حکم ٹھہراؤ کا دریا کے بہاؤ پر لگا مشتاق عاجز

حکم ٹھہراؤ کا دریا کے بہاؤ پر لگا
اور پھر تہمت سفر کی میری ناؤ پر لگا

پھول بن جائے یہ غنچہ، اے بہار کشت جاں
ایک چرکا اور دل کے گہرے گھاؤ پر لگا

ہار کا امکاں بہت ہے زندگی کے کھیل میں
جیتنا چاہے تو اپنا آپ داؤ پر لگا

زندگی کی گھات میں بیٹھے ہوئے ہیں حادثے
خیمۂ جاں سوچ کر اگلے پڑاؤ پر لگا

بے سری ہونے نہ پائے دھڑکنوں کی راگنی
خون دل، خون جگر، سر کے سبھاؤ پر لگا

کچھ عبادت پر لگا، کچھ دوسروں کی نذر کر
پھر جو لمحے بچ رہیں، دل کے لگاؤ پر لگا

دل کی چنگاری سے عاجز درد کا شعلہ اگا!
جسم کا ایندھن اکٹھا کر، الاؤ پر لگا

مشتاق عاجز​
 
Top