آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

محمداحمد

لائبریرین
جنرل ایوب کی کابینہ کے ایک وزیر تھے جنہوں نے ایوب خان کو پہلے پاکستان کے ابراہم لنکن کا خطاب دیا اور بعد میں صلاح دین ایوبی کا۔ (مصنف نے وزیر کا نام بھی لکھا ہے لیکن اگر وہ نہ بھی لکھا جائے تو سب جان جائیں کہ وہ کون تھے کہ ممدوح تو عرصہ ہوا فوت ہو چکے لیکن مادح آج تک زندہ ہیں)۔

:):)
 

رانا

محفلین
محفلین ذرا ایک مدد تو کریں ایک معاملے میں۔
کچھ دنوں سے کہانیوں کا ایک مجموعہ پڑھ رہا تھا جو کسی نے دنیا کے مختلف حصوں سے مختلف افسانوں کا ترجمہ کرکے جمع کیا تھا۔ اس میں کل رات کو ایک دلچسپ کہانی شروع کی تو کہانی کے جس موڑ پر جاکر سسپنس پیدا ہوا عین اسی جگہ سے آگے کے صفحات غائب۔ اب سوچیں کیا حال ہوتا ہے ایسے موقع پر۔ ہر کہانی کے شروع میں مصنف کا نام بھی ہوتا ہے تو اس مصنف Roseled Efil کو گوگل کیا کہ شائد کہیں نیٹ پر یہ کہانی رکھی ہو تو کہیں کچھ پتہ نہ ملا ۔ یا تو نام غلط تھا یا ہمارے ڈائجسٹوں کی طرح کا کوئی غیر معروف مصنف ہوگا۔ بہرحال آپ کو کہانی کا خلاصہ سناتے ہیں، جس نے یہ کہانی پڑھی ہوئی ہے وہ ہمیں اس کے انجام سے آگاہ کردے۔:)

ایک جاسوسی سکھانے والا استاد اسکاٹ لینڈ یارڈ میں جاسوسی کے طلبا کی کلاس لے رہا ہوتا ہے اور ایک کیس کی تفصیلات بتاتا ہے کہ یہ کیس آج تک حل نہیں ہوسکا۔ چھ سال پہلے ایک تاجر اسکی بیوی اور بیٹی اپنے چھوٹے سے بحری جہاز سمیت غائب ہوگئے۔ جہاز تو کچھ عرصے بعد درست حالت میں ایک جزیرے پر مل گیا لیکن ان تینوں کا کچھ سراغ نہ ملا۔ تمام طلبا اس جزیرے پر پہنچتے ہیں کہ اس کیس کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ پہلے دن کچھ طلبا جہاز کو اسٹارٹ کرکے سمندر لے جاتے ہیں کہ شائد کوئی سراغ ملے۔ اگلے دن کچھ اور طلبا جہاز چلاتے ہیں۔ تیسرے دن ایک آخری طالب علم رہ جاتا ہے وہ کہتا ہے کہ آج میں جہاز لے کر جاؤں گا تم جہاز کے پیچھے بوٹ لے کر آنا کہ کوئی چیز مجھ سے نظر انداز ہوجائے تو تم نوٹ کرسکو۔ جہاز جب سمندر میں تھوڑا آگے جاتا ہے تو پیچھے بوٹ پر تعاقب کرنے والا بندہ دیکھتا ہے کہ جہاز چلانے والا اچانک کسی بات سے خوفزدہ ہوکر سمندر میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔ وہ بوٹ کو اس کے قریب لے کر جاتا ہے کہ اسے ڈوبنے سے بچائے لیکن وہ خوفزدہ ہوکر بوٹ کے مخالف سمت تیرنا شروع کردیتا ہے اور کچھ دیر بعد ڈوب جاتا ہے۔ سب افسوس کرتے ہیں کہ یہ کیا ہوا۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر پتہ لگ جائے کہ وہ کس چیز سے خوفزدہ ہوا تھا تو امید ہے کہ چھ سال پہلے والا کیس بھی حل ہوجائے کہ دونوں واقعات میں مماثلت لگتی ہے۔

یہاں سے آگے صفحات غائب۔ اب جس محفلین نے یہ کہانی پڑھی ہوئی ہے وہ بتائے کہ آگے کیا ہوا تھا؟
 
محفلین ذرا ایک مدد تو کریں ایک معاملے میں۔
کچھ دنوں سے کہانیوں کا ایک مجموعہ پڑھ رہا تھا جو کسی نے دنیا کے مختلف حصوں سے مختلف افسانوں کا ترجمہ کرکے جمع کیا تھا۔ اس میں کل رات کو ایک دلچسپ کہانی شروع کی تو کہانی کے جس موڑ پر جاکر سسپنس پیدا ہوا عین اسی جگہ سے آگے کے صفحات غائب۔ اب سوچیں کیا حال ہوتا ہے ایسے موقع پر۔ ہر کہانی کے شروع میں مصنف کا نام بھی ہوتا ہے تو اس مصنف Roseled Efil کو گوگل کیا کہ شائد کہیں نیٹ پر یہ کہانی رکھی ہو تو کہیں کچھ پتہ نہ ملا ۔ یا تو نام غلط تھا یا ہمارے ڈائجسٹوں کی طرح کا کوئی غیر معروف مصنف ہوگا۔ بہرحال آپ کو کہانی کا خلاصہ سناتے ہیں، جس نے یہ کہانی پڑھی ہوئی ہے وہ ہمیں اس کے انجام سے آگاہ کردے۔:)

ایک جاسوسی سکھانے والا استاد اسکاٹ لینڈ یارڈ میں جاسوسی کے طلبا کی کلاس لے رہا ہوتا ہے اور ایک کیس کی تفصیلات بتاتا ہے کہ یہ کیس آج تک حل نہیں ہوسکا۔ چھ سال پہلے ایک تاجر اسکی بیوی اور بیٹی اپنے چھوٹے سے بحری جہاز سمیت غائب ہوگئے۔ جہاز تو کچھ عرصے بعد درست حالت میں ایک جزیرے پر مل گیا لیکن ان تینوں کا کچھ سراغ نہ ملا۔ تمام طلبا اس جزیرے پر پہنچتے ہیں کہ اس کیس کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ پہلے دن کچھ طلبا جہاز کو اسٹارٹ کرکے سمندر لے جاتے ہیں کہ شائد کوئی سراغ ملے۔ اگلے دن کچھ اور طلبا جہاز چلاتے ہیں۔ تیسرے دن ایک آخری طالب علم رہ جاتا ہے وہ کہتا ہے کہ آج میں جہاز لے کر جاؤں گا تم جہاز کے پیچھے بوٹ لے کر آنا کہ کوئی چیز مجھ سے نظر انداز ہوجائے تو تم نوٹ کرسکو۔ جہاز جب سمندر میں تھوڑا آگے جاتا ہے تو پیچھے بوٹ پر تعاقب کرنے والا بندہ دیکھتا ہے کہ جہاز چلانے والا اچانک کسی بات سے خوفزدہ ہوکر سمندر میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔ وہ بوٹ کو اس کے قریب لے کر جاتا ہے کہ اسے ڈوبنے سے بچائے لیکن وہ خوفزدہ ہوکر بوٹ کے مخالف سمت تیرنا شروع کردیتا ہے اور کچھ دیر بعد ڈوب جاتا ہے۔ سب افسوس کرتے ہیں کہ یہ کیا ہوا۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر پتہ لگ جائے کہ وہ کس چیز سے خوفزدہ ہوا تھا تو امید ہے کہ چھ سال پہلے والا کیس بھی حل ہوجائے کہ دونوں واقعات میں مماثلت لگتی ہے۔

یہاں سے آگے صفحات غائب۔ اب جس محفلین نے یہ کہانی پڑھی ہوئی ہے وہ بتائے کہ آگے کیا ہوا تھا؟
واہ کہانی تو عمدہ ہے لیکن افسوس اس سے متعلق معلومات نہیں ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
محفلین ذرا ایک مدد تو کریں ایک معاملے میں۔
کچھ دنوں سے کہانیوں کا ایک مجموعہ پڑھ رہا تھا جو کسی نے دنیا کے مختلف حصوں سے مختلف افسانوں کا ترجمہ کرکے جمع کیا تھا۔ اس میں کل رات کو ایک دلچسپ کہانی شروع کی تو کہانی کے جس موڑ پر جاکر سسپنس پیدا ہوا عین اسی جگہ سے آگے کے صفحات غائب۔ اب سوچیں کیا حال ہوتا ہے ایسے موقع پر۔ ہر کہانی کے شروع میں مصنف کا نام بھی ہوتا ہے تو اس مصنف Roseled Efil کو گوگل کیا کہ شائد کہیں نیٹ پر یہ کہانی رکھی ہو تو کہیں کچھ پتہ نہ ملا ۔ یا تو نام غلط تھا یا ہمارے ڈائجسٹوں کی طرح کا کوئی غیر معروف مصنف ہوگا۔ بہرحال آپ کو کہانی کا خلاصہ سناتے ہیں، جس نے یہ کہانی پڑھی ہوئی ہے وہ ہمیں اس کے انجام سے آگاہ کردے۔:)

ایک جاسوسی سکھانے والا استاد اسکاٹ لینڈ یارڈ میں جاسوسی کے طلبا کی کلاس لے رہا ہوتا ہے اور ایک کیس کی تفصیلات بتاتا ہے کہ یہ کیس آج تک حل نہیں ہوسکا۔ چھ سال پہلے ایک تاجر اسکی بیوی اور بیٹی اپنے چھوٹے سے بحری جہاز سمیت غائب ہوگئے۔ جہاز تو کچھ عرصے بعد درست حالت میں ایک جزیرے پر مل گیا لیکن ان تینوں کا کچھ سراغ نہ ملا۔ تمام طلبا اس جزیرے پر پہنچتے ہیں کہ اس کیس کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ پہلے دن کچھ طلبا جہاز کو اسٹارٹ کرکے سمندر لے جاتے ہیں کہ شائد کوئی سراغ ملے۔ اگلے دن کچھ اور طلبا جہاز چلاتے ہیں۔ تیسرے دن ایک آخری طالب علم رہ جاتا ہے وہ کہتا ہے کہ آج میں جہاز لے کر جاؤں گا تم جہاز کے پیچھے بوٹ لے کر آنا کہ کوئی چیز مجھ سے نظر انداز ہوجائے تو تم نوٹ کرسکو۔ جہاز جب سمندر میں تھوڑا آگے جاتا ہے تو پیچھے بوٹ پر تعاقب کرنے والا بندہ دیکھتا ہے کہ جہاز چلانے والا اچانک کسی بات سے خوفزدہ ہوکر سمندر میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔ وہ بوٹ کو اس کے قریب لے کر جاتا ہے کہ اسے ڈوبنے سے بچائے لیکن وہ خوفزدہ ہوکر بوٹ کے مخالف سمت تیرنا شروع کردیتا ہے اور کچھ دیر بعد ڈوب جاتا ہے۔ سب افسوس کرتے ہیں کہ یہ کیا ہوا۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر پتہ لگ جائے کہ وہ کس چیز سے خوفزدہ ہوا تھا تو امید ہے کہ چھ سال پہلے والا کیس بھی حل ہوجائے کہ دونوں واقعات میں مماثلت لگتی ہے۔

یہاں سے آگے صفحات غائب۔ اب جس محفلین نے یہ کہانی پڑھی ہوئی ہے وہ بتائے کہ آگے کیا ہوا تھا؟
خود لکھ لیں رانا بھائی۔ آپ کے لیے کیا مسئلہ
 

رانا

محفلین
خود لکھ لیں رانا بھائی۔ آپ کے لیے کیا مسئلہ
یار آپ تو میرے کافی مزاج شناس ہوگئے ہیں۔:) سچ میں مجھے یہی خیال آیا تھا کہ انجام تو کہانی کا پتہ لگنا مشکل ہے کیوں نہ خود مکمل کرڈالیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جہاں سے کہانی ٹوٹی ہے اور جس طرح کا سسپنس پیدا کرکے ٹوٹی ہے وہاں سے مجھے لگتا نہیں کہ بھوتوں وغیرہ کو شامل کئے بغیر کہانی سے انصاف کرسکوں گا۔ اور دوسرے کی کہانی میں اپنے بھوت گُھسانا اچھی بات ہے بھلا؟:p
 

رانا

محفلین
کچھ مداوا اس ٹوٹی ہوئی کہانی کا ڈاونچی کوڈ سے ہوگیا جو دو تین دن پہلے شروع کی تھی۔ دلچسپ اور سسپنس سے بھرپور ناول۔
 

محمداحمد

لائبریرین
1848__19267.jpg


محرم کی چھٹیوں میں بشیر احمد لودھی صاحب کی معروف کتاب "توحید اور ہم" پھر سے پڑھی، اور ایمان تازہ کیا۔

یہ کتاب اُن لوگوں کے لئے مشعل راہ ہے جو تلاشِ حق کے متلاشی ہیں اور توحید الٰہی کے حوالے سے اپنی اُلجھنیں دور کرنا چاہتے ہیں۔ اس کتاب میں باقاعدہ حوالوں اور دلائل سے بات کی گئی ہے اور زیادہ تر حوالے قران ِ مجید سے لئے گئے ہیں۔
 

زیک

مسافر
David Reich کی کتاب Who We are and How We Got Here: Ancient DNA and the New Science of the Human Past پڑھنا شروع کی ہے۔

ڈیوڈ رائک کی لیب پرانے ڈی این اے سے متعلق ریسرچ میں سب سے آگے ہے اور اس بارے میں ان کے کافی پیپر پڑھ رکھے ہیں۔ اس کتاب میں اس ریسرچ کو اکٹھا کیا گیا ہے۔
 

عثمان

محفلین
David Reich کی کتاب Who We are and How We Got Here: Ancient DNA and the New Science of the Human Past پڑھنا شروع کی ہے۔

ڈیوڈ رائک کی لیب پرانے ڈی این اے سے متعلق ریسرچ میں سب سے آگے ہے اور اس بارے میں ان کے کافی پیپر پڑھ رکھے ہیں۔ اس کتاب میں اس ریسرچ کو اکٹھا کیا گیا ہے۔
چند ماہ قبل پڑھی تھی۔ عمدہ کتاب ہے۔
 

زیک

مسافر
David Reich کی کتاب Who We are and How We Got Here: Ancient DNA and the New Science of the Human Past پڑھنا شروع کی ہے۔

ڈیوڈ رائک کی لیب پرانے ڈی این اے سے متعلق ریسرچ میں سب سے آگے ہے اور اس بارے میں ان کے کافی پیپر پڑھ رکھے ہیں۔ اس کتاب میں اس ریسرچ کو اکٹھا کیا گیا ہے۔
بہترین کتاب ہے۔ پرانے ڈی این اے سے انسانی آبادی کے متعلق معلومات زبردست ہیں۔ البتہ فلسفے اور ایتھکس پر خیالات کا اظہار کچھ کمزور ہے۔ یہ نہیں کہ مجھے مصنف سے اختلاف ہے لیکن دلائل قائل کرنے والے نہ تھے
 

محمد وارث

لائبریرین
Pakistan in the Twentieth Century: A Political History by Lawrence Ziring

آنجہانی مصنف پاکستانی تاریخ پر ایک مستند نام تھے۔ 1957ء میں پہلی بار پاکستان میں مطالعاتی دورے پر تشریف لائے تھے اور اس کے بعد ساری زندگی پاکستانی اور جنوبی ایشیا کی تاریخ پر مطالعے اور پڑھانے میں صرف کر دی۔ مشی گن یونیورسٹی میں پروفیسر تھے اور امیریکن انسٹیویٹ آف پاکستان اسٹڈیز کے صدر بھی۔ پاکستان پر ایک درجن کے قریب کتابوں اور سو سے زیادہ مقالوں اور آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔ 2015ء میں 86 سال کی عمر میں دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔

مذکورہ کتاب 1997ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کی طرف سے گولڈن جوبلی سیریز میں شائع ہوئی تھی۔ کسی ملک کی تاریخ کو ایک والیم میں بیان کر دینا کوزے کو دریا میں بند کرنے کے مترادف ہے اور اس کا احساس ڈاکٹر صاحب کو خود بھی تھا لیکن انہوں نے کمال مہارت سے ساڑھے چھ سو صفحات کی کتاب میں اس کام کو مکمل کیا ہے۔ کتاب، مسلم لیگ کی ابتدا 1906ء سے شروع ہوتی ہے اور پہلے تین باب تحریک پاکستان اور تقسیم کے لیے وقف ہیں جب کہ باقی ابواب میں 1947ء سے 1997ء تک کی پچاس سالہ اتار چڑھاؤ والی پاکستانی تاریخ ہے۔

انتہائی عمدہ کتاب ہے، مجھے اتفاق سے فیس بک پر آن لائن پرانی کتابوں سے مل گئی، اب ان کی دوسری کتابیں بھی ڈھونڈ رہا ہوں، ایک کتاب کی پی ڈی ایف کاپی ملی ہے لیکن ہارڈ کاپی پاکستان میں شاید ہی مل سکے۔
1651460.jpg
 
Pakistan in the Twentieth Century: A Political History by Lawrence Ziring

آنجہانی مصنف پاکستانی تاریخ پر ایک مستند نام تھے۔ 1957ء میں پہلی بار پاکستان میں مطالعاتی دورے پر تشریف لائے تھے اور اس کے بعد ساری زندگی پاکستانی اور جنوبی ایشیا کی تاریخ پر مطالعے اور پڑھانے میں صرف کر دی۔ مشی گن یونیورسٹی میں پروفیسر تھے اور امیریکن انسٹیویٹ آف پاکستان اسٹڈیز کے صدر بھی۔ پاکستان پر ایک درجن کے قریب کتابوں اور سو سے زیادہ مقالوں اور آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔ 2015ء میں 86 سال کی عمر میں دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔

مذکورہ کتاب 1997ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کی طرف سے گولڈن جوبلی سیریز میں شائع ہوئی تھی۔ کسی ملک کی تاریخ کو ایک والیم میں بیان کر دینا کوزے کو دریا میں بند کرنے کے مترادف ہے اور اس کا احساس ڈاکٹر صاحب کو خود بھی تھا لیکن انہوں نے کمال مہارت سے ساڑھے چھ سو صفحات کی کتاب میں اس کام کو مکمل کیا ہے۔ کتاب، مسلم لیگ کی ابتدا 1906ء سے شروع ہوتی ہے اور پہلے تین باب تحریک پاکستان اور تقسیم کے لیے وقف ہیں جب کہ باقی ابواب میں 1947ء سے 1997ء تک کی پچاس سالہ اتار چڑھاؤ والی پاکستانی تاریخ ہے۔

انتہائی عمدہ کتاب ہے، مجھے اتفاق سے فیس بک پر آن لائن پرانی کتابوں سے مل گئی، اب ان کی دوسری کتابیں بھی ڈھونڈ رہا ہوں، ایک کتاب کی پی ڈی ایف کاپی ملی ہے لیکن ہارڈ کاپی پاکستان میں شاید ہی مل سکے۔
1651460.jpg

اوکسفرڈ پاکستان نے 2003 میں اسی کتاب کا اردو ترجمہ "بیسویں صدی میں پاکستان ،ایک سیاسی جائزہ" کے نام سے شائع کیا ۔ ہمارے ذخیرے میں یہی کتاب ہے۔

2009 میں پیراماؤنٹ بکس نے ان کی کتاب ۔دی ایوب خان ایرا: پالیٹکس ان پاکستان 1958-1969" شائع کی تھی جو ہمیں پرانی کتابوں سے مل گئی۔ یہ ابھی پڑھ نہیں پائے۔
 
آخری تدوین:
الطاف گوہر کی لکھی، جنرل ایوب خان کی سیاسی سوانح عمری، جو پہلی بار 1993ء میں چھپی تھی۔ اور پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔
Ayub Khan: Pakistan's First Military Ruler
41F%2B0m3KU8L.jpg

الطاف گوہر بیوروکریٹ تھے اور ایوب خان کے دور میں سیکرٹری اطلاعات و نشریات تھے۔ ایوب دور کا بدنامِ زمانہ کالا قانون 'پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس" انہی کے ذہن کی اختراع سمجھا جاتا ہے (گو الطاف گوہر اس الزام کو ماننے سے انکاری ہیں بلکہ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تو اس قانون کو نرم کیا، یہ بھی سنا ہے کہ بعد میں وہ اس قانون پر معذرت بھی کرتے رہے)۔ جنرل یحییٰ نے اپنے مارشل لاء کے بعد الطاف گوہر کو سرکاری نوکری سے فارغ کر دیا تھا اور ایوب خان کے عطا کردہ سارے سرکاری اعزار بھی چھین لیے۔ بھٹو دور میں 'ڈان' کے ایڈیٹر تھے اور بھٹو نے ان کو جیل میں بھی ڈالا۔ ایوب دور کے دوسرے بیوروکریٹس کی طرح الطاف گوہر بھی آخری عمر میں 'صوفی' بن گئے تھے۔

کتاب میں الطاف گوہر نے ایوب خان کی سیاسی سوانح تفصیل سے بیان کی ہے۔ ایوب دور کے ہر اہم واقعے پر تفصیل سے بات کی ہے۔ اپنی کتاب کو انہوں نے تقسیم سے پہلے سے 'کیبنٹ مشن' سے شروع کیا ہے اور پھر تقسیم، مسلم لیگ کا دورِ حکومت، گورنر جنرلوں کا دور، مسلم لیگ کی سیاسی افراتفری، ایوب خان کا پاکستان آرمی کو استوار کرنا، کولڈ وار میں امریکہ کا ساتھ دینا اور فوجی مدد لینا، مشرقی پاکستان کی صورتحال، 58ء کا مارشل لاء، ایوب کی بنیادی جمہوریت، 62ء کا آئین، 65ء کا صدارتی انتخاب، 65ء ہی کی جنگ اور تاشقند، ایوب کی خارجہ و داخلہ پالسیاں، ایوب خان کی اصلاحات، اور پھر زوال، غرض ہر موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے۔

ضخیم کتاب ہے اور ابھی پڑھنی شروع کی ہے سو اگلے کچھ ہفتے اسی کی معیت میں گزریں گی، تھوڑے ہی سے مطالعے سے کافی معلومات میں اضافہ ہوا، جیسے کہ:

-عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ 1958ء کا مارشل لاء صدر اسکندر مرزا نے لگایا تھا لیکن مصنف کا کہنا ہے کہ یہ جنرل ایوب کی اپنی خواہش تھی لیکن وہ محتاط کھیل رہے تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ سارا الزام اسکندر مرزا پر آئے (اور یہی ہوا)۔ مصنف کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنرل ایوب نے ایک 'بیک اپ' منصوبہ بھی بنایا ہوا تھا کہ اگر اسکندر مرزا کی مارشل لا لگانے کی کوشش ناکام ہو جائے تو کس طرح ایوب خان نے اپنے آپ اور فوج کو بچانا ہے اور یہی ظاہر کرنا کہ وہ اسکندر مرزا کے ساتھ نہیں۔

-1965ء کی جنگ کے بارے میں مصنف کا کہنا ہے کہ ایوب خان کو آپریشن جبرالٹر کے بارے میں اندھیرے میں رکھا گیا تھا اور غلط معلومات دی گئی تھیں (جنرل ایوب کو غلط معلومات دینے کے بارے میں مصنف موصوف خود بھی بہت بدنام تھے، اور یہ مشہور تھا کہ جنرل ایوب کے لیے الگ اخباریں پرنٹ کی جاتی تھیں)۔ مصنف کے بقول، فوجی جنرلوں اور بھٹو نے مل کر جنگ کا سارا ملبہ ایوب پر ڈال دیا اور تاشقند کے بعد یہ مشہور کر دیا کہ فوج نے جو جنگ میدان میں (فرضی طور پر) جیتی تھی وہ ایوب نے مذاکرات میں ہار دی اور یہیں سے ایوب کا زوال شروع ہوا۔

-جنرل ایوب کی کابینہ کے ایک وزیر تھے جنہوں نے ایوب خان کو پہلے پاکستان کے ابراہم لنکن کا خطاب دیا اور بعد میں صلاح دین ایوبی کا۔ (مصنف نے وزیر کا نام بھی لکھا ہے لیکن اگر وہ نہ بھی لکھا جائے تو سب جان جائیں کہ وہ کون تھے کہ ممدوح تو عرصہ ہوا فوت ہو چکے لیکن مادح آج تک زندہ ہیں)۔ :)
ایوب خان کی خود نوشت "جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی" بھی تو شاید الطاف گوہر نے ہی لکھی تھی؟
 

محمد وارث

لائبریرین
ایوب خان کی خود نوشت "جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی" بھی تو شاید الطاف گوہر نے ہی لکھی تھی؟
جی ہاں شنید یہی ہے کہ ایوب خان کی کتاب بھی الطاف گوہر ہی نے لکھی تھی لیکن کتاب پر نام بہرحال ایوب خان کا اپنا ہے۔ ایوب خان اپنی ایک ڈائری لکھا کرتے تھے، اسی کی مدد سے اور کچھ یادداشتیں ریکارڈ کروا کر "فرینڈز ناٹ ماسٹرز" لکھی گئی تھی جو بعد میں مذکورہ نام سے اردو میں ترجمہ ہوئی۔
 
Top