معاشرہ کی بھلائی کیلئے شاہ ولی اللہ کے پندرہ نکات

ابن جمال

محفلین
حضرت شاہ ولی اللہ برصغیر کے نابغہ روزگار علمائ میں سے ہیں۔دین اسلام کی تعلیمات پر گہری نظرکے ساتھ ساتھ اقتصادی اورمعاشرتی امور پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی اورمعاشرہ میں پھیلی خرابیوں اوران کے اسباب کا انہوں نے انتہائی باریک بینی سے تجزیہ کیاہے۔معاشرہ کا جوبگاڑ اس دور میں تھا وہی اس دورمیں بھی ہے اوراس کے سدباب کے جوطریقے حضرت شاہ ولی اللہ نے اس وقت بتائے تھے وہ آج بھی اثررکھتے ہیں۔
ویب سرچنگ کے دوران ایک سائٹ سے مجھے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویٌ کے انسان اورمعاشرہ کے تعلق سے مندرجہ ذیل نکات ملے ۔جومیرے خیال میں کسی بھی معاشرہ اورسماج کی بھلائی کیلئے ضروری ہیں۔ میں نے ان کو مفید سمجھ کر بہترسمجھاکہ یہاں پوسٹ کردیاجائے۔


شاہ ولی اللہ کے افکار کے مطابق انسان اور انسانی معاشرے کے بارے میں یہ پندرہ نکات سامنے آتے ہیں:


1(الف) انسان میں ذاتی غرض کی بجائے مفادِ عامہ کو اپنانے کی خصوصیت موجود ہے۔

(ب) انسان ہر قسم کی پاکیزگی اور جمالیاتی حِس کا حامل ہے۔

(ج) وہ اپنے علم کو بڑھانے اور خود غرضی سے پاک مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔

اگر انسان یہ تینوں خصوصیات کھو بیٹھے تو وہ انسان کہلانے کا مستحق نہیں۔


2فرد اور معاشرہ دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ ایک انسان کی تکلیف پوری انسانیت کی تکلیف ہے۔

3معاشرے کی ترقی کے لئے تمام انسانوں کو معاشی طور پر خوشحال ہونا ضروری ہے۔

4اگر وہ خوشحال نہیں ہوں گے تو وہ مذہب اور اخلاقی ضابطوں کی پابندی نہیں کر سکیں گے اور معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔ اس لئے لوگوں کی خوشحالی کا مطلب ہے ایک صالح اور نظریاتی معاشرے کا قیام۔

5اگر انسان کو صحیح ماحول اور مناسب تربیت میسر نہیں آئے تو وہ لالچی بن جاتا ہے۔ دوسروں کی محنت پر عیش کا خواہش مند ہو جاتا ہے۔ جب کوئی چیز ملتی ہے تو وہ اس میں اضافے کا خواہاں ہوتا ہے۔

6زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش سے ایک نظام پیدا ہو جاتا ہے۔ جس میں چالاک لوگوں کا ایک طبقہ تمام وسائلِ پیداوار کا مالک بن بیٹھتا ہے۔ اس نظام میں غریبوں اور مزدوروں کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ وہ دولت مند غاصبوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ یہ نظام قیصر و کسریٰ کا نظام ہے۔

7اسلام قیصر و کسریٰ کے نظام کو توڑنے کے لئے آیا تھا۔

8دولت کا حقیقی مالک خدا ہے۔ بنیادی طور پر کوئی چیز کسی کی ملکیت نہیں۔

9خدا کی ساری زمین ایک مسجد اور سرائے کی طرح ہے جو اس نے تمام مسافروں کے لئے وقف کر دی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے میں سب انسان برابر کے شریک ہیں۔

10معدنیات کی کانیں (اور دیگر وسائلِ پیداوار) کسی ایک فرد کی ملکیت نہیں ہو سکتیں۔

11معاشرے میں امدادِ باہمی کے اصول کو اس طرح رائج کیا جائے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے لئے معاشی تنگی کا باعث نہ بننے پائے اور ہر شخص خوشحال زندگی بسر کر سکے۔

12ایسے معاشی ادارے جڑ سے ختم کئے جائیں جن کے ذریعے دولت چند ہاتھوں میں جانے کا موقع ہے۔

13معاشی استحکام اور غیر استحصالی نظام کے لئے ضروری ہے کہ ہر شخص کوئی نہ کوئی کام کرے اور اپنی روزی خود کمائے۔ دوسرے کی محنت سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔

14ایسے پیشے جو نہ تو براہ راست ملکی پیداوار میں مدد دےتے ہیں اور نہ پیداواری اداروں کی فہرست میں آتے ہیں یا جو پیشے صرف دولت مندوں کی عیش و عشرت میں مددگار کا کام دےتے ہیں ختم ہو جانے چاہئیں۔ ان پیشوں سے معاشرہ اخلاقی اور معاشی دونوں طرح زوال پذیر ہو جاتا ہے۔

 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ جناب۔

یہ تو دور کی بات ہے کہ آپ پندرہ نکات کی بات کریں، جبکہ سب جانتے ہیں جھوٹ بولنا بری بات ہے، پھر بھی سب لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔
 
Top