غامدی صاحب بھی امریکہ منتقل ہو گئے

جاسم محمد

محفلین
غامدی صاحب بھی امریکہ منتقل ہو گئے
10/10/2019 محمد اظہارالحق

بالآخر جاوید احمد غامدی بھی امریکہ منتقل ہو گئے۔ نامساعد حالات میں انہیں پاکستان چھوڑنا پڑا۔ کچھ عرصہ ملائیشیا میں رہے۔ بہت لوگ ان کے مداح ہیں، اختلاف کرنے والے بھی کم نہیں۔ یہ کالم نگار ان کا مداح بھی ہے اور کئی معاملات میں اختلاف بھی ہے۔ بالخصوص ان کے ایک شاگرد ڈاکٹر صاحب جو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے شہسوار ہیں ’دل دکھانے والی تقریروں کے ماہرہیں۔ ائمہ اربعہ کا ذکر تخفیف اور تصغیر کے ساتھ کرتے ہیں۔ جیسے وہ ان کے جونیئر ہوں۔ دوسری طرف یہ حضرات اپنے استاد کو ”استاد امام“ کہتے ہیں، گویا چار امام منظور نہیں مگر پانچواں خود بنا لیا ہے۔ اس کے باوجود اس میں کیا شک ہے کہ غامدی صاحب کی خدمات بہت ہیں۔ دین سے برگشتہ بے شمار نوجوان ان کے طریق کار سے متاثر ہو کر دین کی طرف پلٹے۔ دلیل اور اسلوب بیان ان کا متاثر کن ہے۔ روایتی مولویانہ طرز تبلیغ اب کارگر نہیں۔ بقول اقبال

شیخ مکتب کے طریقوں سے کشاد دل کہاں

کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ

بہر طور‘ موضوع یہ ہے کہ بالآخر انہیں بھی امریکہ میں پناہ لینا پڑی۔

اس سے پہلے گزشتہ صدی کے آخری سالوں میں ترکی کے اسلامی رہنما فتح اللہ گولن نے بھی امریکہ میں پناہ لی۔ ان کی غیر حاضری میں ان پر مقدمہ چلا۔ 2016 ء میں ترک حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ہوئی۔ اس کے بعد سے ترکی حکومت ’فتح اللہ گولن کو امریکہ سے نکلوانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاحال یہ کوشش کامیابی کا چہرہ نہیں دیکھ سکی۔ گولن امریکہ کی پناہ میں ہیں۔

امام خمینی بھی بالآخر مغرب میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوئے۔ ایران سے نکل کر پہلے ایک برس ترکی میں رہے۔ پھر عراق گئے، صدام حکومت نے وہاں بھی نہ رہنے دیا۔ آخر کار پیرس کی ایک نواحی بستی میں منتقل ہو گئے، وہیں سے انقلاب کی سرپرستی کی اور وہیں سے فاتح اور نجات دہندہ بن کر وطن لوٹے۔ یہ تین مثالیں تو عصری تاریخ سے ان مسلمان رہنماؤں کی ہیں جو مغربی ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

اب دو نمایاں ایسے مسلمان رہنماؤں کا ذکر کرتے ہیں جنہیں کسی حکومت نے جلاوطن کیا نہ ان کی زندگی کو خطرات لاحق تھے۔ انہوں نے اپنی مرضی سے مغرب کی طرف ہجرت کی یا ہجرت کی کوشش کی۔ علامہ طاہر القادری ایک عرصہ سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ پاکستان آتے ہیں مگر تھوڑے تھوڑے دنوں کے لئے، مستقل قیام ان کا کینیڈا ہی میں ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی تصویریں آج کل وائرل ہو رہی ہیں۔ ان تصویروں میں وہ انگریزی ہیٹ پہنے‘ کسی خوشگوار ساحل پر ’تفریحی موڈ میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ الہدیٰ کی شہرت یافتہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی کینیڈا گئیں۔ وہاں انہوں نے مستقل قیام کے لئے جدوجہد کی۔ عدالتوں میں مقدمہ کیا مگر کینیڈا حکومت نے رہنے کی اجازت نہ دی۔ ایک اطلاع کے مطابق انہوں نے بارڈر کراس کر کے امریکہ جانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکیں۔

اس سارے منظر نامے میں ہمارے لئے فکر کرنے کا بہت سامان ہے! سوچنے کی ضرورت ہے اور اپنے آپ سے سوال کرنے کی کہ پچپن مسلمان ملکوں میں کوئی ایسا مسلمان ملک نہیں جہاں امام خمینی سے لے کر فتح اللہ گولن اور جاوید احمد غامدی تک‘ ہمارے علماء اور رہنما پناہ لے سکیں۔

پچپن ملکوں میں کوئی ایک ایسا اسلامی دیار نہیں جہاں ہمارے طاہر القادری اور ڈاکٹر فرحت ہاشمی جیسے علماء اور رہنما مقیم ہونے کی خواہش کریں اور رہنا پسند کریں! یہ وہی مغرب ہے جسے ہمارے اکثر دینی رہنما ”طاغوت“ اور ”کفر“ کا نام دیتے ہیں۔ جسے فسق و فجور کا مرکز قرار دیتے ہیں۔

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی

میرے جرم ِخانہ خراب کو تیرے عفوِ بندہ نواز میں

(یہاں ”جرم خانہ خراب“ شعری مجبوری ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم ان واجب الاحترام رہنماؤں کے لئے یہ الفاظ استعمال کر رہے ہیں) مولانا مودودی کی کتاب ”پردہ“ پڑھ لیجیے۔ مغرب کی جو بھیانک تصویر اس کتاب میں انہوں نے کھینچی ہے۔ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مگر علاج کے لئے اسی ملعون مغرب میں جانا پڑا۔ وہیں جان ’جان آفرین کے سپرد کی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ نہیں جانا چاہتے تھے۔ بیٹا اصرار کے ساتھ لے گیا مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ مولانا کے صاحبزادے نے اسی مغرب میں مقیم ہونا پسند کیا جس کے طرز زندگی اور جس کی تہذیب و تمدن کے خلاف ان کے والد زندگی بھر جہاد کرتے رہے۔ لکھتے رہے اور بولتے رہے۔ خلطِ مبحث کے شائقین یہاں یہ نکتہ نہ نکال بیٹھیں کہ ہم مولانا کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں، یہاں یہ مثالیں دلیل کے طور پر پیش کی جا رہی ہیں۔ یہ دعویٰ ثابت کرنے کے لئے کہ مغربی تہذیب کو مسلمانوں کے لئے زہر قاتل قرار دینے والے علماء اور رہنماؤں کی اولاد اسی مغرب کا رُخ کرتی ہے اور صرف مولانا مودودی ہی کی اولاد نہیں‘ آج کے بڑے بڑے ’معروف و مشہور‘ بین الاقوامی شہرت یافتہ مسلمان علماء کی اولاد بھی مغرب ہی میں مقیم ہے۔

ان میں بڑے بڑے مفتیان کرام بھی شامل ہیں اور چوٹی کے علماء بھی! ایک بہت بڑے عالم دین کے صاحبزادے ’جن کا تعلق بھارت سے ہے اور پاکستان کے مذہبی جرائد میں لکھتے ہیں۔ اکثر و بیشتر قائد اعظم اور تصورِ پاکستان پر پوری قوت سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ مگر رہتے کہاں ہیں؟ برطانیہ میں! جس بھارت کی تقسیم کو مسلمانوں کے حق میں غلط سمجھتے ہیں‘ وہاں خود رہنا نہیں پسند فرماتے! یہ ایک عجیب مضحکہ خیز صورت حال ہے!

بظاہر نفاق سے بھر پور! میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تُھو! چار کروڑ سے زیادہ ان عام مسلمانوں کو تو چھوڑ دیجیے جو پچپن مسلمان ملکوں کو ٹھوکر مار کر مغربی ملکوں میں قیام پذیر ہیں۔ وہاں کی شہریتیں لے رکھی ہیں۔ پارلیمنٹوں کے رکن ہیں۔ جائیدادوں کے مالک ہیں۔ ان کروڑوں عامیوں کو تو ایک طرف رکھیے ’بات تو ان اکابر ان رہنماؤں‘ ان علما ’ان برگزیدہ شخصیات کی ہو رہی ہے جو لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے لئے مرکز عقیدت ہیں اور رہنمائی کا مینار ہیں!

تو کیا یہ رہنما جرم کے مرتکب ہوئے ہیں؟ نہیں! حضور والا نہیں! سبب یہ ہے کہ جو آزادی‘ جو حریت فکر اور کام کرنے کا جو ماحول مغربی ممالک مہیا کرتے ہیں وہ کسی ایک مسلمان ملک کے دامن میں بھی نہیں! طاہر القادری اگر وہاں مقیم ہیں ’ڈاکٹر فرحت ہاشمی اگر وہاں رہنے کی متمنی ہیں‘ تو اس لئے کہ وہاں فکری آزادی ہے! ذہن پرکوئی قدغن نہیں اور ہونٹوں پرکوئی مُہر نہیں! ریاست شہریوں کی یوں سرپرستی کرتی ہے جیسے ماں باپ کرتے ہیں! فتح اللہ گولن اور غامدی صاحب اگر پناہ لیے ہیں تو اس لئے کہ وہاں کوئی بارود بھری گاڑی ان کی رہائش گاہوں سے نہیں ٹکرا سکتا!

فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت!
 

فرقان احمد

محفلین
وطن پرستی غلط رویہ ہے۔ وطن سے محبت کا معاملہ فطری ہے۔ غامدی صاحب جہاں رہیں گے، ان کے دل میں ملک سے محبت امکانی طور پر موجود رہے گی۔ اس حوالے سے کسی پر تنقید کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہمیں قوی امید ہے کہ وہ پاکستان آتے جاتے رہیں گے۔ کیا وطن سے محبت کا یہ بنیادی تقاضا ہے کہ سدا اسی میں مقیم رہا جائے!
 
وطن پرستی غلط رویہ ہے۔ وطن سے محبت کا معاملہ فطری ہے۔ غامدی صاحب جہاں رہیں گے، ان کے دل میں ملک سے محبت امکانی طور پر موجود رہے گی۔ اس حوالے سے کسی پر تنقید کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہمیں قوی امید ہے کہ وہ پاکستان آتے جاتے رہیں گے۔ کیا وطن سے محبت کا یہ بنیادی تقاضا ہے کہ سدا اسی میں مقیم رہا جائے!
فرقان احمد بھائی یہاں موضوع گفتگو وطن پرستی یا وطن سے محبت نہیں بلکہ مسلمان ممالک میں مذہبی وسیاسی گھٹن اور بڑھتی ہوئی شدت پسندانہ سوچ ہے۔ فاضل مصنف نے ان مذہبی لیڈروں کی مثالیں پیش کی ہیں جو ہمارے ملک میں اچھی خاصی تعداد میں ماننے والے رکھتے ہیں، وہ تک سکون اور تحفظ کے لیے مغرب کی جانب دیکھنے پر مجبور کر دیئے جاتے ہیں۔

سعودی عرب، پاکستان، ایران ،افغانستان شام وغیرہ ان رویوں کی بد ترین مثالیں ہیں۔
 

سین خے

محفلین
ان شدت پسند مسلمانوں سے جو ان کی جان کے دشمن ہیں۔

جہاد اور شرعی قوانین کی مخالفت کرتے ہیں۔

غامدی صاحب اور ان کے پیروکاروں کے لئے دھمکیاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہم نے خود کراچی یونیورسٹی میں ایک ٹیچر جو کہ غامدی صاحب کو فالو کرتے تھے کو شاگردوں سے دھمکیاں ملتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایک بار اطلاع ملی تھی کہ ان کو مارا بھی گیا تھا۔ ان سر سے اس بارے میں تصدیق نہیں کی جا سکی تھی۔

جہاں تک فرحت صاحبہ کا تعلق ہے تو فرحت صاحبہ تو خود بہت کنزرویٹوو ہیں۔ غامدی صاحب تو پھر بھی بہت سارے عقائد کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں۔ فرحت صاحبہ اہل حدیث ہیں۔ ان کے انسٹیٹیوٹ الہدیٰ بہت آرام سے پورے ملک میں کام کر رہے ہیں۔ اگر کوئی دھمکی وغیرہ کا مسئلہ ہوتا تو کب کے بند ہو چکے ہوتے کیونکہ وہاں پر خواتین ہی کی انتظامیہ ہوتی ہے۔ فرحت صاحبہ کا جہاں تک مجھے سمجھ آتا ہے وہ امریکا میں تبلیغ کے زیادہ بہتر مواقعوں وجہ سے رہائش پذیر ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ وہاں زیادہ ضرورت ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے اپنی خاندان کی خواتین سے سنی ہیں جو کہ ان کی اسٹوڈنٹ رہ چکی ہیں۔

ہو سکتا ہے کوئی خطرہ وغیرہ ہو لیکن ایسا لگتا نہیں ہے۔
 
مذہبی لیڈر سے کیا مراد ہے؟؟؟
کیا کوئی بھی مذہب کے نام پر کچھ بھی کہہ سکتا ہے یا کچھ حدود و قیود ہیں؟؟؟
اس حقیقت سے قطع نظر کہ وہ شخص آپ کے اور میرے فرقے سے تعلق نہیں رکھتا، یا آپ کے میرے نظریات سے متصادم نظریات رکھتا ہے،، اگر وہ مذہب کے بارے میں ایک منفرد رائے رکھتا ہے اور اسکی تقلید کرنے والے بھی اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں تو ایسا شخص مذہبی لیڈر ہے۔ اگر وہ کلمہ گو ہے تو مسلمان مذہبی لیڈر ہے۔
 

سید عمران

محفلین
اس حقیقت سے قطع نظر کہ وہ شخص آپ کے اور میرے فرقے سے تعلق نہیں رکھتا، یا آپ کے میرے نظریات سے متصادم نظریات رکھتا ہے،، اگر وہ مذہب کے بارے میں ایک منفرد رائے رکھتا ہے اور اسکی تقلید کرنے والے بھی اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں تو ایسا شخص مذہبی لیڈر ہے۔ اگر وہ کلمہ گو ہے تو مسلمان مذہبی لیڈر ہے۔
سر، ہم نے تو مسلک اور فرقے کی بات کی ہی نہیں...
مذہب کی تشریح بیان کرنے کی حدود و قیود پوچھی ہیں!!!
 
آخری تدوین:
سر، ہم نے تو مسلک اور فرقے کی بات کی ہی نہیں...
مذہب کی تشریح بیان کرنے کی حدود و قیود ہوچھی ہیں!!!
آپ ہی جواب بھی دے دیجیے کہ وہ کون سی حدود وقیود ہیں جن پر سارے مسلمان متفق ہیں اور کچھ سر پھرے ان حدود و قیود کی پابندی کرتے نظر نہیں آتے۔
 

سید عمران

محفلین
آپ ہی جواب بھی دے دیجیے کہ وہ کون سی حدود وقیود ہیں جن پر سارے مسلمان متفق ہیں اور کچھ سر پھرے ان حدود و قیود کی پابندی کرتے نظر نہیں آتے۔
سر ہم نے تو اتفاق کی بات بھی نہیں کی...
لیکن کوئی تو کسوٹی ہوگی جس سے جانچا جائے کہ یہ دین ہی ہے یا کچھ اور؟؟؟
 
سر ہم نے تو اتفاق کی بات بھی نہیں کی...
لیکن کوئی تو کسوٹی ہوگی جس سے جانچا جائے کہ یہ دین ہی ہے یا کچھ اور؟؟؟
چلیے ہم کہہ دیتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا طریقۂ استنباط ہی وہ کسوٹی ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ شافعی، مالکی، حنبلی، اہلِ حدیث ، اہلِ تشیع وغیرہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ اب آپ ہی کچھ بتائیے۔
 

سید عمران

محفلین
چلیے ہم کہہ دیتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا طریقۂ استنباط ہی وہ کسوٹی ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ شافعی، مالکی، حنبلی، اہلِ حدیث ، اہلِ تشیع وغیرہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ اب آپ ہی کچھ بتائیے۔
سر، یہ تو مسالک کے فقہی مسائل کے اختلافات کا فرق ہے جس کا ہم نے تذکرہ ہی نہیں کیا۔۔۔
ہم تو خود آپ سے وہ بنیاد سمجھنا چاہ رہے ہیں جس کی بنا پر دین اور غیر دین کا پرچار کرنے والوں کا فرق سمجھ میں آجائے!!!
 

ابو ہاشم

محفلین
سر، یہ تو مسالک کے فقہی مسائل کے اختلافات کا فرق ہے جس کا ہم نے تذکرہ ہی نہیں کیا۔۔۔
ہم تو خود آپ سے وہ بنیاد سمجھنا چاہ رہے ہیں جس کی بنا پر دین اور غیر دین کا پرچار کرنے والوں کا فرق سمجھ میں آجائے!!!
قرآن پھر صحیح حدیث
 

محمد وارث

لائبریرین
قرآن پھر صحیح حدیث
اس پر بھی اتفاق نہیں ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ محفوظ ہیں اور اس پر اجماعِ امت ہے لیکن انہی الفاظ کے ترجمے اور تفسیر پر اپنے اپنے مسلک کو برحق ثابت کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر وضو والی آیت جس میں پاؤں دھونے یا نہ دھونے کے مسئلے پر ہر مسلک اپنے آپ کو برحق سمجھتا ہے حالانکہ الفاظ ایک ہی ہیں۔

اور حدیث تو بالکل مختلف چیز ہے۔ اہلِ سنت، اہلِ حدیث، اہلِ تشیع حدیث کی اپنی اپنی تعبیر کرتے ہیں۔ آخر الذکر کا تو خیر حدیث کا اپنا بالکل الگ نظام ہے، باقی بھی حدیث پر متفق نہیں ہیں۔
 
Top