ہاں اے نفسِ بادِ سحر شعلہ فشاں ہو - مرزا غالب (مرثیہ)

حسان خان

لائبریرین
ہاں اے نفسِ بادِ سحر شعلہ فشاں ہو
اے دجلۂ خوں چشمِ ملائک سے رواں ہو
اے زمزمۂ قم لبِ عیسیٰ پہ فغاں ہو
اے ماتمیانِ شہِ مظلوم کہاں ہو
بگڑی ہے بہت بات بنائے نہیں بنتی
اب گھر کو بغیر آگ لگائے نہیں بنتی

تابِ سخن و طاقتِ غوغا نہیں ہم کو
ماتم میں شہِ دیں کے ہیں سودا نہیں ہم کو
گھر پھونکنے میں اپنے محابا نہیں ہم کو
گر چرخ بھی جل جائے تو پروا نہیں ہم کو
یہ خرگۂ نُہ پایہ جو مدت سے بپا ہے
کیا خیمۂ شبیر سے رتبے میں سوا ہے

کچھ اور ہی عالم ہے دل و چشم و زباں کا
کچھ اور ہی نقشہ نظر آتا ہے جہاں کا
کیسا فلک اور مہرِ جہاں تاب کہاں کا
ہو گا دلِ بے تاب کسی سوختہ جاں کا
اب صاعقہ و مہر میں کچھ فرق نہیں ہے
گرتا نہیں اس رُو سے کہو برق نہیں ہے
(مرزا غالب)​

--------
مولانا حالی فرماتے ہیں کہ مرزا کے ایک دوست مجتہد العصر نے اردو میں جنابِ سید الشہداء کا مرثیہ لکھنے کی فرمائش کی۔ مرزا نے حسبِ فرمائش یہ تین بند لکھے اور مجتہد العصر کی خدمت میں بھیج کر یہ لکھ بھیجا کہ تین بند صرف حکم کی تعمیل میں لکھے ہیں ورنہ میں اس میدان کا مرد نہیں ہوں۔ یہ اُن لوگوں کا حصہ ہے جنہوں نے اس وادی میں عمریں بسر کی ہیں۔ مجھ کو ان کے درجے تک پہنچنے کے لیے ایک دوسری عمر درکار ہے۔ پس مجھے اس خدمت سے معذور و معاف رکھا جائے۔ ان کا قول تھا کہ ہندوستان میں انیس اور دبیر جیسا مرثیہ گو نہ ہوا ہے، نہ آئندہ ہو گا۔

پہلا بند: قُم کے معنی ہیں اٹھ۔ حضرت عیسیٰ قم کہہ کر مردے کو زندہ کرتے تھے۔ زندگی بخش اثر کی بنا پر قم کو زمزمہ کہا گیا۔ شہِ مظلوم سے حضرت امام حسین مراد ہیں۔ چاروں مصرعوں میں مرثیے کی پوری شان جلوہ گر ہے۔

دوسرا بند: طاقتِ غوغا کی وجہ سے دوسرے مصرع میں سودا کہا گیا ہے۔ محابا بہ معنی دریغ۔ خرگۂ نُہ پایہ کے معنی ہیں نو پایوں کا خیمہ یعنی آسمان۔ بپا ہے یعنی کھڑا ہے۔

تیسرا بند: فلک کو سوختہ جاں اور مہر کو دلِ بے تاب سے منسوب کیا ہے۔ آخری مصرع کا مفہوم یہ ہے کہ بجلی گرا کرتی ہے۔ آفتاب گرتا نہیں۔ صرف اس وجہ سے یہ کہہ دو کہ وہ بجلی نہیں ہے۔ ورنہ بجلی کی آگ اور آفتاب میں اب کوئی فرق نہیں۔ جلا دینے میں آفتاب بھی بجلی کے برابر ہے۔ گرتا نہیں اس رُو سے یہ الفاظ اس لیے کہے گئے ہیں کہ سورج کی گرمی کو بجلی کے سیلاب سے نسبت دینا مقصود ہے۔

(جوش ملسیانی)
 
Top