تری نظروں کی مستی نے مجھے سب کچھ بھلایا ہے---برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
-------------
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
------------
تری نظروں کی مستی نے مجھے سب کچھ بھلایا ہے
مری سوچوں کو بدلا ہے نیا جذبہ جگایا ہے
---------------
قدر محبوب کی ہوتی ہے اس کے دور جانے سے
جدائی کو مرے رب نے بھلے تب ہی بنایا ہے
--------------
بہت سے لوگ ہیں لیکن اسے اُستاد مانا ہے
نتیجہ اس کی محنت کا مجھے شاعر بنایا ہے
--------یا
اسی کی سب یہ محنت ہے مجھے شاعر بنایا ہے
--------------------
مرا محبوب روٹھا ہے بُلانے سے نہیں آتا
مجھے معلوم کیسے ہو کیا دل میں سمایا ہے
-------------------
زمانہ داد دیتا ہے سدا ایسے ہی انساں کو
کسی کے دل میں جس نے بھی محبّت کو جگایا ہے
-----------یا
کسی کو راستہ جس نے مرے رب کا دکھایا ہے
-----------------
نکالو نفرتیں دل سے محبّت ڈالتے جاؤ
اسی مقصد کی خاطر ہی ہمیں انساں بنایا ہے
------------
ستائے جو بھی ارشد کو بُرا اس کو نہیں کہتا
معافی کا وطیرہ یہ بزرگوں نے سکھایا ہے
-------------
 

عظیم

محفلین
تری نظروں کی مستی نے مجھے سب کچھ بھلایا ہے
مری سوچوں کو بدلا ہے نیا جذبہ جگایا ہے
---------------
آنکھوں کی مستی بہتر ہو گا۔ باقی شعر درست ہے

قدر محبوب کی ہوتی ہے اس کے دور جانے سے
جدائی کو مرے رب نے بھلے تب ہی بنایا ہے
--------------قدر بمعنی اہمیت وغیرہ دال پر جزم کے ساتھ ہے۔ دوسرا مصرع بے معنی لگ رہا ہے

بہت سے لوگ ہیں لیکن اسے اُستاد مانا ہے
نتیجہ اس کی محنت کا مجھے شاعر بنایا ہے
--------یا
اسی کی سب یہ محنت ہے مجھے شاعر بنایا ہے
-------------------- دونوں مصرعوں کا اختتام 'ہے' پر ہے۔ اس کے علاوہ پہلے میں 'اسے' کی جگہ 'جسے' بہتر رہے گا۔ اور دوسرا مصرع متبادل بہتر ہے۔ مگر 'یہ' بھرتی کا محسوس ہو رہا ہے!

مرا محبوب روٹھا ہے بُلانے سے نہیں آتا
مجھے معلوم کیسے ہو کیا دل میں سمایا ہے
-------------------
'کیا' کو 'کِیا' باندھ گئے؟ بلانے سے نہیں آتا بھی عجیب لگ رہا ہے کہ روٹھا ہوا ظاہر ہے کہ بلانے پر نہیں آیا کرتا!

زمانہ داد دیتا ہے سدا ایسے ہی انساں کو
کسی کے دل میں جس نے بھی محبّت کو جگایا ہے
-----------یا
کسی کو راستہ جس نے مرے رب کا دکھایا ہے
----------------- یہاں ردیف کارگر نہیں لگ رہی۔ دکھایا ہو یا جگایا ہو، ہونا چاہیے تھا
دوسرا مصرع بدل کر دیکھیں

نکالو نفرتیں دل سے محبّت ڈالتے جاؤ
اسی مقصد کی خاطر ہی ہمیں انساں بنایا ہے
------------ کس نے انسان بنایا ہے اس کا بھی ذکر کرنا ضروری لگ رہا ہے۔

ستائے جو بھی ارشد کو بُرا اس کو نہیں کہتا
معافی کا وطیرہ یہ بزرگوں نے سکھایا ہے
-------------دو لخت ہو رہا ہے۔ 'اس کو سکھایا ہے' ہوتا تو ٹھیک تھا
 
الف عین
عظیم
----------------
تری آنکھوں کی مستی نے مجھے سب کچھ بھلایا ہے
مری سوچوں کو بدلا ہے نیا جذبہ جگایا ہے
---------------یا
مرے دل میں محبّت کا نیا جذبہ جگایا ہے
-------------
ہمیشہ قدر ہوتی ہے کسی کے دور جانے سے
جدائی میں جو بیتا وقت اُس نے یہ بتایا ہے
--------------
بہت سے لوگ ہیں لیکن جسے اُستاد مانا ہے
اسبھی اس کی ہی محنت ہے مجھے شاعر بنایا ہے
------------یا
یہ ساری اس کی محنت ہے مجھے شاعر بنایا ہے
------------------
مرا محبوب روٹھا ہے کبھی ملنے نہیں آتا
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کچھ من میں سمایا ہے
--------یا
محبّت کو مری اُس نے بھلا کیسے بھلایا ہے
--------------
مجھے کیوں داد دیتے ہو میں اک جاہل نکمّا تھا
اسی کی داد بنتی ہے مجھے جس نے سکھایا ہے
-----------
نکالو نفرتیں دل سے محبّت ڈالتے جاؤ
اسی مقصد کی خاطر ہی ہمیں رب نے بنایا ہے
------------
ستائے جو بھی ارشد کو بُرا اس کو نہیں کہتا
اسے ایسا وطیرہ سب بزرگوں نے سکھایا ہے
-----------یا
اسے اس کے بزرگوں نے یہی کرنا سکھایا ہے
----------------
 

عظیم

محفلین
تری آنکھوں کی مستی نے مجھے سب کچھ بھلایا ہے
مری سوچوں کو بدلا ہے نیا جذبہ جگایا ہے
---------------یا
مرے دل میں محبّت کا نیا جذبہ جگایا ہے
-------------مرے دل میں محبت کا.... کے ساتھ درست اور اچھا مطلع ہو گیا ہے

ہمیشہ قدر ہوتی ہے کسی کے دور جانے سے
جدائی میں جو بیتا وقت اُس نے یہ بتایا ہے
--------------پہلے میں قدر دور جانے والے کی ہوتی ہے یہ ظاہر نہی ہو رہا۔
کسی کی قدر ہوتی ہے ہمیشہ دور جانے سے
کیا جا سکتا ہے
'بیتا' کی جگہ 'گزرا' کیوں استعمال نہیں کرتے؟

بہت سے لوگ ہیں لیکن جسے اُستاد مانا ہے
اسبھی اس کی ہی محنت ہے مجھے شاعر بنایا ہے
------------یا
یہ ساری اس کی محنت ہے مجھے شاعر بنایا ہے
------------------ دونوں مصرعوں کا 'ہے' پر ختم ہونا دور نہیں کیا گیا۔
آسانی سے 'جسے استاد ہے مانا' کیا جا سکتا ہے
دوسرے میں 'مجھے' سے پہلے 'کہ' کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔

مرا محبوب روٹھا ہے کبھی ملنے نہیں آتا
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کچھ من میں سمایا ہے
--------یا
محبّت کو مری اُس نے بھلا کیسے بھلایا ہے
--------------پہلا مصرعہ کی روانی بہتر کرنے کی ضرورت ہے
کبھی ملنے نہیں آتا مرا روٹھا ہوا محبوب
دوسرا 'مجھے لگتا ہے' وغیرہ کے ساتھ ہو تو بات بن سکتی ہے

مجھے کیوں داد دیتے ہو میں اک جاہل نکمّا تھا
اسی کی داد بنتی ہے مجھے جس نے سکھایا ہے
-----------ٹھیک

نکالو نفرتیں دل سے محبّت ڈالتے جاؤ
اسی مقصد کی خاطر ہی ہمیں رب نے بنایا ہے
------------
درست

ستائے جو بھی ارشد کو بُرا اس کو نہیں کہتا
اسے ایسا وطیرہ سب بزرگوں نے سکھایا ہے
-----------یا
اسے اس کے بزرگوں نے یہی کرنا سکھایا ہے
--------------- اسے اس کے بزرگوں کے ساتھ درست
 

الف عین

لائبریرین
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کچھ من میں سمایا ہے
کس کے من میں سمایا ہے؟ یہ واضح نہیں ہو سکا

مجھے کیوں داد دیتے ہو میں اک جاہل نکمّا تھا
ماضی کا صیغہ کیوں؟ نکما ہوں بہتر ہو گا.
یہ دو باتیں مزید
 
الف عین
عظیم
------------
بہت سے لوگ ہیں لیکن جسے اُستاد ہے مانا
بڑی محنت سے اُس نے ہی مجھے شاعر بنایا ہے
----------
مجھے کیوں داد دیتے ہو میں اک جاہل نکمّا ہوں
اسی کی داد بنتی ہے مجھے جس نے سکھایا ہے
----------
ستائے جو بھی ارشد کو بُرا اس کو نہیں کہتا
اسے اس کے بزرگوں نے یہی کرنا سکھایا ہے
------------
مرا محبوب روٹھا ہے کبھی ملنے نہیں آتا
شکایت تھی نہ شکوہ تھا مجھے پھر بھی بھلایا ہے
------------
 

الف عین

لائبریرین
مرا محبوب روٹھا ہے کبھی ملنے نہیں آتا
شکایت تھی نہ شکوہ تھا مجھے پھر بھی بھلایا ہے
کس کو شکوہ شکایت تھی؟ عاشق کو یا معشوق کو؟ واضح نہیں ہوتا
بھلایا بھی اچھا نہیں لگتا، بھلا دیا ہے درست ہوتا
 

عظیم

محفلین
اب بھی 'بھلایا ہے' بجائے 'بھلا دیا ہے' کے اچھا نہیں
مرا محبوب روٹھا ہے کبھی ملنے نہیں آتا
نہ جانے دوریوں کا پاٹ اسے کس نے پڑھایا ہے
کیسا رہے گا؟
 
Top