کیا آپ اپنی رشتہ دار خواتین کو ملازمت/کاروبار کی اجازت دیں گے؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

حُر نقوی

محفلین
(نوٹ: یہ میری پہلی پوسٹ ہے، اگر غلط سیکشن میں آگیا ہوں تو اسے صحیح جگہ پوسٹ کردیں یا رہنمائی کردیں تاکہ میں اسے ٹھیک جگہ لگا سکوں)
اس اہم معاشرتی موضوع پر ٹی وی، ریڈیو ، سوشل میڈیا اور آن لائن فورمز وغیرہ پر کئی مرتبہ بحث اور مکالمے ہوچکے ہے۔ ہمارے معاشرے میں قدامت پرست، اعتدال پسند اور آزاد خیال تمام طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ان تینوں طرح کے خیالات رکھنے والے لوگوں کے درمیان بھی ایک سیدھی لکیر کھینچنا ممکن نہیں۔ اب اسی اہم معاملے کو لے لیجئے، کئی قدامت پرست کہلانے والے مرد بھی اپنی خواتین کو مخصوص شعبہ جات میں ملازمت کی مشروط اجازت دیتے ہیں۔ دوسری طرف بعض آزاد خیال لوگ اگرچہ اپنی خواتین کو زبردستی کام سے روکتے تو نہیں لیکن انہیں وہ مناسب سہولیات اور حوصلہ بھی نہیں دیتے کہ وہ شعبہ ہائے زندگی میں کام کرسکیں۔ دلچسپی رکھنے والے تمام معزز اراکین سے درخواست ہے کہ مندرجہ ذیل ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں:

سوال نمبر1: کیا آپ اپنی رشتہ دار خاتون (بہن، بیوی، بیٹی وغیرہ) کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت یا کاروبار کی اجازت دیں گے؟ ہاں اور نہیں دونوں کی صورت میں اپنی رائے کی ایک ٹھوس وجہ ضرور لکھیں

سوال نمبر2: اگر پہلے سوال کا جواب ہاں میں ہے تو آپ خواتین کے کن شعبہ جات میں کام کرنے کے سب سے زیادہ حق میں ہیں اور کیا کسی مخصوص شعبے میں آپ اپنی رشتہ دار کو کام سے منع کریں گے؟

نوٹ: جوابات ایک پیراگراف (250 الفاظ) سے زیادہ لکھنے سے گریز کریں۔ پہلے سوال کے جواب میں کم از کم ایک مناسب دلیل بھی فراہم کریں جو موجودہ ملکی حالات کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ جن لوگوں نے پہلے سوال کا جواب نفی (نہیں) میں دیا ہے، وہ دوسرا سوال چھوڑ دیں۔ اور سب سے اہم، برائے مہربانی موضوع سے بہت زیادہ ہٹ کر گفتگو سے اجتناب کریں اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں۔ شکریہ!
 

سید عمران

محفلین
سوال نمبر1: کیا آپ اپنی رشتہ دار خاتون (بہن، بیوی، بیٹی وغیرہ) کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت یا کاروبار کی اجازت دیں گے؟ ہاں اور نہیں دونوں کی صورت میں اپنی رائے کی ایک ٹھوس وجہ ضرور لکھیں
ہاں.
سوال نمبر2: اگر پہلے سوال کا جواب ہاں میں ہے تو آپ خواتین کے کن شعبہ جات میں کام کرنے کے سب سے زیادہ حق میں ہیں اور کیا کسی مخصوص شعبے میں آپ اپنی رشتہ دار کو کام سے منع کریں گے؟
گٹر میں اتر کر نالے صاف کرنا.
راج مستری بن کر عمارتیں بنانا، ان پر رنگ و روغن کرنا. الیکٹریشن، پلمبر اور کارپینٹری کرنا.
رات کی چوکیداری کرنا، وئیر ہاؤسز میں لوڈری کرنا. قلی بننا. لوہار بن کر لوہا کوٹنا،
کھیتوں میں ہل چلانا، مال منڈیوں تک پہنچانا. ٹرک ٹرالر کی ڈرائیوری کرنا.
سرحدوں پر پہرہ دینا. آبدوزیں چلانا، فریگیٹ اور ٹینک دوڑانا، توپیں چلانا، میزائل اڑانا. پیدل فوج کا ہراول دستہ بننا. وغیرہ وغیرہ.
دفتروں میں خواتین کی بھرمار ہوگئی. یہ میدان ان کے لیے خالی پڑے ہیں.
 

شکیب

محفلین
جملۂ معترضہ:
اگر یہ سروے کسی پروجیکٹ/ ریسرچ/اسائنمنٹ کا حصہ ہے تو Sampling کے لیے کچھ اصول بھی بنا لیں(کہ سوال کس طبقے سے کرنا ہے، ان کا تعلق کس ملک سے ہے، پاکستانی ہی ہیں لیکن دوسرے ملک میں ہیں تو کتنے عرصے سے؟ یا فقط پاکستان ہی کے باسیوں سے پوچھنا ہے)، بصورت دیگر یہ convenience bias کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔
ظاہر ہے اس سے سروے کے نتائج بھی درست نہیں آئیں گے اور رپورٹ غلط بنے گی۔
 

حُر نقوی

محفلین
جملۂ معترضہ:
اگر یہ سروے کسی پروجیکٹ/ ریسرچ/اسائنمنٹ کا حصہ ہے تو Sampling کے لیے کچھ اصول بھی بنا لیں(کہ سوال کس طبقے سے کرنا ہے، ان کا تعلق کس ملک سے ہے، پاکستانی ہی ہیں لیکن دوسرے ملک میں ہیں تو کتنے عرصے سے؟ یا فقط پاکستان ہی کے باسیوں سے پوچھنا ہے)، بصورت دیگر یہ convenience bias کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔
ظاہر ہے اس سے سروے کے نتائج بھی درست نہیں آئیں گے اور رپورٹ غلط بنے گی۔

آپ کا مشورہ کافی عمدہ ہے۔ اب چونکہ اردوہ فورم ہے تو میں امید کرتا ہوں کہ زیادہ تر لوگ پاکستان سے ہی ہوں گے یا کچھ بھارت سے یا پھر سمند پار ہم وطن۔ میں سماجی تنظیم کیلئے کام کرتا ہوں لیکن یہ سروے ذاتی حیثیت سے رائے عامہ جاننے کیلئے کررہا ہوں۔ اکثر بی بی سی اردو اور دیگر خبر رساں اداروں پر جب کسی پاکستانی خاتون کی کوئی کامیابی شیئر کی جاتی ہے تو جہاں کئی لوگ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، وہیں بعض انتہائی قدامت پرست لوگ خواتین کے کسی بھی قسم کا کام یا کاروبار کرنے کے خلاف سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
بعض انتہائی قدامت پرست لوگ خواتین کے کسی بھی قسم کا کام یا کاروبار کرنے کے خلاف سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔
اس کی وجہ تو آپ خود ہی بیان کر چکے ہیں۔ پھر ہم سے کیا پوچھ رہے ہیں۔
جب تک آپ خواتین کو مردوں کی ملکیت سمجھتے رہیں گے۔ یہ مسائل ختم ہونے والے نہیں۔
کئی قدامت پرست کہلانے والے مرد بھی اپنی خواتین کو مخصوص شعبہ جات میں ملازمت کی مشروط اجازت دیتے ہیں۔ دوسری طرف بعض آزاد خیال لوگ اگرچہ اپنی خواتین کو زبردستی کام سے روکتے تو نہیں لیکن انہیں وہ مناسب سہولیات اور حوصلہ بھی نہیں دیتے کہ وہ شعبہ ہائے زندگی میں کام کرسکیں۔
 
کئی قدامت پرست کہلانے والے مرد بھی اپنی خواتین کو مخصوص شعبہ جات میں ملازمت کی مشروط اجازت دیتے ہیں۔
میری رائے میں اس کا تعلق قدامت پسندی سے نہیں بلکہ اس بات سے ہے کوئی دوسرے کی ضرورت اور چاہت کو کس قدر قابل توجہ خیال کرتا ہے۔
ہر وہ کام جس میں ان کی عزت نفس داؤ پر لگے نہ وقار کو ٹھیس پہنچے۔
 

سید عمران

محفلین
آپ کا مشورہ کافی عمدہ ہے۔ اب چونکہ اردوہ فورم ہے تو میں امید کرتا ہوں کہ زیادہ تر لوگ پاکستان سے ہی ہوں گے یا کچھ بھارت سے یا پھر سمند پار ہم وطن۔ میں سماجی تنظیم کیلئے کام کرتا ہوں لیکن یہ سروے ذاتی حیثیت سے رائے عامہ جاننے کیلئے کررہا ہوں۔ اکثر بی بی سی اردو اور دیگر خبر رساں اداروں پر جب کسی پاکستانی خاتون کی کوئی کامیابی شیئر کی جاتی ہے تو جہاں کئی لوگ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، وہیں بعض انتہائی قدامت پرست لوگ خواتین کے کسی بھی قسم کا کام یا کاروبار کرنے کے خلاف سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔
جو لوگ ناپسند کرتے ہیں اس کی وجوہات جاننا ضروری ہے۔۔۔
جو بلا کسی دلیل کے ناپسند کرتے ہیں وہ محض ان کی ذاتی پسند نا پسند ہے، اس کا دین و دنیا سےکوئی تعلق نہیں!!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
میری رائے میں اس کا تعلق قدامت پسندی سے نہیں بلکہ اس بات سے ہے کوئی دوسرے کی ضرورت اور چاہت کو کس قدر قابل توجہ خیال کرتا ہے۔

ہر وہ کام جس میں ان کی عزت نفس داؤ پر لگے نہ وقار کو ٹھیس پہنچے۔
ہم نے کتنے دفاتر میں دیکھا کہ خواتین کی نااہلی پر اس کے افسر نے اسے اتنا ذلیل کیا کہ وہ اپنی میز پر بیٹھ کر چھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔
حالاں کہ اس سے زیادہ ذلت مرد اسٹاف کو سہنا پڑتی ہے مگر انہیں اس طرح روتے نہیں دیکھا!!!
 

سید عمران

محفلین
اکثر بی بی سی اردو اور دیگر خبر رساں اداروں پر جب کسی پاکستانی خاتون کی کوئی کامیابی شیئر کی جاتی ہے تو جہاں کئی لوگ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں
سارا فتنہ اور شر یہاں سے شروع ہوتا ہے۔۔۔
یہودیوں نے دنیا کی عورتوں کو ترقی کا جھانسا دے کر گھر سے نکال باہر کیا۔۔۔
جہاں جہاں لوگ اس جھانسے میں آتے گئے وہاں وہاں عورت کی ذلت و بربادی کا بازار گرم ہوگیا۔ چاہے یورپ و امریکہ ہو یا جاپان۔۔۔

وہاں کی عورت ایک مرد کے بجائے مرد مرد کی کہانی بن گئی، خاندانی نظام ختم ہوگیا، شرح پیدائش صفر کے قریب پہنچ رہی ہے۔۔۔
یہی وہ منصوبہ ہے جس میں یہودی کامیابی چاہ رہے ہیں کہ دنیا سے غیر یہودی حتی کہ یہودیوں کے ہمنواؤں کی آبادی بھی ختم ہوجائے اور سارے عالم میں خالص یہودی رہ جائیں!!!
 
مدیر کی آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
میری ماں، میری بہن، میری بیوی، میری بیٹی وغیرہ کو میں کیوں "اجازتیں" عطا کروں گا؟
وہ میری زر خرید لونڈیاں نہیں ہیں۔
ایک سروے خواتین کے لیے بھی شروع کریں کہ کیا آپ خواتین اپنے گھر کے مردوں کو ملازمت یا کاروبار کی اجازت عطا فرمائیں گی؟
یہ شہری بابو ذرا کسی گاؤں دیہات میں جا کر دیکھیں تو وہاں خواتین نہ صرف مردوں کے شانہ بشانہ کھیتی باڑی کر رہی ہوتی ہیں بلکہ سندھ میں لوہار گھرانوں میں مرد و عورت ایک ساتھ لوہا کوٹ رہے ہوتے ہیں۔ ان لکھوکھہا خواتین کو یہ شہری بابو وظیفہ لگا دیں تا کہ وہ گھر بیٹھ سکیں۔
 

حُر نقوی

محفلین
اس کی وجہ تو آپ خود ہی بیان کر چکے ہیں۔ پھر ہم سے کیا پوچھ رہے ہیں۔
جب تک آپ خواتین کو مردوں کی ملکیت سمجھتے رہیں گے۔ یہ مسائل ختم ہونے والے نہیں۔
درست فرمایا، خواتین خاندان کی اراکین ہیں نہ کہ کسی کی ملکیت۔ نہ تو کسی مرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کو اپنی ملکیت سمجھے اور نہ ہی کسی خاتون کو ایسا کرنا چاہیئے۔
کسی خاتون کو کسی مرد سے اجازت کی ضرورت نہیں۔ وہ جب چاہے جیسی چاہے جاب کر سکتی ہے۔
جی ٹھیک ہے مگر معاملات باہمی رضامندی اور خوش اسلوبی سے آگے بڑھنے چاہیئں نہ کہ تصادم کی راہ اختیار کی جائے۔ اگر والدین انتہائی قدامت پرست ہیں تو بیٹی کو چاہیئے کہ وہ درمیانی راستہ نکالے جس سے بزرگوں کی ناراضی بھی کم ہو اور ساتھ ہی اسے کام کرنے کا موقع بھی مل جائے۔ اسی طرح والدین کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنے بچوں کی جائز اور قابل عمل خواہشات کا احترام کریں اور قدیم روایات میں کچھ لچک اور نرمی پیدا کریں۔
۔ ۔ ۔ ہر وہ کام جس میں ان کی عزت نفس داؤ پر لگے نہ وقار کو ٹھیس پہنچے۔
بہت اعلیٰ، ایسے ہی ہونا چاہیئے
 

حُر نقوی

محفلین
ہم نے کتنے دفاتر میں دیکھا کہ خواتین کی نااہلی پر اس کے افسر نے اسے اتنا ذلیل کیا کہ وہ اپنی میز پر بیٹھ کر چھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔
حالاں کہ اس سے زیادہ ذلت مرد اسٹاف کو سہنا پڑتی ہے مگر انہیں اس طرح روتے نہیں دیکھا!!!
مرد ہو یا خاتون کسی کو بھی بے عزت کرنا پیشہ وارانہ اصولوں کے منافی ہے۔ مہذب اور بڑی کمپنیوں میں نااہلی اور قوانین کی خلاف ورزی پر باقاعدہ شوکاز نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔ پھر ایک تحریری وارننگ ملتی ہے یا جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔ آخر میں ملازمت سے برخاست کردیا جاتا ہے لیکن گالم گلوچ کا کلچر اس کمپنی کی اخلاقی پستی کی نشاندہی کرتا ہے۔
سارا فتنہ اور شر یہاں سے شروع ہوتا ہے۔۔۔
یہودیوں نے دنیا کی عورتوں کو ترقی کا جھانسا دے کر گھر سے نکال باہر کیا۔۔۔
جہاں جہاں لوگ اس جھانسے میں آتے گئے وہاں وہاں عورت کی ذلت و بربادی کا بازار گرم ہوگیا۔ چاہے یورپ و امریکہ ہو یا جاپان۔۔۔

وہاں کی عورت ایک مرد کے بجائے مرد مرد کی کہانی بن گئی، خاندانی نظام ختم ہوگیا، شرح پیدائش صفر کے قریب پہنچ رہی ہے۔۔۔
یہی وہ منصوبہ ہے جس میں یہودی کامیابی چاہ رہے ہیں کہ دنیا سے غیر یہودی حتی کہ یہودیوں کے ہمنواؤں کی آبادی بھی ختم ہوجائے اور سارے عالم میں خالص یہودی رہ جائیں!!!
ہمارے معاشرے میں وسائل کے مطابق خاندان بنانے کو سخت کبیرہ گناہ سمجھا جاتا ہے۔ سائنسی اصول کے مطابق دنیا میں مرد اور عورت کی آبادی تقریباً برابر ہوتی ہے اگر اس میں انسان خود چھیڑ چھاڑ نہ کرے جیسے کہ چین میں کی گئی، نتیجہ مرد زیادہ ہوگئے اور خواتین کم۔ لیکن یہ ہر خاندان کے ساتھ ایسا نہیں ہوسکتا کہ 8 بچوں میں سے 4 بیٹے اور 4 ہی بیٹیاں پیدا ہوں۔ کسی گھر میں 7 بیٹیاں ایک بیٹا، کہیں 8وں بیٹے ہی پیدا ہوجاتے ہیں لیکن مجموعی طور پر اگر آپ کسی مخصوص علاقے کی کل آبادی شمار کرلیں تو وہاں آپ کو معمولی فرق کے ساتھ برابر تعداد میں مرد اور عورتیں ملیں گی۔ اب مسئلہ یہاں آتا ہے کہ جب کسی غریب گھر میں 7 بیٹیاں پیدا ہوجاتی ہیں تو باپ کے ریٹائر ہونے کے بعد گھر کا سارا بوجھ اکیلے بیٹے پر آجاتا ہے۔ بعض اوقات تو باپ کی کم آمدن یا اچانک موت یا معذوری کے بعد 10 سال سے بھی کم عمر معصوم لڑکے کو سکول سے نکال کر چائلڈ لیبر کی بھٹی میں جھونک دیا جاتا ہے۔ اسی محنت مشقت کے دوران گھر کا واحد کمسن کفیل بھی بعض اوقات زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔ ایسے میں پھر ان لڑکیوں کو شادی کے نام پر پیسے والے لوگوں کے ہاتھوں فروخت کیا جاتا ہے۔ ان میں سے سب سے خوش قسمت عورتیں وہ ہوتی ہیں جن سے دوسری شادی کرکے بوڑھے اور بیمار والدین کی خدمت کروائی جاتی ہے۔ دیگر کو جسم فروشی، منشیات کے دھندے اور انسانی سمگلنگ پر زبردستی لگا دیا جاتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے لیکن اسے کوئی نہیں مانتا بلکہ معاشرے کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی جائے تو جواب میں فحش گالیاں، دھمکیاں اور یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ ہونے کے الزامات لگتے ہیں۔ اب ذرا سوچیں، اگر انہی بچیوں کو تعلیم دلوا کر باعزت روزگار یا کاروبار کروا دیا جائے تو کیا یہ بہتر نہیں؟

میری ماں، میری بہن، میری بیوی، میری بیٹی وغیرہ کو میں کیوں "اجازتیں" عطا کروں گا؟
وہ میری زر خرید لونڈیاں نہیں ہیں۔
ایک سروے خواتین کے لیے بھی شروع کریں کہ کیا آپ خواتین اپنے گھر کے مردوں کو ملازمت یا کاروبار کی اجازت عطا فرمائیں گی؟
یہ شہری بابو ذرا کسی گاؤں دیہات میں جا کر دیکھیں تو وہاں خواتین نہ صرف مردوں کے شانہ بشانہ کھیتی باڑی کر رہی ہوتی ہیں بلکہ سندھ میں لوہار گھرانوں میں مرد و عورت ایک ساتھ لوہا کوٹ رہے ہوتے ہیں۔ ان لکھوکھہا خواتین کو یہ شہری بابو وظیفہ لگا دیں تا کہ وہ گھر بیٹھ سکیں۔
دیہات اور ایسے گھرانوں میں خواتین مرد کے برابر نہیں، مرد سے زیادہ کام کرتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ بااختیار نہیں۔ اس کے برعکس ہمارے شہر میں کئی تعلیم یافتہ خواتین جان بوجھ کر نہ تو کاروبار کرتی ہیں اور نہ ہی کوئی ملازمت کیونکہ وہ سست اور کاہل ہوتی ہیں، ہر مہنگی فرمائش اپنے شوہر سے پوری کرواتی ہیں بلکہ کئی تو اپنے سسرال کے اخراجات بھی انہیں سے زبردستی نکلواتی ہیں۔ اس کے برعکس دیہات کی محنت کش خواتین زیادہ کام کے باوجود بہت کم اختیارات رکھتی ہیں۔ یہ معاشی اور معاشرتی طور پر بہت کمزور ہوتی ہیں۔
 
آخری تدوین:

حُر نقوی

محفلین
معزز اراکین سے درخواست ہے کہ اس "متنازعہ و حساس موضوع" کے عنوان سے مشتعل ہونے کے بجائے سوال کو تھوڑا غور سے پڑھیں۔ وہاں واضح لکھا ہے کہ اپنے ملکی حالات کے مطابق دلیل دیں کہ خواتین کا عملی زندگی میں کاروبار یا ملازمت درست ہے یا نہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ایک رکن اسے سیدھا اسرائیل، جاپان اور یورپ و امریکہ کی طرف لے گئے حالانکہ سوال پاکستان کے معاشی اور معاشرتی حالات کے مطابق تھا۔ بہرحال، اب تک اپنی رائے کا اظہار کرنے پر تمام محفلین کا شکریہ!
 
یہ الفاظ محفل کے ڈیکورم کا خیال کرتے ہوئے نہ استعمال کیے جائیں تو مناسب ہے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ دوسری انتہا مراد لی جائے۔
ناپسندیدہ الفاظ کے استعمال کے بغیر بھی بات کی جا سکتی ہے۔

اس لڑی سے پہلے بھی مراسلے اسی بات پر حذف ہوئے کہ ناپسندیدہ الفاظ کا استعمال تھا۔
 

فاتح

لائبریرین
یہ الفاظ محفل کے ڈیکورم کا خیال کرتے ہوئے نہ استعمال کیے جائیں تو مناسب ہے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ دوسری انتہا مراد لی جائے۔
ناپسندیدہ الفاظ کے استعمال کے بغیر بھی بات کی جا سکتی ہے۔

اس لڑی سے پہلے بھی مراسلے اسی بات پر حذف ہوئے کہ ناپسندیدہ الفاظ کا استعمال تھا۔
نا پسند کس کو ہیں؟ آپ کو؟
مجھے بتائیں کہ ریپسٹس کو آپ کے کن پسندیدہ الفاظ میں پکارا جانا چاہیے؟
وہ تو اچھا ہوا کہ ذوق اور غالب وغیرہ آپ کے مدیر بننے سے پہلے ہی مر گئے ورنہ دیوان ذوق اور غالب کے خطوط میں آپ اپنے پسندیدہ الفاظ شامل کر کے کئی اشعار اور خطوط کا بھی بیڑہ غرق کر دیتے۔۔۔
پہنچا ہے شب کمند لگا کر وہاں رقیب
سچ ہے حرام زادے کی رسی دراز ہے
(ذوق)
 
نا پسند کس کو ہیں؟ آپ کو؟
مجھے بتائیں کہ ریپسٹس کو آپ کے کن پسندیدہ الفاظ میں پکارا جانا چاہیے؟
میرا مراسلہ تحمل سے دوبارہ پڑھیے۔
نا پسندیدہ الفاظ ہٹانے سے مراد پسندیدہ الفاظ کا استعمال نہیں ہے۔

اور میں دوبارہ اس لڑی میں شروع سے ہونے والی کارووائی دہرانا نہیں چاہتا۔ پہلے مراسلے بھی اسی بنیاد پر رپورٹ اور حذف ہوئے، کہ نامناسب الفاظ کا استعمال تھا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top