سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
اختلافی آواز کو دبانا جمہوری نظام کیلیے خطرہ ہے، چیف جسٹس
ویب ڈیسک بدھ 11 ستمبر 2019
1805458-cjp-1568218274-588-640x480.jpg

ازخود نوٹس اور جوڈیشل ایکٹوازم سے گریز زیادہ محفوظ اور کم نقصان دہ ہے، چیف جسٹس ۔ فوٹو : ایکسپریس


اسلام آباد: چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ سوموٹو کا اختیار قومی اہمیت کے معاملے پر استعمال کیا جائے گا اور جب ضروری ہوا تب عدالت ازخود نوٹس لے گی۔

اسلام آباد میں نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ میں نے تقاضا کیا تھا کہ انتظامیہ اور قانون سازعدالتی نظام کی تنظیم نو کے لیے نیا تین تہی نظام متعارف کروائیں لیکن حکومت اور پارلیمنٹ نے عدالتی نظام کی تنظیم نو کی میری تجویز پر غور نہیں کیا، سپریم کورٹ جوڈیشل ایکٹوازم کی بجائے عملی فعل جوڈیشل ازم کو فروغ دے رہی ہے، لیکن سوسائٹی کا ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹوازم میں عدم دلچسپی پرناخوش ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تقریر میں کہہ چکا ہوں کہ سوموٹو کا اختیار قومی اہمیت کے معاملے پر استعمال کیا جائے گا اور جب ضروری ہوا یہ عدالت سوموٹو نوٹس لے گی، آئندہ فل کورٹ میٹنگ تک از خود نوٹس کے استعمال سے متعلق مسودہ تیار کر لیا جائے گا، ہم آئین اور قانون کے مطابق اپنا کردارادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ سوموٹوسےعدالتی گریززیادہ محفوظ اور کم نقصان دہ ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اختلافی آواز کو دبانے کے حوالے سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں، اختلاف کو برداشت نہ کرنے سے اختیاری نظام جنم لیتا ہے، کسی کی آواز یا رائے کو دبانا بداعتمادی کو جنم دیتا ہے، بد اعتمادی سے پیدا ہونے والی بے چینی جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے۔

چیف جسٹس نے سپریم جوڈیشل کونسل کے بارے میں کہا کہ قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے علاوہ کونسل سے کوئی بھی توقع نہ رکھی جائے اور کونسل کسی بھی قسم کے خوف، بدنیتی یا دباؤ کے بغیر اپنا کام جاری رکھے گی، سپریم جوڈیشل کونسل کے تمام ممبران اور چیئرمین اپنے حلف پرقائم ہیں، کونسل اپنی کارروائی میں آزاد اور بااختیار ہے۔

صدر مملکت کی کسی جج کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے پراثر اندازنہیں ہوتی

چیف جسٹس نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو مشکل ترین عمل قراردیتے ہوئے کہا کہ اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل میں 9 شکایات زیرالتواء ہیں، صدر مملکت کی جانب سے دائر دوریفرنس شامل ہیں، صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے دونوں ریفرنسز پر کونسل کارروائی کررہی ہے، صدر مملکت کی کسی جج کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے پراثر اندازنہیں ہوتی، سپریم جوڈیشل کونسل اس طرز کی آئینی ہدایات سے صرف نظر نہیں کرسکتی، آئین صدرمملکت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کونسل کو کسی جج کے کنڈکٹ کی تحقیقات کی ہدایت کرے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اپنے گھر کو درست کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، دنیا بھر میں پہلی بار سپریم کورٹ پاکستان نے ای کورٹ سسٹم متعارف کروایا، لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے مطابق زیر التواء مقدمات کی تعداد کم ہوکر 1.78 ملین ہوگئی ہے، گزشتہ عدالتی سال کے آغاز پرعدالتوں میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد 1.81 ملین تھی۔

واضح رہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد کریم خان آغا کیخلاف حلف کی خلاف ورزی اور مس کنڈکٹ کی شکایات کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
افغانستان میں امریکی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا ناانصافی ہے، وزیراعظم
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے
1806489-imrankhane-1568282785-537-640x480.jpg

پاکستان کو امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں غیر جانبدار رہنا چاہیے تھا، عمران خان فوٹو:فائل


اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکا کے کامیاب نہ ہونے کا الزام پاکستان پر لگانا غیر منصفانہ ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے روسی ٹی وی ’آر ٹی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں پاکستان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، ہم نے 70 ہزار جانیں گنوائیں اور 100 ارب ڈالر کا نقصان بھی ہوا، پاکستان کو امریکا کی اس جنگ میں غیر جانبدار رہنا چاہیے تھا، میں شروع سے اس جنگ کے خلاف تھا، ہم نائن الیون کے بعد امریکا کی جنگ نہ لڑتے تو ہم دنیا کا خطرناک ملک نہ ہوتے۔

عمران خان نے کہا کہ اتنے نقصانات کے باوجود آخر میں امریکا کی ناکامی پر ہمیں ہی قصوروار ٹھہرایا گیا اور امریکا اپنی ناکامیوں کا الزام پاکستان پر عائد کرتا ہے، یہ پاکستان کے ساتھ ناانصافی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ سوویت یونین کےخلاف جنگ کا فنڈ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے دیا تھا اور پاکستان نے مجاہدین کو تربیت دی، ایک عشرے بعد جب امریکا افغانستان گيا تو کہا گيا کہ یہ جہاد نہیں یہ دہشتگردی ہے، یہ بہت بڑا تضاد تھا جسے میں نے محسوس کیا، جبکہ امریکا کا اتحادی بننے سے یہ گروپس بھی ہمارے خلاف ہوگئے۔


علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں 58 ممالک نے بھارت سے مقبوضہ کشمیر میں طاقت کا استعمال روکنے اور پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کیا، 58 ممالک کا پاکستان کا ساتھ دینا قابل ستائش اور یورپی یونین کا مطالبہ خوش آئند ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے زور دیا کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیاجائے اور کشمیریوں کے حقوق کا تحفظ و احترام کیا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
معیشت پر بےبنیاد پروپیگنڈے کا حقائق کیساتھ جواب دیا جائے،وزیراعظم کی ترجمان کو ہدایت
ویب ڈیسک ہفتہ 14 ستمبر 2019
1808677-imrankhan-1568466588-681-640x480.jpg

زراعت کی بہتری کے لیے مفصل پالیسی دی ہےعوام کو اس سے آگاہ کیا جائے، وزیراعظم، فوٹو: فائل

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے معاشی ٹیم اور ترجمان کو ہدایت کی ہے کہ وہ معیشت پر بے بنیاد پروپیگنڈے کا حقائق کے ساتھ جواب دیں۔

وزیرِاعظم عمران خان کی زیر صدارت حکومتی معاشی ٹیم کا اجلاس ہوا، اجلاس میں وزیرِ برائے اقتصادی امور حماد اظہر، وزیرِ منصوبہ بندی مخدوم خسرو بختیار، مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ، مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین، معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق، و دیگر سینئر افسران شریک ہوئے۔

اجلاس میں حکومتی معاشی ٹیم نے وزیرِاعظم کو معیشت کی بہتری اور استحکام کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات اور ان کے اثرات پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ معیشت کی بہتری کی غرض سے کی جانے والی اصلاحات کے مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہوگئے ہیں اور رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ میں برآمدات اور درآمدات کے ضمن میں تجارتی خسارے میں 38 فیصد کمی، ٹیکسوں کی وصولیوں میں بہتری، ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور نجی کاروباری سرگرمیوں میں تیزی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔

اجلاس میں سیکرٹری خزانہ کی جانب سے مختلف وزارتوں بشمول کامرس، صنعت و حرفت، نیشنل فوڈ سیکیورٹی، وزارتِ پٹرولیم، ایف بی آر، سرمایہ کاری بورڈ، ایوی ایشن ڈویڑن کی جانب سے مالی سال کی ہر سہ ماہی کے لئے مقرر کیے گئے اہداف پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کا فروغ ہماری ترجیح ہے، وزیراعظم نے بیمار صنعتی اداروں کی بحالی کے لیے خصوصی اقدامات کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بے انتظامی پر بند کارخانوں اور بیمار صنعتوں کی بحالی پر توجہ دی جائے اور صنعتی اداروں کی بحالی کے لیےلائحہ عمل بنایا جائے، تعمیرات کو صنعت کا درجہ دینے اور اس شعبے میں فکس ٹیکس کے نفاذ کی تجاویز کو جلد حتمی شکل دی جائے، اپارٹمنٹس کی تعمیرات میں سرمایہ کاری کیلیے مراعاتی پیکیج کی تجویز پرغور کیا جائے۔

وزیراعظم نے کہا کہ معیشت کی بہتری کے لیے روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر حل پیش کیا جائے، معیشت پر بے بنیاد پروپیگنڈے کا حقائق کے ساتھ جواب دیا جائے، معیشت پرمعلومات کی فراہمی کے لیے متحرک کردارادا کیا جائے، زراعت کی بہتری کے لیے مفصل پالیسی دی ہےعوام کو اس سے آگاہ کیا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مذاق
حامد میر

عمران خان کے وزیراعظم بننے کا پاکستان کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ یہ وہ سوال تھا جس پر دو وفاقی وزراء میں بحث جاری تھی اور میں اس بحث کو خاموشی سے سُن رہا تھا۔ بحث کا آغاز اس طرح ہوا کہ جمعہ کی سہ پہر ایک وزیر صاحب نے وٹس ایپ کال پر پوچھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل نے استعفیٰ کیوں دیا ہے؟ میں نے بتایا کہ انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا بلکہ وزیراعلیٰ نے وزیراعظم کی منظوری سے اُنہیں برطرف کر دیا ہے۔ وزیر نے کہا اگر آپ دفتر میں ہیں تو کیا چائے پینے آ جائوں؟ کچھ ہی دیر میں وہ ایک اور ساتھی وزیر کے ساتھ میرے پاس موجود تھے۔ میں نے اُنکی موجودگی میں ڈاکٹر شہباز گل سے فون پر بات کی اور پھر ان وزیروں کو بتایا کہ عثمان بزدار ناراض تھے اس لئے انہوں نے اپنے ترجمان کو فارغ کر دیا۔ ابھی بات ختم نہ ہوئی تھی کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر اور عمران خان کے قریبی ساتھی عون چوہدری کی کال آ گئی۔ انہوں نے پوچھا ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ وہ بیچارا اپنی برطرفی سے بالکل بے خبر تھا۔ اُسے ایک ٹی وی چینل پر بریکنگ نیوز سے پتا چلا کہ وہ برطرف ہو چکا ہے حالانکہ کچھ دن پہلے عون چوہدری کی وزیراعظم عمران خان سے بڑے خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی تھی اور دونوں نے اکٹھے کھانا بھی کھایا۔ عون چوہدری کا فون بند ہوا تو میں نے دونوں وزیر صاحبان کو بتایا کہ عون بھی فارغ کر دیا گیا۔ دونوں حیرانی سے ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ پھر ایک وزیر نے کہا ڈاکٹر شہباز گل بہت زیادہ بولتا تھا لیکن عون چوہدری تو کچھ بھی نہیں بولتا تھا، اس کا مطلب ہے وزیراعظم کو نہ تو زیادہ بولنے والے پسند ہیں اور نہ چپ رہنے والے پسند ہیں، ہمارا وزیراعظم میانہ روی کا قائل ہے۔ دوسرے وزیر نے ذرا غصے سے اپنے ساتھی کو کہا کہ شرم کر تو کیمرے کے سامنے تو نہیں بیٹھا ہوا، آف دی ریکارڈ گفتگو کر رہا ہے اور اس گفتگو میں بھی خوشامد کر رہا ہے۔ اگر وزیراعظم نے عون چوہدری کی عزت کا خیال نہیں کیا تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں؟ پہلے وزیر نے ساتھی کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ آہستہ بول یار! دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں اور یہ دیواریں تو جیو ٹی وی کی ہیں، ان دیواروں میں نجانے کس کس نے اپنے کان لگا رکھے ہیں اور پھر اُس نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ آئو گھر چل کر بات کرتے ہیں۔


اسلام آباد کی منسٹرز کالونی میں وزیر صاحب ڈرائنگ روم میں بٹھانے کے بجائے ہمیں اپنے گھریلو دفتر میں لے گئے اور بڑے یقین سے کہا کہ یہ محفوظ جگہ ہے اور یہاں کی دیواروں کے کان کاٹے جا چکے ہیں۔ ہمارے موبائل فون بھی لے لئے گئے اور ہر طرح کا اطمینان کرنے کے بعد وہ وزیر جو چند منٹ قبل وزیراعظم کی میانہ روی پر گفتگو کر رہا تھا، اپنے ساتھی کو کہنے لگا اب تجھے سمجھ آئی میں ٹی وی پر کیوں نہیں جاتا؟ مجھے پتا ہے کہ میں ٹی وی پر جائوں گا تو مجھ سے اچھا کوئی بول نہیں سکتا، اچھا بولوں گا تو میرے اپنے ہی ساتھی میرے خلاف سازشیں کرینگے اور پھر میرا وہی حشر ہو گا جو اسد عمر اور عامر کیانی کا ہو چکا ہے۔ اس وزیر نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم وہ لوگ ہیں جو کیپٹل ٹاک میں عمران خان کی گفتگو سُن سُن کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے لیکن آج ہمارے وزیراعظم کو اُن لوگوں نے گھیرا ڈال رکھا ہے جو کیپٹل ٹاک میں عمران خان کی ایسی تیسی کیا کرتے تھے۔ اگر عمران خان وزیراعظم نہ بنتا تو ہم یہی سمجھتے کہ ہمارا خان صاحب بڑا اصول پسند انسان ہے اور اسکے پاس پاکستان کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ میں نے نکتۂ وضاحت پر کہا کہ پیارے دوستو جب جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک شروع ہوا تو مشرف کا دور تھا، نواز شریف سعودی عرب اور محترمہ بے نظیر بھٹو دبئی میں تھیں، پاکستان میں ایک سیاسی خلا تھا۔ مشرف کو للکارنے والا کوئی نہ تھا لہٰذا ہم مشرف کی ناراضی مول لے کر عمران خان کے ذریعہ سیاسی خلا پُر کرتے رہے لیکن جب عمران خان ایک سیاسی طاقت بن گیا تو پھر مشرف کے ساتھیوں نے اُسے ہائی جیک کر لیا۔ ایک وزیر نے میری اس گستاخی کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی ہوا بہت اچھا ہوا۔ عمران خان کے وزیراعظم بننے کا پاکستان کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ دوسرے وزیر نے تڑپ کر پوچھا کہ کیا فائدہ ہوا؟ ہم نے کراچی میں کچرا ختم کرنے کی مہم شروع کی اور ہماری سیاست کا کچرا بن گیا۔ پہلے وزیر نے بڑے اطمینان سے کہا کہ عمران خان کے وزیراعظم بننے کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہوا ہے کہ صرف ہماری ’’یوتھ‘‘ نہیں بلکہ ہماری اپنی بھی کئی غلط فہمیاں دور ہو گئیں۔ یاد کرو ہمارے خان صاحب مکے لہرا کر کہا کرتے تھے کہ اگر میں وزیراعظم بن گیا تو صرف نوے دن میں کرپشن ختم کر دونگا لیکن حکومت میں آنے کے ایک سال کے بعد پشاور میں بی آر ٹی کا منصوبہ ہم سب کے لئے ایک گالی بن گیا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم آئی ایم ایف کے بغیر حکومت چلا لیں گے اور اگر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو خودکشی کر لیں گے لیکن ہمیں آئی ایم ایف کے پائوں پڑنا پڑا اور آئی ایم ایف نے ہمارے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ عمران خان وزیراعظم نہ بنتا تو ہم یہی سمجھتے کہ وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانا اور گورنر ہائوس کی دیواریں گرانا بہت آسان ہے، ہم یہی سمجھتے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانا اور قرضوں کا بوجھ اتارنا بہت آسان ہے، حکومت میں آ کر ہم نے قرضوں کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ عمران خان کے وزیراعظم بننے کا یہ فائدہ ہوا کہ ہماری غلط فہمی دور ہو گئی کہ ہم کوئی نیا پاکستان بنا رہے ہیں کیونکہ چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کو جس طرح ناکام بنایا گیا اس سے ہمیں پتا چل گیا کہ نئے پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کتنی ضروری ہے اور اس کام میں ہم نواز شریف اور آصف زرداری کو بھی شکست فاش دے سکتے ہیں۔ عمران خان کے وزیراعظم بننے سے یہ پتا بھی چل گیا کہ بھلے حکومت کے تمام ادارے وزیراعظم کی حمایت کرتے رہیں لیکن سیاسی و معاشی استحکام کیلئے قانون کی بالادستی ضروری ہے۔ اگر قانون سب کیلئے برابر نہ ہو تو جیلیں آباد اور مارکیٹیں ویران ہو جاتی ہیں۔ میں نے پوچھا قانون کی بالادستی کا کیا مطلب ہے؟ وزیر صاحب نے کہا آپ اپوزیشن کو چھوڑیں، یہ دیکھیں کہ ہماری کابینہ میں ردوبدل کا معیار کیا ہے؟ عامر کیانی کو صرف ایک الزام پر وزارت سے ہٹا دیا گیا لیکن آج تک الزام ثابت نہیں ہوا۔ عون چوہدری کو بغیر کسی چارج شیٹ کے ہی ہٹا دیا گیا۔ ہم نے حکومت اور قانون دونوں کو مذاق بنا دیا ہے اور عمران خان وزیراعظم نہ بنتا تو ہمیں کبھی یہ پتا نہ چلتا کہ حکومت چلانا کوئی مذاق نہیں ہوتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
بحضور محترم وزیرِاعظم پاکستان
دلاور حسین پير 16 ستمبر 2019
1807677-huzoorimrankhan-1568378497-929-640x480.jpg

محترم وزیراعظم آپ نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی زندگی میں تاریخ ساز انقلاب لائیں گے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حضور! موجودہ ملکی سیاسی و معاشی صورتِ حال کے باعث ایک ایسا معاشرتی ڈھانچہ پروان چڑھ رہا ہے، جس میں مایوسی، غیر یقینی اور ناامیدی جیسے منفی رویے جنم لے رہے ہیں۔ ہر جگہ معاشی زبوں حالی، جبرواستبداد، ناانصافی اور بے روزگاری دیکھنے کو ملتی ہے۔ انصافی حکومت کے ہوتے ہوئے سارا معاشرہ معاشی و سیاسی ناانصافی کی لپیٹ میں ہے۔ خودغرض اور نااہل لوگ زندگی اور حکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں، جبکہ صاحبِ علم لوگ خونِ جگر پی کر گزر اوقات کررہے ہیں۔ اہل لوگوں کو ناکارہ بنادیا گیا ہے، جبکہ احمقوں کی گردنوں میں سونے کے ہار ہیں۔

بقول آپ کے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکمران اور عوام محمود و ایاز کی طرح ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے۔ تاہم اس کے برعکس حکمران اور عوام دو مختلف رویوں کی نمائندگی کررہے ہیں۔ عوام کہتے ہیں کہ شاہ اور شاہ کے درباریوں نے اپنے وجود کی خاطر عوام کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ملک کو سلطنت بنادیا گیا ہے۔ عسکریت دان اور عسکریت پسند سیاسی گھوڑے عوام پر مسلط کیے جاچکے ہیں۔ اگر ہے تو ملک، سلطنت، اور جھوٹ ہے۔ نہیں ہے تو سچ نہیں، معنویت نہیں، ٹھوس پالیسی نہیں، عوام کا وجود نہیں۔ آپ کے اردگرد موجود احباب کو نہ تو عوام سے کوئی غرض، نہ ملکی مسائل میں کوئی دلچسپی ہے۔

عوام، عوام کا پیسہ اور عوامی ادارے، سب موقع پرست اور ابن الوقت سیاسی گھوڑوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ ملکی سیاسی نظام نے پہلے کنٹرولڈ جمہوریت کا لبادہ اوڑھا اور اب بالواسطہ آمریت کا جامہ پہن چکی ہے۔ پاکستان ریاستِ مدینہ کے بجائے سلطنت کی مانند حکمرانوں کی ذاتی ملکیت بن چکا ہے۔ حکام اور شہریوں کے درمیاں رشتے ناتے پھیکے پڑ چکے ہیں۔ حکمرانی کےلیے یہ اصول قائم ہوا ہے کہ اصل ہدف اپنے مفادات کا تحفظ ہے جنہیں ہر حال میں حاصل کیا جانا ہے، چاہے اس راستے کو اپنانے کےلیے تمام جمہوری و اخلاقی اقدار قربان کرنا پڑیں۔

جبکہ اس کے مقابلے میں عوام ہیں، جو گلی گلی اپنی بے بسی کا نوحہ پڑھتے اور حکمرانوں کی بے حسی کا ماتم کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

محترم عوامی وزیراعظم صاحب! آپ نے 2018 کے عام انتخابات کی مہم کے دوران عوام کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔ وہ معاہدہ یہ تھا کہ عوام آپ کو منتخب کریں، آپ ان کی زندگی میں تاریخ ساز انقلاب لائیں گے۔ عوام نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا، جبکہ آپ اپنے وعدے سے کلی طور پر منحرف اور انکاری ہوچکے ہیں۔ آپ کی ٹیم کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزیاں بھرپور طریقے سے جاری ہیں۔ نہ گڈ گورننس، نہ روزگار، نہ معاشی خوشحالی، نہ مستحکم خارجہ پالیسی، نہ اظہارِ رائے کی آزادی، نہ انصاف، البتہ اگر ہیں تو صرف انصافی ہی انصافی ہیں۔

آپ کی کامیابی خاص اہمیت کی حامل اس لیے تھی کہ آپ کو نہ تو مقتدر قوتوں کی مخالفت کا سامنا تھا، نہ مضبوط اپوزیشن کا۔ اور یہ پہلو گزشہ سب وزرائے اعظم کی نسبت منفرد تھا۔ اب اصلاحات متعارف کروانا، حکومتی ساکھ کو بچانا اور عوامی مفادات کی حفاظت کرنے کی بھاری ذمے داری آپ کی تھی، صرف آپ کی۔ اس ذمے داری کا تقاضا تھا کہ آپ کے ہر کھلاڑی کی انفرادی کارکردگی اور حکومت کی اجتماعی ساکھ کا بندوبست کیا جاتا۔ عوام نے آپ کو آسانیاں پیدا کرنے، نہ کہ مشکلات پیدا کرنے کےلیے منتخب کیا تھا۔ آپ تو خاتم المسائل بن کر آئے تھے، اس کے برعکس آپ امّ المسائل ثابت ہوئے ہیں۔

عوام کے سامنے یہ سوال ہے کہ عدل وانصاف، معاشی خوشحالی اور گڈ گورننس کی بنیاد پر کیے گئے معاہدے کی تجدید کیسے ممکن ہو؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اس غیر یقینی کی صورتِ حال میں ڈٹ جانے کے بجائے گوشہ نشینی اور خاموشی کی روایت کو توڑ کر عوامی منشور کو ملکی سطح پر نافذ کرنے کےلیے تحریک کس طرح چلائی جائے؟

وزیراعظم صاحب! عوام پوچھ رہے ہیں کہ اپوزیشن کو ٹھکانے لگانا اور یکطرفہ طرزِ حکمرانی کو پروان چڑھانا کیا یہ جمہوری روایات سے انحراف نہیں؟ کیا اس کا مداوا نہ ہونا چاہیے؟ کیا عوام یوں ہی عذاب کا شکار رہیں؟ کیا وزرا کی کارکردگی کا معیار صرف سوشل اور قومی میڈیا پر بیان بازی اور گالیاں بکنا ہے؟ کیا حکومتی جماعت کے علاوہ کسی اور سیاسی جماعت سے تعلق رکھنا جرم قرار دے دیا گیا ہے؟ کب تک میڈیا سے حکومتی نااہلی کی اشاعت کےلیے خاموشی اختیار کروائی جائے گی؟ کیا اپنے حق کےلیے کوشش نہ کی جائے؟ کیا عوام ریاستِ پاکستان کے شہری ہونے کے باوجود اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھیں؟

عوام پوچھتے ہیں کہ آپ ہی بتلائیے ان حالات میں ان کا کیا ردِعمل ہونا چاہیے؟

اس پسِ منظر اور بے روزگاری نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ان کا انتخاب غلط تھا۔ اب عوام کے سامنے بس ایک ہی راستہ ہے، یہ وہ راستہ ہے جو متقاضی ہے کہ عوام اپنے حقوق کی جنگ سڑکوں پر لڑیں۔ اس راستے کو اپنانے کےلیے کسی مددگار، اسلحہ، دولت اور سازو سامان کی ضرورت نہیں ہوگی وزیراعظم صاحب۔ اس سے پہلے کے عوام اس راستے کو اپناتے سڑکوں پر ہوں آپ کو اپنے طرزِ حکمرانی اور رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کپتان کیوں ناکام ہوا؟
12/09/2019 عدنان خان کاکڑ

ہر ذی شعور شخص کی امیدیں کپتان سے وابستہ تھیں کہ نا اہل سیاست دانوں کی کرپشن سے وہ نجات دلائے گا۔ سب پر واضح تھا کہ اوپر اگر اچھا حکمران ہو تو نیچے ماتحت خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اسے ٹاپ ڈاؤن ماڈل کہتے ہیں۔ آکسفورڈ کا پڑھا کپتان جو ساری زندگی برطانوی اشرافیہ میں گزار چکا ہے، بارہا بتا چکا ہے کہ برطانیہ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

لیکن کپتان جیسے صاف ستھرے، اولوالعزم، صاحب بصیرت وژنری لیڈر کی حکومت میں صورت حال بہتر ہونے کی بجائے کرپٹ حکمرانوں کے دور سے بھی بدتر ہو گئی۔ کاروبار تباہ ہوئے گئے، ملازمتیں چلی گئیں، بجلی گیس کے بل دگنے مہنگے ہو گئے، گاڑیوں کی صنعت برباد ہو گئی، رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کا شعبہ مٹی میں مل گیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ وقت آ گیا ہے کہ یہ راز کھول دیا جائے کہ اس کی وجہ ایک بھیانک سازش ہے۔

جب نواز شریف، آصف زرداری، چوہدری پرویز الہی اور سراج الحق نے دیکھا کہ قوم ان سے تنگ آ چکی ہے اور کپتان کا وزیراعظم بننا یقینی تو انہوں نے ایک بھیانک سازش کی۔ انہوں نے اپنی اپنی جماعتوں کے نا اہل ترین لوگوں کو تحریک انصاف میں شامل کروا دیا۔ ان کی اپنی پارٹیاں بھی صاف ہو گئیں اور تمام گند بھی کپتان کی پارٹی میں چلا گیا۔ ان پرانے لیڈروں کا مقصد یہ تھا کہ اپنی اپنی پارٹیوں کے ناکارہ ترین لوگوں کو تحریک انصاف کی متوقع حکومت میں اہم پوزیشنیں دلوا دیں تاکہ جو تباہی ان کی حکومتوں نے تیس برس میں کی، وہ تحریک انصاف کی حکومت کے ایک برس میں ہی ہو جائے۔ یوں عوام تبدیلی سے بیزار ہو کر کہیں کہ پرانی پارٹیاں ہی بہتر تھیں، نواز شریف اور زرداری ملک کو بہتر چلا رہے تھے۔

کپتان دل کا کھرا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ جیسا وہ نان کرپٹ ہے، اس کی جماعت میں بھی ویسے ہی لوگ آئیں گے۔ اس بہلاوے میں آ گیا کہ یہ سب نا اہل لوگ گناہوں کی زندگی سے تائب ہو گئے ہیں اس لئے تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے ہیں۔

کپتان نے ان نئے آنے والوں کی تالیف قلب پر بھرپور توجہ دی۔ ان کی ایسی آؤ بھگت کی کہ برسوں سے تحریک انصاف میں شامل لوگوں جیسے اکبر ایس بابر اور جسٹس وجیہہ الدین کو ایک طرف دھکیل کر ان نوواردوں کو ان کی جگہ پر لا بٹھایا۔

کپتان کی پہلی کابینہ پر نظر ڈالتے ہیں۔ اس میں جنرل مشرف کی حکومت سے آنے والوں میں فروغ نسیم، طارق بشیر چیمہ، غلام سرور خان، زبیدہ جلال، فواد چوہدری، شیخ رشید، خالد مقبول صدیقی، شفقت محمود، مخدوم خسرو بختیار، عبدالرزاق داؤد، ڈاکٹر عشرت حسین اور امین اسلم شامل تھے۔

پیپلز پارٹی کے وزیروں میں سے پرویز خٹک، بابر اعوان، شاہ محمود قریشی، فہمیدہ مرزا اور (دوبارہ) فواد چوہدری شامل ہیں۔ قاف لیگ سے امین اسلم کو لیا گیا۔

تحریک انصاف کے اپنے لیڈروں میں سے صرف اسد عمر، شیریں مزاری اور عامر کیانی کو لیا گیا تھا۔ ان میں سے بھی دو کو رخصت کر دیا گیا اور اسد عمر کی جگہ پیپلز پارٹی کے حفیظ شیخ کو دی گئی۔

کپتان کا دو نمبر پیپلز پارٹی کے شاہ محمود قریشی بنے، گزشتہ دور میں پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کا اپوزیشن لیڈر جماعت اسلامی کے میاں محمود الرشید کو بنایا گیا، قبضہ گروپ کے نام سے بدنام علیم خان کو پنجاب کا کرتا دھرتا بنایا گیا، پختونخوا میں پیپلز پارٹی کے پرویز خٹک مدار المہام بنے، سیالکوٹ سے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا انتخاب ہوا، جہلم سے فواد چوہدری آئے۔ پنڈی سے شیخ رشید کو کپتان نے اپنے ساتھ کھڑا کیا جو تحریک انصاف کے ممبر تک نہیں ہیں اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی پارٹی بنائے کھڑے ہیں۔

تحریک انصاف کے مخلص اور نظریاتی کارکن باہر نکال دیے گئے۔ اس سلسلے میں آخری رکاوٹ اسد عمر تھے جنہیں شنٹنگ کر کے کھڈے لائن لگا دیا گیا اور پیپلز پارٹی کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو ان کی جگہ دی گئی۔

ان سب نووارد وزرا کی کارکردگی اس سے بھی کہیں بدتر رہی جیسی ان کی سابقہ پارٹیوں کی حکومت میں ہوا کرتی تھی۔ تمام پرانی پارٹیوں کی سازش کامیاب رہی۔ تحریک انصاف کے اندھے حامی بھی سوچنے لگے ہیں کہ کپتان ناکام ہوا ہے۔

کپتان ناکام ضرور ہوا ہے، اس کے دور میں عوام کی زندگی زیادہ مشکل ہوئی ہے، افسران کام کرنے سے انکاری ہو گئے ہیں، سرمایہ داروں نے مارکیٹ سے پیسہ نکال کر چھپا لیا ہے، عوام کو بجلی، گیس، پیٹرول وغیرہ کی قیمت پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ دینی پڑ رہی ہے، کاروبار ختم ہونے سے ملازمتیں جا رہی ہیں، عوام کے لئے اپنے بچوں کے سکول کی فیسیں دینا مشکل ہو رہا ہے۔ لیکن اس کا ذمہ دار کپتان نہیں ہے۔

کپتان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ دل کا بہت اچھا ہے اور ہر شخص کو اپنے جیسا اجلا سمجھ کر اس پر اعتبار کر لیتا ہے۔ کپتان کی یہی کمزوری اسے لے ڈوبی ہے اور اب سیاسی نجومی کہہ رہے ہیں کہ وہ اب گیا کہ تب گیا۔

جب ٹیم ایسی نکمی ہو تو کپتان کیا کرے؟ اس کا کیا قصور؟ سازش کے تحت فراہم کردہ ٹیم ہی نا اہل نکلی تو پھر کپتان ناکام نہ ہوتا تو کیا ہوا؟ قصور کپتان کا نہیں بلکہ گزشتہ حکومتوں اور پرانی پارٹیوں کا ہے۔ کپتان کی حکومت کی ناکامی کے ذمہ دار نواز شریف، آصف زرداری، سراج الحق اور چوہدری پرویز الہی ہیں جنہوں نے ایسی نکمی ٹیم کپتان کے حوالے کی۔ ایسی بہترین سازش نواز شریف اور زرداری جیسے بے وقوف لیڈر نہیں کر سکتے کہ وہ کپتان کو یوں اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے پر مجبور کر دیں۔ ہماری رائے میں یہ ضرور ایلومیناٹی کا کام ہے جو پرانے پاکستان کی واپسی چاہتی ہے۔ اب ایلومیناٹی کی یہ سازش کامیاب ہونے پر یہ پرانے لیڈر دوبارہ اپنی حکومت بنا لیں گے اور لوگ انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھیں گے۔ ہم ان سب کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔
 

فاخر رضا

محفلین
میں میڈیکل اسٹوڈنٹ تھا جب بینظیر کے دور میں یہ پولیو مہم شروع ہوئی تھی.
پاکستان میں پولیو کبھی ختم نہیں ہوگا کیونکہ جو سب سے زیادہ متاثر لوگ ہیں وہ اسامہ کی موت کے بعد پولیو قطرے نہیں پلواتے. لہٰذا یہ سوچنا بھی نہیں چاہیے کہ پاکستان کبھی پولیو فری ہوگا.
تشدد اور عدم برداشت کا بہترین نمونہ ہیں ہم لوگ
 

جاسم محمد

محفلین
مریم نواز، دیا سلائی اور موجودہ حکومت کا انہدام
18/09/2019 عمار مسعود


انگریزی چینلوں کی ڈاکومنٹریز میں کسی بھی عمارت کو گرانے کے دو طریقے دکھائے جاتے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ امتداد زمانہ کے سبب عمارت دہائیوں میں بوسیدگی کی اس انتہا پر پہنچ جاتی ہے کہ رفتہ رفتہ انہدام اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ ہر اینٹ، مٹی ہو جاتی ہے اور ہر بنیاد میں ریت در آتی ہے۔ ہر دراڑ، شگاف بن جاتی ہے اور ہر دیوار برسوں لرزنے کے بعد دھڑام سے گر جاتی ہے۔ دوسرا طریقہ زیادہ موثر اور برق رفتار ہے۔

اس میں کسی ایک بنی بنائی نئی عمارت کی بنیادوں میں بارود بھر دیا جاتا ہے۔ ہر دیوار، ہر شگاف میں نہایت ہنر مندی سے باردو کے فتیلے رکھ دیے جاتے ہیں اور پھر ایک دن فیصلہ کر کے اس بارود کو آگ دکھا دی جاتی ہے۔ لمحوں میں بنی بنائی عمارت زمیں بوس ہو جاتی ہے۔ چھت سے لے کر بنیاد تک سب راکھ ہو جاتا ہے۔ خاک ہو جاتا ہے۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے انہدام کے لئے طریقہ نمبر دو استعال ہو رہا ہے۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے کی تو بات ہے جب سارے چینل چیخ چیخ کر عمران خان کی شرافت و نجابت کے قصے سنا رہے تھے۔ تبدیلی کو ستر سالہ صبر کا میٹھا پھل بتا رہے تھے۔ سوشل میڈیا کے نوجوانوں کی سیاست میں شمولیت کو ملک کا سب سے بڑا انقلاب بتا رہے تھے۔ کپتان کے اعلی و ارفع ٹیم بنانے کی صلاحیت کو گنوا رہے تھے۔ اپوزیشن کی کرپشن کے قصے گنواتے یہ تھکتے نہیں تھے۔ ٹاک شوز میں بے نامی ثبوتوں کے کاغذات فضا میں لہرا رہے تھے۔

اب وہی زر خرید لوگ ہیں جو گزشتہ حکومت کے لتے لے رہے تھے اب ان کو بی آر ٹی بھی نظر آ رہی۔ وزارت صحت میں کرپشن بھی دکھائی دے رہی ہے۔ پنجاب پولیس کی نا اہلی بھی گنوائی جا رہی ہے۔ معیشت کی حالت زار پر یہ ٹسوے بہا رہے ہیں۔ غریب آدمی کی ابتر صورت حال ان کو کسی شومیں چین نہیں لینے دیتی۔ پنجاب حکومت کی بری کارکردگی ان کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ لیکن حکومت کی یہ صورت حال صرف میڈیا تک محدود نہیں ہے۔ اب سوشل میڈیا پر گالیاں دینے والے بھی خال خال نظر آ رہے ہین۔ ٹرولز کی ڈیوٹیاں کم ہو رہی ہیں۔

ایسے موقعوں پر چند جہاندیدہ حکومتی سیاستدان فرار کے نت نئے رستے بتا رہے ہیں۔ کوئی حکومت کے ایوانوں میں فارورڈ بلاک کی نوید دے رہا ہے۔ کوئی وزراء کے ذو معنی بیانات کے مفاہیم تلاش کر رہا ہے۔ جو پہلے کہتے تھے ہم این ار او نہیں دیں گے وہ اب سہواً کہہ رہے ہیں کہ ہم این آر او نہیں لیں گے۔ خان صاحب کے دوست احباب اچانک حکومتوں سے فارغ ہو رہے ہیں اور تو اور انہدام کی اس سے بڑی بشارت کیا ہو گی کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری سیاست سے تائب ہو چکے ہیں۔

نواز شریف سے اہم لوگوں کی ملاقاتوں کی خبریں منظرعام پرآ چکی ہیں۔ یہ دیکھا جا رہا ہے کون، کس کو، کتنی رعایت دینے کو تیار ہے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے مستقبل کے لائحہ عمل کے لئے دو طرفہ پالسی اختیار کی جا رہی ہے۔ ایک طرف تو مولانا فضل الرحمن کے متوقع انقلاب سے ہاتھ ملایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سے دھیرج دھیرج کا پیغام دیا جا رہا ہے۔ اچانک نواز شریف کی اپنے جان نثاروں اور وفاداروں سے ملاقات کروائی جا رہی ہے۔ نیب بھی کچھ عرصے سے مزید گرفتاریوں سے اجتناب کر رہا ہے۔ سیاسی انتقام کے کھیل میں اب اس کی دلچسپ ویسی نہیں رہی ہے۔

کشمیر کے مسئلے پر خاموشی اختیار کی جا رہی ہے۔ آدھا گھنٹہ ٹریفک روکنے اور مظفر آباد میں ایک ناکام جلسے کے بعد کشمیر پالیسی کو قرار آ چکا ہے۔ امریکہ سے افغانستان کے پر امن تصفیے کے لئے جن ڈالروں کے آنے کی نوید تھی وہ بھی ٹرمپ کے ایک ہی بیان سے دم توڑ چکی ہیں۔ آئی ایم ایف بھی اگلی قسط دینے سے پہلے آنکھیں دکھا رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی تلوار حکومت کے سر پر لٹک رہی ہے۔ مہنگائی کا جن کسی طرح قابو ہی نہیں آ رہا۔ عام آدمی کی حالتِ زار روز بہ روز خستہ ہوتی جا رہی ہے۔ جو کہ کوئی نئی بات نہیں لیکن اس خستگی کو جو آواز مل رہی ہے وہ حکومت کے لئے تشویش ناک بات ضرورہو سکتی ہے۔

مندرجہ بالا باتیں تو روز کی باتیں ہیں لیکن اصل خبر یہ ہے کہ اسلام آباد کے ڈرائنگ روموں میں تبدیلی کی تباہی پر تاسف کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ تبدیلی کا ساتھ دینے پر ندامت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اپنے دس سالہ خوابوں کے چکنا چور ہونے پر ماتم کیا جا رہا ہے۔ عمران خان کی نا اہلی اور لا ابالی پن پر طنز کیے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو اس صورت حال پر طعنے دیے جا رہے ہیں۔ اب ڈیمج کنٹرول کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اب ہاتھوں سے جرم کے نشانات کو مٹایا جا رہا ہے۔ اب تبدیلی سے منہ کو چھپایا جا رہا ہے۔ موجود بحران کے حل کے لئے تجاویز مانگی جا رہی ہیں۔ مصالحت کا کوئی نیا فارمولہ ایجاد کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب انصاف کے در سے انصاف شروع ہو چکا ہے۔ تبدیلی کا سفر وہی سے شروع ہوا تھا اور وہیں سے اس کے انجام کے بارے میں سوچ جا رہا ہے۔ منصفوں کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ ترازو کے دونوں پلڑے برابر کیے جا رہے ہیں۔ غداری کے فتوے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ توہین عدالت کے کیس خال خال نطر آ رہے ہیں۔ نواز شریف سے مصالحت کی کوئی راہ نکالی جا رہی ہے۔

اس عمل کا آغاز مریم نواز کے خلاف مسلم لیگ ن کی نائب صرد سے نا اہلیت کی درخواست رد ہونے سے ہوچکا ہے۔ اس ایک فیصلے سے نشانیاں مل رہی ہیں۔ مریم نواز ہر بحران سے نکل رہی ہیں۔ یہ سب ایک تحریک انصاف کے خود ساختہ ہوائی قلعے کے انہدام کے لئے ہو رہا ہے۔ طریقہ نمبر دو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے تعمیر کی گئی عمارت کی بنیادوں میں بارود بھرا جا رہا ہے۔ مریم نواز کے کیس کے فیصلے سے دیا سلائی جلا دی گئی ہے۔

لیکن یہ ”خلائی قلعہ“ اس دن زمین بوس ہو گا جس دن نواز شریف کو کرپشن کے ہر کیس میں کلین چٹ مل جائے گی۔ اس وقت عمران خان کا کرپشن کے خلاف بنایا یہ قصر دھڑام سے زمیں پر آن گرے گا۔ یہ اتنی برق رفتاری سے ہوگا کہ دیکھنے والی آنکھوں کو یقین نہیں آئے گا۔ کیونکہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ نواز شریف جیل میں صعوبتیں نہیں برداشت کر رہے بلکہ جیل میں انجوائے کر رہے ہیں۔ فی الوقت یہ کہہ دینا کافی ہے کہ اس ”خلائی قصر کرپشن“ کے انہدام میں اب زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ دیا سلائی جل چکی ہے کسی بھی وقت بارود کے فتیلے کو آگ دکھائی جا سکتی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مریم نواز، دیا سلائی اور موجودہ حکومت کا انہدام
18/09/2019 عمار مسعود


انگریزی چینلوں کی ڈاکومنٹریز میں کسی بھی عمارت کو گرانے کے دو طریقے دکھائے جاتے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ امتداد زمانہ کے سبب عمارت دہائیوں میں بوسیدگی کی اس انتہا پر پہنچ جاتی ہے کہ رفتہ رفتہ انہدام اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ ہر اینٹ، مٹی ہو جاتی ہے اور ہر بنیاد میں ریت در آتی ہے۔ ہر دراڑ، شگاف بن جاتی ہے اور ہر دیوار برسوں لرزنے کے بعد دھڑام سے گر جاتی ہے۔ دوسرا طریقہ زیادہ موثر اور برق رفتار ہے۔

اس میں کسی ایک بنی بنائی نئی عمارت کی بنیادوں میں بارود بھر دیا جاتا ہے۔ ہر دیوار، ہر شگاف میں نہایت ہنر مندی سے باردو کے فتیلے رکھ دیے جاتے ہیں اور پھر ایک دن فیصلہ کر کے اس بارود کو آگ دکھا دی جاتی ہے۔ لمحوں میں بنی بنائی عمارت زمیں بوس ہو جاتی ہے۔ چھت سے لے کر بنیاد تک سب راکھ ہو جاتا ہے۔ خاک ہو جاتا ہے۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے انہدام کے لئے طریقہ نمبر دو استعال ہو رہا ہے۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے کی تو بات ہے جب سارے چینل چیخ چیخ کر عمران خان کی شرافت و نجابت کے قصے سنا رہے تھے۔ تبدیلی کو ستر سالہ صبر کا میٹھا پھل بتا رہے تھے۔ سوشل میڈیا کے نوجوانوں کی سیاست میں شمولیت کو ملک کا سب سے بڑا انقلاب بتا رہے تھے۔ کپتان کے اعلی و ارفع ٹیم بنانے کی صلاحیت کو گنوا رہے تھے۔ اپوزیشن کی کرپشن کے قصے گنواتے یہ تھکتے نہیں تھے۔ ٹاک شوز میں بے نامی ثبوتوں کے کاغذات فضا میں لہرا رہے تھے۔

اب وہی زر خرید لوگ ہیں جو گزشتہ حکومت کے لتے لے رہے تھے اب ان کو بی آر ٹی بھی نظر آ رہی۔ وزارت صحت میں کرپشن بھی دکھائی دے رہی ہے۔ پنجاب پولیس کی نا اہلی بھی گنوائی جا رہی ہے۔ معیشت کی حالت زار پر یہ ٹسوے بہا رہے ہیں۔ غریب آدمی کی ابتر صورت حال ان کو کسی شومیں چین نہیں لینے دیتی۔ پنجاب حکومت کی بری کارکردگی ان کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ لیکن حکومت کی یہ صورت حال صرف میڈیا تک محدود نہیں ہے۔ اب سوشل میڈیا پر گالیاں دینے والے بھی خال خال نظر آ رہے ہین۔ ٹرولز کی ڈیوٹیاں کم ہو رہی ہیں۔

ایسے موقعوں پر چند جہاندیدہ حکومتی سیاستدان فرار کے نت نئے رستے بتا رہے ہیں۔ کوئی حکومت کے ایوانوں میں فارورڈ بلاک کی نوید دے رہا ہے۔ کوئی وزراء کے ذو معنی بیانات کے مفاہیم تلاش کر رہا ہے۔ جو پہلے کہتے تھے ہم این ار او نہیں دیں گے وہ اب سہواً کہہ رہے ہیں کہ ہم این آر او نہیں لیں گے۔ خان صاحب کے دوست احباب اچانک حکومتوں سے فارغ ہو رہے ہیں اور تو اور انہدام کی اس سے بڑی بشارت کیا ہو گی کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری سیاست سے تائب ہو چکے ہیں۔

نواز شریف سے اہم لوگوں کی ملاقاتوں کی خبریں منظرعام پرآ چکی ہیں۔ یہ دیکھا جا رہا ہے کون، کس کو، کتنی رعایت دینے کو تیار ہے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے مستقبل کے لائحہ عمل کے لئے دو طرفہ پالسی اختیار کی جا رہی ہے۔ ایک طرف تو مولانا فضل الرحمن کے متوقع انقلاب سے ہاتھ ملایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سے دھیرج دھیرج کا پیغام دیا جا رہا ہے۔ اچانک نواز شریف کی اپنے جان نثاروں اور وفاداروں سے ملاقات کروائی جا رہی ہے۔ نیب بھی کچھ عرصے سے مزید گرفتاریوں سے اجتناب کر رہا ہے۔ سیاسی انتقام کے کھیل میں اب اس کی دلچسپ ویسی نہیں رہی ہے۔

کشمیر کے مسئلے پر خاموشی اختیار کی جا رہی ہے۔ آدھا گھنٹہ ٹریفک روکنے اور مظفر آباد میں ایک ناکام جلسے کے بعد کشمیر پالیسی کو قرار آ چکا ہے۔ امریکہ سے افغانستان کے پر امن تصفیے کے لئے جن ڈالروں کے آنے کی نوید تھی وہ بھی ٹرمپ کے ایک ہی بیان سے دم توڑ چکی ہیں۔ آئی ایم ایف بھی اگلی قسط دینے سے پہلے آنکھیں دکھا رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی تلوار حکومت کے سر پر لٹک رہی ہے۔ مہنگائی کا جن کسی طرح قابو ہی نہیں آ رہا۔ عام آدمی کی حالتِ زار روز بہ روز خستہ ہوتی جا رہی ہے۔ جو کہ کوئی نئی بات نہیں لیکن اس خستگی کو جو آواز مل رہی ہے وہ حکومت کے لئے تشویش ناک بات ضرورہو سکتی ہے۔

مندرجہ بالا باتیں تو روز کی باتیں ہیں لیکن اصل خبر یہ ہے کہ اسلام آباد کے ڈرائنگ روموں میں تبدیلی کی تباہی پر تاسف کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ تبدیلی کا ساتھ دینے پر ندامت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اپنے دس سالہ خوابوں کے چکنا چور ہونے پر ماتم کیا جا رہا ہے۔ عمران خان کی نا اہلی اور لا ابالی پن پر طنز کیے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو اس صورت حال پر طعنے دیے جا رہے ہیں۔ اب ڈیمج کنٹرول کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اب ہاتھوں سے جرم کے نشانات کو مٹایا جا رہا ہے۔ اب تبدیلی سے منہ کو چھپایا جا رہا ہے۔ موجود بحران کے حل کے لئے تجاویز مانگی جا رہی ہیں۔ مصالحت کا کوئی نیا فارمولہ ایجاد کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب انصاف کے در سے انصاف شروع ہو چکا ہے۔ تبدیلی کا سفر وہی سے شروع ہوا تھا اور وہیں سے اس کے انجام کے بارے میں سوچ جا رہا ہے۔ منصفوں کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ ترازو کے دونوں پلڑے برابر کیے جا رہے ہیں۔ غداری کے فتوے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ توہین عدالت کے کیس خال خال نطر آ رہے ہیں۔ نواز شریف سے مصالحت کی کوئی راہ نکالی جا رہی ہے۔

اس عمل کا آغاز مریم نواز کے خلاف مسلم لیگ ن کی نائب صرد سے نا اہلیت کی درخواست رد ہونے سے ہوچکا ہے۔ اس ایک فیصلے سے نشانیاں مل رہی ہیں۔ مریم نواز ہر بحران سے نکل رہی ہیں۔ یہ سب ایک تحریک انصاف کے خود ساختہ ہوائی قلعے کے انہدام کے لئے ہو رہا ہے۔ طریقہ نمبر دو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے تعمیر کی گئی عمارت کی بنیادوں میں بارود بھرا جا رہا ہے۔ مریم نواز کے کیس کے فیصلے سے دیا سلائی جلا دی گئی ہے۔

لیکن یہ ”خلائی قلعہ“ اس دن زمین بوس ہو گا جس دن نواز شریف کو کرپشن کے ہر کیس میں کلین چٹ مل جائے گی۔ اس وقت عمران خان کا کرپشن کے خلاف بنایا یہ قصر دھڑام سے زمیں پر آن گرے گا۔ یہ اتنی برق رفتاری سے ہوگا کہ دیکھنے والی آنکھوں کو یقین نہیں آئے گا۔ کیونکہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ نواز شریف جیل میں صعوبتیں نہیں برداشت کر رہے بلکہ جیل میں انجوائے کر رہے ہیں۔ فی الوقت یہ کہہ دینا کافی ہے کہ اس ”خلائی قصر کرپشن“ کے انہدام میں اب زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ دیا سلائی جل چکی ہے کسی بھی وقت بارود کے فتیلے کو آگ دکھائی جا سکتی۔
سارے کالم کا لب لباب یہ نکلا کہ موصوف کالم نگار کی بیروزگاری کے دن بس تھوڑے ہی رہ گئے ہیں!
 

جاسم محمد

محفلین
یہ گیم اب نہیں چل سکے گی
جاوید چوہدری جمعرات 19 ستمبر 2019

وہ دکھی تھے‘ وہ چلتے چلتے بولے ’’ ہم وہ کام کر رہے ہیں جس کے لیے ہمیں بھرتی کیا گیا تھا‘‘ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ بولے ’’ ہم سو لوگ ہیں‘ 24وفاقی وزیر‘4 وزیرمملکت‘15 معاون خصوصی اورپانچ مشیر ہیں اور ہم اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی خصوصی ٹیموں کو بھی شامل کر لیں تو ہم سو پورے ہو جاتے ہیں۔

ہمارے پاس مختلف محکموں کے قلم دان ہیں لیکن ہمارا اصل کام قوم کو یہ بتانا ہے ملک کی پچھلی دونوں حکومتیں بے ایمان اور نااہل تھیں اور آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کرپٹ ہیں اور ہم پورے ایک سال سے اپنا یہ کام کر رہے ہیں‘‘ میں نے ہنس کر عرض کیا ’’کیا حکومت نے اس معمولی سے کام کے لیے سو عظیم دماغ رکھے ہوئے ہیں‘‘ وہ بھی ہنس کر بولے ’’ہاں اور ہم میں سے جس دن جس کی پرفارمنس اچھی نہیں ہوتی اس دن اس کی ٹھیک ٹھاک چھترول ہوتی ہے۔

ہمیں اس دن بلا کر کہا جاتا ہے تمہیں جمہوریت اور افہام و تفہیم کے بڑے مروڑ اٹھ رہے ہیں‘ تمہیں آج کل بہت مذاکرات آ رہے ہیں اور تم ان سے بہت بڑھ بڑھ کر مل رہے ہو اور وہ بے چارہ شرمندہ ہو جاتا ہے‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولے ’’مجھے ایک سال ہوگیا۔

میرے ضمیر پر بوجھ ہے‘ میں نے اس ایک برس میں چور چور اور کرپٹ کرپٹ کے سوا کچھ نہیں کیا‘ میرا محکمہ اس دوران تباہ ہو گیا مگر میرے پاس اسے سنبھالنے کے لیے وقت ہی نہیں ‘ میں کیا کروں‘ میں ڈپریشن میں چلا گیا ہوں‘ مجھے اب نیند بھی نہیں آتی اور میں لوگوں کو فیس بھی نہیں کر پارہا‘‘ وہ تیز ہو گئے‘ میں بھی ان کے قدموں کے ساتھ قدم ملانے لگا‘ ہم نے پارک کا چکر لگایا اور پارکنگ میں آ گئے‘ وہ گاڑی میں بیٹھے‘ ہاتھ ہلایا اور رخصت ہو گئے لیکن میں دیر تک پارکنگ کے فٹ پاتھ پر بیٹھا رہا‘ مجھے دل پر بوجھ سا محسوس ہو رہا تھا‘ میں نے دل پر ہاتھ رکھا‘ سینہ مسلا‘ لمبی سانس لی اور آہستہ آہستہ گھر کی طرف چل پڑا۔

میں چلتا جا رہا تھا اور سوچتا چلا جا رہا تھا ہم نے پچھلے ایک سال میں کیا کمایا‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کرپٹ ہوں گے اور یہ ملک کو لوٹ کر بھی کھا گئے ہوں گے لیکن لوٹ اور کرپشن کا مال کہاں ہے؟ عمران خان ’’یہ لوگ ملک کے تین ہزار ارب روپے کھا گئے‘‘ کے اعلان اور دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے لیکن یہ سال گزرنے کے باوجود تین ہزار ارب روپے میں سے ایک ارب بھی ریکور نہیں کر سکے۔

میاں نواز شریف کے فلیٹس آج بھی شریف فیملی کی ملکیت ہیں‘ نیب جے آئی ٹی کی خوف ناک رپورٹ کے باوجود آصف علی زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کے مقدمے نہیں چلا پا رہی‘ سوئس اکاؤنٹس میں پڑے وہ دو سو ارب ڈالر بھی غائب ہیں جن میں سے سو ارب ڈالر ہم نے ’’کھان‘‘ کے آنے کے بعد اس کے منہ پر مارنے تھے اور سو ارب ڈالر اس کے منہ پر‘کرپٹ لیڈروں سے ریکوری تو دور ہم نے الٹا مقدموں‘تفتیش اور ’’چور لیڈروں‘‘ کی حفاظت پر مزید اربوں روپے خرچ کر دیے‘ ہمیں آخر کیا ملا؟ فٹ پاتھ تھا‘ میں تھا اور خوف ناک سوال تھے‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف دونوں کرپٹ ہوں گے۔

یہ دونوں نالائق‘ مغلیہ خاندان‘ رائل فیملی اور جمہوری ڈکٹیٹر بھی ہوں گے اور یہ اپنی جیبیں بھی بھرتے رہے ہوں گے لیکن سوال یہ ہے ان کے دور میں عوام کو روٹی‘ بجلی‘ گیس‘ تعلیم اور دوائیں سستی مل رہی تھیں‘ امن بھی تھا اور خوش حالی بھی تھی لیکن آج کی دیانت دار اور بہادر قیادت ملک کو کہاں لے گئی؟ بے ایمان نواز شریف کے دور میں چین 58 ارب ڈالر کا سی پیک بنا رہا تھا‘ اسٹاک ایکس چینج 53 ہزارپوائنٹس پر تھی‘ جی ڈی پی گروتھ 5.7فیصدتھی‘پرائس واٹر ہاؤس کوپرز(پی ڈبلیوسی)جیسے ادارے پاکستان کو 2050 میں دنیا کی 16ویں بڑی معیشت قرار دے رہے تھے‘ ڈالر 110روپے کا تھا‘ بجلی بھی پوری تھی۔

گیس بھی آ رہی تھی‘ انڈسٹری بھی چل رہی تھی اور سرمایہ کاری کے دروازے بھی کھل رہے تھے‘ دہشت گردی بھی ختم ہو گئی تھی اور افغانستان اور بھارت کے ساتھ مذاکرات بھی ہو رہے تھے‘ قرضے بھی کم تھے‘ میٹروز بھی بن رہی تھیں‘ اورنج لائین ٹرین پر بھی کام ہورہا تھا‘ کراچی میں بھی معاشی سرگرمیاں بحال ہو گئی تھیں‘ بلوچستان کے ناراض نوجوان بھی قومی دھارے میں شامل ہو رہے تھے اور پنجاب میں صفائی ستھرائی کا بندوبست بھی ہو رہا تھا لیکن ہم نے پھر بے ایمان نواز شریف کو نکال دیا‘ اٹھا کر جیل میں بھی پھینک دیا اور اس کی جگہ ایمان دار قیادت لے آئے اور اس ایمان دار قیادت نے ملک کو کہاں پہنچا دیا؟ ہم سال پہلے تک اس کا تصور تک نہیں کر سکتے تھے۔

اشیائے ضروریہ 123 فیصد مہنگی ہوئیں‘ گیس کی قیمتوں میں سال میں 143فیصد‘ بجلی12فیصد‘ پٹرول23فیصد‘ بے روزگاری اعشاریہ پانچ فیصد‘ ادویات دو سو فیصد‘صحت کی سہولیات 13 فیصد اور تعلیم 7فیصد مہنگی ہوگئی‘ پنجاب کے وسیم اکرم پلس ایک سال میں اورنج لائین ٹرین نہیں چلا سکے‘ یہ 1200 ارب روپے کا منصوبہ تھا‘ یہ رقم برباد ہو گئی۔

حنیف عباسی نے راولپنڈی میں یورالوجی کا اسپتال بنایا تھا‘ عمارت مکمل ہو گئی‘ 65کروڑ روپے کی مشینری آ گئی لیکن یہ مشینری اور عمارت دونوں بند پڑے ہیں‘ حکومت آج تک اسپتال کا دروازہ نہیں کھول سکی‘ گردے کے مریض روز مر رہے ہیں لیکن اسپتال صرف حنیف عباسی اور میاں شہباز شریف کی وجہ سے نہیں کھل رہا‘ آپ مہربانی فرما کر اس اسپتال کو عثمان بزدار یا عمران خان اسپتال ڈکلیئر کر کے ہی کھول دیں یا آپ اس پر شیخ رشید میموریل کی تختی ہی لگا دیں لیکن خدا را اسے کھول دیں‘ ہزاروں لوگوں کی جان بچ جائے گی‘ میں دو دن پہلے ٹیسٹ کے لیے راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی گیا‘ آپ یقین کریں پورے ملک میں اس پائے کا کوئی سرکاری اسپتال نہیں۔

سال پہلے تک پورے ملک سے دل کے مریض آر آئی سی آتے تھے‘ مفت علاج کراتے تھے اور مفت ادویات لیتے تھے لیکن پنجاب حکومت نے اس کا بجٹ بھی کم کر دیا اور دوسرے صوبوں کے مریضوں کے علاج پر بھی پابندی لگا دی۔ ’’کے پی کے‘‘ کے وسیم اکرم پلس محمود خان سو ارب روپے کے باوجودسال میں پشاور کی میٹرو مکمل نہیں کر سکے‘ صوبے میں ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا اسکول اور کالج کی بچیاں عبایا میں آئیں گی یا اپنی مرضی کالباس پہنیں گی‘ حکومت سے وفاق چل نہیں رہا اور وفاقی وزراء اسلام آباد سے کراچی چلے گئے اور وہاں آرٹیکل 149(4) کا کٹا کھول دیا اور پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ دیش کی دھمکی دے دی۔

کشمیر کے ایشو پر قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے تماشے پوری دنیا نے دیکھے‘ اپوزیشن پروڈکشن آرڈر مانگ رہی تھی‘ اسپیکر دینا چاہتے تھے لیکن وزیراعظم ڈٹ گئے‘ آپ دے دیتے‘ کیا جانا تھا؟ کم از کم صدر کا خطاب تو عزت کے ساتھ ہو جاتا لیکن حکومت نے جان بوجھ کر اپنے سر میں خاک ڈال لی اور تماشا پوری دنیا نے دیکھا‘ وزیراعظم شہزادوں کی گاڑیاں ڈرائیو کر لیتے ہیں‘ یہ نریندر مودی کو ’’مس کالز‘‘ دے سکتے ہیں لیکن کشمیر کے ایشو پر بلاول بھٹو اور شہباز شریف سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ سال میں قرضے 30 ہزار ارب سے 40 ہزار ارب ہو گئے۔

بے ایمان نواز شریف نے پانچ سال میں 14 ہزار ارب روپے کے قرضے لیے تھے لیکن ایمان دار عمران خان نے ایک سال میں دس ہزار ارب روپے قرضہ لے لیا‘ بے ایمان نواز شریف کے دور میں3751ارب روپے ٹیکس جمع ہو رہا تھا لیکن ایمان دار عمران خان کے دور میںٹیکس پیئرز بڑھنے کے باوجود ٹیکس کولیکشن 800ارب روپے کم ہو گئی‘ دس لاکھ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں‘ کاروبار زندگی مفلوج ہو چکا ہے‘ بیورو کریسی نے کام چھوڑ دیا ہے اور سسٹم ڈھیلا ہو چکا ہے بس عوام کے باہر نکلنے کی کسر باقی ہے اور ہم انارکی کا شکار ہو جائیں گے۔

مجھے خطرہ ہے یہ کسر مولانا فضل الرحمن پوری کر دیں گے‘ وزیراعظم کو مشورے دیے جا رہے ہیں حکومت مولانا فضل الرحمن کو گرفتار کر لے‘ یہ غلطی حکومت کو لے بیٹھے گی‘ پورے ملک میں مولانا کے لاکھوں جان نثار موجود ہیں‘ یہ اگر چھڑ گئے تو حکومت ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گی اور یوں آخری کیل بھی ٹھونک دی جائے گی۔

فٹ پاتھ تھا‘ شام کا وقت تھا اور میرے سوال تھے ’’کیا حکومت چل جائے گی‘‘ مجھے محسوس ہوا ملک یا حکومت ہمیں اب کسی ایک کا فیصلہ کرنا ہوگا‘ملک اب اس معیشت کے ساتھ نہیں چل سکے گا‘ یہ کسی بھی وقت بیٹھ جائے گا اور یہ اگر بیٹھ گیا تو پورے ملک سے صدائیں آنا شروع ہو جائیں گی’’ ایمان دار عمران خان لے لو اور بے ایمان نواز شریف واپس دے دو‘‘ لوگ آصف علی زرداری کے پیچھے بھی کھڑے ہو جائیں گے‘ ہم کس دل چسپ زمانے میں زندہ ہیں۔

وہ لوگ جن کے دور میں خراب بھی ٹھیک چل رہا تھا‘ ملک ٹیک آف کر رہا تھا اور خوش حالی اور امن بھی تھا وہ لوگ نااہل‘ کرپٹ اور برے ہیں اور وہ لوگ جن کے دور میں ٹھیک بھی ٹھیک نہیں چل رہا وہ ایمان دار‘ اہل‘ لائق اور اچھے ہیں‘ ہمیں آخر کسی نہ کسی پوائنٹ پر رک کر سوچنا ہوگا‘ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا ہمارے لیے کون ٹھیک ہیں؟ وہ لوگ جن کے زمانے میں خراب بھی ٹھیک تھا یا وہ جو ٹھیک کو بھی ٹھیک نہیں چلا پا رہے ہیں‘ یہ 20 کروڑ لوگوں کا ملک ہے‘ یہ’’ اسے ہٹا دیں اور اسے لگا دیں‘‘ سے نہیں چل سکے گا‘ یہ ملک ہے‘ یہ میوزیکل چیئر بھی نہیں اور یہ لیبارٹری بھی نہیں ‘آپ کسی مینڈک کو پکڑ کر میز پر رکھیں اور بچوں کو آپریشن سکھانا شروع کر دیں‘یہ ملک ہے‘ یہ ملک کی طرح ہی چل سکے گا۔

فٹ پاتھ ختم ہو گیا‘ مجھے محسوس ہوا یہ گیم اب ایک دو ماہ سے زیادہ نہیں چل سکے گی اور اگر یہ چلی تو پھر یہ ملک چلنے کے قابل نہیں رہے گا‘ گیم اور گراؤنڈ دونوں بیٹھ جائیں گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا یہ "ریاستِ مدینہ" قائم کرنے کی طرف کوئی عملی قدم ہے؟ کیا اس طرح کے سیمینارز منعقد کروانے کے احکامات حکومتِ وقت نے جاری کیے ہیں؟

Fullscreen-capture-20-09-2019-90718-AM.jpg
 

فرقان احمد

محفلین
کیا یہ "ریاستِ مدینہ" قائم کرنے کی طرف کوئی عملی قدم ہے؟ کیا اس طرح کے سیمینارز منعقد کروانے کے احکامات حکومتِ وقت نے جاری کیے ہیں؟

Fullscreen-capture-20-09-2019-90718-AM.jpg
ہماری دانست میں، ریاستِ مدینہ کے اقتصادی نظام کو آئیڈیالز کرنا کئی لحاظ سے عجیب و غریب ہے کیونکہ تب شاید ریاست کی پوری شکل بھی واضح نہ ہوئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے مثالی رہنما ہیں، تاہم، اسلامی نظامِ معیشت کی بجائے، محض مدینہ کی ریاست کے معاشی نظام کو اپنانے کا دعویٰ کرنا ماورائے فہم ہے تاہم شاید ہم غلطی پر ہی ہوں۔ کوئی محفلین اصلاح کر دے تو ہم اپنی رائے سے رجوع کر لیں گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہماری دانست میں، ریاستِ مدینہ کے اقتصادی نظام کو آئیڈیالز کرنا کئی لحاظ سے عجیب و غریب ہے کیونکہ تب شاید ریاست کی پوری شکل بھی واضح نہ ہوئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے مثالی رہنما ہیں، تاہم، اسلامی نظامِ معیشت کی بجائے، محض مدینہ کی ریاست کے معاشی نظام کو اپنانے کا دعویٰ کرنا ماورائے فہم ہے تاہم شاید ہم غلطی پر ہی ہوں۔ کوئی محفلین اصلاح کر دے تو ہم اپنی رائے سے رجوع کر لیں گے۔
جی آپ کی بات درست ہے اور مجھے بھی اس نوٹس پر شدید حیرانی ہوئی ہے۔

سیالکوٹ چیمبر کے لوگ کاروباری ذہن کے اور مدبر، معاملہ شناس لوگ ہیں۔ یہ سیمینار کروانے کا آئیڈیا یا حکم یقینی طور پر کہیں اور سے آیا ہے۔ اس سے مجھے ایک اور واقعہ بھی یاد آ گیا جب جنرل ضیا الحق کی منعقد کردہ کسی "اسلامی سائنسی" کانفرنس میں جنات کی مدد سے بجلی پیدا کرنے پر ایک مقالہ پڑھا گیا تھا۔ :)
 

زیک

مسافر
اس سے مجھے ایک اور واقعہ بھی یاد آ گیا جب جنرل ضیا الحق کی منعقد کردہ کسی "اسلامی سائنسی" کانفرنس میں جنات کی مدد سے بجلی پیدا کرنے پر ایک مقالہ پڑھا گیا تھا
کیا پاکستان کی زیادہ تر بجلی اب جنات پیدا نہیں کرتے؟
 

جاسم محمد

محفلین
کیا یہ "ریاستِ مدینہ" قائم کرنے کی طرف کوئی عملی قدم ہے؟ کیا اس طرح کے سیمینارز منعقد کروانے کے احکامات حکومتِ وقت نے جاری کیے ہیں؟

Fullscreen-capture-20-09-2019-90718-AM.jpg
اسی سے حکومت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ کر لیں۔ ضیا دور میں بھی اسی طرح کچھ عرصہ بینکوں کو اسلامائز کرکے سود بند کر دیا گیا تھا۔ جس کا عین متوقع مضحکہ خیز نتیجہ نکلا۔
 
Top