ٹڈی حلال ہے یا حرام؟

سروش

محفلین
ٹڈی کامعاملہ تو کافی معروف تھا اور اب ذرا واقعے سے اور ہائلائٹ ھو گیا ۔ لیکن مینڈکوں کے بارے میں کوئی نیا دھاگا نہیں کھلا۔ کیا بات ہے :)۔
کیا یہ لاھوری محفلین کا اثر و رسوخ تو نہیں ھے :)؟
مینڈک کا گوشت بھی حرام ہے اور اسکو مارنے کی بھی ممانعت ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
ٹڈی کامعاملہ تو کافی معروف تھا اور اب ذرا واقعے سے اور ہائلائٹ ھو گیا ۔ لیکن مینڈکوں کے بارے میں کوئی نیا دھاگا نہیں کھلا۔ کیا بات ہے :)۔
کیا یہ لاہوری محفلین کا اثر و رسوخ تو نہیں ہے :)؟
لاہوریے خواہ مخواہ بدنام ہو گئے "ڈڈو" کھانے کے حوالے سے۔ کالجوں میں تجربے کے لیے پکڑے ہوئے تھے جو پولیس نے پکڑ لیے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام نے دنبے کو ذبح کرنے کے بعد چھری ہوا میں اچھالی تو پہلے وہ ہوا میں اڑتی ٹڈی کو لگی اور پھر دریا یا سمندر میں جا گری اور ایک مچھلی کو جا لگی۔ اسی روز سے ٹڈی اور مچھلی بغیر ذبح کیے حلال کر دی گئی۔ (واللہ عالم باالصواب)
معلوم نہیں تھا آپ افسانے بھی پڑھتے ہیں۔ :)
 
کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام نے دنبے کو ذبح کرنے کے بعد چھری ہوا میں اچھالی تو پہلے وہ ہوا میں اڑتی ٹڈی کو لگی اور پھر دریا یا سمندر میں جا گری اور ایک مچھلی کو جا لگی۔ اسی روز سے ٹڈی اور مچھلی بغیر ذبح کیے حلال کر دی گئی۔ (واللہ عالم باالصواب)
مابدولت کو بھی کچھ ایسی ہی شنید ہے ! :):)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
لاہوریے خواہ مخواہ بدنام ہو گئے "ڈڈو" کھانے کے حوالے سے۔ کالجوں میں تجربے کے لیے پکڑے ہوئے تھے جو پولیس نے پکڑ لیے۔ :)
ویسے خدا ہی جانے کہ اصل معاملہ کیا ہے ۔ جس دن خبر آئی تو اس دن یہ اعتراف بھی کیا گیا (شاید رکشہ والے کی طرف سے) کہ وہ یہ کئی سال سے کر رہا ہے ۔ اور میں اگلے دن سوچ ہی رہا تھا کہ کالج لیبارٹریز کی کچھ وضاحت (گھڑ کر) پیش کی جائے گی اور ایک دو روز بعد ہی یہ وضاحت بھی سامنے آئی ۔
اگر کالج پرہکٹیکلز کا معاملہ ہوتا تو خبر کے ساتھ ہی کچھ نہ کچھ وضاحت بھی آجاتی ،اور تحقیقات بھلے ہی بعد میں ہوتی رہتیں۔ویسے پریکٹیکلز میں زندہ مینڈک استعمال ہوتے ہیں جنہیں طلبہ کلورو فارم کے ذریعے بیہوش کرتے ہیں تاکہ زندگی کے نظام ہائے متفرقہ جیسے دھڑکتا دل وغیرہ دیکھیں ۔ جب کہ یہ پانچ من مردہ مینڈکوں کا مال تھا ۔
کم از کم انہیں پتہ تو چلنے لگ گیا کہ انہیں کیا کیا کھلایا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

سروش

محفلین
ساتھ ساتھ یہ بھی تو بتائیں کس کے نزدیک ،کس کی رائے میں ؟
رائے نہیں ہے قران و حدیث کی روشنی میں ہے

سنن ابی داؤد: حدیث نمبر: 3871
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثيِرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ،" أَنَّ طَبِيبًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ضِفْدَعٍ يَجْعَلُهَا فِي دَوَاءٍ؟، فَنَهَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِهَا".
عبدالرحمٰن بن عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک طبیب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوا میں مینڈک کے استعمال کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈک قتل کرنے سے منع فرمایا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الصید 36 (4360)، (تحفة الأشراف: 9706)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/453، 499)، سنن الدارمی/الأضاحي 26 (2041)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (5269) (صحیح)» ‏‏‏‏

سنن النسائی : حدیث نمبر: 4360

اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا ابن ابي فديك، عن ابن ابي ذئب، عن سعيد بن خالد، عن سعيد بن المسيب، عن عبد الرحمن بن عثمان:" ان طبيبا ذكر ضفدعا في دواء عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فنهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قتله".
عبدالرحمٰن بن عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک طبیب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوا میں مینڈک کا تذکرہ کیا تو آپ نے اسے مار ڈالنے سے روکا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطب 11 (3871)، الأدب 177 (5269)، (تحفة الأشراف: 9706)، مسند احمد (3/453، 499)، سنن الدارمی/الأضاحي 26 (2041) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈک کو مار کر دوا میں استعمال کرنے سے روکا، کیونکہ یہ نجس و ناپاک ہے اور ناپاک چیزوں سے علاج حرام ہے، نیز مینڈک کو مارنے سے روکنے سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کا کھانا بھی حرام ہے، کیونکہ کھانے کے لیے بھی قتل کرنا پڑتا ہے۔

سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر: 3223
حدثنا محمد بن بشار ، وعبد الرحمن بن عبد الوهاب ، قالا: حدثنا ابو عامر العقدي ، حدثنا إبراهيم بن الفضل ، عن سعيد المقبري ، عن ابي هريرة ، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قتل الصرد، والضفدع، والنملة، والهدهد".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لٹورا (ایک چھوٹا سا پرندہ)، مینڈک، چیونٹی اور ہُد ہُد کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12944، ومصباح الزجاجة: 1110) (صحیح)»

معجم صغیر للطبرانی: حدیث نمبر: 1089

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈک مارنے سے منع کیا اور فرمایا: ”اس کا آواز نکالنا یہ اس کا اللہ کی تسبیح بیان کرنا ہے۔“

(یہ حدیث ضعیف ہے )

مزید دیکھیں: سورة الإسراء - آیت 44
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
ویسے خدا ہی جانے کہ اصل معاملہ کیا ہے ۔ جس دن خبر آئی تو اس دن یہ اعتراف بھی کیا گیا (شاید رکشہ والے کی طرف سے) کہ وہ یہ کئی سال سے کر رہا ہے ۔ اور میں اگلے دن سوچ ہی رہا تھا کہ کالج لیبارٹریز کی کچھ وضاحت (گھڑ کر) پیش کی جائے گی اور ایک دو روز بعد ہی یہ وضاحت بھی سامنے آئی ۔
اگر کالج پرہکٹیکلز کا معاملہ ہوتا تو خبر کے ساتھ ہی کچھ نہ کچھ وضاحت بھی آجاتی ،اور تحقیقات بھلے ہی بعد میں ہوتی رہتیں۔ویسے پریکٹیکلز میں زندہ مینڈک استعمال ہوتے ہیں جنہیں طلبہ کلورو فارم کے ذریعے بیہوش کرتے ہیں تاکہ زندگی کے نظام ہائے متفرقہ جیسے دھڑکتا دل وغیرہ دیکھیں ۔ جب کہ یہ پانچ من مردہ مینڈکوں کا مال تھا ۔
کم از کم انہیں پتہ تو چلنے لگ گیا کہ انہیں کیا کیا کھلایا جاتا ہے۔
بھائی مرغیوں کی تو فارمنگ ہوتی ہے تب کہیں جا کر 100 روپے کلو میں مل جاتی ہے۔ مینڈک کو پکڑنا اور اتنی تعداد میں کہ چکن کے نعم البدل کے طور پر استعمال ہو، معاشی اعتبار سے ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
 

طمیم

محفلین
یہ تو معلوم نہیں کہ کیا کچھ کھلایا جاتا ہے لیکن یہ سوچ رہا تھا کہ پانچ من مردہ مینڈکوں کا وزن کتنا ہو تا ہےکیا مرنے کے بعد مینڈکوں کا وزن کم ہوجاتا ہے اور ایک رکشہ کتنا وزن لیجا سکتا ہے۔
 

سروش

محفلین
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
پانچ من کا مطلب دو ہزار کلو یا دو ٹن ، اگر ایک کلو میں 4 مینڈک آئے یا تین آئے تو یہ 4500 سے 5000 مینڈک ہوں گے ۔ ممکن نہیں ہیں کہ ایک رکشہ میں آجائیں۔
یہ حساب کیا ہے بھئی ؟
پانچ من کا مطلب ہے دوسو کلو تقریبا ۔
تقریبا اٹھائیس من کا ایک ٹن بنتا ہے ۔
 
توبہ اور تائب میں فعل اور فاعل کے علاوہ مزید فرق بتائیں۔۔۔
اس کے لیے کم از کم تین مثالیں دینا لازمی ہیں!!!
فرق ۱: باوجودیکہ بہت سے افعال کو اسماء کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، لیکن توبہ کو انسانی اسم کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا، تائب کا استعمال بطورِ اسم عام ہے۔
فرق ۲: تائب بطورِ تخلص عام ہے، توبہ نہیں۔
فرق۳: تائب جتنی مرضی دفعہ توبہ کر لے پھر بھی تائب ہی رہتا ہے، تائبین نہیں بنتا، یعنی ایک انسان کی زندگی میں توبہ تو تکرار کو قبول کرتی ہے، لیکن تائب ہونا تکرار قبول نہیں کرتا۔
فرق ۴: توبہ اگرچہ مصدر ہے لیکن چونکہ آخر میں ۃ ہے اس لئے اس کے مؤنث ہونے کا شبہ ہوتا ہے، جبکہ تائب میں ایسا کوئی شبہ نہیں ہے، (ہاں موسوم بہ میں ہو سکتا ہے:)
فرق ۵: توبہ قبول ہو جائے تو بھی دوبارہ بے راہ روی کا امکان ہوتا ہے، تائب قبول ہو جائے تو وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔
فرق ۶: توبہ کی جاتی ہے، تائب (سے بیاہ) کیا جاتا ہے۔
فرق۷: توبہ کا وجود تائب کے دم قدم سے ہے، تائب نہ ہو تو توبہ کون کرے؟ لہذا تائب سبب اور توبہ مسبب ہے۔ (البتہ مسبب الاسباب ازلی و ابدی ’’تواب‘‘ ہے۔

مثالیں ہر فرق کی تین تین دینی ہیں یا سب کی ملا کر تین؟؟:D
 
آخری تدوین:
Top