اسرائیل کیساتھ تعلقات،پاکستانی حکومت کیلئے دلچسپ تجاویز سامنے آنے لگیں

جاسم محمد

محفلین
اسرائیل کیساتھ تعلقات،پاکستانی حکومت کیلئے دلچسپ تجاویز سامنے آنے لگیں
676242_279648_Pak-Israel_akhbar.jpg

لاہور(صابرشاہ)ایک ایسے موقع پر جب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو رواں ماہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت سےقبل بھارت کا ایک مختصر دورہ کرسکتےہیں تو اس دوران پاکستان کےموجودہ وزیراعظم عمران خان کیلئےاپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنےاور یروشلم کے ساتھ کسی قسم کا تعلق قائم کرنے کیلئے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر کچھ "دلچسپ تجاویز"چل رہی ہیں۔ یکم ستمبر 2019 کے ایڈیشن میں 101 سال پرانے تل ابیب کے اسرائیلی اخبار "ہیریٹز" کا کہنا ہے:" وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حمایت کرنے والے فوجیوں نے انتہائی سنسرڈ میڈیا کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر بات کرنے کے حوالے سے غیر معمولی آزادی دے رکھی ہے۔ آج سے 14 سال قبل جب ان ممالک کی واحد عوامی دو طرفہ میٹنگ ہوئی تھی تو اب حالات کسی باقاعدہ اقدام کیلئے مناسب ہیں۔‘‘ 7200 کی اشاعت کیساتھ اس اسرائیلی اخبار نے26 اگست 2019 کو پاکستان کے ایک تجربہ کار صحافی اور ٹیلی ویژن ہوسٹ کی جانب سے کی گئی ٹویٹ کا حوالہ بھی دیا ہے،جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں اور ان کےکاموں سےکافی واقف ہیں۔پاکستانی صحافی نے ٹویٹ میں لکھا:اب وقت ہےکہ پاکستان بھارت کی جرات مندانہ خارجہ پالیسی اورنفرت انگیزبھارتی منصوبوں کاجواب دے۔ ہمارے گہرے دوست نئےاتحاد بنارہےہیں۔ کوبئی مستقل دوست یامستقل دشمن نہیں۔ ہم کیوں اسرائیلی ریاست کےساتھ کھلےعام اوربراہ راست بات چیت کےلئےبحث نہیں کرسکتےہیں؟

" اسی پاکستانی صحافی نےاسی دن یک اور ٹویٹ میں اردو میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کے اردو ٹویٹ کا انگریزی ترجمہ:" گذشتہ 40 سالوں سے اسرائیل پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا خواہش مندرہاہے یا کم از کم اس کی طرح کے تعلقات اس نےمتعدد مسلم ممالک کے ساتھ قائم کرلئےہیں۔ ہم نے ہمیشہ اس طرح کی تجاویز کو مسترد کیاتاکہ ہمارے ساتھی مسلم ممالک کواس بارے میں برا نہ لگے۔ لیکن بہت سےمسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو پروان چڑھارہے ہیں اور حتٰی کہ پاکستان کے دشمن نریندرمودی کو گلے بھی لگالیا۔ اب وقت ہے کہ پاکستان اپنے وسیع قومی مفاد میں فوری فیصلے کرے۔ "کچھ سال پہلے،پاکستان اقوام متحدہ کے ان 31 ممبر ممالک میں شامل تھا جو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو تسلیم یااس سےسفارتی تعلقات قائم نہیں کیےتھے۔ ان میں شامل ہیں: بحرین، کوموروس ، جبوتی، عراق ، کویت ، لبنان ، لیبیا ، مراکش ، موریتانیا ، عمان ، قطر، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، سوڈان ، شام ، تیونس ، صومالیہ ، یمن ، افغانستان ، بنگلہ دیش ، برونائی ، انڈونیشیا ، ایران ، ملائیشیا ، مالی ، نائجر ، اور پاکستان ، اور بھوٹان ، کیوبا، اورشمالی کوریا۔

لیکن اب ، یہ صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے کیونکہ مختلف ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات یا بات چیت کا آغاز کیا ہے۔ مثال کے طور پر ، اسرائیل کے سعودی عرب اوردیگرخلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات ایک غیر معمولی تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عرب ممالک کی توجہ اسرائیلی فلسطین تنازعہ سے ہٹ کرایرانی خطرے سے نمٹنے پرلگ گئی ہے۔ البتہ اسرائیل اور سعودی عرب نے کوئی سرکاری سفارتی تعلقات قائم نہیں کیےہیں،دونوں فریق ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ 1948 کی عرب اسرائیلی جنگ میں سعودی عرب کے فوجیوں نے اسرائیل کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا،اورمصری کمانڈ کے تحت لڑنے کے لئے تقریبا 1،000 فوجیوں بھیجےتھے۔ اس وقت سعودیوں نے اسرائیل کی مخالفت میں مشرق وسطی کے دیگر ممالک کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے عرب لیگ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ سعودیہ عرب نے 1973 میں بھی "یوم کپورجنگ" میں حصہ لیا تھا ، شام میں عرب افواج کی مدد کے لئے تقریبا2000وجیوں کو بھیجا تھا۔ . جب مصر نے اسرائیلیوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تو سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں نے مصر کےساتھ امداد اور سفارتی تعلقات منقطع کرکے اپنی ناراضگی کااظہار کیا۔ تقریباًایک دہائی کےبعد سعودی عرب نےان ٹوٹےہوئےتعلقات کوازسرنوتشکیل دیا۔سنہ 2019 میں لندن کے"مڈل ایسٹ مانیٹر" نے رپورٹ کیا: "اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کے ایک سابق رکن نےانکشاف کیاہےکہ سعودی عرب اسرائیل سےقدرتی گیس خریدناچاہتاہے۔ سابق وزیرِمواصلات ایوب کارانےیروشلم میں دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہاکہ دونوں ممالک نےایک پائپ لائن بنانےکےبارےمیں تبادلہ خیال کیاجوسعودی عرب جنوبی اسرائیلی شہر ایلاٹ سےداخل ہوگی جو خلیجِ عقبہ میں واقع ہے۔ جن معاہدوں پربات چیت کی گئی تھی وہ دس سال قبل اسرائیلی سمندروں میں بڑی مقدارمیں قدرتی گیس کی دریافت سے شروع ہوئی تھی۔ جس کےلئےگیس کےذخیرہ کرنے والی کمپنیاں پہلے ہی 25 ارب ڈالرکے معاہدوں پر دستخط کرچکی تھیں، لیکن اس کے باوجود 80 فیصدسے زائدوسائل دوسرے خریداروں کودستیاب تھے۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین یہ بات چیت اس امید کے ساتھ کی گئی کہ سعودی عرب اُس خلا کو پُر کرے گا،اپنی سستی بجلی کی ضرورت کوپورا کرنے کیلئے گیس میں یہ اس سے چھ گنازیادہ سرمایہ کاری کرنا اس کے منصوبے کا حصہ تھا۔

متحدہ عرب امارات کے معاملے میں "ٹائمز آف اسرائیل" نے یہ رپورٹ کیا:"متحدہ عرب امارات کےایک سینئر وزیر نےاسرائیل اور عرب تعلقات میں" اسٹریٹجک تبدیلی"کامطالبہ کرتےہوئےکہاہےکہ یہودی ریاست کابائیکاٹ کرنے کےعرب دنیاکادہائیوں پرانافیصلہ غلط تھا۔ "اسرائیلی میڈیا ہاؤس نےمتحدہ عرب امارات کےوزیرمملکت برائے امورخارجہ انورگرگش کےحوالےسےکہا: "بہت سال پہلے، جب اسرائیل کےساتھ رابطےنہ کرنے کاعرب فیصلہ آیا تھا،تویہ بہت ہی غلط فیصلہ تھا۔"مارچ 2019 میں برطانوی اخبار" دی گارڈین "نے لکھا:" کئی دہائیوں کی دشمنی کے بعد ایران سے مشترکہ نفرت اور ٹرمپ کیلئےمشترکہ پسندیدگی سے اسرائیل کے خلیجی ریاستوں کے ساتھ خفیہ روابط سامنے آرہےہیں۔ فروری 2019 کے وسط میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہوایک انتہائی غیر معمولی کانفرنس کے لئے وارسا روانہ ہوئے۔ امریکی نائب صدرمائک پینس کی زیرنگرانی انہوں نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دودیگر خلیجی ریاستوں کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کی جن کےاسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ ایجنڈے کی اصل چیز ایران پر مشتمل تھی۔ وہاں کوئی فلسطینی موجود نہیں تھا۔ اسرائیل اور خلیجی ممالک کےدرمیان بیشتر موجودہ روابط کو خفیہ رکھا گیا ہے - لیکن یہ بات چیت خفیہ نہیں رکھی گئی۔"

اس میں مزیدکہاگیا:" نیتن یاہوکی وارسا میں سعودیوں اور اماراتیوں کے ساتھ ملاقات مشرق وسطی کی اس بدلتی حقیقت کی پہلی ڈرامائی جھلک نہیں تھی۔ گذشتہ اکتوبر میں اسرائیلی وزیر اعظم نے عمان کے دارالحکومت مسقط میں سلطان قابوس بن سعیدکے ساتھ گفتگو کی تھی۔ اسی دن ان کی لیکود پارٹی کی ساتھی وزیر ِبرائےثقافت اورکھیل ماری ریگیو متحدہ عرب امارات میں ابو ظہبی کے دورے پر تھیں ، اسی دوران اسرائیلی کھلاڑی قطر کےقریب ہی دوحہ میں حصہ لے رہے تھے۔اسرائیل اور خلیج تعاون کونسل(جی سی سی)کےچھ اراکین میں سے پانچ کےدرمیان تیزی سے تعلقات بڑھ رہے ہیں۔ ان میں سے کسی کے بھی اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات نہیں ہیں۔ "آئیے پاک اسرائیل تعلقات اور ٹائم لائن پر ایک نظر ڈالیں: اسرائیل اور پاکستان کے ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں ، اور پاکستانی پاسپورٹ میں لکھا ہے: "یہ پاسپورٹ اسرائیل کے سوا دنیا کے تمام ممالک کے لئےہے۔" پاکستان اوراسرائیل دونوں ہی 1947 میں نظریاتی اعلانات پر قائم ہوئےتھے۔ پاکستان کیلئے یہ مشہور "دو قومی نظریہ" تھا، اسرائیل کیلئےیہ"یہودی عوام کے لئےہوم لینڈ" کےنظریے پر مبنی تھا۔

پاکستان اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوشش 1947 میں کی گئی تھی ، جب اسرائیل کا پہلا وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریون تھا، اس نے قائداعظم محمد علی جناح کو ایک ٹیلیگرام بھیجا تھا، لیکن بعدمیں آنےوالوں نے اس پر کوئی خاص ردِعمل نہیں دیا۔1949 میں فلپائن کی ایئرلائنز کےذریعے منیلا سےلندن سروس کےباعث کراچی اورلود(تل ابیب ) کےدرمیان براہ راست ہوائی رابطہ قائم ہوا ، تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان دونوں کےدرمیان ٹریفک کےحقوق موجودتھےیانہیں، جس سے مسافروں کواس راستے پر سفراورکارگوکی اجازت ہو۔ (حوالہ: فلپائن ایئر لائنز 22 اکتوبر 1949 کا ٹائم ٹیبل) لندن میں پاکستان کے سفیر (ہائی کمشنر) اور اسرائیل کے نمائندوں کے درمیان کچھ ابتدائی رابطہ 1950 کے اوائل میں ہوا تھا تاکہ کراچی میں سفارتخانہ کھولاجاسکے،یا کم از کم آزادانہ طورپرتجارت ہوسکے۔ پھر اس کے بعد نیو یارک میں پاکستانی وزیر خارجہ ظفر اللہ خان اور امریکہ میں اسرائیل کےسفیراباایبان کے درمیان جنوری 1953 میں اسرائیلی اورپاکستانی تعلقات پرتبادلہ خیال کے لئے ایک ملاقات ہوئی تھی۔(حوالہ: دی جیوئش پالیٹکل ریوئیو)

اپنی کتاب ’’چارلی ولسن کی جنگیں‘‘ میں "سی بی ایس نیوز" سےوابستہ ایک امریکی صحافی جارج کریل نے دعویٰ کیاکہ" 1980 اور 1988 کےدرمیان امریکی سی آئی اے ، اسرائیلی جاسوس ایجنسی موساد ، پاکستانی آئی ایس آئی اوربرطانوی جاسوس ایجنسی ایم آئی5 نےافغانستان میں سوویت یونین کونکالنےکے لئے "آپریشن سائکلون" کے نام سے ایک خفیہ آپریشن کیاتھا۔ امریکی صحافی نے دعوی کیاکہ اس کارروائی کے دوران اسرائیل اور پاکستان کے مابین اپنی خفیہ ایجنسیوں کے توسط سے اعلی سطح کےمعاملات بھی ہوئے ، ان میں ملٹری معاہدے اور پاکستان کو سوویت ہتھیاروں کی فراہمی اوراسرائیلی حمایت بھی شامل تھی۔ اپنی کتاب میں صحافی جارج کیریل نے مزید انکشاف کیاکہ کہ 1993 کے دوران سابق پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹونے پاک فوج کےملٹری آپریشنزکےڈائریکٹرجنرل پرویز مشرف کےساتھ مل کر آئی ایس آئی کے موسادکے ساتھ رابطوں کوبڑھایا۔ کہا جاتا ہے کہ بے نظیر نے1995 میں امریکاکےدورےکےدوران ایک سینئر اسرائیلی سفیر سے نیویارک میں خفیہ ملاقات کی تھی۔ بی بی سی نیوز نے رپورٹ کیاتھا 2003 میں پاکستانی صدرپرویزمشرف نےاسرائیل کےساتھ ممکنہ سفارتی تعلقات کامعاملہ اٹھایاتھا۔چینی "ژنہوانیوزایجنسی"نےرپورٹ کیا کہ2005 میں پاکستانی اور اسرائیلی وزرائےخارجہ نےپہلی بارملاقات کیا، اگرچہ اس اجلاس کے بعد ، جنرل مشرف نے زور دے کر کہا تھا کہ جب تک آزاد فلسطین کی ریاست قائم نہیں ہو جاتی اس وقت تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ ایک دہائی پہلے سے ہی "وکی لیکس" نے کہا کہ پاکستان اور اسرائیل نے استنبول میں اپنے سفارت خانوں کو ایک دوسرے سے ثالثی یا تبادلہ خیال کے لئے استعمال کیا تھا۔ مذکورہ بالا این جی اوکےمطابق 2010میں پاکستان نے ایک دہشت گرد گروہ کے بارے میں اسرائیل کومعلومات فراہم کرنے کے لئے استنبول میں اپنا سفارت خانہ استعمال کیا تھا۔ "پریس ٹرسٹ آف انڈیا" کےمطابق ،2011 میں اسرائیل نےمبینہ طورپر برطانوی فوجی ٹکنالوجی پاکستان کو برآمد کی تھی۔ اسرائیلی اخبار"ہیریٹز"نےرپورٹ کیاکہ2015 میں ایک اسرائیلی سائنسدان رمزی سلیمان نے لاہور میں پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے زیر اہتمام سائنس میلےمیں شرکت کی تھی۔

2017 میں بھارت کےسرکاری دورے کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو ان باتوں کومستردکردیا تھا کہ بھارت کےساتھ ان کے تعلقات پاکستان کےلئےخطرہ ہیں۔ ایک پاکستانی اخبار نے ان کے حوالے سے کہا ہے کہ: "ہم (اسرائیل) پاکستان کے دشمن نہیں ہیں اور پاکستان کو بھی ہمارا دشمن نہیں بننا چاہئے۔" بھارت اور اسرائیل کےدوطرفہ تجارتی اعدادوشمار: پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت کے برعکس اسرائیل نے 1992 میں مکمل سفارتی تعلقات قائم کیے اور اس کے بعد دونوں ممالک کے مابین دوطرفہ تعلقات پروان چڑھے۔ 390.656ارب ڈالر کےمعمولی جی ڈی پی اور43،199 ڈالر فی کس برائے نام جی ڈی پی کےساتھ 2018میں اسرائیل کادوطرفہ تجارتی حجم 5.84ارب ڈالر (دفاعی تعاون کو چھوڑ کر)تھا۔ اسرائیل میں بھارتی سفارتخانے کےمطابق دو طرفہ تجارت کاتوازن 1.8ارب ڈالر کےساتھ بھارت کے حق میں ہے۔ بھارت اسرائیل سے اہم دفاعی ٹیکنالوجی درآمد کرتاہے۔ مسلح افواج کے درمیان باقاعدگی سے تبادلے ہوتے ہیں۔ بھارت 38،000 سے زیادہ اسرائیلیوں کی پسندیدہ جگہ ہےجو ہر سال سیاحت اور کاروبار کے لئےبھارت جاتے ہیں۔ 2013 میں 40،000 سے زائد بھارتی شہری اسرائیل گئے، جواسرائیل جانےوالےکسی ایشیائی ملک کےسیاحوں کی سب سےبڑی تعدادہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اگر ہم پاکستانی غلطی پر ہیں، اور ہماری ذہن سازی کی ضرورت ہے، تو کیا ہمارا 'ذہن بنانے' کے حوالے سے قدرے تاخیر نہیں ہو گئی! :) فی الوقت، پاکستان میں اسرائیل کے متعلق نفرت کی فضا بدستور قائم ہے اور عمران خان صاحب سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اس حوالے سے کوئی 'فوری پیش رفت' دکھائیں گے، بہت زیادہ مشکل معلوم ہوتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کامران خان کے پروگرام کے بعد ہی ہیرہٹز نے لکھا ہے۔ چنگاری سلگے گی تو دھواں تو نکلے گا۔ کامران خان کو کس نے اشارہ دیا ہوگا؟

جی۔ آجکل اسرائیل کے نامور اخبارات نے پاکستان کے بارہ میں تواتر کے ساتھ لکھنا شروع کر دیا ہے۔ یعنی اندر خانے کچھ ہلچل ہو رہی ہے۔
Is Pakistan preparing to recognize Israel? | Opinion
 

سین خے

محفلین
یہ عوام کو ذہنی طور پر تیار کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ حالیہ سالوں میں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان پس پردہ تعاون اور تعلقات کی خبریں تواتر سے دیکھنے میں آتی رہی ہیں۔ اس تعاون کے پیچھے مقصد ایران سے نمٹنا ہے۔ عرب ممالک کے نزدیک اب فلسطین کا مسئلہ اتنا اہم نہیں رہا ہے۔ سعودی عرب کی کوشش رہی ہے کہ یہ تعلقات منظر عام پر نہ آئیں لیکن دوسرے عرب ممالک جیسے عرب امارت، عمان، بحرین وغیرہ پبلکلی اسرائیلوں سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔

Saudi-Israeli relations: The emergence of a new alliance
 
آخری تدوین:

جان

محفلین
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ پاکستانی اسلامی جماعتیں ایران سے دشمنی اورسعودی شاہی خاندان سے محبت کی خاطر اسرائیل کو بھی دوست تسلیم کرنے سے انکار نہ کریں گی۔ اہم پہلو یہ ہے کہ اگر حکومت کی طرف سے یا سعودی شاہی خاندان کی طرف سے موجودہ "عالمین" کو راضی کر لیا گیا تو ان کے فالورز خود راضی ہو جائیں گے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ پاکستانی اسلامی جماعتیں ایران سے دشمنی اورسعودی شاہی خاندان سے محبت کی خاطر اسرائیل کو بھی دوست تسلیم کرنے سے انکار نہ کریں گی۔ اہم پہلو یہ ہے کہ اگر حکومت کی طرف سے یا سعودی شاہی خاندان کی طرف سے موجودہ "عالمین" کو راضی کر لیا گیا تو ان کے فالورز خود راضی ہو جائیں گے۔ :)
امید پہ دنیا قائم ہے۔ فی الحال سعودی نواز عالمین کا ایک ٹولہ پاکستان کو یہودی حکومت سے بچانے اسلام آباد تشریف لا رہا ہے۔
 
امید پہ دنیا قائم ہے۔ فی الحال سعودی نواز عالمین کا ایک ٹولہ پاکستان کو یہودی حکومت سے بچانے اسلام آباد تشریف لا رہا ہے۔
اوبر ڈرائیور کو یاد سے ڈرائیوری کے لیے بھجوائیے گا۔۔بات چیت تو باجوہ صاحب کرہی لیں گے۔
 

آورکزئی

محفلین
امید پہ دنیا قائم ہے۔ فی الحال سعودی نواز عالمین کا ایک ٹولہ پاکستان کو یہودی حکومت سے بچانے اسلام آباد تشریف لا رہا ہے۔

میرے خیال میں یہی چھوٹا سا ٹولہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں اڑے آرہا ہے۔۔۔ ہے نا ؟؟
 

اے خان

محفلین
عمران خان اور اسرائیل……..حامد میر
یہ ایک پرانی بحث ہے جو نئے پاکستان میں ایک نئے زاویے سے دوبارہ شروع ہو چکی ہے۔ عوام الناس کو اس بحث کی خبر نہیں کیونکہ یہ بحث اقتدار کے ایوانوں تک محدود ہے۔ پاکستان اور بھارت میں حالیہ کشیدگی کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کچھ ایسے اقدامات کئے ہیں جن پر انہیں صرف پاکستان میں نہیں بلکہ بھارت میں بھی خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے کیونکہ ان اقدامات سے دنیا میں پاکستان کی ساکھ بہت بہتر ہوئی۔ پاکستان کو صرف بھارت نہیں بلکہ کئی اور بیرونی ممالک کی سازشوں کا بھی سامنا ہے اور ان ممالک میں اسرائیل سرفہرست ہے۔ 26فروری کو بالا کوٹ کے قریب جابہ میں بھارتی ایئر فورس کے حملے کے بعد سے عالمی میڈیا میں یہ اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ اس حملے میں بھارت نے اسرائیلی ساختہ اسلحہ استعمال کیا۔ مصدقہ ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ بھارت نے اسرائیل کے ساتھ مل کر راجستھان کے راستے سے پاکستان پر ایک بڑے حملے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن پاکستان کے خفیہ اداروں کو اس حملے کی قبل از وقت اطلاع مل گئی اور پاکستان نے بھارت کو یہ پیغام بھجوایا کہ اگر ہماری سرزمین پر دوبارہ حملہ کیا گیا تو بہت بھرپور جواب دیا جائے گا اور یوں بھارت کا یہ حملہ ٹل گیا۔ بھارت اور اسرائیل کے اس ’’پاکستان دشمن اتحاد‘‘ کے تناظر میں کچھ دنوں سے عمران خان کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ ہمیں بھارت اور اسرائیل کا اتحاد توڑنے کیلئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لینا چاہئیں۔ عمران خان کو یہ مشورہ 26؍فروری کے بھارتی حملے سے پہلے بھی دیا گیا تھا اور 26فروری کو بھارتی حملے کے بعد بھی دیا گیا۔ مشورہ دینے والوں کا کہنا ہے کہ اگر تنظیم آزادی فلسطین کے نمائندے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کر سکتے ہیں، اگر مصر، اردن اور ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہو سکتے ہیں تو پھر پاکستان کو بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لینا چاہئیں اس طرح پاکستان کے خلاف اسرائیل اور بھارت کا اتحاد ختم ہو جائیگا۔ یہ مشورہ اسرائیل نہیں بلکہ پاکستان کے مفاد میں نظر آتا ہے۔ عمران خان یہ مشورہ تسلیم کرنے کا اشارہ بھی دے دیں تو پورے مغرب کے ہیرو بن سکتے ہیں لیکن ان مشوروں پر ان کا سادہ سا جواب تھا۔ ’’دل نہیں مانتا‘‘

مشورہ دینے والوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو دل کی نہیں بلکہ دماغ کی بات ماننا چاہئے لیکن عمران خان کہتے ہیں کہ میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے ظلم کی تائید نہیں کر سکتا۔ مجھے مشورہ دینے والوں کی نیت پر ذرہ بھر شک نہیں لیکن عمران خان کا جواب سن کر دل کو اطمینان ہوا کہ بہت سی خامیوں کے باوجود عمران خان کسی دبائو اور خوف میں آنے والا سیاستدان نہیں۔ ان کے یوٹرن لینے کی سیاست پر میں نے بہت تنقید کی ہے لیکن مجھے امید ہے کہ وہ اسرائیل کے معاملے پر یوٹرن نہیں لیں گے کیونکہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا معاملہ پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحث جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں شروع ہوئی تھی جب امریکہ نے ’’آپریشن سائیکلون‘‘ کے ذریعہ افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے ’’مجاہدین‘‘ کو اسلحہ فراہم کرنے کے لئے پاکستان کیساتھ ساتھ اسرائیل کی خدمات بھی حاصل کیں۔ 1988میں محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو ان کو اسرائیل کے ساتھ بات چیت کے چینل کھولنے کا مشورہ دیا گیا۔ مشورہ دینے والے صاحب سرکاری ملازم تھے۔ اس زمانے میں نصیر اللہ بابر محترمہ بے نظیر بھٹو کے ایڈوائزر تھے۔ بابر صاحب کو اس مشورے میں سازش کی بو نظر آئی لہٰذا مذکورہ سرکاری ملازم کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ 1990میں اس سرکاری ملازم نے صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ مل کر محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نواز شریف صاحب کی حکومت آئی تو انہیں بھی اسرائیل کو ’’انگیج‘‘ کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ 1993میں محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیراعظم بنیں تو انہیں پیشکش کی گئی کہ اگر وہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو پاکستان کے تمام بیرونی قرضے معاف ہو سکتے ہیں۔ 1994میں ان کی جنیوا میں یاسر عرفات سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے یاسر عرفات کو بتایا کہ مجھے کہا جاتا ہے کہ اگر پی ایل او کے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات ہو سکتے ہیں تو پاکستان اور اسرائیل میں بات کیوں نہیں ہو سکتی؟ یاسر عرفات پھٹ پڑے۔ گلوگیر لہجے میں کہا ہمیں مار مار کر اسرائیل سے مذاکرات پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کے لئے تیار نہیں اور مذاکرات کے ذریعہ صرف ہمیں اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔ اگر پاکستان نے اسرائیل کے ساتھ دوستی کر لی تو ہم مذاکرات کے قابل بھی نہ رہیں گے۔ اس ملاقات کے اگلے دن میں نے ڈیووس میں اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز کا انٹرویو کیا جس میں انہوں نے پاکستان کے ساتھ دوستی کی خواہش ظاہر کی لیکن بے نظیر حکومت نے اس معاملے پر بریک لگا دی۔

اسرائیل کے ساتھ دوستی کی کھلم کھلا کوششوں کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا۔ اگر ایسی کوشش نواز شریف یا محترمہ بے نظیر بھٹو کرتے تو واجب القتل قرار پاتے۔ مشرف حکومت کی طرف سے اسرائیلی حکومت کے ساتھ سرعام رابطوں پر پاکستان کی پارلیمنٹ میں تو شور ہوا لیکن غداری اور کفر کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والے خاموش رہے۔ واضح رہے کہ عمران خان سمیت وہ تمام پاکستانی جو اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے مخالف ہیں ، یہودیوں کے ساتھ تعلقات کے مخالف نہیں۔ یہودیوں کے ساتھ تعلقات اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں فرق ہے۔ بہت سے یہودی بھی اسرائیل کی فلسطین دشمن پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ جس طرح بھارت کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا اسرائیل نے فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیل نے 2017میں تل ابیب کے بجائے یروشلم (بیت المقدس) کو اپنا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ امریکہ نے تو یروشلم میں اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کر دیا، کیا پاکستان یروشلم میں اپنا سفارتخانہ قائم کر سکتا ہے؟ پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد کشمیر پر پاکستان کا موقف مضبوط ہو گا یا کمزور؟ 23مارچ کو ہم یوم پاکستان مناتے ہیں۔ 23مارچ 1940کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ نے فلسطینی مسلمانوں کے حق میں بھی ایک قرار داد منظور کی تھی۔ 1945میں قائد اعظمؒ نے بمبئی کے ایک جلسے میں امریکی صدر ٹرومین کے خلاف شیم شیم کے نعرے لگوائے اور کہا کہ وہ دس لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کے بجائے امریکہ میں آباد کیوں نہیں کر لیتا؟ 1947میں اسرائیل کے وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے قائداعظمؒ کو ٹیلی گرام بھیجا کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں لیکن پاکستان نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کی مخالفت کی۔ جن مسلم ممالک نے رائے عامہ کو نظر انداز کر کے اسرائیل کو تسلیم کیا وہاں انتہاء پسندی نے جنم لیا۔ مصر ایک مثال ہے۔ ترکی نے 1949میں اسرائیل سے تعلقات قائم کئے لیکن آج دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو صرف بھارت کے ساتھ اس کے اتحاد کی نظر سے نہیں بلکہ مسئلہ فلسطین پر قائداعظمؒ کے موقف کی روشنی میں دیکھا جانا چاہئے۔ فلسطین اور کشمیر کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر عمران خان کا دل نہیں مانتا لیکن فیصلہ عمران خان نے نہیں پارلیمنٹ نے کرنا ہے۔ اس معاملے پر بند کمروں میں نہیں پارلیمنٹ کے کھلے اجلاس میں بحث ہونی چاہئے۔ ہمیں دھوکے میں نہیں رہنا چاہئے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بعد بھی پاکستان کے خلاف سازشیں ختم نہیں ہوں گی۔ اصل نشانہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام ہے۔ اسرائیل صرف نیو کلیئر فری پاکستان کا دوست بن سکتا ہے۔
ربط
 
Top