پہلی اینگلو-افغان جنگ ہمیں بتاتی ہے کہ افغانستان پر مسلط کی گئی جنگوں کا انجام کس طرح ایک جیسا رہا

آصف اثر

معطل
1838 میں ہندوستان کے گورنر جنرل، لارڈ آکلینڈ نے افغانستان پر حملہ آور ہونے کا اعلان کرتے ہوئے پہلی انگریز-افغان جنگ کا طبلِ جنگ بجادیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب کے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ساتھ مل کر درۂ خیبر اور درۂ بولان سے افغانستان پر چڑھائی کردی۔

اس جنگ کا ایک مقصد افغانستان کے بادشاہ امیر دوست محمد خان کو تحت سے اتار کر شاہ شجاع کو تحت نشین کرانا تھا، کیوں کہ برطانیہ کے خیال میں امیردوست محمد خان، سلطنت برطانیہ کے خلاف روسیوں سے سازباز میں ملوث تھا۔ حملہ کافی سرعت سے کیا گیا۔ نتیجتا ماسوائے غزنی کے، کسی بھی افغان شہر سے خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

اگست 1839 کو برطانوی آشیرباد سے شاہ شجاع تحتِ کابل پر متمکن تھا۔ اگلے سال معزول دوست محمد خان کو سرتسلیم کر نے پر برطانوی راج نے یرغمال بنا کر ہندوستان بھیج دیا۔

شروع میں سب کچھ قابو میں دکھائی دے رہا تھا، لیکن تھوڑے ہی عرصے میں بغاوت کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے۔ اس پر طرہ یہ کہ برطانوی راج کو ایک ایسے ملک کو زیرِ نگین رکھنے کا بالکل بھی تجربہ نہیں تھا، جو پیچیدہ قبائلی رقابتوں اور سنگلاخ سرزمین کا حامل تھا، جس سے کسی آمدن کی توقع بھی نہیں رکھی جاسکتی تھی۔

حالات اس وقت قابو سے باہر ہوگئے جب کابل میں بغاوت برپاکرنے کے ذمہ دار، وزیر اکبر خان نے افغانستان میں فعال برطانوی سفیر ویلیم میکاگٹن کو قتل کرکے کیفرِ کردار تک پہنچا دیا۔

اگلے مہینے کابل اور جلال آباد کے درّوں اور گھاٹیوں میں ساڑھے سولہ ہزار نفری پر مشتمل پوری برطانوی فوج کو قتل کرکے نیست و نابود کردیا گیا۔

اپریل 1842 کو اس قتلِ عام کا بدلہ لینے کے لیے جنرل پولاک کی سربراہی میں برطانوی فوج کابل پر قبضہ کرنے اور جلال آباد میں محصور برطانوی گیرژن کو مدد پہنچانے کی خاطر درۂ خیبر کے راستے دوبارہ پوری طاقت سے حملہ آور ہوئی۔

برطانوی فوج کے قتلِ عام کا انتقام لیتے ہوئے جنرل پولاک نے مختصر وقت کے لیے کابل پر قبضہ کرکے شہر کے کچھ حصوں سمیت شمال میں واقع گاؤں اِستالِف کو جلادیا۔
تاہم ہندوستان کے نئے گورنر جنرل لارڈ ایلن بورو نے موسمِ سرما کے آغاز سے پہلے ہی برطانوی فوج کو افغانستان سے نکلنے کا حکم جاری کردیا۔

اگلے سال وزیر محمد اکبر خان نے اپنے والد امیر دوست محمد خان سے علی مسجد میں ملاقات کی اور ان کو اپنی محافظت میں درۂ خیبر سے کابل تک لے آئے تاکہ وہ دوبارہ سلطنت کا تاج سر پر رکھ سکے۔

یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ اس پہلی اینگلو افغان جنگ کا مقصد اگرچہ امیر دوست محمد خان کو تحت سے ہٹانا تھا، لیکن اسی جنگ کا خاتمہ امیر دوست محمد خان کے دوبارہ تحت نشینی پر ہوا۔

جب برطانیہ افغانستان سے نکلا تو اس وقت کابل، قندہار، غزنی اور جلال آباد ان کے قبضے میں تھے، ماسوائے ہرات اور مزارشریف کے۔
پھر بھی یہ جنگ برطانوی حکومت کے لیے اسٹریٹیجک یعنی فوجی حکمت عملی کے لحاظ سے شکست فاش ثابت ہوئی، کیوں کہ وہ اپنے طے کردہ کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اسی وجہ سے یہ جنگ انیسویں صدی میں برطانوی سلطنت کے لیے سب سے بڑی فوجی تباہی کی واحد مثال بن گئی۔

یہ جنگ بعد میں افغانستان پر ہونے والی تمام جارحیتوں کے لیے ایک نمونہ بن گئی جس کے چار مرحلے ہیں:
پہلا مرحلہ، بغیر کسی بڑے مزاحمت کے افغانستان پر تیزرفتار قبضہ؛ دوم، وقت کے ساتھ ساتھ غیرملکی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت میں اضافہ؛ سوم، جارح فوج کی شکست و ریخت۔ چہارم، حملہ آور ملک کا راہِ فرار۔

اس دعوے کی توثیق 1879-1880 کی دوسری اینگلو افغان جنگ، 1979-1989 کی سویت یونین جنگ، اور امریکی و ناٹو کی افغانستان میں حالیہ جنگ سے کی جاسکتی ہے۔

یہ امر دلچسپی کا باعث ہے کہ یہ تینوں فوجی جارحیتیں اپنے وقت کے سپرپاورز کی جانب سے کی گئی تھیں، اور تینوں پہلی اینگلو افغان جنگ کے چار مراحل پر مشتمل رہے۔

16 برس پہلے، اکتوبر کے مہینے میں امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا۔ اب جب کہ یہ جنگ انیسویں سال میں داخل ہورہا ہے، پہلی اینگلو افغان جنگ سے ہمیں کچھ واضح سبق ملتے ہیں۔ اگرچہ دونوں کے دورانیہ میں کچھ فرق ہے، لیکن ”چار مراحل“ پر مشتمل ترتیب دونوں میں یکساں رہی۔

پہلے مرحلے میں امریکہ افغانستان پر فوری حملہ آور ہوا۔ دوسرے مرحلے پر وقت کے ساتھ ساتھ امریکی افواج کے خلاف مزاحمت بڑھتی گئی۔ تیسرے مرحلے پر امریکی عہدیداروں کی جانب سے کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کیا کہ میدان جنگ پر حالات پلٹ چکے ہیں۔ اور آخر میں چوتھے مرحلے پر امریکا نے افغانستان سے اپنے دستے نکالنا شروع کردیے۔
باقی ماندہ فوجی جنگی آپریشنز میں جزوی کردار ادا کرنے تک محدود ہیں۔

اب ساکھ بچانے کی خاطر امریکا طالبان سے میز پر گفت و شنید کی حوصلہ افزائی کرنے پر مجبور ہے، حالاں کہ 2001 میں حالات مختلف تھے۔

امریکا نے طالبان کی امارت کو ہٹانے کے لیے ایک مہنگی جنگ شروع کی، لیکن اب یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ یہ جنگ آخر کار کسی معاہدے کے بعد اپنی انجام کو پہنچ جائے گی۔

یہ تحریر ڈان نیوز پر شائع درجہ ذیل مضمون کے پہلے متعلقہ نصف حصے کا ترجمہ ہے۔
The First Anglo-Afghan War shows us how the same pattern follows whenever Afghanistan is invaded - World - DAWN.COM
مصنف اروِن راہی، صوبہ پروان کے گورنر کا سابقہ مشیر ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
کوئی دوست برا نہ مانے۔ افغانیوں کو لڑنے کا ہنر آتا ہے، چاہے اُن پر کوئی حملہ کرے یا نہ کرے! زمانہء امن اس خطے میں ناپید ہے۔ اس کی جو چاہے توجیہات پیش کی جاویں! :)
 

الف نظامی

لائبریرین
ملکہ وکٹوریہ کے عہدِ حکومت میں انگریزوں نے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر حملہ کیا ۔ حضور شمس العارفین خواجہ شمس الدین سیالویؒ اپنے حجرہ مبارکہ میں تشریف فرما تھے، آپ اچانک اٹھے اور جنوبی دروازے کے قریب جا کر بڑے جلال سے فرمایا:
"جب افغان تلوار اٹھائیں گے تو اِس عورت (ملکہ وکٹوریہ) کا لندن میں اپنے لباس میں ہی (خوف کے مارے) پیشاب خطا ہو جائے گا"
حضرت اعلیٰ نے یہ الفاظ دو یا تین مرتبہ دہرائے اور اس جلالی کیفیت میں اپنی جگہ واپس تشریف لے گئے۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ برطانوی افواج نے عین اس وقت کابل پر حملہ کیا تھا ، لیکن پٹھانوں نے انہیں شکست سے دوچار کیا

(برصغیر میں برطانوی راج کی مخالفت میں صوفیائے سیال شریف کا کردار از پروفیسر ڈاکٹر محمد سلطان شاہ صدر شعبہ عربی و علوم اسلامیہ جی سی یونیورسٹی لاہور)
 

الف نظامی

لائبریرین
خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ سرگودھا میں تشریف فرما تھے کہ آپ کی پوتیاں آپ کے پاس آ کر کہنے لگیں کہ ہمارے سکول کی معلمات نے ہمیں افغان مجاہدین کے لیے چندہ لانے کو کہا ہے، اس وقت آپ نے بچوں کے سامنے جہاد کا مفہوم بتایا ، شہداء اور مجاہدین کی شان بیان فرمائی ۔ اس کے بعد خورد و نوش کا بہت سا سامان اپنی گاڑی بازار بھیج کر منگوایا اور افغان مجاہدین کے لیے بچیوں کے حوالے کیا۔
بحوالہ انوارِ قمریہ جلد دوم ،صفحہ 147
لر(پاکستان) او بر(افغانستان) یو مسلمان
 

الف نظامی

لائبریرین
امیر حبیب اللہ خان والی افغانستان نے کابل میں ایک مدرسہ مکتب حبیبیہ قائم کیا۔
مولانا عبید اللہ سندھی لکھتے ہیں
مکتب حبیبیہ کا نظم و نسق تمام کا تمام برصغیر کے افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ جب سے حبیب اللہ خان نے اپنی توجہ علوم و فنون کے اجراء کی طرف مبذول کی ہے۔ برصغیر کے ایک اساتذہ کا گروہ کابل میں مقیم ہے اور ان میں سے اکثر پنجابی ہیں۔
بحوالہ کتاب :
ڈاکٹر عبد الغنی (جلالپوری) ، صفحہ 37
ڈاکٹر عبد الغنی (جلالپوری) سابق پرائیویٹ سیکرٹری برائے امیر عبد الرحمن و امیر حبیب اللہ والیان افغانستان ، سابق رکن مجلس قانون افغانستان و رکن مجلس مشاورت برائے امان اللہ
 

الف نظامی

لائبریرین
انگریزوں نے افغانستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور بری طرح شکست کھائی ۔
حضرت قاضی احمد الدین چکوالی رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعہ کو فارسی اشعار میں حافظ شیرازی کی پہلی غزل پر تضمین کرتے ہوئے بڑے موثر انداز میں بیان کیا
پہلا شعر یہ ہے
نصاریٰ پرخسارہ اہلِ کابل را مقابل شد
الا یا ایھا الساقی ادر کاسا و ناولھا
(بحوالہ فوز المقال فی خلفاء پیر سیال)
لر(پاکستان) او بر (افغانستان) یو مسلمان
 

فرقان احمد

محفلین
یہ تو تبصرہ کم کیفیت نامہ زیادہ ہوا۔ :)
ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ امریکا کے چلے جانے کے بعد افغان آپس میں نہ اُلجھ پڑیں۔ اب بہت ہو گیا۔ افغانوں کی نئی نسل کو جنگ و جدل سے بچانے کے لیے خطے کی قوتوں کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہیے۔
 

آصف اثر

معطل
ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ امریکا کے چلے جانے کے بعد افغان آپس میں نہ اُلجھ پڑیں۔ اب بہت ہو گیا۔ افغانوں کی نئی نسل کو جنگ و جدل سے بچانے کے لیے خطے کی قوتوں کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہیے۔
چوں کہ افغان سرزمین طالبان تحریک کے ہاتھوں غیرملکی حملہ آوروں سے آزاد ہورہی ہے لہذا آپس کے جنگ و جدل کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوگا۔ البتہ شمالی اتحاد کو پڑوسی اور مغربی قوتیں ماضی کی طرح بطورِ مہرہ استعمال کرے گی۔
 
Top