پاکستان کو سائنسدانوں کی ضرورت ہے

جاسم محمد

محفلین
پاکستان کو سائنسدانوں کی ضرورت ہے
صادقہ خان بدھ 18 ستمبر 2019
1810367-scientistskizaroorat-1568802239-211-640x480.jpg

ہمارے تعلیمی اداروں میں سائنسی تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آج کل ہمارے تعلیمی اداروں میں ایسے اساتذہ کی بھرمار ہے جو سائنسی قوانین و مساواتوں کو بچوں کے دماغ میں ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کا پورا زور کتابوں میں درج معلومات کو حرف بہ حرف لیکچر میں دہرانے پر ہوتا ہے۔ وہ انھیں تجربات کے ذریعے بچوں کو سمجھانے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ اگر ایسا کیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ ایک طرف یہ بچوں کےلیے دلچسپ پیریڈ بن جائے اور وہ ڈیسک پر اونگھنے، یا رائٹنگ پیڈ پر فضول چٹکلے لکھ کر وقت گزارنے کے بجائے کلاس ایکٹیویٹی میں بھرپور حصہ لیں۔ دوسری جانب انھیں وہ مشکل قوانین باآسانی سمجھ میں آجائیں گے جنھیں بھاری فیس لے کر کوچنگ سینٹر بھی سمجھانے سے قاصر ہیں۔

سائنسی تجربات میں بچوں کی دلچسپی پر ان کے والدین بھی خوشی کا اظہار کرتے ہیں مگر ہمارے تعلیمی اداروں میں انتظامیہ اس پر سختی سے عمل کرانے سے قاصر ہے اور نتیجتاً بچوں کی سلیبس کتابوں سے بے رغبتی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اور ان کے کم نمبروں پر پریشان ہوکر والدین کوئی مہنگا ٹیوٹر یا کوچنگ سینٹر لگوا دیتے ہیں، جس سے ان کے کھیل کود کا وقت بھی ختم ہوجاتا ہے اور بچے بتدریج کتاب دشمن بنتے جارہے ہیں۔

سائنسی تجربات میں بچوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اگر ہر اسکول میں انتظامیہ مختلف کلاسز کے درمیان سائنس پراجیکٹ مقابلوں کا ہفتہ وار انعقاد کرائے اور جیتنے والے طلبا کو نہ صرف انعامی رقم دی جائے تو اس طرح سلیبس میں ان کی بے رغبتی کو کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اگر ان کے شوق کو آگے بڑھانے کےلیے انھیں سائنسی موضوعات پر کتابیں اور آلات انعام میں دیئے جائیں، جن سے وہ گھر بیٹھے ازخود تجربات کرسکیں۔

پاکستان کے تعلیمی نظام کے گرتے ہوئے معیار اور حکومتی عدم توجہ کو دیکھتے ہوئے بہت سی سائنس سوسائٹیز اور این جی اوز اب اس حوالے سے کافی سرگرم ہوگئی ہیں اور اپنے ذرائع سے تعلیمی نظام کی بہتری کےلیے کوششیں کررہی ہیں۔ ان ہی میں سے ڈاکٹر صبیح انور ہیں، جو آکسفورڈ یونیورسٹی سے فزکس میں پی ایچ ڈی ہیں اور متعدد بین الاقوامی اعزازات حاصل کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر صبیح نے بتایا کہ وہ پاکستان میں سائنسی و تجرباتی علوم کی ترویج کےلیے دو عشروں سے سرگرم ہیں اور ان کی معاونت سے خوارزمی سائنس سوسائٹی اب تک چار سو سے زائد سائنسی میلے اور دیگر تقریبات اس مقصد کےلیے کروا چکی ہے۔ اس سال بھی ہم لاہور میں ایک بڑا سائنسی میلہ منعقد کرنے کےلیے تیاریاں کررہے ہیں۔ 12 اور 13 اکتوبر کو ہونے والے اس سائنس میلے میں معروف روسی سائنس دان مینڈلیف کے تیار کردہ دوری جدول کی 150 ویں سالگرہ کی مناسبت سے کیمیا کے پراجیکٹس کو اولیت دی جائے گی۔ پنجاب بھر میں سائنسی علوم کی ترویج اور بچوں میں تجربات، مشاہدات اور ازخود تحقیق کرکے سیکھنے کے عمل کو پروان چڑھانے کےلیے اس دفعہ سرکاری اسکولوں کی شمولیت کو یقینی بنانے کےلیے خوارزمی سائنس سوسائٹی نے اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ، پنجاب کے ساتھ مل کر ایک تربیتی مہم کا آغاز بھی کیا ہے اور پنجاب کے ہر ضلعے سے ایک اسکول کو بطور مظاہرہ کار چنا گیا ہے۔ ہر ٹیم دوری جدول کے عناصراور ان سے متعلق کیمیائی مرکبات، یا فزکس کے مضمون کے حوالے سے کوئی حیرت انگیز تجربہ تیار کرے گی۔

یہ ٹِیمیں ستمبر کے مہینے میں سائنس پراجیکٹ کی تیاری کی عملی تربیت حاصل کرنے کےلیے نیشنل سائنس میوزیم، لاہور کا ایک روزہ دورہ بھی کریں گی۔ چونکہ اس طرح کی تقریبات کے انعقاد کا اولین مقصد مستقبل کے سائنسدان تیار کرنا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ بچے ابھی سے ایک سائنسدان کی طرح سوچیں اور کم لاگت والے ایسے پراجیکٹ کا انتخاب کریں جس میں مزید تحقیق کا مارجن ہو۔

ہمارے تعلیمی اداروں میں سائنسی تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک کی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے بھی جو ڈگری ہولڈر نکل رہے ہیں وہ صرف بہترین نوکری کے خواہاں ہیں۔ اگرچہ سائنس غلطیوں سے سیکھنے اور بار بار کوشش کرنے کا نام ہے مگر ہماری نوجوان نسل ابتدائی ناکامی سے بددل ہوکر بیرون ملک منتقل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ملک میں سائنسی تحقیق میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہورہی۔ اس طرح کی سائنسی سرگرمیوں کا مقصد ایک ایسے سسٹم کا قیام ہے جہاں اسکول و کالجز ہی سے بچے تحقیق میں دلچسپی لیں اور ملک میں عملی سائنس کی راہ ہموار ہوسکے۔

سوسائٹی کے زیر انتظام گزشتہ دو سال سے ہونے والے سائنس میلے کو نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی میڈیا کی بھی بھرپور کوریج حاصل ہوئی ہے اور پچھلے برس ایران کے وفد نے بھی اس میلے میں شرکت کی، جبکہ 2019 میں متعدد ممالک کی ٹیموں کی شرکت متوقع ہے۔ اس میلے میں اسکول و کالجز کے طلبا و طالبات کے پراجیکٹوں کے درمیان ایک صحت مند ماحول میں مقابلہ کروایا جاتا ہے۔ ان مقابلوں میں جیتنے والے طلبا کو ملکی سطح پر مقبولیت تو حاصل ہوتی ہی ہے، اور اس طرح لوکل ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اگر وہ اپنی کامیابی کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے نئی تحقیق سامنے لائیں تو انہیں نہ صرف بین الاقوامی سائنسی مقابلوں میں بھیجا جاتا ہے بلکہ ان کی تحقیقات کو معروف سائنسی جرائد میں بھی شائع کیا جاتا ہے۔ اس سے ایک طرف ان کی تحریری صلاحیتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں تو دوسری جانب مستقبل میں بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم کےلیے وظائف کا حصول بھی آسان ہوجاتا ہے۔ جبکہ بار بار مقابلوں میں شرکت سے خوداعتمادی کے ساتھ اپنی تحقیق عوام و خواص کے سامنے پیش کرنے میں بھی معاونت ملتی ہے جو ایک سائنسدان بننے کی بنیادی شرط ہے۔

بلاشبہ یہ سائنسی میلے پاکستان میں عملی و تجرباتی سائنس کی راہ ہموار کرنے میں بنیادی کردار ادا کررہے ہیں۔ ضرورت محض اس امر کی ہے کہ حکومت ان کی سرپرستی کرتے ہوئے ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ان کا انعقاد یقینی بنائے۔ اسی طرح کا ایک سائنسی میلہ جون 2019 میں پاکستان سائنس کلب کے زیر انتظام کراچی میں بھی منعقد کیا گیا تھا، جس میں کامیاب ہونے والے طلبا و طالبات کی ٹیم عبدالرؤف کی سرکردگی میں چین میں ہونے والے بین الاقوامی سائنس پراجیکٹ مقابلے میں شریک ہوئی اور سلور اور برونز میڈلز بھی حاصل کیے۔ یہ کامیابی اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں نہ تو ٹیلنٹ کی کمی ہے اور نہ ہی یہاں کے بچے سائنس سے رغبت نہیں رکھتے، بلکہ اصل مسئلہ ہمارے تعلیمی نظام کے ساتھ ہے جس کو از سر نو تشکیل دے کر اسکولوں میں محض کتابوں میں لکھا رٹانے اور سلیبس کروانے کے بجائے بچوں کو عملی سائنس سکھائی جائے۔ اگر ایسا ہو تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے تعلیمی ادارے بھی محض ’’ڈگری ہولڈرز‘‘ کے بجائے ’’سائنسدان‘‘ پیدا کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

محمد سعد

محفلین
صحت مند انسانی بچے سب ہی پیدائشی طور پر متجسس ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ ان میں تجسس "پیدا" کیسے کیا جائے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس تجسس کو مارا نہ جائے، باقی کام وہ خود کر لے گا۔
سکولوں میں تجربات کو مہنگا عمل سمجھ کر ان سے گریز کرنے کی وجہ سے کافی نقصان ہوتا ہے۔ تجربات سے دور رکھ کر ہم بچوں کو باور کرا دیتے ہیں کہ اس سائنس وائنس کا ان کے ذہن میں موجود فطری تجسس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ محض کتابوں میں رکھے جانے والی چیزیں ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان تجربات پر دو تین بچوں کی فیس جتنا خرچ بھی نہیں آتا۔
ایک فیکٹر یہ بھی ہوتا ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کو اپنے آس پاس ماحول سے کیا پیغامات مل رہے ہیں کہ کون سے شعبہ جات قابل تعریف سمجھے جاتے ہیں اور کن کی طرف مائل ہونے پر طرح طرح کے طعنے سننے پڑتے ہیں۔ محلے سے لے کر میڈیا تک، سب اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر یہاں سے ان کو یہ پیغام مل رہا ہے کہ سائنسی تحقیق کی طرف رجحان رکھنا قابل تعریف نہیں سمجھا جاتا، تو وہ بھی ان کو دور کرتا ہے کہ آخر معاشرے میں قبول کیے جانے کی خواہش انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ یہاں اس نکتے پر زور دیتا چلوں کہ "قابل تعریف سمجھے جانے" کا پیغام صرف کھوکھلے الفاظ سے نہیں دیا جا تا بلکہ عملی طور پر بھی اس کی حوصلہ افزائی ہو تب پتہ چلتا ہے کہ ان الفاظ میں در حقیقت کتنا دم ہے۔

ایسے ماحول میں خوارزمی سائنس سوسائٹی اور پاکستان سائنس کلب جیسے ادارے نہایت عمدہ کام کر رہے ہیں۔ صبیح انور صاحب اور عبد الرووف صاحب سے ذاتی طور پر ملاقات کا بھی موقع ملا ہے۔ دونوں ہی نہایت مخلص اور منکسر المزاج شخصیات ہیں۔ عبد الرووف صاحب خصوصاً جس طرح کم وسائل میں اتنا کام کر رہے ہیں، یہ ان کے حوصلے کے ساتھ ساتھ ان کی تخلیقی صلاحیت کا بھی ثبوت ہے۔
 
Top