برائے اصلاح

اسد امین

محفلین
یہ نکتہِٕ انگبیں ہے جسے سمجھے تو کہرام
قدرت نے سکھاٸی ہے تجھے قدرتِ پرواز

تو شیشہِٕ فطرت میں عیاں ہو، کہ خودی کا
دنیائے ازل سے ہے یہی آخر و آغاز

درویش ، خدا مست ، نگہ تیز و بلند پَر
یہ چار عناصر ہوں تو بن جاتا ہے شہباز

ان خیز عناصر میں بھی خصلت ہے یہ اس کی
رکھتا نہیں سینے میں کبھی حملہِٕ بے تاز

ہے آج انھی ضرب سے امروز کشاکش
چاہیں تو وہی سوز ، جو چاہیں تو وہی ساز

ہے رہ تو مرے پاس بھی جدت کی بتاؤں
تو بندہِٕ بے حاضر و موجود پہ کر ناز
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top