مجھے بھی دل سے بھلا نہ دینا-----برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
------------
مَفاعلاتن مَفاعلاتن
-------
مجھے بھی دل سے بھلا نہ دینا
یوں غیر مجھ کو بنا نہ دینا
-------------
لہو سے اپنے جو خط لکھے تھے
انہیں کہیں تم گما نہ دینا
----------
خطوط میرے چھپا کے رکھنا
کسی کو سب وہ دکھا نہ دینا
-------------
بہت ہی نازک ہے دل یہ میرا
نہ ٹوٹ جائے ، گرا نہ دینا
-------------
ابھی جو ابھرے ہیں دل میں جذبے
انہیں کبھی تم دبا نہ دینا
---------یا
نہ پھر سے ان کو دبا نہ دینا
----------
جو شمع دل میں جلی ہے تیرے
جلا کے رکھنا، بُجھا نہ دینا
------------
ہے پاس تیرے یہ دل جو میرا
کہیں پہ رکھ کر بھلا نہ دینا
-------------
جو جرمِ الفت کیا ہے میں نے
بھلا کے مجھ کو سزا نہ دینا
--------------
کبھی جو آؤں میں گھر میں تیرے
مجھے وہاں سے اٹھا نہ دینا
-----------
تمہیں پہ ارشد فدا ہوا ہے
کبھی بھی اس کو رُلا نہ دینا
-----------
 

عظیم

محفلین
مجھے بھی دل سے بھلا نہ دینا
یوں غیر مجھ کو بنا نہ دینا
------------- پہلے میں 'بھی' بھرتی کا لگتا ہے۔
مجھے کبھی تم بھلا نہ دینا
دوسرے میں 'یوں' کی بجائے کچھ اور لفظ لایا جائے کہ جس سے ربط بھی بنے

لہو سے اپنے جو خط لکھے تھے
انہیں کہیں تم گما نہ دینا
---------- گما کی جگہ جلا بہتر رہے گا

خطوط میرے چھپا کے رکھنا
کسی کو سب وہ دکھا نہ دینا
------------- ٹھیک

بہت ہی نازک ہے دل یہ میرا
نہ ٹوٹ جائے ، گرا نہ دینا
------------- دل یہ میرا اچھا نہیں لگ رہا۔
دل ہمارا کیا جا سکتا ہے
اور گرانا کچھ عجیب لگتا ہے۔ کہیں ہاتھ میں پکڑے ہونے کا ذکر نہیں شاید اس لیے

ابھی جو ابھرے ہیں دل میں جذبے
انہیں کبھی تم دبا نہ دینا
---------یا
نہ پھر سے ان کو دبا نہ دینا
---------- جو پھر سے ابھرے ہیں دل میں جذبے
انہیں کبھی تم دبا نہ دینا
بہتر لگتا ہے

جو شمع دل میں جلی ہے تیرے
جلا کے رکھنا، بُجھا نہ دینا
------------جلا کے رکھنا کی بہ نسبت جلائے رکھنا کیسا رہے گا؟

ہے پاس تیرے یہ دل جو میرا
کہیں پہ رکھ کر بھلا نہ دینا
------------- بھلا نہ دینا محاورے کے خلاف ہوتا لگ رہا ہے کہیں رکھ کے' کے ساتھ بھول نہ جانا' بہتر ہوتا۔ 'گنوا' نہ دینا کے بارے میں بھی سوچیں

جو جرمِ الفت کیا ہے میں نے
بھلا کے مجھ کو سزا نہ دینا
-------------- یہ شعر لگتا ہے کہ نکالا جا سکتا ہے

کبھی جو آؤں میں گھر میں تیرے
مجھے وہاں سے اٹھا نہ دینا
----------- گھر تمہارے بہتر ہو گا۔ گھر سے اٹھانا بھی عجیب ہے، در لایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح باقی اشعار میں بھی دیکھ لیں جو شاید مجھ سے رہ گیا ہے کہ شترگربہ ہو گا ایک دو اشعار میں 'دینا' ردیف کے ساتھ 'تیرے' تُو' درست نہیں لگتا۔

تمہیں پہ ارشد فدا ہوا ہے
کبھی بھی اس کو رُلا نہ دینا
----------- کہیں تم اس کو رلا نہ دینا
بہتر ہو شاید
 
الف عین
عظیم
------------------
مجھے کبھی تم بھلا نہ دینا
یوں میرے دل کو جلا نہ دینا
-------------
لہو سے اپنے جو خط لکھے تھے
انہیں کہیں تم جلا نہ دینا
----------
خطوط میرے چھپا کے رکھنا
کسی کو سب وہ دکھا نہ دینا
-----------
مرا بھروسہ نہ ٹوٹ جائے
کبھی بھی مجھ کو دغا نہ دینا
-----
جو پھر سے ابھرے ہیں دل میں جذبے
انہیں کبھی تم دبا نہ دینا
----------
جو شمع دل میں جلی ہے تیرے
جلائے رکھنا، بُجھا نہ دینا
------------
ہے پاس تیرے یہ دل جو میرا
اسے کہیں پر گنوا نہ دینا
---------
اگر محبّت پہ ہے بھروسہ
وفا کے بدلے جفا نہ دینا
----------
کبھی جو آؤں میں گھر تمہارے
مجھے وہاں سے اٹھا نہ دینا
-----------
اگر محبّت پہ ہے بھروسہ
وفا کے بدلے جفا نہ دینا
-----------
وفا پہ ارشد کی شک نہ کرنا
اسے نظر سے گرا نہ دینا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
نثر سے جس قدر قریب مصرع ہو گا، اتنا ہی رواں ہو گا، نہ جانے آپ کے ذہن میں سیدھا سادہ 'یوں میرے دل' کی جگہ 'مرے یوں دل' کیوں آ جاتا ہے! ابھی مطلع ہی دیکھا ہے، اس قسم کی دوسری اغلاط بھی ہو سکتی ہیں
 
نثر سے جس قدر قریب مصرع ہو گا، اتنا ہی رواں ہو گا، نہ جانے آپ کے ذہن میں سیدھا سادہ 'یوں میرے دل' کی جگہ 'مرے یوں دل' کیوں آ جاتا ہے! ابھی مطلع ہی دیکھا ہے، اس قسم کی دوسری اغلاط بھی ہو سکتی ہیں
تصحیح کر دی ہے باقی کو دیکھ لیں
 

الف عین

لائبریرین
مجھے کبھی تم بھلا نہ دینا
یوں میرے دل کو جلا نہ دینا
------------- ایطا ہے، دونوں قوافی لا پر ختم ہو رہے ہیں جب کہ یہ قافیہ نہیں ہے اس غزل کا

لہو سے اپنے جو خط لکھے تھے
انہیں کہیں تم جلا نہ دینا
---------- درست

خطوط میرے چھپا کے رکھنا
کسی کو سب وہ دکھا نہ دینا
----------- خطوط رکھنا چھپا کے میرے
کر دو، کہ دونوں مصرعوں میں آخر 'نا' اچھا نہیں لگتا

مرا بھروسہ نہ ٹوٹ جائے
کبھی بھی مجھ کو دغا نہ دینا
----- کبھی بھی مجھے کبھی پسند نہیں آتا.
کبھی مجھے تم.. کیا جا سکتا ہے

جو پھر سے ابھرے ہیں دل میں جذبے
انہیں کبھی تم دبا نہ دینا
---------- درست

جو شمع دل میں جلی ہے تیرے
جلائے رکھنا، بُجھا نہ دینا
------------ تیرے کی ضمیر درست نہیں، اسے جنرل ہی کہو
وہ شمع جو دل میں جل اٹھی ہے

ہے پاس تیرے یہ دل جو میرا
اسے کہیں پر گنوا نہ دینا
--------- پہلے مصرع کی روانی بہتر ہو سکتی ہے

اگر محبّت پہ ہے بھروسہ
وفا کے بدلے جفا نہ دینا
---------- ٹھیک

کبھی جو آؤں میں گھر تمہارے
مجھے وہاں سے اٹھا نہ دینا
----------- ٹھیک

اگر محبّت پہ ہے بھروسہ
وفا کے بدلے جفا نہ دینا
----------- اوپر آ چکا ہے

وفا پہ ارشد کی شک نہ کرنا
اسے نظر سے گرا نہ دینا
.. درست
 
Top