حسان خان

لائبریرین
زاهدِ کِشوَری بُدم صاحبِ مِنبَری بُدم
کرد قضا دلِ مرا عاشق و کف‌زنانِ تو
(مولانا جلال‌الدین رومی)


میں اِک مُلک کا زاہد اور اِک صاحبِ مِنبَر تھا۔۔۔ [لیکن] قضا نے میرے دل کو تمہارا عاشق اور تمہارا تالیاں پِیٹنے والا [دیوانہ] کر دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایک «چِترالی» شاعر «میرزا محمد سِیَر» کی ایک فارسی بَیت:

دندان به صد عذاب برآرَندم از دهان
جان از تنِ ضعیف سِیَر آه چون روَد
(میرزا محمد سِیَر)


میرے دہن سے دانت کو بہ صد عذاب نِکالا جاتا ہے۔۔۔ آہ! اے «سِیَر»! [پس پھر اِس] تنِ کم‌زور سے جان کِس طرح [بیرون] جائے گی! (یعنی جب ایک دانت ہی اِس قدر زیادہ درد و اذیّت کے ساتھ نِکلتا ہے تو پھر تنِ ضعیف سے جان کے نِکلنے کی کَیفِیّت کیسی ہو گی!)
 

حسان خان

لائبریرین
گُمان مبر که بِگردد ز عشقِ تو خوشحال
چرا که بر رُخِ خوبِ تو ډیر شیدا دی
(خوشحال خان خټک)


مت گُمان کرو کہ «خوشحال» تمہارے عشق سے پلٹ جائے [گا]۔۔۔ کیونکہ وہ تمہارے چہرۂ خوب پر بِسیار شَیدا ہے۔

× "ډیر شیدا دی" پشتو عِبارت ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نگردد حُسنِ یوسُف کم اگر محبوس می‌باشد
فُروغِ شمع کم نبْوَد چو در فانوس می‌باشد
(میرزا محمد سِیَر)


«یوسُف» اگر محبوس ہو، [تو بھی] اُس کا حُسن کم نہیں ہوتا۔۔۔ شمع جب فانوس میں ہوتی ہے [تو تب بھی] اُس کی روشنی و تابِش کم نہیں ہوتی۔
 

حسان خان

لائبریرین
«سُلطان محمود غزنَوی» کے برادر «امیر ابویعقوب یوسف بن ناصرالدین سبُکتَگین» کی مدح میں ایک بَیت:

از کفِ او چُنان هراسد بُخل
که تن‌آسانِ تن‌دُرُست از تب
(فرُّخی سیستانی)


اُس کے کفِ [جُود و کرَم] سے بُخل اُس طرح خَوف کھاتا ہے جس طرح [کوئی] آسودہ و سالِم و تن‌دُرُست شخص بُخار سے [خَوف کھاتا ہے]۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
ہماری فارسی شعری روایت میں ایک «سمَندر» نامی اساطیری حَیوان کا بارہا ذِکر مِلتا ہے جس کے بارے میں تصوُّر کیا جاتا تھا کہ وہ آتش میں مُتَوَلِّد و ظاہر ہوتا ہے اور آتش کے اندر ہی زندگی کرتا ہے اور اُس پر آتش اثر نہیں کرتی اور اُس کو جلاتی نہیں ہے۔ خاکِ پاکِ «چِترال» کے ایک شاعر «میرزا محمّد سِیَر» کی ایک بَیت دیکھیے:

کبوتر گشت خاکِستر ز شرحِ آتشِ هجرم
بِبَستم بر پر و بالِ سمندر نامهٔ خود را
(میرزا محمد سِیَر)


میری آتشِ ہجر کی شرح و بیان سے کبوتر خاکِستَر (راکھ) ہو گیا۔۔۔ [لہٰذا] مَیں نے [نامہ‌رَسانی کے لیے] اپنے مکتوب کو «سمَندر» کے پر و بال پر باندھ دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
«دریائے ارَس» اُس دریا کا نام ہے جو مشرقی اناطولیہ اور دیارِ آذربائجان سے بہتا ہے، اور جو فی زمانِنا ایران اور ایرانی آذربائجان کو جمہوریۂ آذربائجان سے جُدا کرتا ہے اور اُن دو مُلکوں کے درمیان سرحد کا کار انجام دیتا ہے۔ «حافظِ شیرازی» کی ایک غزل کے مطلع میں اُس دریا کا نام آیا ہے:

ای صبا گر بِگْذری بر ساحلِ رُودِ ارَس
بوسه زن بر خاکِ آن وادی و مُشکین کُن نفَس
(حافظ شیرازی)


اے صبا! اگر تم «دریائے ارَس» کے ساحل پر گُذرو تو اُس وادی کی خاک پر بوسہ دو اور [اپنے] نَفَس (سانس) کو مُشک‌آمیز کرو۔

================

«مُلکِ چِترال» کے شاعر «میرزا محمد سِیَر» کے فارسی دیوان کی ورَق‌گردانی کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ اُنہوں نے بھی ایک غزل کے مقطع میں «حافظ» کی مذکورۂ بالا بَیت کے مصرعِ ثانی کو مُقتَبَس کیا ہے، اور اُس مقطع کے ذریعے سے «حافظِ شیرازی» اور اُن کے شہر «شیراز» کو خِراجِ تحسین پیش کیا ہے، اور اُن کو سِتائش کے ساتھ یاد کیا ہے:


چون صبا هر شب سِیَر در گُلشنِ شیراز شَو
بوسه زن بر خاکِ آن وادی و مُشکین کُن نفَس
(میرزا محمد سِیَر)


اے «سِیَر»! صبا کی مانند ہر شب «گُلشنِ شیراز» میں جاؤ۔۔۔ [اور] اُس وادی کی خاک پر بوسہ دو اور [اپنے] نَفَس کو مُشک‌آمیز کرو۔

================

یعنی دُنیائے زبانِ فارسی کے ہر دیگر خِطّے کی مانند سرزمینِ «چِترال» کے فارسی ادبی حلقوں میں بھی «حافظِ شیرازی» کی شاہنشاہی رہی ہے۔ سلام ہو «شِیراز» و «چِترال» پر! اور سلام ہو «شیراز» و «چِترال» کے اُن دو شاعروں پر!
 

حسان خان

لائبریرین
«سُلطان محمود غزنَوی» کے برادر «امیر ابویعقوب یوسف بن ناصرالدین سبُکتَگین» کی مدح میں ایک بَیت:

زان که هم‌رنگِ رُویِ دُشمنِ اوست
ننِهَد در خزانه هیچ ذهَب
(فرُّخی سیستانی)


وہ [اپنے] خزانے میں کوئی بھی زر نہیں رکھتا [بلکہ ناداروں کو بخش دیتا ہے] کیونکہ وہ زر اُس کے [خَوف‌زدہ] دُشمن کے [زرد] چہرے کا ہم‌رنگ ہے۔۔۔ (یعنی خَوف سے اُس کے دُشمن کا چہرہ زر کی مانند زرد رہتا ہے، لہٰذا وہ خزانے میں زر نہیں رکھتا کیونکہ وہ اُس کے دُشمن کے چہرے سے مُشابہت رکھتا ہے)۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
«شیرین و فرہاد» کی داستان میں ہے کہ جب «فرہادِ» کوہ‌کَن کو تیشے کے ذریعے جُوئے شِیر کھود لینے کے بعد بھی «شیرین» نہ مِل سکی تھی تو اُس نے اپنے سر پر تیشہ مار کر جان سُپُرد کر دی تھی۔ «مُلکِ کشمیر» کے ایک «کشمیری» شاعر «محمد ذاکِر کشمیری» ایک بَیت میں خود کو «فرہاد» سے برتر عاشق بتاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جو «فرہاد» کا انجام تھا، وہ تو اُن کا آغاز ہے:

آنچه بود انجامِ کارِ کوه‌کَن، آغازِ ماست
تیشه اوّل بر سرِ خود می‌زند فرهادِ ما
(محمد ذاکِر کشمیری)


جو چیز «فرہادِ» کوہ‌کَن کے کار کا انجام تھی، وہ ہمارا آغاز ہے
ہمارا «فرہاد» تیشے کو اوّلاً خود کے سر پر مارتا ہے
 

حسان خان

لائبریرین
خاکِ پاکِ «چِترال» کے ایک شاعر «میرزا محمد سِیَر» کی ایک فارسی بَیت:

هر سال گُل به بادِ خزان چون فنا شوَد
بُلبُل به آبِ دیده شوَد مُرده‌شُویِ گُل
(میرزا محمد سِیَر)


ہر سال گُل جب بادِ خَزاں سے مر جاتا ہے تو بُلبُل اشکِ چشم کے ذریعے سے گُل کے جسَدِ مُردہ کو غُسل دیتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ذرا دیکھیے کہ خاکِ پاکِ «کشمیر» کے ایک «کشمیری» شاعر «میرزا داراب بیگ جُویا کشمیری» نے اپنے مُلک و وطن «کشمیر» کی سِتائش کس قدر خوش‌طبعی کے ساتھ کی ہے۔ وہ "کشمیرِ خُلدنظیر" کی سِتائش میں لِکھی ایک مثنوی کی ایک بَیت میں کہتے ہیں کہ اُن کے وطن کی خاک اِس قدر زیادہ گُل‌خیز ہے کہ اگر اُس میں سے ذرا سی خاک کو مُشت میں لیا جائے تو اُس کی تأثیرِ نیک سے دست میں ہر انگُشت ایک غُنچے میں تبدیل ہو جائے گی۔

ز خاکش اندَکی گیری چو در مُشت
به دستَت غُنچه‌ای گردد هر انگُشت
(میرزا داراب بیگ جویا کشمیری)


جب تم [کشمیر] کی خاک میں سے ذرا سی [خاک] مُشت میں لو تو تمہارے دست میں ہر انگُشت اِک غُنچے [میں تبدیل] ہو جائے۔

=============

«کاشُروں» کے مِلّی وطن «کشمیر» پر سلام ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
ایک افغان-اُزبَک شاعر کی ایک فارسی بَیت:

از اِنزِوا و گوشهٔ عُزلَت دِلم گِرِفت
جَولان‌گهی چو دشت و بیابانم آرزوست
(سیِّد محمد عالِم لبیب)


گوشہ‌نشینی و کنارہ‌جُوئی اور گوشۂ عُزلَت سے مَیں دِل‌گِرِفتہ و بیزار و ملُول ہو گیا [ہوں]۔۔۔ مجھ کو دشت و بِیابان جیسی اِک [وسیع] جَولان‌گاہ کی آرزو ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
پادشاہِ غازی «ظهیرالدین محمد بابُر» کی ایک فارسی بَیت:

عُمرِ من رفت و مرا فُرقتِ او ساخت هلاک
چه کُنم، عُمرِ منِ دل‌شُده مُستَعجِل بود
(ظهیرالدین محمد بابُر)


میری عُمر چلی گئی اور اُس کی فُرقت نے مجھ کو ہلاک کر دیا۔۔۔ مَیں کیا کروں، مجھ [عاشقِ] دِل‌باختہ و دِل‌دادہ کی عُمر زُودگُذَر و شِتاب‌کُنَندہ تھی۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
«شیخ رِضا طالبانی» کی ایک کُردی بَیت:

ڕۆح و دڵ و دین هه‌ر سێ ده‌که‌م به‌زل و نیساری
کامی دڵی من گه‌ر له‌ له‌بی له‌علی ڕه‌وا کا

(شێخ ڕەزای تاڵەبانی)

اگر وہ [محبوب] اپنے لبِ لعل سے میرے دل کی مُراد روا و برآوردہ کرے تو میں رُوح و دِل و دین تینوں اُس پر صَرف و نِثار کر دوں گا!
 

حسان خان

لائبریرین
شُد خراب از غمِ هجرانِ تو بُنیادِ دلِم
پَیِ آبادیِ او آه که مِعماری نیست
(ماه‌شرَف خانم 'مستوره' کُردستانی)


تمہارے ہجر کے غم سے میرے دِل کی بُنیاد خراب و ویران ہو گئی۔۔۔ آہ! کہ اُس کو آباد و معمور کرنے کے لیے کوئی مِعمار [مَوجود] نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
«کاشُروں» کے مِلّی وطن «کشمیر» کی سِتائش میں «حاجی محمد جان قُدسی مشهدی» کی ایک بیت:

اگر ذوقِ بهار و سبزه داری
به جُز کشمیر در خاطِر نیاری
(قُدسی مشهدی)


اگر تم بہار و سبزہ کا ذَوق و مَیل رکھتے ہو تو تم «کشمیر» کے بجُز [کِسی دِیار کو] ذہن میں نہ لاؤ گے!
 

حسان خان

لائبریرین
ایک «کُرد» شاعرہ کی ایک فارسی بَیت میں «صلیب» کے معنی میں استعمال ہونے والا ارمَنی‌الاصل لفظ «خاج/خاچ»، جو آذربائجان و اناطولیہ کی تُرکی میں بھی رائج ہے، استعمال ہوتے نظر آیا ہے:

ما کُشتهٔ هجریم و تو داری دمِ عیسیٰ
ما کافرِ عشقیم و تو در مذهبِ ما خاج
(ماه‌شرَف خانم 'مستوره' کُردستانی)


[اے یار!] ہم کُشتۂ ہجر ہیں، اور تم «عیسیٰ» کی [جیسی شِفابخش] پُھونک رکھتے ہو۔۔۔۔ ہم کافرِ عشق ہیں، اور تم ہمارے دین میں صلیب ہو۔ (یعنی تم ہمارے نزدیک اُسی طرح مُقدّس و مُحترَم ہو جس طرح مسیحیت میں صلیب۔)
 

حسان خان

لائبریرین
دوستو! «کشمیریوں» کے مِلّی وطن «کشمیر» اور «خُوبانِ کشمیر» کی عظَمت و شُہرت دیکھیے کہ ہزاروں مِیل دُور «کُردستان» کی ایک شاعرہ «ماه‌شرَف خانم 'مستوره' کُردستانی» نے بھی اپنی ایک فارسی بیت میں اُن کا ذِکرِ خَیر کیا ہے:

روِشِ آن شهِ خوبان بِنِگَر مستوره
که خِرامِ بُتِ چین و مهِ کشمیر کند
(ماه‌شرَف خانم 'مستوره' کُردستانی)


اے «مستُورہ»! [میرے] اُس شاہِ خُوباں کی روِش دیکھو کہ وہ زیبائے چِین اور ماہِ کشمیر کی [مانند] خِرام کرتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چه می‌پُرسی ز حالِ مردُمان در انتظارِ خود
که چشم از سُرمه خالی گشت در راهِ تو آهو را
(مُلّا فُروغ کشمیری)


تم اپنے انتظار میں مردُم کا حال کیا پوچھتے ہو؟۔۔۔ کہ تماری راہ [دیکھتے دیکھتے] تو آہُو کی چشم [بھی] سُرمے سے خالی ہو گئی [ہے]۔۔۔ (یعنی تمہارا اِنتظار صِرف اِنسانان نہیں کر رہے اور فقط اُن کا حال ہی تمہارے اِنتِظار میں بد نہیں ہے، بلکہ تمہارا اِنتِظار کرتے کرتے تو آہُو (ہِرَن) کی چشمیں بھی سفید ہو گئی ہیں۔)
 

حسان خان

لائبریرین
«ماه‌شرَف خانم 'مستوره' کُردستانی» ایک زن شاعرہ تھیں، اور زن ہونے کے باعث اگر وہ کہتیں کہ "میں فرہاد ہوں" تو شاید یہ عجیب سمجھا جاتا۔ کیونکہ کسی زن کو تو «فرہاد» کی بجائے «شیرین» کی مانند ہونا چاہیے تھا، لیکن مُشکِل یہ تھی کہ «فرهاد و شیرین» کی داستان میں عاشقی و فِراق و غم‌گینی و اندوہ و ملال میں «فرہاد» زیادہ مشہور رہا ہے، «شیرین» نہیں۔ شاید یہی سبب تھا جو اُنہوں نے ایک فارسی مِصرعے میں کہا:

شیرین‌صِفَتم ولی ز غم فرهادم
(ماه‌شرَف خانم 'مستوره' کُردستانی)


میں مِثلِ «شیرین» ہوں، لیکن غم کے باعث «فرہاد» ہوں۔۔۔۔
 
Top