آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

Pakistan in the Twentieth Century: A Political History by Lawrence Ziring

آنجہانی مصنف پاکستانی تاریخ پر ایک مستند نام تھے۔ 1957ء میں پہلی بار پاکستان میں مطالعاتی دورے پر تشریف لائے تھے اور اس کے بعد ساری زندگی پاکستانی اور جنوبی ایشیا کی تاریخ پر مطالعے اور پڑھانے میں صرف کر دی۔ مشی گن یونیورسٹی میں پروفیسر تھے اور امیریکن انسٹیویٹ آف پاکستان اسٹڈیز کے صدر بھی۔ پاکستان پر ایک درجن کے قریب کتابوں اور سو سے زیادہ مقالوں اور آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔ 2015ء میں 86 سال کی عمر میں دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔

مذکورہ کتاب 1997ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کی طرف سے گولڈن جوبلی سیریز میں شائع ہوئی تھی۔ کسی ملک کی تاریخ کو ایک والیم میں بیان کر دینا کوزے کو دریا میں بند کرنے کے مترادف ہے اور اس کا احساس ڈاکٹر صاحب کو خود بھی تھا لیکن انہوں نے کمال مہارت سے ساڑھے چھ سو صفحات کی کتاب میں اس کام کو مکمل کیا ہے۔ کتاب، مسلم لیگ کی ابتدا 1906ء سے شروع ہوتی ہے اور پہلے تین باب تحریک پاکستان اور تقسیم کے لیے وقف ہیں جب کہ باقی ابواب میں 1947ء سے 1997ء تک کی پچاس سالہ اتار چڑھاؤ والی پاکستانی تاریخ ہے۔

انتہائی عمدہ کتاب ہے، مجھے اتفاق سے فیس بک پر آن لائن پرانی کتابوں سے مل گئی، اب ان کی دوسری کتابیں بھی ڈھونڈ رہا ہوں، ایک کتاب کی پی ڈی ایف کاپی ملی ہے لیکن ہارڈ کاپی پاکستان میں شاید ہی مل سکے۔
1651460.jpg
اسی قبیل کی ایک کتاب ہم نے اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس سے ہی خریدیں تھی۔ اچھی کتاب ہے۔ لارنس زائر نگ کی کتاب پڑھ کر ہمیں ایسا لگتا ہے بھٹو کے خلاف لکھی گئی ہے جبکہ حامد خان صاحب کی کتاب ہمیں اچھی لگی۔

1569057521448.jpg
 

محمداحمد

لائبریرین
ہم نے حال ہی میں Rich Dad Poor Dad پڑھی ہے۔

ہمیں اچھی لگی یہ کتاب ! اور ہمارا خیال ہے کہ ہمارے جیسے شاعر قسم کے لوگوں کو اس قسم کی کتابیں ضرور پڑھنا چاہیے کیونکہ یہ لوگ اپنی مالی معاملات کی طرف سے کافی لاپرواہ رہتے ہیں اور جس کی وجہ سے کافی مسائل کا سامنا ہوتا ہے ۔ :)
 
ہم نے حال ہی میں Rich Dad Poor Dad پڑھی ہے۔

ہمیں اچھی لگی یہ کتاب ! اور ہمارا خیال ہے کہ ہمارے جیسے شاعر قسم کے لوگوں کو اس قسم کی کتابیں ضرور پڑھنا چاہیے کیونکہ یہ لوگ اپنی مالی معاملات کی طرف سے کافی لاپرواہ رہتے ہیں اور جس کی وجہ سے کافی مسائل کا سامنا ہوتا ہے ۔ :)
مزیدار کتاب ہے۔
 

عثمان

محفلین
Pakistan in the Twentieth Century: A Political History by Lawrence Ziring

آنجہانی مصنف پاکستانی تاریخ پر ایک مستند نام تھے۔ 1957ء میں پہلی بار پاکستان میں مطالعاتی دورے پر تشریف لائے تھے اور اس کے بعد ساری زندگی پاکستانی اور جنوبی ایشیا کی تاریخ پر مطالعے اور پڑھانے میں صرف کر دی۔ مشی گن یونیورسٹی میں پروفیسر تھے اور امیریکن انسٹیویٹ آف پاکستان اسٹڈیز کے صدر بھی۔ پاکستان پر ایک درجن کے قریب کتابوں اور سو سے زیادہ مقالوں اور آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔ 2015ء میں 86 سال کی عمر میں دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔

مذکورہ کتاب 1997ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کی طرف سے گولڈن جوبلی سیریز میں شائع ہوئی تھی۔ کسی ملک کی تاریخ کو ایک والیم میں بیان کر دینا کوزے کو دریا میں بند کرنے کے مترادف ہے اور اس کا احساس ڈاکٹر صاحب کو خود بھی تھا لیکن انہوں نے کمال مہارت سے ساڑھے چھ سو صفحات کی کتاب میں اس کام کو مکمل کیا ہے۔ کتاب، مسلم لیگ کی ابتدا 1906ء سے شروع ہوتی ہے اور پہلے تین باب تحریک پاکستان اور تقسیم کے لیے وقف ہیں جب کہ باقی ابواب میں 1947ء سے 1997ء تک کی پچاس سالہ اتار چڑھاؤ والی پاکستانی تاریخ ہے۔

انتہائی عمدہ کتاب ہے، مجھے اتفاق سے فیس بک پر آن لائن پرانی کتابوں سے مل گئی، اب ان کی دوسری کتابیں بھی ڈھونڈ رہا ہوں، ایک کتاب کی پی ڈی ایف کاپی ملی ہے لیکن ہارڈ کاپی پاکستان میں شاید ہی مل سکے۔
1651460.jpg
کیا کتاب میں پاکستان میں رائج عام سیاسی بیانیے سے ہٹ کر کچھ نیا پہلو ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا کتاب میں پاکستان میں رائج عام سیاسی بیانیے سے ہٹ کر کچھ نیا پہلو ہے؟
جی ہاں، عام طور پر تھوڑا بہت مختلف ہے، مثال کے طور پر قائدِاعظم کا گورنر جنرل کے عہدے پر خود فائز ہونا اور وائسریگل نظام کو جاری رکھنا۔ پاکستان مخالف مذہبی جماعتوں کا تقسیم کے بعد پاکستان کے اسلامی نظام کے علمبردار کے طور پر طلوع ہونا اور قراردادِ مقاصد کی بنا پر اقلیتوں کے تحفظات اور آئین کے وضع کرنے میں ان جماعتوں کے مطالبے ۔ بنگالیوں کی شروع ہی سے مشکلات اور ان کی تحریکیں وغیرہ۔ ایوب کی کمزوریاں اور بھٹو کی "چالاکیاں"۔

یہ یعنی ایوب کا دور کتاب کا نصف ہے اور ابھی میں یہیں تک پڑھ پایا ہوں۔
 
کچھ کتب اتنی ضخیم ہوتی ہیں کہ اگر آپ یہ سوچنا شروع ہو جائیں کہ انھیں پڑھا جائے یا نہیں، تو جواب نفی میں ہی ملتا ہے۔ البتہ جو سوچے بغیر پڑھتے ہیں، وہی پڑھ سکتے ہیں۔
آج ابو نے کرامت اللہ غوری صاحب کی سوانح عمری روزگارِ سفیر دکھائی۔ 980 صفحات پر مشتمل ہے۔
اس سے پہلے ان کی کتاب بارِ شناسائی پڑھ چکا ہوں، اور اسی کا اثر ہے کہ ضخامت کے باوجود کتاب پڑھنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ فی الحال ابو کے مطالعہ میں ہے۔ :)
 
کتاب میں ان کی اپنی کوئی منفرد رائے ہے؟
اصحابِ کہف کے بارے میں مولانا کی منفرد رائے مندرجہ ذیل اقتباسات سے واضح ہوجائے گی جو ہم نے ان کے پہلے مضمون سے لیے ہیں ۔


"(ھ) سب سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جو حالت اس آیت میں بیان کی گئی ہے وہ کِس وقت کی ہے؟ اس وقت کی جب وہ نئے نئے غار میں جاکر مقیم ہوئے تھے؟ یا اس وقت کی جب انکشافِ حال کے بعد دوبارہ معتکف ہوگئے؟ مفسرین نے خیال کیا، اس کا تعلق پہلے وقت سے ہےاور یہی بنیادی غلطی ہے جس نے سارا الجھاؤ پیدا کردیا ہے۔ دراصل اس کا تعلق بعد کے حالات سے ہے۔ یعنی جب وہ ہمیشہ کے لیے غار میں گوشہ نشین ہوگئے۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد وفات پاگئے۔ تو غار کے اندرونی منظر کی نوعیت یہ ہوگئی تھی۔"

"پھر یہ بات سامنے لانی چاہیے کہ یہ واقعہ مسیحی دعوت کی ابتدائی صدیوں کا ہے اور جنھیں یہ واقعہ پیش آیا تھا وہ عیسائی تھے۔صرف اتنی سی بات پر غور کرنے سے سارا معاملہ حل ہوجاتا ہے۔"

"مسیحی دعوت کے ابتدائی قرنوں میں ہی زہد و انزوا کی ایک خاص زندگی شروع ہوگئی تھی، جس نے آگے چل کر رہبانیت کی مختلف شکلیں اختیار کر لیں۔ اس زندگی کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ لوگ ترکِ علائق کے بعد کسی پہاڑ کے غار میں یا کسی غیر آباد گوشہ میں معتکف ہو جاتے تھے اور پھر ان پر استغراقِ عبادت کی ایسی حالت طاری ہو جاتی تھی کہ وضع و نشست کی جو حالت اختیار کر لیتے اسی میں پڑے رہتے، یہاں تک کہ زندگی ختم ہوجاتی۔"

"مسیحی رہبانیت کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اس کی ابتدا اضطراری حالت سے ہوئی تھی۔ آگے چل کر اس نے ایک اختیاری عمل کی نوعیت پیدا کرلی۔ یعنی ابتدا میں لوگوں نے مخالفوں کے ظلم و تشدد سے مجبور ہوکر غاروں اور جنگلوں میں گوشہ نشینی اختیار کی۔ پھر ایسے حالات پیش آئے کہ یہ اضطراری طریقہ زہد و تعبد کا ایک اختیاری اور مقبول طریقہ بن گیا۔"

"اگر تم کسی قبرکے اندر جھانک کر دیکھو اور تمہیں مردہ نعش کی جگہ ایک آدمی نماز پڑھتا دکھائی دے تو تمہارا کیا حال ہوگا؟ یقیناً مارے دہشت کے چیخ چیخ اٹھو گے۔"


دوسرے واقعے سے متعلق مختصراً صرف اتنا کہا ہے کہ جن صاحب کا تذکرہ ہے وہ صحیحین کی حدیث کے مطابق خضر ہیں۔ البتہ جو روایات مشہور ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ اسرائیلیات ہیں۔

تیسرے حصے میں یہ ثابت کیا ہے کہ ذوالقرنین دراصل سکندرِ اعظم نہیں بلکہ ایران کا مشہور بادشاہ سائرس اعظم تھا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب:
Pakistan: Political Roots & Development, 1947–1999

ڈاکٹر صاحب کا طرزِ تحریر مجھے پسند نہیں ہے کیونکہ وہ بالکل ہی "خشک" قسم کے مؤرخ ہیں قدرے دائیں طرف جھکاؤ بھی رکھتے ہیں، اس کے باوجود ان کی کتب معلوماتی ہوتی ہیں۔ چونکہ آج کل پاکستانی سیاست میرے مطالعے میں ہے سو اس کتاب کو شروع کر لیا ہے۔
9780195798067.jpg
 

رانا

محفلین
ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب:
Pakistan: Political Roots & Development, 1947–1999
ڈاکٹر صاحب کا طرزِ تحریر مجھے پسند نہیں ہے کیونکہ وہ بالکل ہی "خشک" قسم کے مؤرخ ہیں قدرے دائیں طرف جھکاؤ بھی رکھتے ہیں، اس کے باوجود ان کی کتب معلوماتی ہوتی ہیں۔ چونکہ آج کل پاکستانی سیاست میرے مطالعے میں ہے سو اس کتاب کو شروع کر لیا ہے۔
میں بھی جب جنگ اخبار باقاعدگی سے پڑھتا تھا تو ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کے جنگ میں چھپے کالم معلوماتی ہونے کی بنا پر ضرور پڑھا کرتا تھا۔ اچھے معلوماتی کالم ہوتے ہیں۔ البتہ اس بات کا افسوس ہے کہ بعض اوقات اپنے ذاتی رجحانات کی بنا پر تاریخی واقعات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک مورخ کی حیثیت سے اپنے ذاتی رجحانات کا اثر تاریخ پر ڈالنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ ذیل میں اس کی ایک مثال موجود ہے۔
ڈاکٹر صفدر محمود اپنے خیالات قائد اعظم سے منسوب نہ کریں
 
Top