جنسی گھٹن اور ہماری نوجوان نسل کا المیہ

جاسم محمد

محفلین
جنسی گھٹن اور ہماری نوجوان نسل کا المیہ
23/09/2019 عمار غضنفر

ہمارے ہاں لڑکوں کا سِنِ بلوغت میں قدم رکھنے سے لے کر ازدواجی بندھن میں بندھ جانے تک کا دورانیہ جذباتی طور پر نہایت اتھل پتھل کا شکار ہوا کرتا ہے۔ عقل و شعور کی ترقی سے ساتھ ساتھ عمر کا یہ دور جنسی جذبے کی بیداری کا دور ہوتا ہے۔ بارہ تیرہ برس کی عمر سے لے کر اٹھائیس تیس سال کی عمر کا یہ دورانیہ تقریناً سولہ سترہ برس پر محیط ہوتا ہے۔ شادی کی عمر کا تعیّن معاشی حالات کیا کرتے ہیں۔ عموماً ایک نوجوان کے تعلیم مکمل کر کے نوکری کے حصول اور پھر معاشی آسودہ جالی تک اس کی عمر اٹھائیس سے تیس کے پیٹے میں جا پہنچتی ہے۔

اب اس سولہ سترہ برس کے دوران ہر نوجوان اپنی جنسی مہم جوئی کے کس کس مرحلے سے نہیں گزرتا۔ ہم اگر ایک عمومی شریف النفس قسم کے نوجوان کی مثال بھی لیں تو اس کی اس مہم جوئی میں نسوانی لمس کی لذّت (جس کے دائرہء کار میں محرّمات کا لمس بھی شامل ہے ) ، فحش مواد کا دیکھنا، تصوّر میں اس جنسی عمل کو دہرانا، کہیں کہیں اپنے ہم جنسوں سے لذّت کشید کرنا اور بالآخرخود لذّتی میں پناہ حاصل کرنا شامل ہیں۔ اس دوران ایک نوجوان کس طرح کے ذہنی دباؤ، ضمیر کے بوجھ اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار رہتا ہے، ہم نے اس سے مکمل طور پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

بحیثیتِ معاشرہ ہم اس اہم معاملے میں ایسی منافقانہ روش پر گامزن ہیں کہ جس کی داد تو بہرحال دینا بنتی ہے۔ ہم سب اپنی نوجوانی میں ان مراحل سے گزرے ہوتے ہیں، اور یہ سب مسائل ہم بعینہ اسی طرح اپنی اولاد کو سونپ کر اپنی ذمہ داری سے فارغ ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب بیٹیوں کے معاملے میں تو ہمیں یقینِ کامل ہوتا ہے کہ ان کا تو ایسے جذبات سے لینا دینا ہے ہی نہیں۔ ان کا کام تو فقط باپ کی عزّت کی حفاظت ہے۔ جنسی تقاضے اور بیٹیاں، توبہ توبہ!

جس جنسی گھٹن کا شکار ہم خود رہ چکے ہیں، کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہمیں کچھ ایسے اقدام کرنے کے متعلق سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ ہماری آئندہ نسلیں ان مسائل کا شکار نہ ہوں؟ یقیناً یہ سب اس قدر آسان نہیں۔ یہ ایک ایسا الجھا ہوا معاملہ ہے کہ جس کا سلجھنا ہمارے معاشرتی رویّوں اور مجموعی سوچ میں یکسر تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے۔ اس اہم معاملے پر ایک سنجیدہ مکالمہ ضروری ہے۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ ضروری اپنے بچوں کو ان کے ہر طرح کے مسائل والدین سے شیئر کرنے کا حوصلہ دینا ہے۔ تاکہ وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے اپنی زندگی کے ایک لازمی پہلو کے متعلق کھل کر سوال کرنے اور اس معاملے میں ضروری آگہی کے حصول کے قابل ہو پائیں۔

اس کے علاوہ اس چیز پر غور بھی نہایت اہم ہے کہ سولہ سترہ برس کے اس طویل دورانیے کے دوران ہمارے بچے جنسی کجروی میں ملوث رہنے کے باوجود ایک نارمل جنسی تعلق کو ترستے کیوں رہیں؟ ان سب مسائل کے باعث ہمارے بچّے اپنی تعلیم پر بھی اپنی قابلیت کے مطابق توّجہ نہیں دے پاتے، اور اس دوران عوماً سیکس ہی ان کے خیالات کا محور بنا رہتا ہے۔ اس عمر میں پیدا ہونے والی جنسی کجروی کو وقتی طور پر دبا تو لیا جاتا ہے مگر عمر کے بقیہ حصّے میں یہ کسی نہ کسی صورت ابھر کر سامنے آتی رہتی ہے۔ پورن دیکھ کر جنسی عمل سیکھنے والا لڑکا یا لڑکی، ان ویڈیو کے مصنوعی پن سے آگاہ نہ ہو پاتے ہوئے، ایسے ہی جنسی عمل کا خواہاں ہوتا ہے اور اپنے شریکِ حیات سے اسی سب کی توقع کرتا ہے اور ان توقعات کے پورا ہو پانے میں ناکامی ازدواجی زندگی میں مسائل کا سبب بنتی ہے۔

جنسی کارکردگی کا براہِ راست تعلق ذہن سے ہے۔ ہمارے نوجوان کی جنسی صحت کے متعلق معلومات عموماً حکیموں کے اشتہارات اور سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والے توّہمات تک محدود ہوتی ہے۔ نتیجتاً وہ خود لذّتی کو ایک مکروہ چیز مانتے ہوئے خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہو کر خود کو جنسی کمزوری اور مسائل کا شکار تصوّر کرنے لگتا ہے اور ازدواجی زندگی کے آغاز ہی میں دوستوں اور نیم حکیموں کے مشوروں پر جنسی طاقت بڑھانے کی دعوے دار الٹی سیدھی دواؤں کا استعمال کرنے لگتا ہے اور نتیجتاً ان کا محتاج ہوتا چلا جاتا ہے۔ عوماً یہ دوائیں گھٹیا کوالٹی کی ہوتی ہیں اوران کا مستقل استعمال اپنے ساتھ کئی مضر اثرات لیے ہوتا ہے، جس کا نتیجہ صحت کی تباہی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

ضرورت نوجوانوں کو اوائلِ شباب ہی سے مناسب جنسی تعلیم اور خود اعتمادی فراہم کرنے کی ہے تاکہ وہ جنسی گھٹن کا شکار نہ ہونے پائیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں بطورِ معاشرہ یہ حقیقت تسلیم کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہماری نجّی زندگی اور خاندانی نظام ہمارے معاشی حالات کے زیر اثر ہے۔ اب وہ زمانے گزر گئے جب تیرہ چودہ برس کی عمر میں بچوں کی شادی کر دی جاتی تھی۔ اب شادی معاشی استحکام سے مشروط ہے جس کے حصول میں خصوصاً ہماری شہری مڈل کلاس کا نوجوان تیس برس کی عمر تک جا پہنچتا ہے۔ سولہ سترہ برس کے اس دورانیے میں اپنے بچوں سے جنسی تعلق کے معاملے میں صبر کی امید لگائے رکھنا، کبوتر کی مانند آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین

ضرورت نوجوانوں کو اوائلِ شباب ہی سے مناسب جنسی تعلیم اور خود اعتمادی فراہم کرنے کی ہے تاکہ وہ جنسی گھٹن کا شکار نہ ہونے پائیں۔
کیا "مناسب جنسی تعلیم اور خود اعتمادی فراہم" کرنے سے نوجوانوں کی جنسی ضروریات پوری ہو جائیں گی یعنی وہ پندرہ سولہ اٹھارہ برس کی عمر سے لے کر اٹھائیس تیس سال کی عمر تک یعنی جب تک شادی نہیں ہو جاتی اسی تعلیم ہی سے گزارا کر لیں گے یا والدین یہ فرمائیں کہ جب تک شادی نہیں ہو جاتی، بیٹا تُو اپنی جنسی ضرورت پوری کرنے کے لیے فاحشاؤں کے پاس چلا جایا کر!

کیا ان معاشروں میں جن میں جنسی تعلیم اور کھلی جنسی آزادی دی جاتی ہے وہاں کے نوجوان جنسی مسائل کا شکار نہیں ہیں، چاہے ان کی نوعیت کیسی ہی ہو؟ اگر ہیں تو پھر اس تحریر میں تجویز کردہ حل باطل ہو جاتے ہیں!
 

جاسم محمد

محفلین
کیا ان معاشروں میں جن میں جنسی تعلیم اور کھلی جنسی آزادی دی جاتی ہے وہاں کے نوجوان جنسی مسائل کا شکار نہیں ہیں، چاہے ان کی نوعیت کیسی ہی ہو؟ اگر ہیں تو پھر اس تحریر میں تجویز کردہ حل باطل ہو جاتے ہیں!
موضوع بحث جنسی گھٹن ہے۔ مغرب میں جنسی تعلیم و آزادی عام ہونے کی وجہ سے پاکستان جیسی صورتحال پیدا نہیں ہوئی ہے ۔ جہاں آئے روز کم سن بچوں کے ساتھ زیادتی کے بعد ان کو قتل کر دینے جیسے خوفناک واقعات معمول بن چکے ہیں۔
 
مذہب اور معاشرے کی تعلیمات کے مطابق بچوں کے سنِ بلوغت تک پہنچنے پر مناسب وقت دیکھ کر بچوں کی جلد شادیاں ہی اس صورتحال کا بہتر حل ہے جو ہم پاکستانیوں (ہم سمیت) کو قبول نہیں۔ بچہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے تب سوچیں گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
موضوع بحث جنسی گھٹن ہے۔ مغرب میں جنسی تعلیم و آزادی عام ہونے کی وجہ سے پاکستان جیسی صورتحال پیدا نہیں ہوئی ہے ۔ جہاں آئے روز کم سن بچوں کے ساتھ زیادتی کے بعد ان کو قتل کر دینے جیسے خوفناک واقعات سامنے آ تے رہتے ہیں۔
جو نتیجہ آپ دے رہے ہیں وہ کالم نگار نے کہیں نہیں لکھا۔ اگر کالم نگار کا مطلب بھی یہی ہے جو آپ نکال رہے ہیں تو موصوف کو واضح لکھنا چاہیئے تھا کہ کیا مسئلہ ہے اور کیا حل ہے۔ یہ کالم تو ایک جنرل سا کالم ہے اور ظاہر ہے کروڑوں کی آبادی میں کثیر تعداد میں نوجوان ایسے زندگی نہیں گزارتے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مذہب اور معاشرے کی تعلیمات کے مطابق بچوں کے سنِ بلوغت تک پہنچنے پر مناسب وقت دیکھ کر بچوں کی جلد شادیاں ہی اس صورتحال کا بہتر حل ہے جو ہم پاکستانیوں (ہم سمیت) کو قبول نہیں۔ بچہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے تب سوچیں گے۔
اس کا جواب آخری پیرائے میں دیا جا چکا ہے:
ضرورت نوجوانوں کو اوائلِ شباب ہی سے مناسب جنسی تعلیم اور خود اعتمادی فراہم کرنے کی ہے تاکہ وہ جنسی گھٹن کا شکار نہ ہونے پائیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں بطورِ معاشرہ یہ حقیقت تسلیم کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہماری نجّی زندگی اور خاندانی نظام ہمارے معاشی حالات کے زیر اثر ہے۔ اب وہ زمانے گزر گئے جب تیرہ چودہ برس کی عمر میں بچوں کی شادی کر دی جاتی تھی۔ اب شادی معاشی استحکام سے مشروط ہے جس کے حصول میں خصوصاً ہماری شہری مڈل کلاس کا نوجوان تیس برس کی عمر تک جا پہنچتا ہے۔ سولہ سترہ برس کے اس دورانیے میں اپنے بچوں سے جنسی تعلق کے معاملے میں صبر کی امید لگائے رکھنا، کبوتر کی مانند آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
مسئلہ واضح ہے: جنسی بلوغت سے شادی تک کا عرصہ جسمانی، ذہنی اور معاشرتی بگاڑ کے بغیر کیسے کاٹا جائے۔
حل پر بحث کر سکتے ہیں۔
بائیس سے پچیس برس تک صبر اور قرار پکڑ لینا کچھ ایسا مشکل کام نہیں۔ :) ہاں، جب عمر اس سے متجاوز ہو جائے تو جان لیجیے کہ اصل بگاڑ شروع ہو سکتا ہے۔ پچیس برس کے بعد شادی میں مزید تاخیر کرنا مناسب نہیں، الا یہ کہ اس کی مناسب وجوہات موجود ہوں۔ عام طور پر، اس عمر تک نوجوان روزگار سے منسلک ہو جاتے ہیں اور انہیں ڈھنگ کا رشتہ ملنے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں دیر کرنا قطعی طور پر نامناسب ہے۔ شادی سے قبل نوجوانوں کو کھیلوں کی سرگرمیوں میں شریک ہونے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔ اُن کو روزگار سے وابستہ ہونے کے لیے علوم و فنون سیکھنے کی طرف راغب کیا جائے۔ نوجوانوں کو بے سمت ہونے اور گمراہی سے بچانے کے لیے ان کے سامنے واضح اہداف مقرر کیے جانا بھی بہتر رہتا ہے، تاہم یہ اہداف قابلِ حصول ہوں۔
 

جاسمن

لائبریرین
اب شادی معاشی استحکام سے مشروط ہے جس کے حصول میں خصوصاً ہماری شہری مڈل کلاس کا نوجوان تیس برس کی عمر تک جا پہنچتا ہے
ابھی کہیں ایک بات پڑھی تھی کہ جس کا مفہوم تھا۔
ایک امیر لیکن بگڑے ہوئے لڑکے کا رشتہ یہ سوچ کے قبول کر لیا جاتا ہے کہ ٹھیک ہو جائے گا لیکن ایک غریب اور سلجھے ہوئے شریف لڑکے کا رشتہ اس یقین کے ساتھ نہیں قبول کیا جاتا کہ اللہ رازق ہے۔
 

احمد محمد

محفلین
موصوف کو واضح لکھنا چاہیئے تھا کہ کیا مسئلہ ہے

استادِ محترم، آپ بجا فرما رہے ہیں۔

مسئلہ تو موصوف نے عنوان میں ہی بیان کردیا ہے۔ "جنسی گُھٹن"


اور بطور حل لکھاری نے اپنے اختتامی کلمات میں یہ فرمایا ہے کہ:-

سولہ سترہ برس کے اس دورانیے میں اپنے بچوں سے جنسی تعلق کے معاملے میں صبر کی امید لگائے رکھنا، کبوتر کی مانند آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے۔

اور مزید یہ فرمایا کہ

اب شادی معاشی استحکام سے مشروط ہے

اور مذکورہ بالا معاشی استحکام کی شرط کو موصوف اٹل تصور کرتے ہیں جبکہ اسے غیرمشروط کرنا نسبتاً زیادہ آسان حل ہے۔

اب وہ زمانے گزر گئے جب تیرہ چودہ برس کی عمر میں بچوں کی شادی کر دی جاتی تھی

اور مندرجہ بالا اوائل عمری کی شادیوں کو تو ناممکنات میں ہی شمار کردیا۔

حالانکہ نام نہاد مہذب معاشروں میں اس عمر کو پہنچتے ہی یا اس سے بھی قبل نوجوان خواہ لڑکی ہو یا لڑکا، یہ سب دیکھ چکے ہوتے ہیں۔


ان سب اقتباسات کی روشنی میں ہر باشعور بخوبی نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ موصوف کا مدعا کیا ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین

سید عمران

محفلین
اسلام کی رو سے حل کیا ہے؟

جنسی راستے پر جانے کی سب سے بنیادی وجہ کسی بھی وجہ سے شہوت کی آگ کا بھڑک اٹھنا ہے۔۔۔
اگر اس پر قابو رکھا جائے اور اسے بھڑکنے نہ دیا جائے تو زندگی نارمل انداز سے گزرتی ہے۔۔۔
اس آگ پر قابو رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند تدابیر بتائی ہیں:

۱) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ۔۔۔
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا اِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ۔۔۔
زنا کے قریب بھی نہ جاؤ یقیناً یہ بہت ہی گندا راستہ ہے۔۔۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے زنا کی بیماری کی برائی اور اس سے بچنے کی ترکیب بیان فرمائی ہے۔۔۔
زنا کے قریب ہونے کے دو ابتدائی مراحل ہیں۔ نمبر ایک سننا، نمبر دو جو سب سے خطرناک ہے یعنی دیکھنا۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں راستوں سے پاکیزگی حاصل کرنے کے طریقے بیان فرمائے ہیں۔۔۔

ا) بعض مرتبہ انسان کسی کو دیکھ نہیں سکتا لیکن اس کی آواز سن کر مست ہوجاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کی خواتین کو ہدایت ہے ۔۔۔
فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ
(جب کسی نامحرم مرد سے بات کرو تو اپنی فطری ) لوچ و لچک والی آواز سے بات نہ کرو (بلکہ آواز میں تھوڑی تلخی اور سختی ہو) تاکہ جس کا دل (شہوت کی )گندگی سے بھرا ہے وہ تمہاری (طلب کی) لالچ نہ کرنے لگے۔۔۔
اس طریقے میں مرد کی شہوت بھڑکنے سے بچاؤ کا راستہ بھی ہے۔۔۔
آج کل سوشل میڈیا پر اس سوچ کے لوگ کہتے ہیں کہ اور کچھ نہیں تو سیکس سے متعلق باتیں ہی کرلو۔ یعنی اس سے متعلق باتیں سننے سے بھی لذت ملتی ہے جس کے نتیجہ میں شہوت بھڑکتی ہے ۔۔۔

ب) شہوت بھڑکانے والی سب سے خطرناک چیز ہے دیکھنا۔ اس کے لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔۔۔
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ
(اے ہمارے نبی)مومن مردوں سے کہہ دیجیے کہ (نامحرم عورتوں کو دیکھنے سے ) اپنی نگاہیں جھکالیں۔ اور (زنا کاری میں ملوث ہونے سے ) اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کریں۔ یہ ان کی پاکیزگی کا(نسخہ) ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ زنا میں ملوث ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ نظر بازی ہے۔ پہلے آدمی دیکھتا ہے پھر برائی کرتا ہے۔ یعنی برائی کرنے کے لیے بھی دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ پہلی نظر کی محبت کا مشہور مقولہ اس کی تائید میں ہے۔۔۔

اس سے اگلی آیت میں عورتوں کےلیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ بھی اپنی نظروں کی حفاظت کریں۔ مرد ہو یا عورت جو دیکھے گا وہی پھنسے گا۔ پھر اگر نظر پڑ جائے تو حدیث میں ہے کہ اچانک نظر معاف ہے۔ اچانک نظر پڑ جائے تو فوراً اہٹا لی جائے اور اس کے حسن پر دھیان بھی نہ جمایا جائے۔ کسی اور خیال یا کسی اور کام میں لگ جائے۔ کیوں کہ دماغ ایک وقت میں ایک سے زیادہ چیز پر توجہ مرکوز نہیں کرسکتا۔۔۔

ایک اور بات۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جہاں نظریں جھکانے کا حکم دیا ہے وہاں مِنْ لگادیا۔ یعنی یغضوا من ابصارھم۔ یہ مِنْ تبعیضیہ ہے۔ مطلب یہ کہ بعض نظریں بچاؤ۔ یہ نہیں کہ کوئی چیز بھی نہ دیکھو۔ والدین کو دیکھو، بیت اللہ دیکھو، بیوی بچوں کو دیکھو، دنیا دیکھو۔ بس شہوت رانی کی چیزیں نہ دیکھو۔ ایسی تحریر، تصویر وغیرہ نہ دیکھو۔

۲) حدیث پاک میں ہے کہ اگر نکاح کی استعداد نہیں تو روزے رکھو۔ لیکن روزے لگاتار رکھے، اسی سے شہوت ٹوٹتی ہے۔

اگر کبھی شہوت کا غلبہ ہو جائے تو فوراً اچھے لوگوں میں آجاؤ۔ کیوں کہ اس کا غلبہ یا تو تنہائی میں ہوتا ہے یا شہوت کو بھڑکانے والی چیزوں کے قرب میں ہوتا ہے۔ اگر ایسے انسان کا قرب حاصل ہے جس سے شہوت بھڑک رہی ہو تو فوراً اس سے دور بھاگ جاؤ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام زلیخا سے بھاگے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے مقام شہوت پر کھڑے ہوکر دعا نہیں مانگی، سجدے میں نہیں گرے، بس ایک کام کیا کہ جائے شہوت سے فرار اختیار کیا۔ حالاں کہ جانتے تھے کہ زلیخا نے سارے دروازے بند کررکھے ہیں۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا و غلقت الابواب اس نے سارے دروازے بند کردئیے۔ لفظ ابواب ظاہر کررہا ہے کہ دروازے ایک سے زیادہ تھے۔ لیکن یوسف علیہ السلام نے اپنی سی کوشش کی اور شہوت کی جگہ سے باہر کی طرف بھاگتے ہوئے دروازے تک آگئے، اس کے بعد اللہ کے حکم سے پاکیزگی کے سارے دروازے کھلتے گئے۔

تو غلبۂ شہوت کے وقت بھاگ کر امن و سکون والے لوگوں میں آجائے۔ گھر والوں کے پاس چلا جائے، دوستوں رشتہ داروں میں نکل جائے۔ اس سے شہوت کا سارا زور ختم ہوجائے گا کیوں کہ شہوت کی طرف جو خیال جما ہوا تھا وہ ہٹ گیا؎

طبیعت کی رو زور پر ہے تو رک، نہیں تو یہ حد سے گزر جائے گی
ذرا دیر کو تو ہٹا لے خیال، چڑھی ہے یہ ندی اتر جائے گی
 
آخری تدوین:

مریم رضا

محفلین
یہ مسلہ انتہائ پیچیدہ شکل اختیار کر چکا ہے۔۔۔موجود دور جسے دور جدید کا نام بھی دیا جاتا ہے۔۔۔اس نے انسانی جبلت کی جس طرح رہنمائ کی ہے اس کے نتیجہ میں رونما ہونے والے اثرات نقصان دہ ہیں۔۔آپ نے اس مسلے کا جو حل نکالا ہے۔۔ وہ حل اس مسلے کے حل کی طرف ایک قدم ہو سکتا ہے، ایک پہلو ہو سکتا ہے۔۔ مگر یہ ایک مکمل حل نہیں ہے۔۔انسانی جنسی جبلت اپنا وجود رکھتی ہے ہم سب اس بات پہ متفق ہیں۔۔ہم اس بات پر بھی متفق ہیں کہ یہ جبلت اپنا اظہار چاہتی ہے۔۔
۔ مگر انسانی جنسی جبلت کے اظہار کے راستے کے تعین کی ذمہ داری کس پر ہے؟؟؟ اظہار کے راستے کے تعین کی ذمہ داری آپ کس پہ ڈالیں گے؟؟ والدین پہ؟ ماحول پہ؟ جامعات پہ؟ یا خود اس انسان پہ جو اس افراط و تفریط کا شکار ہے؟ اگر ہمیں معاشرے کی بیماری کا حل تلاشنا ہے تو پہلے ہمیں ایک شخص پہ غور کرنا ہو گا کہ اسکی جنسی جبلت کس طرح سے کام کرتی ہے۔۔ اسکی جبلت پہ کیا شے اثرانداز ہوتی ہے تو وہ تحریک پکڑتی ہے۔۔کوئ خارجی عوامل اسکی جبلت میں تحریک پیدا کرتے ہیں؟
کیا ان عوامل کو دور کیا جا سکتا ہے؟
ایسے حالات کہ جن میں معاشی پسماندگی موجود ہو۔۔ آپکے اردگرد ایسا ماحول بھی میسر ہو کہ جس کے سبب آپ افراط و تفریط کے شکار ہوں۔۔
تو اس صورت میں کیا حل بچتا ہے؟
فطرت نے اسکے لئے کس حل کا تعین کیا ہے؟؟
 

سید عمران

محفلین
آپ کے سارے مسائل کا حل بالائی مراسلے میں ہے۔۔۔
باقی رہی یہ بات کہ ہر انسان کے ساتھ بالکل الگ مسائل ہوتے ہیں۔ اس کے لیے اسے یقیناً کسی ماہر فن کو مشیر بنانا پڑے گا۔۔۔
انفرادی مسائل کے لیے انفرادی رابطہ ضروری ہے۔۔۔
غلطی اور ذمہ داری والدین سمیت جس کی بھی ہو یہ مسئلہ لاعلاج نہیں۔۔۔
کاؤنسلنگ سے سارا مسئلہ حل ہوسکتا ہے!!!
 

جاسمن

لائبریرین
جنسی راستے پر جانے کی سب سے بنیادی وجہ کسی بھی وجہ سے شہوت کی آگ کا بھڑک اٹھنا ہے۔۔۔
اگر اس پر قابو رکھا جائے اور اسے بھڑکنے نہ دیا جائے تو تو زندگی نارمل انداز سے گزرتی ہے۔۔۔
اس آگ پر قابو رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند تدابیر بتائی ہیں:

۱) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ۔۔۔
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا اِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ۔۔۔
زنا کے قریب بھی نہ جاؤ یقیناً یہ بہت ہی گندا راستہ ہے۔۔۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے زنا کی بیماری کی برائی اور اس سے بچنے کی ترکیب بیان فرمائی ہے۔۔۔
زنا کے قریب ہونے کے دو ابتدائی مراحل ہیں۔ نمبر ایک سننا، نمبر دو جو سب سے خطرناک ہے یعنی دیکھنا۔اللہ تعالیٰ نے ان دونوں راستوں سے پاکیزگی حاصل کرنے کے طریقے بیان فرمائے ہیں ۔۔۔

ا) بعض مرتبہ کسی کو دیکھ نہیں سکتا لیکن اس کی آواز سن کر مست ہوجاتا ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ کی خواتین کو ہدایت ہے ۔۔۔
فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ
(جب کسی نامحرم مرد سے بات کرو تو اپنی فطری ) لوچ و لچک والی آواز سے بات نہ کرو (بلکہ آواز میں تھوڑی تلخی اور سختی ہو) تاکہ جس کا دل (شہوت کی )گندگی سے بھرا ہے وہ تمہاری (طلب کی) لالچ نہ کرنے لگے۔۔۔
اس طریقے میں مرد کی شہوت بھڑکنے سے بچاؤ کا راستہ بھی ہے۔۔۔
آج کل سوشل میڈیا پر اس سوچ کے لوگ کہتے ہیں کہ اور کچھ نہیں تو سیکس سے متعلق باتیں ہی کرلو۔ یعنی اس سے متعلق باتیں سننے سے بھی لذت ملتی ہے جس کے نتیجہ میں شہوت بھڑکتی ہے ۔۔۔

ب) شہوت بھڑکانے والی سب سے خطرناک چیز ہے دیکھنا۔ اس کے لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔۔۔
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ
(اے ہمارے نبی)مومن مردوں سے کہہ دیجیے کہ (نامحرم عورتوں کو دیکھنے سے )اپنی نگاہیں جھکالیں۔ اور (زنا کاری میں ملوث ہونے سے ) اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کریں۔یہ ان کی پاکیزگی کا(نسخہ ) ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ زنا میں ملوث ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ نظر بازی ہے۔ پہلے آدمی دیکھتا ہے پھر برائی کرتا ہے۔ یعنی برائی کرنے کے لیے بھی دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ پہلی نظر کی محبت کا مشہور مقولہ اس کی تائید میں ہے۔۔۔

اس سے اگلی آیت میں عورتوں کےلیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ بھی اپنی نظروں کی حفاظت کریں۔ مرد ہو یا عورت جو دیکھے گا وہی پھنسے گا۔ پھر اگر نظر پڑ جائے تو حدیث میں ہے کہ اچانک نظر معاف ہے۔ اچانک نظر پڑ جائے تو فوراً اہٹا لی جائے اور اس کے حسن پر دھیان بھی نہ جمایا جائے۔ کسی اور خیال یا کسی اور کام میں لگ جائے۔ کیوں کہ دماغ ایک وقت میں ایک سے زیادہ چیز پر توجہ مرکوز نہیں کرسکتا۔۔۔

ایک اور بات۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جہاں نظریں جھکانے کا حکم دیا ہے وہاں مِنْ لگادیا۔ یعنی یغضوا من ابصارھم۔ یہ مِنْ تبعیضیہ ہے۔ مطلب یہ کہ بعض نظریں بچاؤ۔ یہ نہیں کہ کوئی چیز بھی نہ دیکھو۔ والدین کو دیکھو، بیت اللہ دیکھو، بیوی بچوں کو دیکھو، دنیا دیکھو۔ بس شہوت رانی کی چیزیں نہ دیکھو۔ ایسی تحریر، تصویر وغیر نہ دیکھو۔

۲) حدیث پاک میں ہے کہ اگر نکاح کی استعداد نہیں تو روزے رکھے۔ لیکن روزے لگاتار رکھے، اسی سے شہوت ٹوٹتی ہے۔

اگر کبھی شہوت کا غلبہ ہو جائے تو فوراً لوگوں میں آجاؤ۔ کیوں کہ اس کا غلبہ یا تو تنہائی میں ہوتا ہے یا شہوت کو بھڑکانے والی چیزوں کے قرب میں ہوتا ہے۔ اگر ایسے انسان کا قرب حاصل ہے جس سے شہوت بھڑک رہی ہو تو فوراً اس سے دور بھاگ جاؤ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام زلیخا سے بھاگے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے مقام شہوت پر کھڑے ہوکر دعا نہیں مانگی، سجدے میں نہیں گرے، بس ایک کام کیا کہ جائے شہوت سے فرار اختیار کیا۔ حالاں کہ جانتے تھے کہ زلیخا نے سارے دروازے بند کررکھے ہیں۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا و غلقت الابواب اس نے سارے دروازے بند کردئیے۔ لفظ ابواب ظاہر کررہا ہے کہ دروازے ایک سے زیادہ تھے۔ لیکن یوسف علیہ السلام نے اپنی سی کوشش کی اور شہوت کی جگہ سے باہر کی طرف بھاگتے ہوئے دروازے تک آگئے، اس کے بعد اللہ کے حکم سے پاکیزگی کے سارے دروازے کھلتے گئے۔

تو غلبۂ شہوت کے وقت بھاگ کر امن و سکون والے لوگوں میں آجائے۔ گھر والوں کے پاس چلا جائے ، دوستوں رشتہ داروں میں نکل جائے۔ اس سے شہوت کا سارا زور ختم ہوجائے گا کیوں کہ شہوت کی طرف جو خیال جما ہوا تھا وہ ہٹ گیا؎
طبیعت کی رو زور پر ہے تو رک، نہیں تو یہ حد سے گزر جائے گی
ذرا دیر کو تو ہٹا لے خیال، چڑھی ہے یہ ندی اتر جائے گی

اس کے ساتھ جناب محمد خلیل الرحمٰن بھائی اور فرقان احمد کی تجاویز بھی شامل ہو جائیں جو کہ اپنی اصل میں اسلامی تعلیمات ہی سے اخذ کردہ ہیں، تو میرا خیال ہے کہ جامع حل ہے۔
 

سین خے

محفلین
جہاں آئے روز کم سن بچوں کے ساتھ زیادتی کے بعد ان کو قتل کر دینے جیسے خوفناک واقعات معمول بن چکے ہیں۔

اس مسئلے کے پیچھے بہت سارے عوامل ہیں۔ جو افراد ان جرائم میں ملوث ہوتے ہیں ان کا بیک گراؤنڈ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے افراد زیادہ تر معاشرتی طور misfits ہوتے ہیں۔ ان میں سے بہت سارے نفسیاتی مریض بھی ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض افراد خود بھی کسی ایسے جرم کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں اور اس لئے یہ بہت بار بدلہ لینے پر اتر آتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر کافی ساری الجھنیں ہو سکتی ہیں۔

غلط حرکتوں کا شکار بہت سارے بچے بھی ہو جاتے ہیں۔ بہت بار والدین کی لڑائیوں اور بچوں پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے بھی یہ مسائل سامنے آتے ہیں۔ والدین کو معلوم ہوتا ہے لیکن بہت بار والدین بچپن میں توجہ نہیں دیتے ہیں اور آگے جا کر ان بچوں سے جرائم سرزد ہو جاتے ہیں۔

ان مسائل کا حل کاؤنسلنگ ہی ہے جیسا کہ سید عمران صاحب نے ذکر کیا ہے۔

باقی رہی یہ بات کہ ہر انسان کے ساتھ بالکل الگ مسائل ہوتے ہیں۔ اس کے لیے اسے یقیناً کسی ماہر فن کو مشیر بنانا پڑے گا۔۔۔
انفرادی مسائل کے لیے انفرادی رابطہ ضروری ہے۔۔۔
غلطی اور ذمہ داری والدین سمیت جس کی بھی ہو یہ مسئلہ لاعلاج نہیں۔۔۔
کاؤنسلنگ سے سارا مسئلہ حل ہوسکتا ہے!!!

کاؤنسلنگ میں تھراپسٹس، ڈاکٹرز اور علماء پر مشتمل گروپ ہو سکتا ہے جو تھرپی کے ساتھ ساتھ مذہبی طور پر ایسے بچوں اور بڑوں کی مدد کریں اور ان کو نارمل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے لئے کسی حد تک مغرب کے قوانین سے مدد لی جا سکتی ہے۔ ان قوانین کے تحت ایسے افراد کو رجسٹر کیا جاتا ہے، ان کے علاقے میں رہنے والے بچوں کے والدین کو ان کی رہائش کے بارے میں مطلع کیا جاتا ہے، والدین سے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ ایسے افراد کو کسی مشکوک سرگرمی میں ملوث پائیں تو پولیس کو اطلاع کریں، ان کو تھرپی پروگرامز میں داخل کرایا جاتا ہے۔ ایسے جرائم میں ملوث افراد کو پکڑا بھی جاتا ہے اور سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ جس دن ہمارے یہاں قوانین بن گئے اور ان پر ٹھیک طرح عمل ہونا شروع ہو گیا یہ مسائل حل ہو جائیں گے۔
 
آخری تدوین:
Top