ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احبابِ کرام ایک بہت ہی پرانی نظم دستیاب ہوئی ہے ۔ آپ حضرات کے ذوق کی نذر کرتا ہوں ۔

مرہموں کی آس میں
٭٭٭

زخم ہائے جاں لئے مرہموں کی آس میں
کب سے چل رہا ہوں میں دہرِ ناسپاس میں
چلتے چلتے خاک تن ہوگیا ہوں خاک میں
تار ایک بھی نہیں اب قبا کے چاک میں
دل نشان ہوگیا ایک یاد کا فقط
رہ گئی ہے آنکھ میں ایک دید کی سکت
زہر جو ہوا میں تھا آگیا ہے سانس میں
ذہن میں گرہ جو تھی وہم کے لباس میں
پھانس بن کے درد کی شاہ رگ میں گڑ گئی
کرب اِس قدر سوا ، یاد ماند پڑ گئی
ٹیسیں روز اٹھتی ہیں درد کے پگھلنے تک
درد جانے کتنے ہیں حالِ دل سنبھلنے تک
اور کتنا روؤں اب ، اشک خوں تو ہو گئے
رنگ وحشتوں کے سب ، ہاں جنوں تو ہوگئے
دشتِ ہجر کی ہوا داؤ سارے چل چکی
اور کتنا چلنا ہے ، رات کتنی ڈھل چکی
تارے کتنے ٹوٹیں گے تیرگی کے چھٹنے تک
ناشکیب و نا رسا بخت کے پلٹنے تک
مہر کے نکلنے میں قہر کتنے رہتے ہیں
کاسہء جدائی میں زہر کتنے رہتے ہیں
درد کتنے باقی ہیں لا علاج ہونے میں
اشک کتنے باقی ہیں تجھ سے مل کے رونے میں

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۹۶
 
احبابِ کرام ایک بہت ہی پرانی نظم دستیاب ہوئی ہے ۔ آپ حضرات کے ذوق کی نذر کرتا ہوں ۔

مرہموں کی آس میں
٭٭٭

زخم ہائے جاں لئے مرہموں کی آس میں
کب سے چل رہا ہوں میں دہرِ ناسپاس میں
چلتے چلتے خاک تن ہوگیا ہوں خاک میں
تار ایک بھی نہیں اب قبا کے چاک میں
دل نشان ہوگیا ایک یاد کا فقط
رہ گئی ہے آنکھ میں ایک دید کی سکت
زہر جو ہوا میں تھا آگیا ہے سانس میں
ذہن میں گرہ جو تھی وہم کے لباس میں
پھانس بن کے درد کی شاہ رگ میں گڑ گئی
کرب اِس قدر سوا ، یاد ماند پڑ گئی
ٹیسیں روز اٹھتی ہیں درد کے پگھلنے تک
درد جانے کتنے ہیں حالِ دل سنبھلنے تک
اور کتنا روؤں اب ، اشک خوں تو ہو گئے
رنگ وحشتوں کے سب ، ہاں جنوں تو ہوگئے
دشتِ ہجر کی ہوا داؤ سارے چل چکی
اور کتنا چلنا ہے ، رات کتنی ڈھل چکی
تارے کتنے ٹوٹیں گے تیرگی کے چھٹنے تک
ناشکیب و نا رسا بخت کے پلٹنے تک
مہر کے نکلنے میں قہر کتنے رہتے ہیں
کاسہء جدائی میں زہر کتنے رہتے ہیں
درد کتنے باقی ہیں لا علاج ہونے میں
اشک کتنے باقی ہیں تجھ سے مل کے رونے میں

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۹۶

خوبصورت نظم۔ بہت سی داد قبول کیجئے۔
 
احبابِ کرام ایک بہت ہی پرانی نظم دستیاب ہوئی ہے ۔ آپ حضرات کے ذوق کی نذر کرتا ہوں ۔

مرہموں کی آس میں
٭٭٭

زخم ہائے جاں لئے مرہموں کی آس میں
کب سے چل رہا ہوں میں دہرِ ناسپاس میں
چلتے چلتے خاک تن ہوگیا ہوں خاک میں
تار ایک بھی نہیں اب قبا کے چاک میں
دل نشان ہوگیا ایک یاد کا فقط
رہ گئی ہے آنکھ میں ایک دید کی سکت
زہر جو ہوا میں تھا آگیا ہے سانس میں
ذہن میں گرہ جو تھی وہم کے لباس میں
پھانس بن کے درد کی شاہ رگ میں گڑ گئی
کرب اِس قدر سوا ، یاد ماند پڑ گئی
ٹیسیں روز اٹھتی ہیں درد کے پگھلنے تک
درد جانے کتنے ہیں حالِ دل سنبھلنے تک
اور کتنا روؤں اب ، اشک خوں تو ہو گئے
رنگ وحشتوں کے سب ، ہاں جنوں تو ہوگئے
دشتِ ہجر کی ہوا داؤ سارے چل چکی
اور کتنا چلنا ہے ، رات کتنی ڈھل چکی
تارے کتنے ٹوٹیں گے تیرگی کے چھٹنے تک
ناشکیب و نا رسا بخت کے پلٹنے تک
مہر کے نکلنے میں قہر کتنے رہتے ہیں
کاسہء جدائی میں زہر کتنے رہتے ہیں
درد کتنے باقی ہیں لا علاج ہونے میں
اشک کتنے باقی ہیں تجھ سے مل کے رونے میں

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۹۶
عمدہ نظم۔ کیا روانی ہے۔
 

اے خان

محفلین
احبابِ کرام ایک بہت ہی پرانی نظم دستیاب ہوئی ہے ۔ آپ حضرات کے ذوق کی نذر کرتا ہوں ۔

مرہموں کی آس میں
٭٭٭

زخم ہائے جاں لئے مرہموں کی آس میں
کب سے چل رہا ہوں میں دہرِ ناسپاس میں
چلتے چلتے خاک تن ہوگیا ہوں خاک میں
تار ایک بھی نہیں اب قبا کے چاک میں
دل نشان ہوگیا ایک یاد کا فقط
رہ گئی ہے آنکھ میں ایک دید کی سکت
زہر جو ہوا میں تھا آگیا ہے سانس میں
ذہن میں گرہ جو تھی وہم کے لباس میں
پھانس بن کے درد کی شاہ رگ میں گڑ گئی
کرب اِس قدر سوا ، یاد ماند پڑ گئی
ٹیسیں روز اٹھتی ہیں درد کے پگھلنے تک
درد جانے کتنے ہیں حالِ دل سنبھلنے تک
اور کتنا روؤں اب ، اشک خوں تو ہو گئے
رنگ وحشتوں کے سب ، ہاں جنوں تو ہوگئے
دشتِ ہجر کی ہوا داؤ سارے چل چکی
اور کتنا چلنا ہے ، رات کتنی ڈھل چکی
تارے کتنے ٹوٹیں گے تیرگی کے چھٹنے تک
ناشکیب و نا رسا بخت کے پلٹنے تک
مہر کے نکلنے میں قہر کتنے رہتے ہیں
کاسہء جدائی میں زہر کتنے رہتے ہیں
درد کتنے باقی ہیں لا علاج ہونے میں
اشک کتنے باقی ہیں تجھ سے مل کے رونے میں

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۹۶
بہت خوب :):)
 

فاخر رضا

محفلین
کوئی سمجھا ترے شکوے کو تو رضواں سمجھا

ہم بھی اسی جنت کے نکالے ہوئے ہیں بھائی اور آپ کا درد نہ صرف یہ کہ سمجھ سکتے ہیں بلکہ سہ بھی رہے ہیں
جتنی تکالیف آپ روز دیکھتے ہیں اگر درد دل ہے تو دراصل چھیلتے بھی ہیں

اس نظم کی یہی تشریح سمجھ آئی ہے اسپتال کے ماحول میں مگر ہوسکتا ہے کہ آپ کا درد آفاقی ہو
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خوبصورت نظم۔ بہت سی داد قبول کیجئے۔

عمدہ نظم۔ کیا روانی ہے۔


کیا ہی خوبصورت نظم ہے۔ ڈھیروں داد قبول فرمائیے :)

درد کتنے باقی ہیں لا علاج ہونے میں
اشک کتنے باقی ہیں تجھ سے مل کے رونے میں


بہت خوب :)

کوئی سمجھا ترے شکوے کو تو رضواں سمجھا

ہم بھی اسی جنت کے نکالے ہوئے ہیں بھائی اور آپ کا درد نہ صرف یہ کہ سمجھ سکتے ہیں بلکہ سہ بھی رہے ہیں
جتنی تکالیف آپ روز دیکھتے ہیں اگر درد دل ہے تو دراصل چھیلتے بھی ہیں

اس نظم کی یہی تشریح سمجھ آئی ہے اسپتال کے ماحول میں مگر ہوسکتا ہے کہ آپ کا درد آفاقی ہو

نوازش! آداب!! آپ تمام صاحبانِ نظر کا ممنون ہوں !
اللہ آپ کو خوش رکھے ! دین و دنیا کی تمام نعمتوں سے نوازے! آمین۔
 

یاسر شاہ

محفلین
بہت دردانگیز نظم ہے ظہیر بھائی -

مجھے یہ مصرعے کچھ کمزور لگے ،دیکھ لیجیے گا :

- چلتے چلتے خاک تن ہوگیا ہوں خاک میں

- کرب اِس قدر سوا ، یاد ماند پڑ گئی

- کاسہء جدائی میں زہر کتنے رہتے ہیں

الله ﷻآپ کو ہمیشہ خوش رکھے -
 

جاسمن

لائبریرین
ہائے!!!
اتنی پیاری نظم!!!
بھائی! یہ بہت بہت بہت خوبصوووووورت ہے۔

درد کتنے باقی ہیں لا علاج ہونے میں
اشک کتنے باقی ہیں تجھ سے مل کے رونے میں
واہ!
زخم ہائے جاں لئے مرہموں کی آس میں
کب سے چل رہا ہوں میں دہرِ ناسپاس میں
چلتے چلتے خاک تن ہوگیا ہوں خاک میں
آہ!
دشتِ ہجر کی ہوا داؤ سارے چل چکی
اور کتنا چلنا ہے ، رات کتنی ڈھل چکی
تارے کتنے ٹوٹیں گے تیرگی کے چھٹنے تک
داؤ سارے چل چکی۔۔۔اور کتنا چلنا ہے!
اور کتنا چلنا ہے؟
اور کتنا چلنا ہے؟
بہت خوب!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت دردانگیز نظم ہے ظہیر بھائی -

مجھے یہ مصرعے کچھ کمزور لگے ،دیکھ لیجیے گا :

- چلتے چلتے خاک تن ہوگیا ہوں خاک میں

- کرب اِس قدر سوا ، یاد ماند پڑ گئی

- کاسہء جدائی میں زہر کتنے رہتے ہیں

الله ﷻآپ کو ہمیشہ خوش رکھے -

نوازش! ذرہ نوازی ہے ! توجہ کے لئے بہت شکریہ!
یاسر بھائی ، مجھے معلوم ہے کہ خاک تن ، "اس قدر سوا" اور" کاسہء جدائی میں زہر" مناسب نہیں ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ انہیں نہایت آسانی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ (ویسے ان معمولی باتوں کے علاوہ بھی اس نظم میں نسبتاً بڑے مسئلے موجود ہیں ۔) یاسر بھائی ، یہ نظم بہت پرانی ہے ۔ 1996 کی ہے ۔ میں نے پرانے کلام کو یہاں شائع کرنے کے بارے میں یہ پالیسی اپنائی ہے کہ جس قدر ہوسکے کلام کو جوں کا توں ٹائپ کردیاجائے اور اس میں زیادہ ردوبدل نہ کیا جائے ۔ اگر وزن کی یا کوئی اور بڑی خامی نظر آجائے تو عموماً وہ شعر نکال دیتا ہوں مرمت کرنے کی کوشش کم ہی کی ہے ۔ ایک تو یہ کہ جس کیفیت اور پس منظر میں وہ اشعار کہے گئے تھے ان کو خود پر طاری کرنا ممکن نہیں ، دوسری بات یہ کہ اب بیٹھ کراتنا کام کرنے اور ان اشعار کو وقت دینے کی ہمت نہیں ۔ تیسرے یہ کہ میرے نزدیک یہ ایک طرح کی ادبی بددیانتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ ہر آدمی کی طرح میں نے بھی فکر و فن کی بالیدگی کے مختلف مراحل طے کئے ہیں ۔ سو ان نظموں کو اسی طرح رکھنے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح وہ اول وقت لکھی گئی تھیں ۔ گزارا کیجئے ۔ :):):)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہائے!!!
اتنی پیاری نظم!!!
بھائی! یہ بہت بہت بہت خوبصوووووورت ہے۔

درد کتنے باقی ہیں لا علاج ہونے میں
اشک کتنے باقی ہیں تجھ سے مل کے رونے میں
واہ!
زخم ہائے جاں لئے مرہموں کی آس میں
کب سے چل رہا ہوں میں دہرِ ناسپاس میں
چلتے چلتے خاک تن ہوگیا ہوں خاک میں
آہ!
دشتِ ہجر کی ہوا داؤ سارے چل چکی
اور کتنا چلنا ہے ، رات کتنی ڈھل چکی
تارے کتنے ٹوٹیں گے تیرگی کے چھٹنے تک
داؤ سارے چل چکی۔۔۔اور کتنا چلنا ہے!
اور کتنا چلنا ہے؟
اور کتنا چلنا ہے؟
بہت خوب!

بہت بہت شکریہ خواہرم ! ذرہ نوازی ہے آپ کی ! اللہ ذوق سلامت رکھے ! ہمیشہ شاد و آباد رکھے ۔ آمین ۔
 
Top