس میں زرداری کا نام بھی آ رہا تھا یہاں تک کہا گیا کہ جلد زرداری ایوان صدر میں بھی کرسی پر نظر آ سکتے ہیں۔ چاہے کچھ دن ہی کے لئے۔ مولانا صاحب اسلام آباد جائیں مگر پھر لبیک، یا سینٹ یا فاٹا پاٹا کی طرح ان کا بوریا بستربھی گول کر دیا جائے گا۔ کہانی تو ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
فضل الرحمان سے ملاقات؛ شہباز شریف کا آزادی مارچ میں شرکت کا اعلان
ویب ڈیسک جمع۔ء 18 اکتوبر 2019
1846937-fazalurrehmanandshahbazsharif-1571400186-406-640x480.jpg

شہبازشریف اور (ن) لیگ کے دیگر رہنماؤں نے فضل الرحمان کی امامت میں نماز جمعہ ادا کی، فوٹو: فائل


لاہور: جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت مخالف تحریک اور آزادی مارچ کے سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے ملاقات کی ہے جبکہ ق لیگ اور جماعت اسلامی کی قیادت سے بھی رابطہ کرلیا ہے۔

مولانا فضل الرحمن ملاقات کے لئے شہباز شریف کی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن لاہور پہنچے تو شہباز شریف نے خود ان کا استقبال کیا۔ ن لیگ کی جانب سے احسن اقبال، امیر مقام، حنیف عباسی، مریم اورنگزیب، ملک پرویز ، خرم دستگیر جبکہ جے یو آئی کی جانب سے مولانا عبدالغفور حیدری، مولانا امجد اور دیگر نے ملاقات میں شرکت کی ۔ شہبازشریف سمیت تمام سیاسی رہنماؤں نے رہائش گاہ پر واقع مسجد میں فضل الرحمن کی امامت میں نماز جمعہ ادا کی۔


اداروں کی سپورٹ کے باوجودعمران خان ناکام

بعدازاں شہبازشریف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اداروں نے پی ٹی آئی کی بھرپور سپورٹ کی اس کے باوجودعمران خان ناکام ہوچکاہے، حکومت کو گھر جانا چاہیے اور نئے انتخابات ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف کی جانب سے خط کی صورت میں آزادی مارچ کے حوالے سے ہدایات ملی ہیں ہم 31 اکتوبر کو آزادی مارچ میں شرکت کرکے آئندہ کا لائحہ عمل دیں گے،آزادی مارچ کے موقع پر اپنے مطالبات پیش کریں گے جب کہ (ن) لیگ اور اپوزیشن کی حکومت آئی تو معیشت کو چھ ماہ میں اپنے پاءوں میں کھڑا کریں گے۔

مذاکرات کی دعوت کے ساتھ گالیاں

اس موقع پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت مذاکرات کی دعوت کے ساتھ گالیاں بھیج رہی ہے، (ن) لیگ نے حتمی طور پر 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہونے کا فیصلہ کرلیاہے، (ن) لیگ کے قائدین اوررہنما آزادی مارچ میں شریک ہورہے ہیں،27 اکتوبر کو دوردرازسے قافلے روانہ ہونا شروع ہوجائیں گےاور 31 اکتوبر کو تمام قافلے ایک ہوکر اسلام آباد میں داخل ہوں گے، حکومت ایک طرف مذاکرات کی دعوت اور دوسری طرف گالیاں دے رہے ہیں، حکومت سنجیدہ ہے تو استعفیٰ دے پھر مذاکرات کی طرف آیا جاسکتاہے۔

مولانا فضل الرحمان نے چوہدری برادران اور جماعت اسلامی سے بھی رابطہ کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان شام ساڑھے 4 بجے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی سے ملاقات کریں گے۔ وہ مسلم لیگ (ق) کے صدر شجاعت حسین کی خیریت دریافت کریں گے اور ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر بات چیت کریں گے۔

جے یو آئی کے سربراہ نے جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ سے بھی رابطہ کیا ہے اور آج دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات متوقع ہے۔ مولانا فضل الرحمن آزادی مارچ میں جماعت اسلامی کو شریک کرنے کے لئے قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جے یو آئی (ف) کی ذیلی تنظیم کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ
206795_3654145_updates.jpg

فوٹو: فائل

حکومت نے جمعیت علمائے اسلام ف کی ذیلی تنظیم کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ نے جمعیت علمائے اسلام ف کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام کو کالعدم قرار دینے کے لیے سمری وزارت قانون اور الیکشن کمیشن کو ارسال کر دی ہے۔

سمری میں کہا گیا ہے کہ جے یو آئی ف کی ذیلی تنظیم لٹھ بردار ہے اور قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔

وزارت قانون کو بھیجی گئی سمری میں کہا گیا ہے کہ قانون میں کسی قسم کی مسلح ملیشیا کی اجازت نہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ جے یو آئی میں شامل تنظیم پارٹی منشور کی شق نمبر 26 کے تحت الیکشن کمیشن میں بھی رجسٹرڈ ہے۔

خیال رہے کہ چند روز قبل جے یو آئی (ف) کے باوردی محافظ دستے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دیکھا گیا تھا کہ مولانا فضل الرحمان محافظ دستے سے سلامی لے رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا حکومت نے ویڈیو وائرل ہونے کے بعد جے یو آئی ف کے محافظ دستے کے خلاف کارروائی کا اعلان بھی کیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اپوزیشن نے اسلام آباد پر چڑھائی کی تو بھرپور ایکشن لیا جائے گا، حکومت
ویب ڈیسک ہفتہ 19 اکتوبر 2019
1848424-pervezkhattak-1571489694-327-640x480.jpg

اپوزیشن مذاکرات کی میز پر نہ آئی تو افراتفری ہوگی جس کی ذمہ داری اپوزیشن پر ہوگی، پرویزخٹک فوٹو:اسکرین گریب


اسلام آباد: وزیردفاع اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن نے اسلام آباد پر چڑھائی کی تو اس کے خلاف بھرپور کارروائی ہوگی۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ہم جمہوری لوگ ہیں اور بات چیت پر یقین رکھتے ہیں، تمام اپوزیشن جماعتوں کو پیغام بھیجا ہے کہ مذاکرات کی ٹیبل پر آئیں، اپوزیشن کے پاس کوئی ڈیمانڈ ہے تو آکر بات کرے، مذاکراتی میز پر نہیں آئیں گے تو اس سے افراتفری ہوگی جس کی ذمہ داری اپوزیشن پر ہوگی، حکومتی ایکشن کے بعد ہمیں الزام نہ دیا جائے۔

پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ اگر اپوزیشن والے مہنگائی کی بات کریں تو ہم بھی بات کے لئے تیار ہیں لیکن وزیراعظم کا استعفیٰ ناممکن بات ہے، اپوزیشن کو ڈر ہے کہ عمران خان نے 5 سال گزار لیے تو ان کا کیا ہو گا، وزیراعظم سے استعفے کے مطالبے کا مطلب ہے یہ چڑھائی کرنا چاہتے ہیں، حکومت کسی کا جانی و مالی نقصان نہیں چاہتی، اگر اسلام آباد پر چڑھائی ہوئی یا کسی نے حکومت کو چیلنج کیا تو حکومت اپنی رٹ قائم کرے گی اور بھرپور ایکشن لیا جائے گا، پاکستان کا آئین کہتا ہے مسلح جتھوں کی اجازت نہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اپوزیشن انتخابی دھاندلی کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکی، کوئی ایک کاغذ ہی سامنے لے آئے، یہ لوگ بات چیت کے لئے تیار نہیں ، لگتا ہے سامنے کچھ اور پیچھے کچھ اور ہے، اپویشن کی وجہ سے کشمیر ایشو پیچھے چلا گیا ہے بھارتی چینل کھولیں تو لگتا ہے وہ ہماری صورتحال سے خوش ہورہے ہیں، انہوں نے مودی کو خوش کرنا اور ملک دشمنی کرنی ہے تو ہم سے بات نہیں کریں گے۔

وزیردفاع کا کہنا تھا کہ کوئی غلطی فہمی میں نہ رہے کہ حکومت کو کوئی خطرہ ہے، ہم نے ساری عمر جلسے جلوس دیکھے، اپوزیشن والے اسلام آباد زبردستی آنا چاہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے یہ ڈکٹیٹر بننا چاہتے ہیں، ملک کے بچاؤ کے لیے ہر حد تک جائیں گے، اس کے بعد جو ہو گا وہ پھر آپ سب دیکھیں گے۔

شفقت محمود کا کہنا تھا کہ مولانا کے کچھ بندے مدارس کے بچوں کو سیاست میں گھسیٹنا چاہتے ہیں، گزارش ہے مدارس کے بچوں کو سیاست میں نہ لایا جائے، مولانا فضل الرحمان کی ویڈیوز دیکھی ہیں وہ اداروں پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں، یہ برداشت نہیں کیا جائے گا، ہمیں کوئی خوف نہیں صرف پاکستان کی خاطر بات کر رہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
مولانا کا بی اور سی پلان
206724_4468812_updates.JPG

مہنگائی کے ساتھ ساتھ کاروبار کرنے کی طاقت بھی تقریباً ختم ہوگئی ہے: فائل فوٹو

جیسے جیسے مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت جمعیت علمائےاسلام کے اعلان کردہ احتجاجی مارچ اور اس سے جُڑے دھرنے کے دن قریب آرہے ہیں پاکستان میں سردی کا موسم شروع ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست کی گرمی بڑھتی جارہی ہے۔

ابھی جب میں یہ کالم تحریر کررہا ہوں وزیر اعظم پاکستان عمران خان سعودی عرب میں موجود ہیں اور ریاض سے مدینے پہنچ چکے ہیں۔ ریاض میں اُن کی ملاقات کنگ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے ہوچکی ہے ۔

عمران خان بروز بدھ پاکستان واپس پہنچ جائیں گے جہاں پر مولانا فضل الرحمٰن کے احتجاج کی خبریں زبان زدعام ہیں اور اپوزیشن کی تقریباً ساری ہی سیاسی جماعتیں اس احتجاج کی حمایت کرچکی ہیں۔

احتجاج کے ساتھ ساتھ دھرنے نے یقینی طور پر عمران خان کی حکومت کو پریشانی میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ مگر لگتا ہے کہ وزیر اعظم کے واپس پہنچتے ہی سیاسی گرمی شاید کچھ ٹھنڈی پڑجائے گی ۔

میں قارئین کو یاد کراتا چلوں کہ 2017میں امام کعبہ نے جمعیت علمائے اسلام کے قیام کے سو سالہ جشن میں شرکت کی تھی اور دس لاکھ سے زیادہ افراد نے امام کعبہ کی امامت میں نماز جمعہ بھی ادا کی تھی۔

امام کعبہ کو مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ خاص انسیت ہے اور اس کا اظہار انھوں نے نوشہرہ میں اپنی تقریر میں بھی کیا تھا۔

اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کی حکومت کا مولانا کے احتجاج کو روکنے کا اخلاقی جواز صفر ہی ہے کیونکہ مولانا اور دیگر اپوزیشن بھی اُسی نعرے پر باہر نکل رہی ہے جس نعرے پر پی ٹی آئی نے 2014میں 126 دن تک دھرنا دیا۔پی ٹی آئی عوام کو سینکڑوں خواب دکھاکر اقتدار میں آئی مگر جب سے عمران خان کی حکومت بنی ہے عوام کی پریشانی کم ہونے کےبجائے بڑھ گئی ہے۔


مہنگائی کے ساتھ ساتھ کاروبار کرنے کی طاقت بھی تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ عمران خان کو یقیناًاس کا ادراک ہوگا مگر وہ ابھی تک ایسا مستند معاشی فارمولا نہیں دے سکے جس سے عوام کے اوپر ٹوٹنے والا مہنگائی کا پہاڑ کچھ کم ہوسکے۔

اقوام متحدہ میں شاندار تقریر کے بعد عمران خان ایک بین الاقوامی لیڈر بن کر ابھرے اور وہ اپنی اس پذیرائی کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ہی مستقل ایسے ممالک کا دورہ کررہے ہیں جن کو بین الاقوامی میڈیا نمایاں کوریج دیتا ہے۔

وہ اقوام متحدہ سے واپس آتے ہی چین گئے اور پھر ایران اور اب سعودی عرب جس کے باعث وہ مسلسل بین الاقوامی میڈیا کی ہیڈ لائنز میں ہیں اور آئندہ بھی آپ دیکھیے گا یا تو دنیا کے نامی گرامی لیڈر پاکستان آرہے ہوں گے یا پھر ہمارے وزیراعظم اس طرح کی ریاستوں کے دوروں پر رہیں گے ۔ مگر ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام پر بھی وزیر اعظم کو توجہ دینی ہوگی اور اپوزیشن کی صفوں سے مسلسل بڑھنے والا طوفان جس کا رُخ حکومت کی طرف ہے، روکنا ہوگا۔

اطلاعات ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن نے گوکہ احتجاجی مارچ کی کال دی ہے اور 31اکتوبر تک پورے ملک سے نکلنے والے یہ احتجاجی مارچ اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دیں گے اور وزیر اعظم عمران خان سے استعفیٰ کا مطالبہ کریں گے۔ حکومت نے اس احتجاج کو مکمل طور پر روکنے کا پلان بنایا ہوا ہے تاہم وہ مولانا کے پلان B اورپلان C سے واقف نہیں ہے۔

ذرائع کے مطابق مولانا کا پلان B یہ ہوگا کہ اگر احتجاجی مارچ کے شرکاء کو گرفتار کیا گیا چاہے اُس میں جمعیت کی مرکزی قیادت ہی کیوں نہ شامل ہو تو مولانا کے کارکن ملک بھر میں مرکزی شاہراہیں جام کردیں گے اور اس کا آغاز کراچی میں سہراب گوٹھ سے کریں گے جہاں سے پورے ملک کیلئے ٹریفک خصوصاً آئل ٹینکرز روانہ ہوتے ہیں۔

مولانا کے پلان B کے مطابق مولانا آخر تک کہیں نظر نہیں آئیں گے اور 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں نمودار ہونگے۔ اس سے پہلے تک وہ کارکنان سے بذریعہ فون و ویڈیو لنک رابطہ رکھیں گے۔


مولانا کے ساتھ کم از کم دس ہزار کارکنوں کا جتھہ ہوگا جن میں سے کئی مسلح بھی ہوسکتے ہیں ۔ اگر کسی وجہ سے مولانا اپنی گرفتاری کو نہ بچا پائے تو پورے ملک میں جی ٹی روڈ کو جام کردیا جائے گا جسے این ایچ اے کی زبان میں این ایچ 5 کہا جاتا ہے اور اُس وقت تک خالی نہیں کیا جائے گا جب تک مولانا کو رہا نہیں کردیا جاتا۔

اگر مولانا کے قافلوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے اسلام آباد پہنچنے دیا گیا تو مولانا پرامن طریقے سے ڈی چوک پر براجمان ہوجائیں گے اور روزانہ وہاں تلاوت قران پاک و درس و تدریس کا مرکزی سلسلہ شروع ہوجائے گا اور روزانہ کی بنیاد پر عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جائے گا۔

اگر میڈیا نے اس احتجاج کا بلیک آؤٹ کیا تو سوشل میڈیا پر جمعیت کا چینل سب کچھ براہ راست دکھائے گا۔ اگر دیگر اپوزیشن جماعتوں نے مولانا کے احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا تو مولانا دوران احتجاج ہی ایسی کسی بھی جماعت سے اظہار لاتعلقی کردیں گے تاکہ وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کی صورت میں وہ جماعت فائدہ نہ حاصل کرسکے۔

مولانا دراصل صرف احتجاجی مارچ پر توجہ نہیں دے رہے بلکہ اُن کی ایک بہت بڑی ٹیم جس میں پڑھے لکھے نوجوان شامل ہیں، سوشل میڈیا پر اس مارچ کی ترویج میں مصروف ہے اور اُن کے پاس کسی بھی بڑے ٹی وی چینل کے مقابلے کی ٹیکنالوجی اور اس کے استعمال کرنے والے ہیں۔

مولانا کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا پر بیرون ملک سے بہت زیادہ اخلاقی دباؤ آسکتا ہے کہ اس احتجاج کو موخر کردیا جائے یا مکمل طور پر یکجہتی کشمیر مارچ میں بدل دیا جائے تاہم اس کا حتمی فیصلہ مولانا ہی کرسکتے ہیں جس کا زیادہ سے زیادہ دو چار دنوں میں پتاچل جائے گا۔
 

آورکزئی

محفلین
جے یو آئی (ف) کی ذیلی تنظیم کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ
206795_3654145_updates.jpg

فوٹو: فائل

حکومت نے جمعیت علمائے اسلام ف کی ذیلی تنظیم کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ نے جمعیت علمائے اسلام ف کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام کو کالعدم قرار دینے کے لیے سمری وزارت قانون اور الیکشن کمیشن کو ارسال کر دی ہے۔

سمری میں کہا گیا ہے کہ جے یو آئی ف کی ذیلی تنظیم لٹھ بردار ہے اور قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔

وزارت قانون کو بھیجی گئی سمری میں کہا گیا ہے کہ قانون میں کسی قسم کی مسلح ملیشیا کی اجازت نہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ جے یو آئی میں شامل تنظیم پارٹی منشور کی شق نمبر 26 کے تحت الیکشن کمیشن میں بھی رجسٹرڈ ہے۔

خیال رہے کہ چند روز قبل جے یو آئی (ف) کے باوردی محافظ دستے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دیکھا گیا تھا کہ مولانا فضل الرحمان محافظ دستے سے سلامی لے رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا حکومت نے ویڈیو وائرل ہونے کے بعد جے یو آئی ف کے محافظ دستے کے خلاف کارروائی کا اعلان بھی کیا تھا۔

نہ سمجھو کہ یہ کوئی ڈنڈا برداروں کا لشکر ہے ۔۔
نہ سوچو کہ یہ کوئی فرض بیزاروں کا لشکر ہے۔۔
کہو کہ یہ تو جمیعت کے غمخواروں کا لشکر ہے۔۔۔۔
کہو کہ یہ تو قائد کے وفاداروں کا لشکر ہے۔۔۔۔
یہ سالاروں کا لشکر ہے
یہ رضاکاروں کا لشکر ہے۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
نہ سمجھو کہ یہ کوئی ڈنڈا برداروں کا لشکر ہے ۔۔
نہ سوچو کہ یہ کوئی فرض بیزاروں کا لشکر ہے۔۔
کہو کہ یہ تو جمیعت کے غمخواروں کا لشکر ہے۔۔۔۔
کہو کہ یہ تو قائد کے وفاداروں کا لشکر ہے۔۔۔۔
یہ سالاروں کا لشکر ہے
یہ رضاکاروں کا لشکر ہے۔۔۔

خیبرپختونخوا حکومت کا آزادی مارچ روکنے کیلیے موٹروے اور جی ٹی روڈ بند کرنے کا فیصلہ
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
1849338-mehmoodkhan-1571563081-545-640x480.jpg

مولانا فضل الرحمان کو لاشیں گرانے کی اجازت نہیں دے سکتے، شوکت یوسف زئی فوٹو: فائل


پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کو روکنے کی منصوبہ بندی کرلی ہے جس کے تحت 30 اکتوبر سے موٹروے اور جی ٹی روڈ کو بند کردیا جائے گا۔

ایکپسریس نیوز کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت نے مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کو روکنے کی منصوبہ بندی کو حتمی شکل دے دی ہے جس کے تحت مظاہرین کو بڑا ہجوم بننے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی، اس کے لیے مارچ کے شرکاء کو شہر کی سطح پر روکا جائے گا جب کہ سیکورٹی اہلکاروں کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں، 30 اکتوبر سے موٹروے اور جی ٹی روڈ بند کردیا جائے گا۔

دوسری جانب وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن مولانا اپنا ایجنڈا تو بتائیں، کشمیر، مہنگائی اور حلقے کھولنے کے معاملے پر بات ہوسکتی ہے لیکن مولانا فضل الرحمان کا ایجنڈا کچھ اور ہے، ہم انہیں لاشیں گرانے کی اجازت نہیں دے سکتے، مولانا فضل الرحمان کو سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر پرامن طور پر مارچ کیا جاتا ہے تو حکومت رکاوٹ نہیں ڈالے گی لیکن اگر زبردستی کی گئی تو قانون حرکت میں آئے گا، اپوزیشن جماعتیں مولانا کے ہاتھ میں نہ کھیلیں، جتھوں سے حکومت ختم نہیں کی جاسکتی۔
 

آورکزئی

محفلین
اب اس سپین چرگ کو کون بتائیں کہ مولانا کے مارچ پُرآمن ہی ہوتے ہیں۔۔الحمدللہ ۔۔۔۔۔۔۔ اور ایجنڈا صرف اور صرف نیازی کا استعفیٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top