کیسی ہیں آپ عافیہ؟، ہم عافیت سے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غزل

یاسر شاہ

محفلین
یاسر کی لکھی کیا ہے غزل، مرثیہ ہے یہ
پوچھو نہ دل، جگر نہ ہی ہم خیریت سے ہیں

شکریہ فاخر بھائی مرثیہ ہی سمجھیے تین اشعار مطلع ،مقطع اور طائف والے نے ہوتے ہوئے بہت رلایا ہے -

آپ نے بھی طبع موزوں پائی ہے شعر کہا کریں -یہاں ما شاء الله دو ڈاکٹرز شاعر ہیں، خوب لکھتے ہیں - تیسرے آپ کا اضافہ بھی ہونا چاہیے - :)

میری زمین سے آپ جون ایلیا کی زمین میں چلے گئے -ویسے اسی زمین سے متاثر ہوکر میں نے یہ زمین چنی -ایک شعر ان کا یاد آیا :

شاعر تو دو ہیں، میر تقی اور میر جون
باقی جو ہیں وہ شام و سحر خیریت سے ہیں
 

شکیب

محفلین
غزل


کیسی ہیں آپ عافیہ؟، ہم عافیت سے ہیں
پُر ہے شکم ،بفضل و کرم عافیت سے ہیں


جالب وفات پا چکے، ہم عافیت سے ہیں
اس دور کے سب اہل قلم عافیت سے ہیں


طائف میں کون ہے جو چلے گا لہولہان؟
سب داعیانِ دیں کے قدم عافیت سے ہیں


اسلام کی سزا ہے تو کشمیریوں کو ہے
یاں قائلانِ ہندو دھرم عافیت سے ہیں


سجدے میں سر ہے اور زباں پر خدا کا نام
دل اک صنم کدہ ہے ،صنم عافیت سے ہیں


دنیا میں ہو رہا ہے جو، اپنی بلا سے، ہو
ہم تو ہیں خیریت سے ،بلم عافیت سے ہیں


برباد کب کے ہو چکے ،پروا ذرا نہیں
ہم جیسے اس جہان میں کم عافیت سے ہیں


آبا پہ اک قیامتِ صغریٰ گزر گئی
شاؔہ آپ تو خدا کی قسم عافیت سے ہیں

بہت پیارا کلام۔ جزاک اللہ۔
شیئر کر رہا ہوں۔ :)
 

فاخر رضا

محفلین
شکریہ فاخر بھائی مرثیہ ہی سمجھیے تین اشعار مطلع ،مقطع اور طائف والے نے ہوتے ہوئے بہت رلایا ہے -

آپ نے بھی طبع موزوں پائی ہے شعر کہا کریں -یہاں ما شاء الله دو ڈاکٹرز شاعر ہیں، خوب لکھتے ہیں - تیسرے آپ کا اضافہ بھی ہونا چاہیے - :)

میری زمین سے آپ جون ایلیا کی زمین میں چلے گئے -ویسے اسی زمین سے متاثر ہوکر میں نے یہ زمین چنی -ایک شعر ان کا یاد آیا :

شاعر تو دو ہیں، میر تقی اور میر جون
باقی جو ہیں وہ شام و سحر خیریت سے ہیں
اردو بحیثیت مضمون اساتذہ سے نہیں پڑھی نہ ہی بحر و عروض کا کوئی آئیڈیا ہے، نہ تقطیع کرنی آتی ہے، نہ اساتذہ کو پڑھا ہے. اب بتائیے ایسا شخص کیا شاعری کرے گا. جو کچھ جینز میں شاعری آئی ہے وہ بھی ناکافی ہے. غلط شعر، شعراء کے دل پر غلط آپریشن بن کر گزرتا ہے. بہتر ہے وہی شاعری کرے جو اس فن میں دسترس رکھتا ہو اور اساتذہ بھی.
یہ لکھا شاید کچھ اور افراد کے لئے بھی تنبیہ کا باعث بنے. تک بندی اپنی جگہ مگر باقاعدہ شاعری ہمارے بس کی بات نہیں اور نہ ہی ہم جیسوں کو کرنی چاہیے
میں سوچتا ہوں کہ دو سو سال بعد جب لوگ آج کے دور کی شاعری کے حوالے سے لکھیں گے تو کس معیار کی شاعری کے بارے میں لکھیں گے. یہ لمحہ فکریہ ہے
 
اردو بحیثیت مضمون اساتذہ سے نہیں پڑھی نہ ہی بحر و عروض کا کوئی آئیڈیا ہے، نہ تقطیع کرنی آتی ہے، نہ اساتذہ کو پڑھا ہے. اب بتائیے ایسا شخص کیا شاعری کرے گا. جو کچھ جینز میں شاعری آئی ہے وہ بھی ناکافی ہے. غلط شعر، شعراء کے دل پر غلط آپریشن بن کر گزرتا ہے. بہتر ہے وہی شاعری کرے جو اس فن میں دسترس رکھتا ہو اور اساتذہ بھی.
یہ لکھا شاید کچھ اور افراد کے لئے بھی تنبیہ کا باعث بنے. تک بندی اپنی جگہ مگر باقاعدہ شاعری ہمارے بس کی بات نہیں اور نہ ہی ہم جیسوں کو کرنی چاہیے
میں سوچتا ہوں کہ دو سو سال بعد جب لوگ آج کے دور کی شاعری کے حوالے سے لکھیں گے تو کس معیار کی شاعری کے بارے میں لکھیں گے. یہ لمحہ فکریہ ہے
اس حوالے سے یہ دو اقتباسات اہم ہیں۔
کسی نقاد کا مقولہ ہے کہ میر تقی میر کے زمانے میں اتنے شاعر پوری دلی میں نہیں تھے جتنے اب تھانہ انار کلی کی حدود میں ہیں۔اور یہ بات فیس بُک پر بھی صادق آتی ہے۔ بلا مبالغہ ہزاروں یا شاید لاکھوں شاعر ہونگے فیس بُک پر، ایسی صورت میں ظاہر ہے معیار کی پروا کون کرتا ہے۔اور ایسے ایسے "اُستاد" شاعر بھی ہیں کہ جن کی پُر گوئی اُستاد ذوق کو بھی شرما دے، غزلیں تو جیسے گھڑی گھڑائی پڑی ہوتی ہیں، درجنوں غزلیں بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، معیار کو کون کچھ سمجھتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اردو شاعری کے جتنے قاری اس وقت فیس بُک پر ہیں اور کہیں نہیں، سو شاعروں کی بن آئی ہے۔ فرینڈ لسٹ میں موجود ہزاروں "دوست" کلام کو ٹھیک سے پڑھیں یا نہ پڑھیں لیکن لائک کا بٹن داب دیتے ہیں اور تبصرہ بھی ارسال فرما دیتے ہیں۔

فیس بُک پر اردو شاعری کی یہ روش اور درگت اردو شعر و ادب کے تاریخ نویسوں کے لیےکچھ دہائیوں کے بعد مصالحے کا کام دے گی :)

میرا خیال ہے کہ ایسا ہمیشہ ہی ہوتا ہے۔
خواص اور عوام کا ایک تناسب قدرت نے آپ ہی پیدا کر دیا ہے جو ابتدائے تمدن سے یونہی چلا آتا ہے۔ عوام ہمیشہ تعداد میں زیادہ اور ذوق میں کم تر ہوتے ہیں۔ خواص عددی لحاظ سے مٹھی بھر ہوتے ہیں مگر ان کے ذوق اور معیارات کا اثر معاشرے اور تہذیب پر عوام کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
شاعر اس لحاظ سے تین درجات میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں:
  1. عام: یہ وہ شاعر ہیں جو عوام کے ذوق کے مطابق شعر کہتے ہیں، کثیر التعداد ہوتے ہیں اور ان کی شعری حیات عوام کے ذوق سے منسلک ہوتی ہے جو عموماً ایک دو عشروں میں بدل جاتا ہے۔
  2. اعلیٰ: یہ وہ شاعر ہیں جو خواص کے ذوق کی تسکین کا سامان کرتے ہیں، کم ہوتے ہیں اور خواص کے معیارات کے موافق ادبی تواریخ وغیرہ میں کوئی نہ کوئی جگہ پاتے ہیں۔
  3. عظیم: وہ شعرا جو خواص اور عوام کے معیارات پر یکساں طور پر پورے اترتے ہیں اور ہر دو گروہ کو متاثر کرتے ہیں۔ ادبی تواریخ میں عموماً سرِ فہرست پائے جانے والے لوگ ہوتے ہیں۔
پہلے طبقے کی مثال وہ لوگ ہیں جن کا تابش بھائی نے ذکر کیا۔ دوسرے طبقے کی مثالوں میں کلاسیک میں شیفتہؔ، غالبؔ اور دردؔ وغیرہ جبکہ جدید ادبیات میں جونؔ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ تیسرے طبقے کی مثالیں میرؔ، داغؔ، اقبالؔ اور فیضؔ وغیرہ کی دی جا سکتی ہیں۔
یہ تین درجات کسی طرح بھی کامل (exhaustive) نہیں قرار دیے جا سکتے۔ ہر شاعر کم یا زیادہ طور پر تینوں سے تعلق رکھتا ہے مگر تفہیم کی آسانی کے لیے میرا خیال ہے کہ اس طرح دیکھنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
تو اب معاملہ یہ ہے کہ عام شاعر کے اپنے میدان میں کامیاب ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اعلیٰ شاعر بھی ہو گیا ہے۔ اسے یہ خبط ہو تو ہو مگر میری رائے میں ادب فہم طبقے کو اس بات پر ناک بھوں نہیں چڑھانی چاہیے۔ عوام کی واہ واہ جسے نصیب ہو جائے اس کے پاؤں زمین پر ٹکنے مشکل ہی ہوتے ہیں۔ اعلیٰ شاعر اور اس کے نقاد کو اصل میں یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کا المیہ کیا ہے اور انھیں برتری کیا حاصل ہے۔ عوام لاکھ کورذوق سہی، باذوق لوگوں سے متاثر بھی ہوتے ہیں اور ان کے مقابل بھی عموماً نہیں ہونا چاہتے۔
یہ خیال محض ایک غلط فہمی ہے کہ عوام اب زیادہ بدذوق ہو گئے ہیں یا شعر کا معیار بہت گر گیا ہے۔ ہر زمانے میں ایسا ہی ہوا ہے۔ بات صرف اس قدر ہے کہ تاریخ عوام اور ان کے نمائندوں کو بھلا دیتی ہے۔ خواص اور ان کے کام کو محفوظ کر لیتی ہے۔ یعنی غالبؔ زندہ رہتا ہے۔ مگر غالبؔ کے کورذوق معاصر زمانے کی گرد میں دفن ہو جاتے ہیں۔ اس سے یہ قیاس کرنا کہ وہ تھے ہی نہیں یا کم تھے، بجائے خود ایک نادانی ہے! :):):)
---
تابش بھائی کی تحریر اور اس کے پیچھے کارفرما دردِ دل اور خوش مذاقی کی داد نہ دینا بہرحال زیادتی ہو گی۔ جاسمن آپا کے الفاظ میں "زبردست پر ڈھیروں زبریں!" :in-love::in-love::in-love:
 

فاخر رضا

محفلین
آپ کی بات سے یہ حوصلہ ہوا کہ اس معاملے میں مختلف الآراء افراد موجود ہیں. لہٰذا ہماری رائے بھی کہیں نہ کہیں نبھ جائے گی
ایک اور بات تابش کہ کیا ایک شاعر کو پہلے ایک اچھا نثر نگار بھی ہونا چاہئے یا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا. یہ اس لئے پوچھا کہ جون ایلیا اور محسن نقوی بہترین نثر بھی لکھتے تھے. باقی شعراء میں فیض انگلش کے بہترین لکھاری تھے اور غالب کے خطوط تو خیر کورس کا حصہ ہیں
 
ایک اور بات تابش کہ کیا ایک شاعر کو پہلے ایک اچھا نثر نگار بھی ہونا چاہئے یا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا. یہ اس لئے پوچھا کہ جون ایلیا اور محسن نقوی بہترین نثر بھی لکھتے تھے. باقی شعراء میں فیض انگلش کے بہترین لکھاری تھے اور غالب کے خطوط تو خیر کورس کا حصہ ہیں
بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک اچھا شاعر اچھا نثر نگار بھی ہونا چاہیے، لیکن اس موضوع پر کوئی بہت گہرا مشاہدہ اور مطالعہ نہ ہونے کے سبب رائے دینے سے قاصر ہوں۔
اہلِ علم حضرات اگر اپنی رائے دے سکیں تو مفید ثابت ہو گی۔
 

سید عمران

محفلین
ضرور ی نہیں کہ ہر اچھا شاعر نثر بھی اسی روانی سے لکھ سکے اور سلاست کے پیر نہ ڈگمگائیں۔۔۔
بالکل ایسے ہی جیسے ہر اچھا نثر نگار شاعر بھی ہو!!!
 
Top