وزیراعظم نے ملک سے برطانوی نظامِ تعلیم ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا

محمد سعد

محفلین
اجی آپ حضرات تو روزمرہ زندگی میں پیرانویا یا خللِ دماغ کی تلاش کر رہے ہیں، اُدھر چچا غالب تو بہت پہلے فرما گئے
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا :|
چچا غالب کے دور میں علم نفسیات میں اتنا کام ابھی نہیں ہوا تھا کہ مختلف اقسام کے خلل کا مفصل مطالعہ، بمع زمرہ بندی ہو چکا ہوتا۔ :D
 

عدنان عمر

محفلین
بر سبیل تذکرہ، ہمیں تو یہ لگتا ہے کہ موجودہ دور میں دماغی خلل یا دیگر نفسیاتی امراض اور مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور چچا غالب والے "خلل" کے مریضوں میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی :-(
 

سین خے

محفلین
یہاں مغرب میں تو خواتین اساتذہ کی نابالغ لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں۔ اس لئے میرے خیال میں یہ مسئلہ صرف مرد اساتذہ تک محدود نہیں ہے۔

اس طرح کے کیسز یہاں بھی دیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔ میرے پاس ٹیوشن پڑھنے آنے والے بچوں میں ایک چار سال کی بچی کے ساتھ اس کی فیمیل ٹیوشن ٹیچر نے انتہائی نازیبا حرکتیں کی تھیں۔ والدہ کو ایسے پتا چلا کہ بچی نے وہی حرکتیں آکر گھر پر کیں۔ جب والدہ نے بچی سے پوچھنا شروع کیا تو انتہائی ہولناک کہانی سامنے آئی۔ اس نے بچی کی نازیبا تصاویر تک بنا کر رکھی تھیں۔ والدہ ایک دن بات کرنے اس سے گئیں اور اس کے ہاتھ سے فون چھین لیا۔ بچی کی تصاویر موجود تھیں۔

اس کے علاوہ کتنے ہی والدین ہمیشہ آکر مجھ سے صرف اس لئے پڑھانے پر اصرار کرتے تھے کہ ان کو بچے میرے یہاں بھیجتے ہوئے ڈر محسوس نہیں ہوتا تھا۔ زیادہ تر فیمیل ٹیچرز کی الٹی سیدھی حرکتوں کی کہانیاں سناتے تھے۔

اب میں نے جو بیس پچیس بچوں کو آج تک ٹیوشن پڑھائی ہے تو اس میں سے زیادہ تر والدین نے ہولناک کہانیاں سنائیں۔ اب کیا یہ ٹھیک ہوگا کہ میں ایک نتیجہ اخذ کروں کہ "کم پڑھی لکھی سیدھی سادی گھریلو خواتین" بچوں کا استحصال کرتی ہیں۔ یہ ایک sweeping statement ہوگا۔ بلاشبہ برائی ہے لیکن سب خواتین کو ایک لائن میں کھڑا کرنا کسی صورت درست نہیں ہوگا۔
 
آخری تدوین:
اس طرح کے کیسز یہاں بھی دیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔ میرے پاس ٹیوشن پڑھنے آنے والے بچوں میں ایک چار سال کی بچی کے ساتھ اس کی فیمیل ٹیوشن ٹیچر نے انتہائی نازیبا حرکتیں کی تھیں۔ والدہ کو ایسے پتا چلا کہ بچی نے وہی حرکتیں آکر گھر پر کیں۔ جب والدہ نے بچی سے پوچھنا شروع کیا تو انتہائی ہولناک کہانی سامنے آئی۔ اس نے بچی کی نازیبا تصاویر تک بنا کر رکھی تھیں۔ والدہ ایک دن بات کرنے اس سے گئیں اور اس کے ہاتھ سے فون چھین لیا۔ بچی کی تصاویر موجود تھیں۔

اس کے علاوہ کتنے ہی والدین ہمیشہ آکر مجھ سے صرف اس لئے پڑھانے پر اصرار کرتے تھے کہ ان کو بچے میرے یہاں بھیجتے ہوئے ڈر محسوس نہیں ہوتا تھا۔ زیادہ تر فیمیل ٹیچرز کی الٹی سیدھی حرکتوں کی کہانیاں سناتے رہے۔

اب میں نے جو بیس پچیس بچوں کو آج تک ٹیوشن پڑھائی ہے تو اس میں سے زیادہ تر والدین نے ہولناک کہانیاں سنائیں۔ اب کیا یہ ٹھیک ہوگا کہ میں ایک نتیجہ اخذ کروں کہ "کم پڑھی لکھی سیدھی سادی گھریلو خواتین" بچوں کا استحصال کرتی ہیں۔ یہ ایک sweeping statement ہوگا۔ بلاشبہ برائی ہے لیکن سب خواتین کو ایک لائن میں کھڑا کرنا کسی صورت درست نہیں ہوگا۔
متفق ،
یہ ہولناک نازیبا معاملات اب وباء کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں ،
اللہ کریم سب کی عزت و آبرو کی حفاظت فرمائیں ۔آمین
اگر اس طرح کے اساتذہ بچوں کی تعلم وتربیت کریں گے تو پھر مستقبل کے معماروں کو غیر اخلاقی اور نازیبا حرکتوں سے بچانے اور محفوظ رکھنے کی ذمہ داری کون اٹھائے گا ۔
والدین یا گھر کے دیگر افراد تو ہر جگہ موجود نہیں ہوسکتے ۔
 

سین خے

محفلین
متفق ،
یہ ہولناک نازیبا معاملات اب وباء کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں ،
اللہ کریم سب کی عزت و آبرو کی حفاظت فرمائیں ۔آمین
اگر اس طرح کے اساتذہ بچوں کی تعلم وتربیت کریں گے تو پھر مستقبل کے معماروں کو غیر اخلاقی اور نازیبا حرکتوں سے بچانے اور محفوظ رکھنے کی ذمہ داری کون اٹھائے گا ۔
والدین یا گھر کے دیگر افراد تو ہر جگہ موجود نہیں ہوسکتے ۔

اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ قانون سازی اور سزا ہے۔ ہمارے یہاں ایسے معاملات سے نمٹنے کے لئے قوانین نہیں ہیں۔ قوانین ہوں گے والدین اور دیگر خود شکایتیں لے کر پہنچ جائیں گے۔ سزا ہوگی تو بہت بہتری دیکھنے میں آئے گی۔ اس کا یہ حل نہیں ہے کہ تعلیم دلوانے سے ڈرا جائے یا روکا جائے۔

ہمیں بطور معاشرہ اس معاملے کے لئے آگہی پیدا کرنا پڑے گی اور آواز اٹھانا پڑے گی۔ جب تک ہم منہ چھپا کر بیٹھیں رہیں گے یہ سب کچھ ہوتا رہے گا۔
 

سین خے

محفلین
اچھا نہیں لگتا ایسی باتیں ڈسکس کرنا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ اگر کسی نے ایسی حرکتیں کی ہیں تو ہو سکتا ہے اس نے پھر کبھی ایسی غلطی نہ کی ہو اور توبہ کر لی ہو۔ بہت بار ایسی حرکتیں انسان ناسمجھی میں بھی کر جاتا ہے۔ جن کے ساتھ وقت گزارا ہو ان کی غلطیوں کو پکڑ کر کیا شور مچانا کہ معاشرہ، فلاں جنس، فلاں طبقہ ایسا ہے ویسا ہے۔

لیکن خیر مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ بولنا ضروری ہے تو یہ بتانا چاہوں گی میں نے اپنے اکیڈمک کیرئیر میں پانچ ٹیچرز کو لڑکیوں کے ہاتھوں غلط الزامات سہتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان میں سے تین کی کلاس میں جن لڑکیوں اور ٹیچرز پر الزامات لگائے گئے تھے اتفاق سے وہ میرے ساتھ ہی بیٹھتی تھیں۔ جنھوں نے لگائے تھے وہ جیلسی کا شکار تھیں اور مارکس کم حاصل کرنے پر ان کو تکلیف تھی۔ الحمدللہ میں نے ہی ان خبروں کو ختم کیا تھا۔ ایک ایک کو کنفرنٹ کیا تھا اور ایسے الزامات لگانے والیوں سے لڑی بھی تھی۔ اللہ پاک ان کے لئے اچھا کرے آمین۔ اچھی لڑکیاں تھیں پر حسد کا شکار ہو کر غلطی کر بیٹھی تھیں۔ پھر ان کی طرف سے ایسی حرکتیں دیکھنے میں نہیں آئیں۔

اس کے علاوہ کچھ لڑکیوں سے اور بھی غلطیاں ہوتے دیکھی ہیں لیکن خیر بس اتنا ہی کافی ہے۔ خیر بتانے کا مقصد یہ ہے کہ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں لیکن کسی ایک جنس کو کہنا کہ وہ ہے ہی ایسی کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ کون کتنا نیک ہو ہمیں کیا معلوم؟ ہو سکتا ہے زیادہ تر نیک اور شریف ہی ہوں۔
 
اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ قانون سازی اور سزا ہے۔ ہمارے یہاں ایسے معاملات سے نمٹنے کے لئے قوانین نہیں ہیں۔ قوانین ہوں گے والدین اور دیگر خود شکایتیں لے کر پہنچ جائیں گے۔ سزا ہوگی تو بہت بہتری دیکھنے میں آئے گی۔ اس کا یہ حل نہیں ہے کہ تعلیم دلوانے سے ڈرا جائے یا روکا جائے۔

ہمیں بطور معاشرہ اس معاملے کے لئے آگہی پیدا کرنا پڑے گی اور آواز اٹھانا پڑے گی۔ جب تک ہم منہ چھپا کر بیٹھیں رہیں گے یہ سب کچھ ہوتا رہے گا۔
متفق ،
قانون سازی اور سزا کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس بات کا پابند کرنا چاہیے کہ وہ مستقل مزاجی کے ساتھ آئین و قانون کی پاسداری کریں ۔
ملک عزیز میں جس دن آئین و قانون کا نفاد بلاتفریق ہونے لگا تو یقینا عوام میں شعور ، خود اعتمادی پیدا ہو جائے گی ۔
 

جاسمن

لائبریرین
محتاط رویے کی بات سے متفق ہوں۔ لیکن جب یہ کہا جائے کہ کوئی "مرد پہلے ہے" تو وہ احتیاط سے آگے پیرانویا (paranoia) کی حدود میں چلا جاتا ہے جہاں ہم بچوں کے ذہن میں یہ بھر رہے ہوتے ہیں کہ دنیا کا ہر مرد اپنی فطرت میں ایک وحشی درندہ ہے۔ احتیاط ضرور سکھائیں، لیکن پیرانویا جیسے ضمنی اثرات پیدا کیے بغیر ہی اگر کریں تو بہتر ہو گا۔
سعد! اتنی زیادہ مصروف زندگی میں اس قدر وقت و توجہ نہیں رہتی اور نہ ہی میری لغت میں بہت زیادہ الفاظ ہیں۔ میرا خیال تھا کہ میں نے علامتی بات کی ہے اور سمجھ لی جائے گی۔ اس جملہ کے بعد ایک لمبی تقریر بھی ہوتی ہے جس کا لبِ لباب وہی ہے جو آپ سوچتے اور کہتے ہیں۔ :)
 
اچھا نہیں لگتا ایسی باتیں ڈسکس کرنا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ اگر کسی نے ایسی حرکتیں کی ہیں تو ہو سکتا ہے اس نے پھر کبھی ایسی غلطی نہ کی ہو اور توبہ کر لی ہو۔ بہت بار ایسی حرکتیں انسان ناسمجھی میں بھی کر جاتا ہے۔ جن کے ساتھ وقت گزارا ہو ان کی غلطیوں کو پکڑ کر کیا شور مچانا کہ معاشرہ، فلاں جنس، فلاں طبقہ ایسا ہے ویسا ہے۔

لیکن خیر مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ بولنا ضروری ہے تو یہ بتانا چاہوں گی میں نے اپنے اکیڈمک کیرئیر میں پانچ ٹیچرز کو لڑکیوں کے ہاتھوں غلط الزامات سہتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان میں سے تین کی کلاس میں جن لڑکیوں اور ٹیچرز پر الزامات لگائے گئے تھے اتفاق سے وہ میرے ساتھ ہی بیٹھتی تھیں۔ جنھوں نے لگائے تھے وہ جیلسی کا شکار تھیں اور مارکس کم حاصل کرنے پر ان کو تکلیف تھی۔ الحمدللہ میں نے ہی ان خبروں کو ختم کیا تھا۔ ایک ایک کو کنفرنٹ کیا تھا اور ایسے الزامات لگانے والیوں سے لڑی بھی تھی۔ اللہ پاک ان کے لئے اچھا کرے آمین۔ اچھی لڑکیاں تھیں پر حسد کا شکار ہو کر غلطی کر بیٹھی تھیں۔ پھر ان کی طرف سے ایسی حرکتیں دیکھنے میں نہیں آئیں۔

اس کے علاوہ کچھ لڑکیوں سے اور بھی غلطیاں ہوتے دیکھی ہیں لیکن خیر بس اتنا ہی کافی ہے۔ خیر بتانے کا مقصد یہ ہے کہ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں لیکن کسی ایک جنس کو کہنا کہ وہ ہے ہی ایسی کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ کون کتنا نیک ہو ہمیں کیا معلوم؟ ہو سکتا ہے زیادہ تر نیک اور شریف ہی ہوں۔
تعلیمی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ ٹیچرز کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ تعلیمی خدمات کے دوران سب اسٹوڈینٹ کے ساتھ یکساں رویہ اور تعلقات رکھیں۔کسی بھی طلب علم کے ساتھ ذاتی تعلقات رکھنے کی ممانیت ہونا چاہیے ۔
جب ایک حدود قائم رہے گی تو لازمی اس طرح کے واقعات ہرگز انجام پذیر نہ ہوگے ۔
استاد شاگرد کا مقدس رشتہ کبھی بدنام نہ ہوگا ۔
 

سین خے

محفلین
تعلیمی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ ٹیچرز کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ تعلیمی خدمات کے دوران سب اسٹوڈینٹ کے ساتھ یکساں رویہ اور تعلقات رکھیں۔کسی بھی طلب علم کے ساتھ ذاتی تعلقات رکھنے کی ممانیت ہونا چاہیے ۔
جب ایک حدود قائم رہے گی تو لازمی اس طرح کے واقعات ہرگز انجام پذیر نہ ہوگے ۔
استاد شاگرد کا مقدس رشتہ کبھی بدنام نہ ہوگا ۔

درست۔ لیکن ایک اور بات جس کی طرف شائد کسی کی توجہ نہیں جا رہی ہے وہ یہ کہ کیا مرد پروفیسرز اور لیکچررز خود اپنی عزت پر دھبہ لگانا پسند کرتے ہیں یا نہیں؟ کوئی بھی نہیں چاہتا ہے کہ وہ بدنام ہو۔ ہم نے تو دیکھا ہے کہ زیادہ تر اساتذہ بے انتہا محتاط ہوتے ہیں۔ ذاتی تعلقات کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ زیادہ تر کا رویہ اتنا لیا دیا ہوتا ہے کہ الگ سے کوئی بات پوچھنے کی ہمت نہیں پڑ رہی ہوتی ہے۔ میں نے تو آج تک سب کو الزامات سے گھبراتے ہی دیکھا ہے۔ جو اسٹوڈنٹس ایسی الزام تراشی وغیرہ میں انوالو نہیں ہوتے ہیں تو ٹیچرز ان سے رویہ سخت نہیں رکھتے ہیں۔ جو الٹی سیدھی حرکتوں میں انوالو ہوتے ہیں ان سے بہت سخت رویہ اپناتے دیکھا ہے۔

یہ جو harassment کی کہانیاں سننے میں آرہی ہیں اس کا سب سے بہترین حل یہی ہے کہ ان کی شکایت اوپر تک پہنچائی جائے۔ اگر لگتا ہے کہ ایسے کام نہیں بنے گا تو سوشل میڈیا (فیس بک ٹوئیٹر) اور نیوز میڈیا تک اپنی آواز پہنچائیں۔ ہزار طریقے ہیں۔ اس طرح کی حرکتیں کرنے والے ڈریں گے جب بدنام ہوں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
رحیم یار خان میں خاتون ٹیچر کیخلاف طالبعلم سے زیادتی کا مقدمہ
ویب ڈیسک منگل 15 اکتوبر 2019
1842834-childkidnapxx-1571126122-153-640x480.jpg

سرکاری اسکول ٹیچر ویڈیو بنا کرمیرے بھائی کوبلیک میل کرتی ہے، بھائی کا الزام فوٹو:فائل

رحیم یار خان: پولیس نے خاتون ٹیچر کیخلاف طالبعلم سے زیادتی کا مقدمہ درج کرلیا۔

رحیم یارخان میں تھانہ سٹی بی ڈویژن پولیس نے 58 سالہ خاتون ٹیچر ثمینہ کیخلاف 13 سالہ لڑکے سے متعدد بار زیادتی کا مقدمہ درج کرلیا۔ لڑکے کے بھائی زوہیب کی مدعیت میں ایف آئی ار درج کی گئی جس میں الزام لگایا گیا کہ سرکاری اسکول ٹیچر ویڈیو بنا کرمیرے بھائی کوبلیک میل کرتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس کو بھی حذف کروا لیں :)

رحیم یار خان میں خاتون ٹیچر کیخلاف طالبعلم سے زیادتی کا مقدمہ
ویب ڈیسک منگل 15 اکتوبر 2019
1842834-childkidnapxx-1571126122-153-640x480.jpg

سرکاری اسکول ٹیچر ویڈیو بنا کرمیرے بھائی کوبلیک میل کرتی ہے، بھائی کا الزام فوٹو:فائل

رحیم یار خان: پولیس نے خاتون ٹیچر کیخلاف طالبعلم سے زیادتی کا مقدمہ درج کرلیا۔

رحیم یارخان میں تھانہ سٹی بی ڈویژن پولیس نے 58 سالہ خاتون ٹیچر ثمینہ کیخلاف 13 سالہ لڑکے سے متعدد بار زیادتی کا مقدمہ درج کرلیا۔ لڑکے کے بھائی زوہیب کی مدعیت میں ایف آئی ار درج کی گئی جس میں الزام لگایا گیا کہ سرکاری اسکول ٹیچر ویڈیو بنا کرمیرے بھائی کوبلیک میل کرتی ہے۔
اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے صرف آدھی خبر دینا درست نہیں۔ خبر کا وہ حصہ جس سے آپ کو لگا کہ اسے لگانا آپ کے لیے "مناسب" نہیں ہوگا!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری جانب ٹیچر اور ان کے اہل خانہ نے پولیس پر جھوٹا مقدمہ درج کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ طالب علم کے بھائی زوہیب اور دیگر ملزمان نے چند روز قبل خاتون کے گھر لاکھوں روپے کی چوری کی واردات کی جس کا چند روز قبل مقدمہ بھی درج کرایا گیا۔

پولیس کی مدد سے زوہیب، فیروز اور دیگر ملزمان سے مسروقہ سامان بھی برآمد کیا گیا۔ اس پر ملزمان نے خاتون ٹیچرسے بدلہ لینے کیلئے پولیس کی ملی بھگت سے شرمناک مقدمہ درج کرادیا۔ ایس ایچ او محمد یونس نے بدنیتی اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے خاتون خانہ کی عزت کی دھجیاں اڑادیں۔

خاتون ٹیچر کے بھائی ندیم اقبال نے کہا کہ اسے تھانے بلاکر چوری کا مقدمہ واپس لینے کے لیے ہراساں کیا گیا اور ایس ایچ او نے کہا کہ اگر مقدمہ واپس نہ لیا تو سبق سکھائیں گے۔

ایس ایچ او محمد یونس سے جب موقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا تو اس نے بات کرنے سے انکار کردیا۔ خاتون ٹیچر نے وزیراعظم اور وزیر اعلی پنجاب سے اس معاملے کا نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
خبر کا وہ حصہ جس سے آپ کو لگا کہ اسے لگانا آپ کے لیے "مناسب" نہیں ہوگا!
میں ہمیشہ پوری خبر ہی پوسٹ کرتا ہوں۔ یہ رپورٹر کو بعد میں زائد تفصیل ملنے پر اپڈیٹ ہوئی ہے۔
بہرحال ایسے واقعات ہر جگہ ہوتے ہیں۔ دنیا گول ہے۔
 

عباس اعوان

محفلین
درست۔۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ نہ نظامِ تعلیم ہوگا، نہ کچھ اور کھڑاگ۔ افغانستان کے برابر جاکھڑے ہوں کے اگلے تین سال گیارہ ماہ میں۔
بصد احترام:
یہ کہاں لکھا ہے کہ سرکاری سکول میں پڑھنے والے کامیاب نہیں ہو سکتے ؟
میں کتنوں کو جانتا ہوں جو ٹاٹ والے سکولوں میں پڑھ کر بڑی جگہوں پر پہنچے۔
وزیر اعظم کا اعلان نظام تعلیم کے متعلق ہے، نہ کہ سکولوں کو بند کرنے کے متعلق۔ اگر سرکاری سکول نہیں پسند تو پرائیویٹ سکول میں پڑھ لیں، نظام تعلیم ایک ہی ہونا چاہیے۔
 

محمد سعد

محفلین
نظام تعلیم ایک ہی ہونا چاہیے۔
نظام تعلیم ایک ہونا چاہیے، متفق۔ لیکن وہ نظام کسی کام کا بھی ہونا چاہیے۔ ایسا بھی نہ ہو کہ گزارے لائق جو گنے چنے آپشن ہیں، ان کو بھی ختم کر کے ایک اوسط سے بھی کم درجے کا نظام سب پر تھوپ دیا جائے۔
 

محمد سعد

محفلین
بصد احترام:
یہ کہاں لکھا ہے کہ سرکاری سکول میں پڑھنے والے کامیاب نہیں ہو سکتے ؟
میں کتنوں کو جانتا ہوں جو ٹاٹ والے سکولوں میں پڑھ کر بڑی جگہوں پر پہنچے۔
اگر خالصتاً اپنی محنت کے بل پر ہی آگے جانا ہے پھر تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سکول کی ضرورت ہی نہیں، آخر اتنے لوگ دنیا میں کبھی بھی سکول گئے بغیر اتنی کامیاب زندگیاں بھی تو گزار رہے ہیں۔
سکول کا مقصد اس عمل کو آسان بنانا ہوتا ہے۔ وہ کتنا آسان بنا رہا ہے، اس کا اندازہ بڑے پیمانے کے اعداد و شمار سے ہوتا ہے، نہ کہ گنی چنی مثالوں کی چیری پکنگ سے۔
 

محمد سعد

محفلین
بدقسمتی سے پاکستان میں سکول سرکاری ہوں یا پرائیویٹ، بڑے پیمانے پر دونوں ہی کے حالات خراب ہیں۔ کوئی سکالر یا سائنس دان پیدا نہیں ہو رہے۔ زیادہ فوکس امتحانات پاس کروانے پر ہے اور وہ امتحانات بھی ایسے انداز میں تیار نہیں کیے جاتے کہ ان کو پاس کرنے کا انحصار قابلیت بڑھانے پر ہو۔
 

جاسم محمد

محفلین
بدقسمتی سے پاکستان میں سکول سرکاری ہوں یا پرائیویٹ، بڑے پیمانے پر دونوں ہی کے حالات خراب ہیں۔ کوئی سکالر یا سائنس دان پیدا نہیں ہو رہے۔ زیادہ فوکس امتحانات پاس کروانے پر ہے اور وہ امتحانات بھی ایسے انداز میں تیار نہیں کیے جاتے کہ ان کو پاس کرنے کا انحصار قابلیت بڑھانے پر ہو۔
متفق۔ نظام تعلیم کی بجائے معیار تعلیم پر فوکس کر لیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔
 

ابن جمال

محفلین
کیا آج کل پاکستان میں موجود مدارس حکومت کی طرف سے اپنے نصاب میں کسی قسم کی مداخلت قبول کرنا چاہتے ہیں؟
یہ بھی اصولی طورپر غلط بات ہے کہ برصغیر میں جاری نظام تعلیم کا متبادل مدارس ہیں، انگریزوں کی آمد سے قبل برصغیر میں ابتدائی اورثانوی تعلیم ایک ساتھ ہواکرتی تھی، اوراعلیٰ تعلیم میں پھر ہرایک اپنے مزاج ومذاق کے اعتبار سے کسی فن کا رخ کرتاتھا، آج کی طرح نہیں کہ مدارس والے عصری تعلیم سے بالکل ناواقف رہیں اور انگریزی تعلیم والے ٹھیک سے قرآن بھی نہ پڑھ سکتے ہوں، یہی وجہ ہے کہ ماقبل میں برصغیر میں جن لوگوں نے نام کمایا،خواہ وہ کسی بھی قبیل سے ہوں،ان کی ابتدائی تعلیم مخلوط ہواکرتی تھی، یعنی دینی ودنیاوی تعلیم کا مجموعہ،اورآگے چل کر وہ اپنے لئے کسی ایک فیلڈ کا انتخاب کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ ایک جانب اپنے فن میں کامل ہوتے تھے تودوسری جانب اسلامی علوم سے بھی بقدر ضرورت واقف ہوتے تھے، آج حالت یہ ہے کہ صاحب انجینئر اورڈاکٹر ہیں لیکن سورہ فاتحہ تک سے نابلد ہیں، باپ مرجائے تو نماز جنازہ پڑھنا تک نہیں آتا،دوسروں کو دیکھ دیکھ کر نماز پڑھتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ مدارس میں قوم کے بچوں کا تناسب بنسبت اسکولوں کے بہت کم ہیں، بہت زیادہ تو دس فیصد ہوگا، بقیہ نوے فیصد بچے جن اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، کیاان کو ٹھیک کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیا ان کو ایک بہتر مسلمان بنانے کی ضرورت نہیں ہے، جو کم ازکم نماز صحیح پڑھ سکیں، قرآن کی کچھ سورتیں یاد ہوں، اتنا تو ہو کہ والدین مرجائیں تو کرایے پر قرآن خوانی کے بجائے خود سے کچھ پڑھ کر والدین کو ایصال ثواب کرسکیں۔
 
Top