سہ ماہی اردو محفل ۔۔۔ اکتوبر تا دسمبر 2019

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ام اویس

محفلین
بلی، شیر اور انسان (بچوں کی کہانی)

ایک پالتو بلی بھولی بھٹکی قریبی جنگل میں آ نکلتی ہے۔ کچھ دیر اِدھر اُدھر گھومنے پھرنے کے بعد اس کا سامنا شیر سے ہو جاتا ہے جو اس جنگل کا سردار ہوتا ہے۔ بلی قدرے خوف سے مگر محتاط ہو کر شیر کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے تا کہ جان بچانے کے لیے کوئی پینترا اختیار کر سکے۔

شیر نے اس سے قبل کسی بلی کو نہیں دیکھا تھا چناچہ وہ دیکھ کر بہت حیران ہوتا ہے اور اس چھوٹے جانور کا بغور مشاہدہ کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ بظاہر تو میرے جیسا جانور ہی ہے مگر جسامت میں اتنا چھوٹا کیوں ہے؟ جب اسے کچھ سمجھ نہیں آتی تو بالآخر وہ بلی سے مخاطب ہوتا ہے۔ کون ہو تم؟ دیکھنے میں تو مجھ جیسے ہی ہو مگر اتنے چھوٹے کیوں ہو؟

بلی سوچتی ہے کہ اگر اس کو حقیقت بتا دی اور یہ بھوکا بھی ہوا تو کہیں مجھے کھا ہی نہ جائے سو وہ اپنے شاطر دماغ کا استمعال کرتی ہے اور کچھ ہی دیر بعد شیر سے مخاطب ہوتی ہے کہ ہاں باشاہ سلامت! ہوں تو میں آپ ہی کی نسل سے اور پہلے تھی بھی آپ ہی کی جسامت میں مگر کیا بتاؤں، قریبی شہر میں ایک بہت ہی خطرناک جانور رہتا ہے اس نے مجھ پر اتنے ظلم کیئے ہیں کہ میں اتنی سی رہ گئی ہوں۔

کیا نام ہے اس بدذات کا؟ اور کیا وہ مجھ سے زیادہ خونخوار ہے؟ شیر غصّہ سے پاگل ہوتے ہوئے گرجا۔ بلی نے مظلومانہ انداز میں بتایا کہ اس وحشی درندے کو "انسان" کہتے ہیں۔ شیر نے چونکہ ابھی جوانی میں قدم رکھا ہی تھا اور تجربہ زیادہ نہ ہونے کے باعث وہ تاحال انسان سے بھی ناآشنا تھا۔

اپنی طاقت اور جوانی کے نشے میں شرابور شیر بلی کو حکم دیتا ہے کہ جاؤ اور کسی طریقہ سے اس جانور کو جنگل تک لے آؤ پھر دیکھتا ہو کہ وہ کیا بَلا ہے۔ بلی اپنی جان بچاتے ہوئے حکم کی تعمیل کے لیے وہاں سے چل دیتی ہے اور جس گھر کے باورچی خانے پر اس کی گذر بسر ہوتی ہے اس گھر کے مالک کا انتظار کرنے لگتی ہے۔ جیسے وہ گھر لوٹتا ہے بلی اسے ورغلا کر جنگل کی اور لے نکلتی ہے اور حیلے بہانے سے یکایک شیر کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے اور باآوازِ بلند کہتی ہے حضور! یہ ہے وہ درندہ صفت جس نے آپ کی نسل پر بے تحاشا ظلم کئے ہیں۔

انسان یک دم یہ ماجرہ دیکھ کر گھبرا جاتا ہے اور دم سادھ کر کھڑا جان بچانے کا سوچنے لگتا ہے۔ شیر انسان کے گرد چکر کاٹتے ہوئے اس کا جائزہ لیتا ہے اور سوچتا ہے کہ نہ اس کے دانت بڑے ہیں نہ اس کا ناخنوں والا پنجہ ہے اور نہ ہی اس کی کھال بال دار اور سخت ہے تو یہ کیسے ظلم کرتا ہے۔؟ یہ سب دیکھنے کے بعد ایک دم شیر انسان کے سامنے رکتا ہے اور گرجدار آواز میں پوچھتا ہے کہ میری نسل کے جانوروں پر اس قدر ظلم کیونکر کیئے کہ وہ اتنے سے رہ گئے؟ اب اس پاداش کی سزا میں مجھ سے لڑنے اور میرے ہاتھوں مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔

انسان یہ سب دیکھنے اور سننے کے بعد اندازہ لگاتا ہے کہ بلی نے اپنی جان بچانے کے لیے اسے کوئی من گھڑت کہانی سنائی ہوگی لہٰذا انسان شیر سے اپنی جان بچانے کے لیے اپنا دماغ لڑاتا ہے اور تھوڑی ہی دیر میں ایک تدبیر سوچنے کے بعد شیر کو جواباً للکارتا ہے اور بلی کی طرف اشارہ کہتا ہے کہ جب یہ تمہارے جتنی تھی تو اس نے بھی ایک دن اپنی نسل کا بدلا لینے کی ٹھانی تھی تم بھی اگر اس کی غلطی دہرانا چاہتے ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں اور میں تم جیسے کو سبق سیکھانے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہوں۔ بلی موقع دیکھتے ہی قریبی درخت پر چڑھ جاتی ہے اور یہ سب مزے سے دیکھنے لگتی ہے۔

اس سے پہلے کہ شیر حملہ کرتا انسان پھر شیر کو مخاطب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سے پہلے کہ لڑائی شروع ہو، میں ایک بہت ضروری کام کرآؤں پھر تسلی سے تمہاری مرمت کروں گا۔ شیر اپنی دھلائی کی باتوں کو مضحکہ خیز سمجھتے ہوئے سوچتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان میرا مقابلہ کر سکے اور الٹا میری دھلائی کرسکے؟ ساتھ ہی ساتھ اسے شیر ( یعنی بلی) کو چھوٹا کرنے والے تشدد کی قسم کو جاننے کا بھی تجسس تھا لہٰذا شیر کہتا ہے جتنا وقت چاہیے لے لو مگر تم لڑائی میں مجھ سے جیت نہیں سکتے۔

انسان ضروری کام چند منٹوں میں کر کے واپس آنے کا کہتا ہے اور شیر کو پابند کرتا ہے کہ وہ یہیں اس کا انتظار کرے اور اس کے آنے تک کہیں بھاگ نہ جائے۔ شیر یہ سب باتیں سن کر قہقھہ لگاتا ہے اور کہتا ہے تم بھاگ سکتے ہو میں نہیں۔ انسان بھی یہ سن کر لازمی آنے کا وعدہ کرتا ہے اور چلنے لگتا ہے۔

شیر کی نظروں سے اوجھل ہونے سے پہلے ہی انسان واپس پلٹتا ہے اور شیر سے کہتا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ میرے واپس آنے تک تم یہاں سے بھاگ جاؤ گے لہٰذا میں تسلی چاہتا ہوں۔ شیر ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں میں بھلا کیوں بھاگوں گا؟ خیر! انسان کہتا ہے کہ مجھے پھر بھی یقین نہیں ہے لہذا میں تمہیں درخت کے ساتھ باندھ کر جاؤں گا۔ شیر اپنی طاقت کے نشے میں انسان کو اجازت دیتا ہے کہ تم اپنی تسلی کرلو۔ انسان ادھر ادھر سے رسی ڈھونڈتا ہے اور شیر کو درخت سے باندھ دیتا ہے اور جانے کے لیے مڑتا ہے کہ پھر رک جاتا ہے۔ اب کیا ہے؟ شیر پوچھتا ہے۔

یہ ایک رسی تو تم بندر یا کسی جانور سے کھلوا لو گے لہٰذا میں تمہارے ہاتھ پاؤں بھی باندھ کر جاؤں گا تا کہ تم بھاگ نہ سکو۔ شیر کہتا ہے اچھا یہ شوق بھی پورا کر لو۔ انسان اس کے ہاتھ پاؤں بھی باندھ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اب انتظار کرو میں ضروری کام کر کے ابھی آیا۔ یہ کہہ کر انسان چلتا ہے اور کچھ ہی دور سے ایک موٹا سا ڈنڈہ پکڑتا ہے اور پھر واپس لوٹتا ہے اور مار مار کر شیر کی ہڈی پسلی ایک کر دیتا ہے۔ پھر ہاتھ جھاڑتے ہوئے شیر سے کہتا ہے کہ اب یہیں انتظار کرو میں ضروری کام کر کے آتا ہوں اور تم سے دو ہاتھ کرتا ہوں۔

شیر پہلی مار سے ہی ادھ موا ہو چکا ہوتا ہے اور درد سے کراہتا ہوا سوچتا ہے کہ ابھی اس نے میرا یہ حال کر دیا ہے تو ضروری کام کے بعد واپس آکر میرے ساتھ کیا کرے گا۔ انسان جب اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے تو درد سے نڈھال شیر قریبی درخت پر بیٹھی بلی سے پوچھتا ہے:-

سنو! جب میں تمہارے جتنا رہ جاؤں گا تو یہ مجھے چھوڑ تو دے گا نا؟
کہانی تو بہت دلچسپ ہے۔ لیکن میری ناقص رائے میں اسے ماضی کے صیغہ میں ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ آپس کی بات چیت بھی مکالموں کی شکل میں ہو تو کہانی کو چار چاند لگ جائیں ۔

میرے خیال میں تو اردو محفل میں جس طرح “اصلاح سخن “ ہے اسی طرح “ اصلاح نثر “ کا زمرہ بھی ہونا چاہیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی میری رائے میں اس مجلہ کا کوئی مختلف نام ہونا چاہئے ۔ اردومحفل تو موجود ہے ہی ۔ اگر آپ چاہیں تو میں ایک دو نام تجویز کرسکتا ہوں ۔

نام تو آپ ضرور تجویز کر دیجے۔ ہم اساتذہ کی خدمت میں پیش کر دیں گے۔ بلکہ وہ بھی اس لڑی کو دیکھ ہی رہے ہیں۔ :)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
محمد عدنان اکبری نقیبی بھائی ۔۔۔ ٹیگ کرنے کا شکریہ۔۔۔

حاضر ہیں۔۔۔ اب اتنی شرطیں آپ نے ادبی مجلے کے لیے عائد کی ہیں تو ایک ہماری طرف سے بھی۔۔۔۔ جس کسی شاعر یا ادیب کی تحریر آپ رد کریں اسے جتنی جلدی ممکن ہو آگاہ ضرور کیا جائے۔ بعض اوقات تحریر میں کچھ خامیوں کو دور کرکے اسے قابل اشاعت بنایا جاسکتا ہے۔۔۔ ہماری ایک غزل اگر آپ کو قابل اشاعت نہ بھی لگے تو دوسری بھیجی جا سکتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ توجہ فرمائیے گا !!
محمداحمد
 

شکیب

محفلین
بہت عمدہ تجویز ہے۔
خالص ادبی تحاریر تو اپنے بس کی بات نہیں، اور نثر میں کہانی وغیرہ لکھیں بھی تو اپنا ذہن انہی موضوعات کی طرف زیادہ چلتا ہے جن پر آپ نے قدغن لگا رکھی ہے۔:D
شاعری کے زمرے میں کچھ بھیجنے کی کوشش کروں گا ان شاء اللہ۔
 

زیرک

محفلین
چلیں جی، پاکستان جانے سے پہلے مابدولت کی طرف سے بھی ایک ادنیٰ کاوش حاضر ہے، میری طرف سے کھلی اجازت ہے کہ قارئین جی بھر کر تنقید کریں کیونکہ بندہ تو یہاں ہو گا ہی نہیں، نہ سنے گا اور نہ جوابے گا۔ یوں سمجھیے گا کہ لکھاری 23 دنوں کے لیے فراری ہو گا، پھر سفر کی خماری ہو گی اور جب مابدولت جاگیں گے تو سبھی ناقدین کو توپ دم کر کے رکھ دیں گے۔



۔
ہاں جی! یہاں کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ تحریر؟ وہ اگلی پوسٹ میں ہے، یہاں صرف تحریر کا تعارف ہے۔
 

زیرک

محفلین
گولی گولی پہ لکھا ہے کھانے والے کا نام
از قلم زیرک
سیانوں کی محفل میں سائبیریا سے سرد موسم کی سختی سے تنگ آ کر ایشیا کی طرف ہجرت کرنے والے جنگلی پرندوں کی معاجرت کی وجوہات جاننے کے لیے روس اور یورپی ممالک کی جانب سے سائنسی تحقیق کرنے کے لیے لاکھوں ڈالرز کے اخراجات کیے جانے کی بات ہو رہی تھی۔ میرے پاس بیٹھے چاچا چپ شاہ نے اپنی خموشی توڑتے ہوئے کہا “سائنس یا تحقیق کو گولی مارو، یہ دیکھو کہ سردی یا بھوک سے تنگ آئے ہوئے یہ پرندے 4000 کلومیٹر سے زائد کا سفر محض اس لیے طے کر کے روس سے پاکستان میں آتے ہیں کہ گرم علاقوں میں پیدا ہونے والا اناج کھا کر سرد موسم سے اپنا بچاؤ کر سکیں، لیکن بے چاروں کے مقدر میں شکاریوں کی گولی ہی لکھی ہوتی ہے۔ کل کلاں ان پرندوں کی نسل سے کوئی ابنِ انشاء نکل آئے تو وہ یہی لکھیں گے کہ ““واہ ری قسمت ہم مظلوم پرندے گندم کا دانہ کھانے آئے تھے اور ہمیں کھانے کو ملتی ہے سیسے والی گولی، کیا ہم اتنا لمبا سفر اس لیے کاٹ کے آئے تھے، دیا رے دیا! کیا ہمیں رہ گئے تھے گولی کھانے کے لیے؟””۔ کیا ظالم محاورہ ہے کہ ”دانے دانے پہ لکھا ہے کھانے والے کا نام”، آج سے محاورہ بدلو اور یہ لکھا کرو کہ ”گولی گولی پہ لکھا ہے کھانے والے کا نام”۔
 
سڈنی آسٹریلیا سے طارق محمود مرزا کی تحریر


قوموں کی سر بلندی اس کے کردار میں پنہاں ہے
طارق محمود مرزا۔ سڈنی،آسٹریلیا


میں جب بھی شہر کی گہما گہمی سے اُکتاتا ہوں تو آسٹریلیا کے کسی دیہی علاقے کا رُخ کرتا ہوں۔ یہاں چھوٹے چھوٹے قصبات بلکہ گاؤں میں بھی ہوٹل دستیاب ہیں۔ جدید سہولتوں کے باوجود گاؤں کی زندگی اب بھی زیادہ نہیں بدلی بلکہ صدیوں پرانی طرز پر قائم ہے۔ وسیع رقبے پر بنے سادہ سے مکانات،کھلی سڑکیں،درختوں اور سبزے کی بہتات، صاف سُتھری آب و ہوا اور حدّ نظر تک پھیلے کھیت اور کھلیان فطرت سے بہت قریب محسوس ہوتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تنہائی اور سکوت درکار ہو تو فارم ہاؤس بھی کرائے پر مل جاتے ہیں۔چند ماہ قبل ہمیں ایسے ہی ماحول کی طلب محسوس ہوئی تو ہم نے نیو ساؤتھ ویلز اور کوئنز لینڈ کے درمیان واقع شہر تاری (Taree)کے مضافات میں ایک فارم ہاؤس چند دنوں کے لیے بُک کر ا لیا۔ راہ کے خوشگوار مناظر دیکھتے، سبزے اور درختوں کے بیچ ہموار سڑک پر چلتے اور بھیڑوں، گائیوں اور گھوڑوں کے فارمز کا مشاہدہ کرتے پانچ گھنٹے کے بعد ہم اس فارم کی طرف مڑنے والی سڑک کے سامنے جا پہنچے۔ فارم ہاؤس کی طرف جانے والی یہ دو کلومیٹر سڑک کچی تھی مگر اس پر چھوٹے چھوٹے پتھروں کا فرش بچھا ہوا تھا جس پر گاڑی چلنے سے کڑکڑاہٹ کی آواز آتی تھی۔سڑک کے دونوں اطراف گھنے، اُونچے اور قدیم درخت استادہ تھے جن کی خستہ ڈالیاں ٹوٹ ٹوٹ کر گرتی رہتی ہیں۔ ہم فارم ہاؤس کے سامنے پہنچے تو دور دور تک جنگلوں میں گھرے، آبادیوں سے دور اس اکلوتے گھر کو دیکھ کر یوں لگا جیسے جنگل میں بہار آگئی ہے۔ کیونکہ گھر کے چاروں اطراف بڑے درختوں کے بجائے بے شمار چھوٹے اور پھول دار پودے رنگ بکھیر رہے تھے ان میں پھلوں سے لدے لیمن، مالٹے،سٹرابری اور سیب کے درخت بھی شامل تھے مرکزی دروازے کے پاس لگی انگور کی بیل گھر کی دیوار پر پھیلی تھی۔ جب کہ عقب میں کافی دور تک گھاس کا میدان تھا جہاں بکریاں، گائیں اور گھوڑے چر رہے تھے۔ گھر کے ارد گر آ ہنی تاروں کی باڑ تھی اور سامنے دھکیل کر کھلنے والا گیٹ تھا۔گیٹ کھول کرہم گاڑی اندر لے گئے اور ایک شیڈ کے نیچے پارک کر دی۔گھر کے باہر نمبر کے علاوہ کچھ نہیں لکھا تھا اس لیے مجھے کچھ شک تھا کہ یہی ہمارا مطلوبہ فارم ہاؤس ہے۔ یہ شک رفع کرنے کے لیے وہاں کوئی فرد موجود نہیں تھا۔میں نے فارم کی مالکن کو فون کر کے بتایا کہ ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔ اس نے فون پر ہی خوش آمدید کہا اور بتایا ”چابی مرکزی دروازے کے سامنے دیوار پر چسپاں ایک بکس کے اندر ہے اور باکس کھولنے کے لیے کوڈ نمبر یہ ہے۔ گھر کے اندر آپ کو ہر شے تیار اور صاف ستھری ملے گی“ ہم اس خاتون کی ہدایت کے مطابق دروازہ کھول کر اندر گئے تو واقعی پورا گھر سجا دھجا اور صاف ستھرا تھا۔بستر کی چادریں، تکیے، تولیے، فریج، ٹی وی، چولہے، برتن، کیتلی، ٹوسٹر، لائبریری، ویڈیو، برآمدے میں بار بی کیو چولہا اور دیگر سب چیزیں موجود اور صاف ستھری تھیں۔ ہم چاردن وہاں رہے اس دوران کوئی شخص وہاں نہیں آیا۔آخری دن کرایہ بھی وہیں رکھ کر آئے۔ دراصل ہم نے یہ فارم ہاؤس صرف تین دن کے لیے لیا تھا۔تیسری رات میرا ایک دوست بھی اپنی بیگم کے ساتھ وہاں آگیا۔ حالانکہ وہاں دیکھنے والا کوئی نہیں تھا پھر بھی میں نے فون کر کے مالکن کو بتایا ”آپ کو مطلع کرنا تھا کہ ہمارے دو مہمان آئے ہیں۔دوسرے یہ پوچھنا تھا کہ کیا ہم ایک رات مزید یہاں رُک سکتے ہیں؟“ میں توقع کر رہا تھا کہ وہ اضافی افراد کا اضافی کرایہ طلب کرے گی۔ کیونکہ گھر میں جتنے زیادہ لوگ ہوتے ہیں اتنا بجلی اور پانی زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ مگر اس نے یہ جواب دے کر ہمیں حیران کر دیا ”مہمانوں کا کوئی مسئلہ نہیں،ہاں آپ ایک رات مزید رُک سکتے ہیں کیونکہ کل کوئی اور مہمان نہیں آرہا۔ اس اضافی رات کا کرایہ دینے کی بھی ضرورت نہیں“
یہ جواب میرے لیے انتہائی غیر متوقع تھا۔ کافی دیر تک یقین نہیں آیا کہ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جنہیں لالچ چھو کر بھی نہیں گزرتی۔ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ فارم ہاؤس کی مالک خاتون ایک ریستوران میں اور اس کا میاں کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں۔یہ بات اس نے خود مجھے فون پر بتائی تھی۔ فارم ہاؤس کا خرچ نکال کر انہیں اس سے معمولی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود انہیں لالچ اور حرص نہیں تھی۔
اس فارم میں درجن بھر گائیں، اتنی ہی بکریاں اور دو گھوڑے تھے۔فارم کے مکین کی حیثیت سے آپ کو ان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ پچیس ایکڑ میں پھیلے اس فارم میں خود ہی چرتے پھرتے ہیں۔دھوپ اور بارش سے پناہ لینی ہو تو درختوں کے جھنڈ تلے چلے جاتے ہیں۔ فارم میں تین چھوٹے چھوٹے تالاب ہیں جہاں بارش کا پانی جمع رہتا ہے وہیں سے یہ اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ ہاں مہمان اپنے شوق کی خاطر انہیں چارہ ڈالنا چائیں تو فارم ہاؤس کے عقب میں ایک شیڈ میں گائے، گھوڑے اور بکریوں کے لیے الگ الگ چارہ موجود ہے۔ چارہ لے کر باڑ کے پاس جائیں تو گھوڑے اور گائیں جمع ہو جاتے ہیں آپ باڑ کے اوپر سے انہیں گھاس ڈال سکتے ہیں۔ بکریوں کا الگ باڑہ ہے وہاں پرانا سا شیڈ بھی ہے جہاں وہ سردی اور بارش میں پناہ لیتی ہیں۔ فارم ہاؤس میں بجلی کی سپلائی ہے مگر اس کے ساتھ شمسی توانائی بھی استعمال ہوتی ہے۔ آسٹریلیا میں شمسی توانائی کا استعمال عام ہے خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ فارم ہاؤس میں استعمال ہونے والا تمام پانی بارش سے جمع کیا ہوا ہے۔ گھر سے ملحق دو بڑے بڑے پلاسٹک کے ٹینک ہیں جہاں چھت سے بارش کاپانی جمع ہوتا ہے۔ یہی پانی نہانے دھونے، کھانے پینے ہر مقصدکے لیے استعمال ہوتاہے۔ میں سوچتا تھا کہ آسٹریلیا اور پاکستان کے موسموں میں بہت مماثلت ہے بارشیں اور دھوپ دونوں جگہوں کی مشترکہ خصوصیات ہیں۔بلکہ پاکستان میں دھوپ زیادہ پڑتی ہے۔ وہاں ایسے شمسی پلانٹ آسانی سے اور ارزاں داموں لگ سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں بارش کا پانی جمع کر کے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ ہمارے دیہاتوں میں بھی ایسے تالاب بنائے جا سکتے ہیں جیسے اس فارم میں بنے ہیں۔ جب بارش نہ تو یہ پانی مویشیوں اور فصلوں کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ ان میں سے کوئی کام بھی مشکل اور مہنگا نہیں ہے۔ نہ جانے اس طرف کسی کی توجّہ کیوں نہیں ہے۔
اس علاقے میں شہد کے بہت سے فارم ہیں۔ علاوہ ازیں سیب، ناشپاتی، سٹرابری، انگور اور دیگر پھلوں کے باغات ہیں۔ ہم اس علاقے میں ڈرائیونگ کرتے تو کئی گھروں کے آگے شہد اور ان پھلوں کی فروخت کا بورڈ رکھانظر آتا۔ ایک جگہ گاڑ ی روک کر ہم اندر گئے۔وہاں برآمدے میں میز پر خالص شہد کی بوتلیں اور پھلوں کی ٹوکریاں رکھی تھیں۔ ا ن پر قیمت درج تھی اور ایک طرف کھلا بکس رکھا تھا، جہا ں سے بڑا نوٹ ہونے کی صورت میں آپ اپناچینج بھی لے سکتے ہیں۔ وہاں نہ کوئی شخص تھا اور نہ کوئی کیمرہ۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی شخص چوری یا بے ایمانی کرے۔ گاؤں کے یہ لوگ سادہ اور فطری زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے پاس مال و دولت نہیں ہوتی مگر وہ قناعت کی دولت سے مالامال ہیں۔ پرانے گھروں، چھوٹی گاڑیوں اور قدرے غربت کے باوجود بڑے شہروں سے دور رہ کر اپنے طرزِ حیات سے خوش ہیں۔ یہاں آبادی اور ذرائع روزگار دونوں کم ہیں کیونکہ اس علاقے کی سطح مرتفع پر فصلیں نہیں اُگتیں صرف مویشی بانی، باغبانی اور دیگر چھوٹے چھوٹے مشاغل ہیں جن کی محدود آمدنی ہے مگر وہ صبر شکر کے ساتھ اس سے گزارا کر لیتے ہیں۔ ایسے علاقے میں قیام کی صورت میں ہمیں اشیائے خوردونوش کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ کیونکہ یہاں ریستوران کم اور حلال کھانا نایاب ہے۔ اس لیے ہم زیادہ سے زیادہ اشیائے خوردو نوش اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔اسی علاقے کے ایک دور دراز گاؤں کی سیر کے دوران ہمیں اشتہا محسوس ہوئی تو وہاں نظر آنے والے واحد کیفے کے اندر چلے گئے۔سہ پہر کے اس وقت وہاں کوئی اور گاہک نہیں تھا۔ کیفے کی مالکن اُدھیڑ عمر آسٹریلین خاتون سے ہم نے دستیاب کھانوں کے بارے میں دریافت کیا تو ہمارے مطلب کی کوئی حلال شے موجود نہیں تھی۔ ہمیں مایوس دیکھ کر یہ خاتون بھی پریشان ہو گئی حالانکہ اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ میں نے پوچھا ”آپ کے پاس ڈبل روٹی اورانڈے ہیں؟ اس نے فوراََ اثبات میں جواب دیا۔ ہمارے کہنے پر اس نے ڈبل روٹی، انڈے، پنیر، مکھن، ٹماٹر اور پیاز نکالے۔ ہم سب نے مل جل کر پیاز، ٹماٹر اور انڈوں کا آملیٹ بنایا،ٹوسٹ گرم کیا، مکھن لگایا اور مزے سے تازہ اور گرم کھانا کھایا جو اس علاقے کی نسبت سے غنیمت تھا۔خاتون ہمیں خوش اور مطمئن دیکھ کر بہت خوش تھی۔ ہم نے نماز ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی تو اس مہمان نوازخاتون کو پہلے تو سمجھ نہیں آیا کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ہم نے سمجھایا کہ ہمیں صاف جگہ اور صاف کپڑا درکار ہے۔ جب سمجھ آیا تو اس نے فوراََ جگہ صاف کی، صاف ستھری چادر بچھائی اور خود دروازے سے باہر چلی گئی۔نماز کے بعد ہم نے اس مہربان خاتون کا شکریہ ادا کیا تو نہ جانے کیوں اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شاید یہ اس کی زندگی کا انوکھا تجربہ تھا۔ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والی اس خاتون نے مسلمانوں کے بارے میں نہ جانے کیا کچھ سن رکھا تھا آج پہلی مرتبہ سامنا ہوا تو وہ ششدر رہ گئی۔ ہمارے لیے بھی یہ ’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘ والامعاملہ تھا۔ یہ دنیا تو ہے ہی حیرت کدہ، یہاں ایسی حیرتیں اکثر ملتی رہتی ہیں۔ واپسی کے سفر میں، میں سوچ رہا تھا کہ قوموں کی سر بلندی کے لیے وسائل کی نہیں حسنِ اخلاق اور مضبوط کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اطمینان و مسرت کے لیے روپے پیسے کی نہیں قناعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس خطے میں سکون اور اطمینان کی یہی وجوہات ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
یہاں ہی پوسٹ کرنی ہے، اگر اصلاح ہو چکی ہو تو فائنل شکل یہاں پوسٹ کی جائے ورنہ ذاتی مکالمے میں مجھ سے یا کسی سے بھی اصلاح لے لی جائے۔
 

فائضہ خان

محفلین


بہت بہت شکریہ ٹیگ کرنے کا ۔۔۔۔ مجھے اب تک یہ فورم استعمال کرنا نہیں آرہا ۔۔۔ بارہا بار کوشش کی ۔۔۔ :(
نہ ہی لائک کے آپشن سمجھ آرہے ہیں ۔۔۔ اور نہ ہی یہ کہ اپنی تحاریر پر کیسے ٹیگ کروں ۔۔۔
یہ سمجھ آجائے تو جس خاص مقصد کے تحت اس لڑی کا اہتمام کیا گیا ہے یقینان وہ بھی سمجھ آجائے گی ۔۔۔ ہاں نا ؟ ۔۔۔ :|
 

جاسمن

لائبریرین
نہ ہی لائک کے آپشن سمجھ آرہے ہیں ۔۔۔ اور نہ ہی یہ کہ اپنی تحاریر پر کیسے ٹیگ کروں ۔۔۔
ریٹنگ کی سہولت پچاس مراسلے مکمل ہونے کے بعد ملے گی۔
کسی محفلین کو ٹیگ کرنا ہو تو @نام لکھیں۔ بیچ میں وقفہ(سپیس) نہیں دینا۔
 

منذر رضا

محفلین
غزل پیش ہے۔
دستِ خزاں دراز ہے، فصلِ بہار دے
ورنہ کرم کا تاجِ مطّلا اتار دے
بیحد الجھ گئی ہے مقدر کی زلفِ ناز
اپنے حنائی ہاتھ سے اس کو سنوار دے
دل بے قرار ہے تری فرقت میں اے نگار!
اک وعدۂ وصال سے اس کو قرار دے
دے گی نہ تجھ کو کچھ یہ محبت بجز الم
تو اس پہ کل متاع بصد شوق وار دے
یا رب! میں بسکہ کشتۂ تیغِ جفا ہوا
میدانِ زیست سے مجھے اذنِ فرار دے
لپکوں گا اس طرف بھی بصد شوق گر خدا
آلامِ روزگار کو آوازِ یار دے!
 

منذر رضا

محفلین
اور اب ایک نظمِ معری پیش کرنے کی جسارت:
بے رنگ ہے جریدۂ تن کا ہر اک ورق
بے نور ہے چراغِ دل و جاں کی ہر کرن
بے سوز ہے صدائے ربابِ حیات بھی
بے کار ہےمرے دلِ بیکس کی آہ بھی
وہ عشق کے گہر، وہ محبت کے لعل بھی
وہ درد کے عقیق، وہ حسرت کے سب نگیں
جو مثلِ آفتاب تھے میری حیات میں
سب خاکِ دشتِ عشق و جنوں میں گما دیے
وہ رنگ جو کہ زینتِ نقشِ حیاتِ تھا
وہ چشمِ خوں فشار سے خوں بن کے بہہ گیا
جس نورسےتھی شمعِ دل و جاں میں روشنی
اس کو ہوائے ہجرِ مسلسل بجھا گئی
وہ سوز ِِ آرزو ،وہ تمنا کی جستجو
دہ دردِ عاشقی کی خلش، کیوں فنا ہوئی
اور گردِ بادِ یاس میں کچھ ایسے چھپ گئی
جیسے کبھی نہ آئی تھی ظالم وجود میں
وہ آہِ نیم شب، وہ فغاں، روزِ ہجر کی
سب خوابِ صبحِ یاس کی مانند مٹ گئیں
یعنی مرا تمام اثاثہ فنا ہوا
یعنی مرا وجود بھی مجھ سے جدا ہوا
 
بلی، شیر اور انسان (بچوں کی کہانی)

ایک پالتو بلی بھولی بھٹکی قریبی جنگل میں آ نکلتی ہے۔ کچھ دیر اِدھر اُدھر گھومنے پھرنے کے بعد اس کا سامنا شیر سے ہو جاتا ہے جو اس جنگل کا سردار ہوتا ہے۔ بلی قدرے خوف سے مگر محتاط ہو کر شیر کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے تا کہ جان بچانے کے لیے کوئی پینترا اختیار کر سکے۔

شیر نے اس سے قبل کسی بلی کو نہیں دیکھا تھا چناچہ وہ دیکھ کر بہت حیران ہوتا ہے اور اس چھوٹے جانور کا بغور مشاہدہ کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ بظاہر تو میرے جیسا جانور ہی ہے مگر جسامت میں اتنا چھوٹا کیوں ہے؟ جب اسے کچھ سمجھ نہیں آتی تو بالآخر وہ بلی سے مخاطب ہوتا ہے۔ کون ہو تم؟ دیکھنے میں تو مجھ جیسے ہی ہو مگر اتنے چھوٹے کیوں ہو؟

بلی سوچتی ہے کہ اگر اس کو حقیقت بتا دی اور یہ بھوکا بھی ہوا تو کہیں مجھے کھا ہی نہ جائے سو وہ اپنے شاطر دماغ کا استمعال کرتی ہے اور کچھ ہی دیر بعد شیر سے مخاطب ہوتی ہے کہ ہاں باشاہ سلامت! ہوں تو میں آپ ہی کی نسل سے اور پہلے تھی بھی آپ ہی کی جسامت میں مگر کیا بتاؤں، قریبی شہر میں ایک بہت ہی خطرناک جانور رہتا ہے اس نے مجھ پر اتنے ظلم کیئے ہیں کہ میں اتنی سی رہ گئی ہوں۔

کیا نام ہے اس بدذات کا؟ اور کیا وہ مجھ سے زیادہ خونخوار ہے؟ شیر غصّہ سے پاگل ہوتے ہوئے گرجا۔ بلی نے مظلومانہ انداز میں بتایا کہ اس وحشی درندے کو "انسان" کہتے ہیں۔ شیر نے چونکہ ابھی جوانی میں قدم رکھا ہی تھا اور تجربہ زیادہ نہ ہونے کے باعث وہ تاحال انسان سے بھی ناآشنا تھا۔

اپنی طاقت اور جوانی کے نشے میں شرابور شیر بلی کو حکم دیتا ہے کہ جاؤ اور کسی طریقہ سے اس جانور کو جنگل تک لے آؤ پھر دیکھتا ہو کہ وہ کیا بَلا ہے۔ بلی اپنی جان بچاتے ہوئے حکم کی تعمیل کے لیے وہاں سے چل دیتی ہے اور جس گھر کے باورچی خانے پر اس کی گذر بسر ہوتی ہے اس گھر کے مالک کا انتظار کرنے لگتی ہے۔ جیسے وہ گھر لوٹتا ہے بلی اسے ورغلا کر جنگل کی اور لے نکلتی ہے اور حیلے بہانے سے یکایک شیر کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے اور باآوازِ بلند کہتی ہے حضور! یہ ہے وہ درندہ صفت جس نے آپ کی نسل پر بے تحاشا ظلم کئے ہیں۔

انسان یک دم یہ ماجرہ دیکھ کر گھبرا جاتا ہے اور دم سادھ کر کھڑا جان بچانے کا سوچنے لگتا ہے۔ شیر انسان کے گرد چکر کاٹتے ہوئے اس کا جائزہ لیتا ہے اور سوچتا ہے کہ نہ اس کے دانت بڑے ہیں نہ اس کا ناخنوں والا پنجہ ہے اور نہ ہی اس کی کھال بال دار اور سخت ہے تو یہ کیسے ظلم کرتا ہے۔؟ یہ سب دیکھنے کے بعد ایک دم شیر انسان کے سامنے رکتا ہے اور گرجدار آواز میں پوچھتا ہے کہ میری نسل کے جانوروں پر اس قدر ظلم کیونکر کیئے کہ وہ اتنے سے رہ گئے؟ اب اس پاداش کی سزا میں مجھ سے لڑنے اور میرے ہاتھوں مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔

انسان یہ سب دیکھنے اور سننے کے بعد اندازہ لگاتا ہے کہ بلی نے اپنی جان بچانے کے لیے اسے کوئی من گھڑت کہانی سنائی ہوگی لہٰذا انسان شیر سے اپنی جان بچانے کے لیے اپنا دماغ لڑاتا ہے اور تھوڑی ہی دیر میں ایک تدبیر سوچنے کے بعد شیر کو جواباً للکارتا ہے اور بلی کی طرف اشارہ کہتا ہے کہ جب یہ تمہارے جتنی تھی تو اس نے بھی ایک دن اپنی نسل کا بدلا لینے کی ٹھانی تھی تم بھی اگر اس کی غلطی دہرانا چاہتے ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں اور میں تم جیسے کو سبق سیکھانے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہوں۔ بلی موقع دیکھتے ہی قریبی درخت پر چڑھ جاتی ہے اور یہ سب مزے سے دیکھنے لگتی ہے۔

اس سے پہلے کہ شیر حملہ کرتا انسان پھر شیر کو مخاطب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سے پہلے کہ لڑائی شروع ہو، میں ایک بہت ضروری کام کرآؤں پھر تسلی سے تمہاری مرمت کروں گا۔ شیر اپنی دھلائی کی باتوں کو مضحکہ خیز سمجھتے ہوئے سوچتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان میرا مقابلہ کر سکے اور الٹا میری دھلائی کرسکے؟ ساتھ ہی ساتھ اسے شیر ( یعنی بلی) کو چھوٹا کرنے والے تشدد کی قسم کو جاننے کا بھی تجسس تھا لہٰذا شیر کہتا ہے جتنا وقت چاہیے لے لو مگر تم لڑائی میں مجھ سے جیت نہیں سکتے۔

انسان ضروری کام چند منٹوں میں کر کے واپس آنے کا کہتا ہے اور شیر کو پابند کرتا ہے کہ وہ یہیں اس کا انتظار کرے اور اس کے آنے تک کہیں بھاگ نہ جائے۔ شیر یہ سب باتیں سن کر قہقھہ لگاتا ہے اور کہتا ہے تم بھاگ سکتے ہو میں نہیں۔ انسان بھی یہ سن کر لازمی آنے کا وعدہ کرتا ہے اور چلنے لگتا ہے۔

شیر کی نظروں سے اوجھل ہونے سے پہلے ہی انسان واپس پلٹتا ہے اور شیر سے کہتا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ میرے واپس آنے تک تم یہاں سے بھاگ جاؤ گے لہٰذا میں تسلی چاہتا ہوں۔ شیر ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں میں بھلا کیوں بھاگوں گا؟ خیر! انسان کہتا ہے کہ مجھے پھر بھی یقین نہیں ہے لہذا میں تمہیں درخت کے ساتھ باندھ کر جاؤں گا۔ شیر اپنی طاقت کے نشے میں انسان کو اجازت دیتا ہے کہ تم اپنی تسلی کرلو۔ انسان ادھر ادھر سے رسی ڈھونڈتا ہے اور شیر کو درخت سے باندھ دیتا ہے اور جانے کے لیے مڑتا ہے کہ پھر رک جاتا ہے۔ اب کیا ہے؟ شیر پوچھتا ہے۔

یہ ایک رسی تو تم بندر یا کسی جانور سے کھلوا لو گے لہٰذا میں تمہارے ہاتھ پاؤں بھی باندھ کر جاؤں گا تا کہ تم بھاگ نہ سکو۔ شیر کہتا ہے اچھا یہ شوق بھی پورا کر لو۔ انسان اس کے ہاتھ پاؤں بھی باندھ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اب انتظار کرو میں ضروری کام کر کے ابھی آیا۔ یہ کہہ کر انسان چلتا ہے اور کچھ ہی دور سے ایک موٹا سا ڈنڈہ پکڑتا ہے اور پھر واپس لوٹتا ہے اور مار مار کر شیر کی ہڈی پسلی ایک کر دیتا ہے۔ پھر ہاتھ جھاڑتے ہوئے شیر سے کہتا ہے کہ اب یہیں انتظار کرو میں ضروری کام کر کے آتا ہوں اور تم سے دو ہاتھ کرتا ہوں۔

شیر پہلی مار سے ہی ادھ موا ہو چکا ہوتا ہے اور درد سے کراہتا ہوا سوچتا ہے کہ ابھی اس نے میرا یہ حال کر دیا ہے تو ضروری کام کے بعد واپس آکر میرے ساتھ کیا کرے گا۔ انسان جب اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے تو درد سے نڈھال شیر قریبی درخت پر بیٹھی بلی سے پوچھتا ہے:-

سنو! جب میں تمہارے جتنا رہ جاؤں گا تو یہ مجھے چھوڑ تو دے گا نا؟
یہ بچوں کی وہ کہانی ہے جسے بڑے بھی پڑھ سکتے ہیں، زبردست
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top