انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں طلبہ وطالبات کے اکٹھے بیٹھنے پر پابندی

اے خان

محفلین
یہ کیا بات ہوئی؟ یعنی اب اے خان کو شاعر بھی بننا پڑے گا؟ :sad:
کبھی کبھار دل سے آہ نکتی ہے کاش اے کاش میں شاعر ہوتا اپنے درد کو شعر میں بیان کرسکتا اور حسن کی تعریف کرسکتا اور اگر کسی کو اظہار کرنا ہوتا تو شعر میں کرسکتا کہ سامنے والے کو اظہار شعر لگتا اے کاش
 

La Alma

لائبریرین
ان سب باتوں سے قطعِ نظر، on a serious note تعلیمی نظام چاہے مخلوط ہو یا غیر مخلوط، کام یا کاروبار والی جگہوں، سماجی تقریبات اور دیگر سوشل ایکٹیویٹیز میں مرد و زن کا اختلاط ہو یا نہ ہو، یہ سب چیزیں ثانوی اہمیت رکھتی ہیں۔ اصل اہمیت شخصی کردار کی ہے۔ اگر کردار مضبوط ہو، دل میں خوفِ خدا، تقوٰی، اور اپنی اور دوسروں کی عزت و ناموس کا خیال ہو، تو پھر کوئی بھی خدا کی بنائی ہوئی حدوں کو پامال کرنے کا نہیں سوچے گا۔ اور نہ ہی کبیرہ گناہوں کی طرف پھٹکے گا۔ یہاں اصل مسئلہ تربیت اور شعور کا فقدان ہے۔
اس کے علاوہ ہر شخص انفرادی جبلی اوصاف کا مالک بھی ہوتا ہے۔ عام مشاہدہ یہی ہے کہ کچھ لوگ فطرتًا نیک خصلت ہوتے ہیں اور کچھ بد فطرت۔ ایسے لوگ ارد گرد کے ماحول کا کوئی خاص اثر قبول نہیں کرتے۔ نتیجتًا کسی انتہائی مذہبی ماحول میں پروان چڑھنے والا، دینی مدارس سے فارغ التحصیل شخص بھی بے راہروی کا شکار ہو سکتا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں کسی آزاد معاشرت کا پروردہ، جدید مغربی تعلیم حاصل کرنے والا انتہائی اعلٰی کردار کا حامل ٹھہر سکتا ہے۔۔۔ اسی طرح سات پردوں میں لپٹی کوئی خاتون بھی اخلاقی پستیوں کی دلدل میں گر سکتی ہے جبکہ ریمپ پر واک کرتی ہوئی کوئی ماڈل بھی با کردار ہو سکتی ہے۔ لہذٰا اصل توجہ کردار سازی پر ہونی چاہیے۔ تاکہ عملی زندگی میں چاہے جیسا بھی ماحول ملے، انسان راہِ راست سے نہ بھٹکے۔
 
چلیں کچھ تو پاکستانیت باقی ہے کہ اپنے چٹے ہونے پر دوسروں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی عادت ہنوز موجود ہے۔۔

واقعی پاکستان کی انجینیرنگ یونیورسٹیوں میں خواتین کا داخلہ ممنوع ہونا چاہیئے۔ اتنا ہی شوق ہے تو اپنی علیحدہ یونیورسٹی بنا لیں۔ یہی ریئل اسلام ہے
 

بافقیہ

محفلین
ان سب باتوں سے قطعِ نظر، on a serious note تعلیمی نظام چاہے مخلوط ہو یا غیر مخلوط، کام یا کاروبار والی جگہوں، سماجی تقریبات اور دیگر سوشل ایکٹیویٹیز میں مرد و زن کا اختلاط ہو یا نہ ہو، یہ سب چیزیں ثانوی اہمیت رکھتی ہیں۔ اصل اہمیت شخصی کردار کی ہے۔ اگر کردار مضبوط ہو، دل میں خوفِ خدا، تقوٰی، اور اپنی اور دوسروں کی عزت و ناموس کا خیال ہو، تو پھر کوئی بھی خدا کی بنائی ہوئی حدوں کو پامال کرنے کا نہیں سوچے گا۔ اور نہ ہی کبیرہ گناہوں کی طرف پھٹکے گا۔ یہاں اصل مسئلہ تربیت اور شعور کا فقدان ہے۔
اس کے علاوہ ہر شخص انفرادی جبلی اوصاف کا مالک بھی ہوتا ہے۔ عام مشاہدہ یہی ہے کہ کچھ لوگ فطرتًا نیک خصلت ہوتے ہیں اور کچھ بد فطرت۔ ایسے لوگ ارد گرد کے ماحول کا کوئی خاص اثر قبول نہیں کرتے۔ نتیجتًا کسی انتہائی مذہبی ماحول میں پروان چڑھنے والا، دینی مدارس سے فارغ التحصیل شخص بھی بے راہروی کا شکار ہو سکتا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں کسی آزاد معاشرت کا پروردہ، جدید مغربی تعلیم حاصل کرنے والا انتہائی اعلٰی کردار کا حامل ٹھہر سکتا ہے۔۔۔ اسی طرح سات پردوں میں لپٹی کوئی خاتون بھی اخلاقی پستیوں کی دلدل میں گر سکتی ہے جبکہ ریمپ پر واک کرتی ہوئی کوئی ماڈل بھی با کردار ہو سکتی ہے۔ لہذٰا اصل توجہ کردار سازی پر ہونی چاہیے۔ تاکہ عملی زندگی میں چاہے جیسا بھی ماحول ملے، انسان راہِ راست سے نہ بھٹکے۔
معاف کریں ! کئی حضرات نے کہا: کہ تربیت، شعور، نیک فطرت، جبلت، وغیرہ وغیرہ۔

لیکن میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اسلام میں مرد و زن دونوں کو حکم ہے کہ اپنی نظر نیچی رکھو۔ اور اگر غلطی سے نظر پڑجائے تو اپنی نظر پھیر لو۔

اب آپ بتائیں کہ مخلوط تعلیم میں دائیں بائیں ، آگے پیچھے ، اوپر نیچے ہر جگہ اختلاط کی واضح شکلیں ہوتی ہیں۔ آپ کلاس میں جہاں بھی بیٹھیں اس فریب سے نکلنا مشکل ہے۔ اب آپ کیا کریں گے؟
آپ اگر جوان ہیں یعنی جس کو مخالف جنس سے فطری لگاؤ ہوتا ہے۔ اور وہ آپس میں کشش محسوس کرتے ہیں۔ تو کیا کریں گے؟
آپ مغرب کی مثال دے رہے ہیں وہ بے بنیاد ہے۔ مغرب میں مخلوط نظام تعلیم ہے۔ اپنی نفسانیت کی تسکین کے لیے راتوں میں کلبوں وغیرہ کے نام پر ہر چیز کیلئے کھلی چھوٹ ضرور ہے۔
اور یقینا یہ مشرق میں بالخصوص بر صغیر میں بہت مشکل ہے۔
 

جان

محفلین
اب آپ بتائیں کہ مخلوط تعلیم میں دائیں بائیں ، آگے پیچھے ، اوپر نیچے ہر جگہ اختلاط کی واضح شکلیں ہوتی ہیں۔ آپ کلاس میں جہاں بھی بیٹھیں اس فریب سے نکلنا مشکل ہے۔ اب آپ کیا کریں گے؟
پیارے بھائی ہم وہی کریں گے جو اللہ عز و جل کا حکم ہے، اگر نہیں کریں گے تو گناہ ملے گا لیکن پھر بھی اس سے مخلوط تعلیم حرام یا منع نہیں ہو جائے گی کیونکہ اس کا کہیں کوئی واضح حکم تاحال میری نظر سے نہیں گزرا۔ جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان کے واضح احکامات موجود ہیں تو لہذا ہمیں ان چیزوں سے بچنا ہے نہ کہ ان کی آڑ میں باقی چیزوں پہ پابندی لگانی ہے۔ مثال کے طور پر اسلام میں رشوت، چوری، ڈکیتی جیسے قبیح فعل سے رزق کمانا منع ہے اب اس کی آڑ میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ رزق کمانے پہ ہی پابندی لگا دی جائے کیونکہ توجیح یہ دی جا سکتی ہے کہ نہ پیسے کمائیں گے، نہ چوری، رشوت یا ڈکیتی کی نوبت آئے گی۔ اب ظاہر ہے ایسا نہیں ہے ہم خود کو اور دوسروں کو رشوت، چوری ڈکیتی کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں جن چیزوں سے ہمیں واقعی بچنے کا کہا گیا ہے۔ دنیا میں ہر چیز کے فوائد و نقصانات ہیں اور اب اگر ہمیشہ اپنی نظر نقصان کے پہلو پہ رکھیں گے تو پھر تو یہ پوری دنیا ہی ساکت ہو جائے گی۔ ایک اور مثال کے طور پر چھری سے گلا بھی کٹ سکتا ہے اور سبزی بھی کٹ سکتی ہے۔ اب کیا ہم اس لیے چھری کو گھر میں رکھنا چھوڑ دیں کہ یہ انسانوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے؟ جبکہ ایسا نہیں ہے لہذا جس چیز سے اسلام نے روکا ہے وہ کوئی بھی کرے گا گناہ کا مرتکب ہو گا اور جس چیز سے نہیں روکا وہ قطعی حرام نہیں ہے لہذا ہمیں اپنی ساری توانائیاں مخلوط تعلیم کو غلط قرار دینے کی بجائے اصل احکام پہ صرف کی جانی چاہئیں اور اسلامی بھائیوں کا تو یہ ماننا ہے کہ جس پہ اللہ نے پابندی نہیں لگائی اس پہ کسی اور کو بھی پابندی لگانے کا اختیار نہیں ہے کیونکہ قرار دادِ مقاصد کے تحت خود مختاری صرف اللہ کے پاس ہے اور انسان صرف دنیا پہ اس کے احکامات کو کیری آؤٹ کرنے کے لیے ایک خلیفہ ہے جو کہ عین مودودی صاحب کا اخذ کردہ نظریہ ہے۔
آپ اگر جوان ہیں یعنی جس کو مخالف جنس سے فطری لگاؤ ہوتا ہے۔ اور وہ آپس میں کشش محسوس کرتے ہیں۔ تو کیا کریں گے؟
جو جوان ہے وہ گھر میں بھی جوان ہو گا اور حج پہ بھی جوان ہو گا۔ گھر میں بھی جنس مخالف ماں، باپ، بہن، بھائی، بیٹا، بیٹی کی صورت میں موجود ہوتی ہے تو وہاں کیا عورتوں کے لیے علیحدہ گھر بنایا جاتا ہے، مردوں کے لیے علیحدہ گھر بنایا جاتا ہے؟ یقینا نہیں بلکہ وہاں پہ بھی حقیقتا اللہ کے احکامات کے پیشِ نظر تقدس کا خیال ہر بندے کے ذہن میں فطری طور پر موجود ہوتا ہے اس لیے خاندانی نظام آگے بڑھ پاتا ہے۔ دوم جب حج کے عین مذہبی فریضے میں بھی ایسی کوئی تفریق نہیں اور یہ انتہائی مثال ہے جب عین فرض کی ادائیگی پہ ایسی کوئی پابندی نہیں ہے تو مخلوط تعلیم پہ کیوں جب تعلیم خود ایک فرض ہو؟ کیا اب عورتوں اور مردوں کے لیے کعبہ بھی الگ الگ ہو (نعوذ باللہ) یا دوسری صورت میں ان کے حج کے ایام یا اوقات بھی مختلف ہوں؟
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
لیکن میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اسلام میں مرد و زن دونوں کو حکم ہے کہ اپنی نظر نیچی رکھو۔ اور اگر غلطی سے نظر پڑجائے تو اپنی نظر پھیر لو۔

اب آپ بتائیں کہ مخلوط تعلیم میں دائیں بائیں ، آگے پیچھے ، اوپر نیچے ہر جگہ اختلاط کی واضح شکلیں ہوتی ہیں۔ آپ کلاس میں جہاں بھی بیٹھیں اس فریب سے نکلنا مشکل ہے۔ اب آپ کیا کریں گے؟
کیا اسلامی معاشرے میں مرد اور عورت کا جنس سے ہٹ کر بحیثیت ایک انسان کوئی تصور نہیں؟ فطری کشش غیر اختیاری ہے۔ لیکن گناہ پر آمادگی اختیاری ہے۔ دین نے ہمیں ایک گائیڈ لائن مہیا کی ہے۔ کچھ رہنما اصول بتائے ہیں۔ تاکہ جہاں بھی مرد و زن کا اختلاط ہو، ان احکامات پر عمل کرنے سے معاشرہ پاکیزگی کی روش پر چلے۔ اور یہ اختلاط ضروری نہیں صرف تعلیمی اداروں یا ورکنگ پلیس پر ہی ہو. یہ کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ اگر مخلوط تعلیم یا عورتوں کی ملازمت پر پابندی لگا بھی دی جائے تو پھر بھی ایسے کتنے مواقع آتے ہیں جہاں پر یہ اختلاط ناگزیر ہوجاتا ہے۔ جیسے کسی سفر کے دوران، ہسپتال میں، بینک میں، مساجد میں، خریدو فروخت کے دوران، گھر میں کوئی مہمان آ جائیں ، آپ کے رشتہ دار ، کزنز وغیرہ وغیرہ ۔
دینِ اسلام انتہائی پریکٹیکل مذہب ہے۔ غلطی سے نظر پڑ جانا، یا پہلی نظر جائز ہے، کا تصور اللہ جانے کہاں سے آیا ہے۔ کچھ لوگ خدا کی مخلوق کو انتہاپسندی کی زنجیروں سے جکڑ کر مذہب کے زندان میں ڈال دینے کو ہی عین اسلام سمجھتے ہیں۔ قرآن میں جہاں نگاہوں کو پست رکھنے کا ذکر ہے ، ساتھ ہی اپنی پاکدامنی کی حفاظت کا حکم بھی ہے۔ صاف عیاں ہے کہ بری نظر ڈالنے سے منع کیا گیا ہے۔ نظریں نیچے رکھنا کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کو گرد و پیش کی کوئی خبر ہی نہ ہو اور دوسروں کو ٹکریں مارتے پھریں۔ غیر ضروری نگاہ ڈالنے اور گھورنے سے اجتناب کا کہا گیا ہے" یغضوا من ابصرھم" سے مراد یہ بھی ہے کہ اپنی بصارت سے کچھ کم کر لو، یہ restrain کے معنوں میں بھی لیا جائے گا۔ یعنی نگاہوں کی پاکیزگی اور حفاظت کا کہا گیا ہے۔
کوئی بھی شرعی حکم ایسا نہیں جس پر عمل کرنا انتہائی دشوار گزار ہو اور معدودے چند لوگوں کے اس پر کوئی بھی عمل نہ کر سکے۔ آپ ایک سروے کروا لیں۔ sampling کے طور پر انتہائی مذہبی گھرانوں کے افراد کو منتخب کر لیں۔ اور سوال نامہ میں یہ سوال پوچھیں۔ کہ کیا ان کی اپنے محرم رشتوں کے علاوہ کبھی بھی جنسِ مخالف کے افراد پر کسی ایک نشست میں دوسری، تیسری یا چوتھی نگاہ نہیں پڑی۔ اب یہ افراد کوئی بھی ہو سکتے ہیں۔ ان کے استاد، رشتے دار ، گھر کے ملازمین ، ماں باپ کے جاننے والے ، انکل، آنٹیاں، ان کی اولاد اگر بالغ ہے تو ان کے حلقہِ احباب میں سے کوئی وغیرہ وغیرہ ۔ شاید ہی کوئی ایک آدھ ولی الله ہو گا جو نہیں میں جواب دے گا۔ اس لئے ان باتوں میں الجھنے سے بہتر ہے کہ اس حکم کی اصل روح کو سمجھا جائے۔ یعنی جہاں مرد و زن کا اختلاط ہو وہاں نگاہِ غلط سے بچا جائے۔ کسی کو دیکھنے اور تاڑنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ انسان سے باز پرس نظر پڑنے کی نہیں بلکہ اخلاق باختہ اور بری نظر ڈالنے کی ہو گی۔ واللہ اعلم۔
 

La Alma

لائبریرین
با کردار کی کوئی مختصر سی تعریف؟
کم از کم پہلی اسٹیج تو کوالیفائی کرتا ہو۔ اگر کوئی فلٹر لگانا ہی مقصود ہے تو کبیرہ گناہ جن پر اللہ نے حد لگائی ہے، ان سے بالخصوص بچتا ہو۔ باقی محاسن بھی اچھے کردار کا خاصہ ہیں۔ لیکن یہ بعد کی بات ہے۔ تزکیہ نفس کا عمل تو زندگی کی آخری سانس تک جاری رہتا ہے۔
 
Top