زیرک کی پسندیدہ اردو نظمیں

زیرک

محفلین
پانی ٹوٹ نہیں سکتا
لیکن ضد پر آ جائے تو
پتھر چھلنی ہو جاتے ہیں
لوہے کی زنجیریں، تالے اور سلاخیں
زنگ میں ڈوب کے مر جاتی ہیں

عابی مکھنوی​
 

زیرک

محفلین
فراق

وہ شب، جس کو تم نے گلے سے لگا کر
مقدس لبوں کی حسیں لوریوں میں
سُلایا تھا سینے پہ ہر روز
لمبی کہانی سنا کر
وہ شب، جس کی عادت بگاڑی تھی تم نے
وہ شب، آج بستر پہ اوندھی پڑی رو رہی ہے

گلزار​
 

زیرک

محفلین
رخصت

جیسے جھنّا کے چٹخ جائے کسی ساز کا تار
جیسے ریشم کی کسی ڈور سے انگلی کٹ جائے
ایسے اک ضرب سی پڑتی ہے کہیں سینے میں
کھینچ کر توڑنی پڑ جاتی ہے جب تجھ سے نظر
تیرے جانے کی گھڑی، سخت گھڑی ہے جاناں

گلزار​
 

زیرک

محفلین
ریشم کا یہ شاعر

تُوت کی شاخ پہ بیٹھا کوئی
بُنتا ہے ریشم کے تاگے
لمحہ لمحہ کھول رہا ہے
پتہ پتہ بین رہا ہے
اک اک سانس کو کھول کے اپنے تن پر لپٹاتا جاتا ہے
اپنی ہی سانسوں کا قیدی
ریشم کا یہ شاعر اِک دن
اپنے ہی تاگوں میں گھٹ کر مر جائے گا

گلزار​
 

زیرک

محفلین
دل ڈھونڈتا ہے

دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
جاڑوں کی نرم دھوپ اور آنگن میں لیٹ کر
آنکھوں پہ کھینچ کر تِرے آنچل کے سائے کو
اوندھے پڑے رہیں، کبھی کروٹ لیے ہوئے
یا گرمیوں کی رات کو پُروائی جب چلے
بستر پہ لیٹے دیر تلک جاگتے رہیں
تاروں کو دیکھتے رہیں چھت پر پڑے ہوئے
برفیلے موسموں کی کسی سرد رات میں
جا کر اسی پہاڑ کے پہلو میں بیٹھ کر
وادی میں گونجتی ہوئی خاموشیاں سنیں
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن

گلزار​
 

زیرک

محفلین
دکھی

اپنی اپنی مدت پوری کرنے والے
بہت ساری مدتیں پوری کرنا چاہتے ہیں
اور اپنی آدھی کھو بیٹھتے ہیں
اور دکھی ہو جاتے ہیں

فرحت عباس شاہ​
 

زیرک

محفلین
چلو محبت میں جیتنا جیتنا کھیلتے ہیں
اور نفرت میں ہارنا، ہارنا
حالانکہ مجھے پتہ ہے
تم محبت میں ہار جاؤ گے
اور میں نفرت میں
لیکن پھر بھی ایک بار کھیل، کھیل لینے میں حرج ہی کیا ہے

فرحت عباس شاہ​
 

زیرک

محفلین
تلخی

آنکھیں تلخیوں سے بھری ہوئی پیالیاں یں
دل کوئی دکھا ہوا زخم
آتی جاتی ہوئی سانس
دل کو چھیل کر گزرتی ہے
پیالیاں اور زیادہ بھر جاتی ہیں

فرحت عباس شاہ​
 

زیرک

محفلین
باتیں

میں ہر رات سونے سے پہلے
بہت ساری باتیں
لپیٹ کے تکیے کے نیچے رکھ دیتا ہوں
اور خوابوں میں
انہیں دوسروں کے تکیوں کے نیچے
تلاش کرتا ہوں

فرحت عباس شاہ​
 

زیرک

محفلین
سبز سے سفید میں آنے کا غم

نظر اٹھاؤں تو سنگ مر مر کی کور، بے حس سفید آنکھیں
نظر جھکاؤں تو شیرِ قالین گھورتا ہے
مِرے لیے اس محل میں آسودگی نہیں ہے
کوئی مجھے ان سفید پتھر کے
گنبدوں سے رہا کرائے
میں اک صدا ہوں
مگر یہاں گنگ ہو گیا ہوں
مِرے لیے تو
انہیں درختوں کے سبز گنبد میں شانتی تھی
جہاں میری بات گونجتی تھی

خورشید رضوی​
 

زیرک

محفلین
چل اے دل! آسمان پر چل
وہاں سے چل کے اس پُرشور بزمِ ہست کو دیکھیں
بلند و پست کو دیکھیں
زمیں کی سرنگونی آسمان سے کیسی لگتی ہے
پہاڑوں کی سرافرازی وہاں سے کیسی لگتی ہے

خورشید رضوی​
 

زیرک

محفلین
صنم خانۂ خیال

شیریں لبوں میں خلد کا مفہوم بے نقاب
زلفوں میں جھومتی ہوئی موجِ جنوں نواز
موجِ جنوں نواز میں طوفانِ بےخودی
طوفانِ بے خودی میں تمناؤں کا گداز
باتوں میں لہلہاتی ہوئی جام کی کھنک
اور جام کی کھنک میں بہاروں کے برگ و ساز
اعضاء میں لوچ، باتوں میں رس، دل میں مستیاں
آنکھوں میں نور، نور میں رنگینیٔ مجاز
رنگینیٔ مجاز میں گہری حقیقتیں
گہری حقیقتوں میں بہت ہی عَمیق راز
رازوں میں میرے شعر کا سر چشمۂ خیال
وہ ہیں عدمؔ کہ ایک صنم خانۂ خیال

عبدالحمید عدم​
 

زیرک

محفلین
رات کتنی مست ہے
شوق کیا جوان ہے
فرشِ گُل ہے زیرِ پا
سر پہ آسمان ہے
ہر نظر ہے التجا
ہر ادا زبان ہے
ابرووٴں میں گیت ہے
انکھڑیوں میں تان ہے
اک گِرہ اُدھیڑ د ے
گیسووٴں کے جال کو
چار سُو بکھیر کر
دیکھتی ہوں راستہ
نین پھیر پھیر کر
کاش لائے چاندنی
کوئی صید گھیر کر
دیکھ دیکھ ر ے سجن
اب نہ اتنی دیر کر
آ کے مجھ کو بھینچ لے
مے سے ہونٹ سینچ لے

عبدالحمید عدم​
 

زیرک

محفلین
لا ادھر ہاتھ
کہ ہم درد کی اس ڈوبتی ناؤ سے اتر کر
چلیں اس پار
جہاں کوچہ و بازار نہ ہوں
درد کے آثار نہ ہوں
در و دیوار اگر ہوں بھی
تو اُن میں
ترے آنسو، مرے آزار نہ ہوں

حسن عباس رضا​
 

زیرک

محفلین
اٹھ جاگ مسافر بھور بھئی

اٹھ جاگ مسافر بھور بھئی
اب رین کہاں جو سووت ہے
لڑکپن کھیل میں کھویا
جوانی نیند بھر سویا
بڑھاپا دیکھ کے رویا
جو سووت سو کھووت ہے
جو جاگت ہے سو پاوت ہے

اٹھ نیند سے اکھیاں کھول ذرا
اور اپنے رب سے دھیان لگا
یہ پریت کرن کی ریت نہیں
رب جاگت ہے تُو سووت ہے

جو کل کرنا ہے آج کر لے
جو آج کرنا ہے اب کر لے
جب چڑین نے چگ کھیت لیا
پھر پچھتائے کیا ہووت ہے

نادان بھگت کرنی اپنی
اے پاپی پاپ میں چین کہاں
جب پاپ کی گٹھڑی سیس دھری
پھر سیس پکڑ کیوں رووت ہے

بھگت کبیر

 

زیرک

محفلین
پریتم ایسی پریت ناں کریو جیسی کہ کھجور
دھوپ لگے تو سایہ ناہیں، بھوک لگے پھل دُور
پریت ناں کریو پنچھی جیسی جل سوکھے اُڑ جائے
پریت تو کریو مچھلی جیسی جل سوکھے مر جائے
پریت کبیرا! ایسی کریو جیسی کرے کپاس
جیو تو تن کو ڈھانپے مرو تو نہ چھوڑے ساتھ

بھگت کبیر​
 

زیرک

محفلین
سنا ہے تلخئ ایام سے لاچار ہو چکے
برباد ہو چکے، وہ بے زار ہو چکے
گر یوں ہے
تو بے تشنہ و آباد کیوں نہ ہم
سرِ عام کوئی ہجر کا ازالہ کر چلیں
بڑی مشکل سے، اپنے دل سے
ہمیں نکالا تو کیوں نہ ہم
مر کر ذرا مشکل میں اور اضافہ کر چلیں

صہیب مغیرہ صدیقی​
 

زیرک

محفلین
جو بات گنتی کے کچھ دنوں سے شروع ہوئی تھی
وہ سالہا سال تک چلی ہے
کئی زمانوں میں بٹ گئی ہے
میں ان زمانوں میں لمحہ لمحہ تمہاری نظروں کے بن رہا ہوں
میں اب تلک بھی تمہارے جانے کا باقی نقصان گن رہا ہوں

صہیب مغیرہ صدیقی​
 

زیرک

محفلین
اے کہ وجہِ سخن
جان و رنگِ غزل
کائناتی محبت کا ردِ عمل
اے اداسی کے ہونے میں واحد خلل
تجھ سے نادم ہوں میں
میرے وہم و گماں میں
قلم میں مِرے اور قرطاس میں
تیرا ہونا، مسلسل نہیں ہو رہا
میری باونویں کوشش میں بھی اب تلک
تیرا خاکہ مکمل نہیں ہو رہا

صہیب مغیرہ صدیقی​
 

زیرک

محفلین
اگر
دو، چار دن
ہفتہ، مہینہ
میرا کوئی لفظ
میرا کوئی شعر
نظر تم کو نہ آ پائے
کوئی دکھ سکھ کا لمحہ
کوئی شکوہ شکایت بھی
آپ اپنی موت ہی مر جائے
تو مجھ کو جان کر مردہ
مجھے اک بات بتلاؤ
خوشی کتنی مناؤ گے؟
غم کتنا مناؤ گے؟​
 
Top