یہ شعر کس کا ہے؟

یہ شعر کس شاعر کا ہے:
گرتے ہیں شہ سوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے

یہ کہیں عظیم دہلوی کا تو نہیں؟
محمد وارث بھائی
فاتح بھائی
مزمل شیخ بسمل بھائی

یہ شعر تو کسی کا نہیں البتہ ایسے ہے:
شہزور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنے کے بل چلے

یہ ہے عظیم کا شعر۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یہ شعر تو کسی کا نہیں البتہ ایسے ہے:
شہزور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنے کے بل چلے

یہ ہے عظیم کا شعر۔

پتہ نہیں یہ شعر کیسے ہے؟
اس لنک پہ آخری کمنٹس میں مغل بھائی اور فرخ بھائی بھی اسی پہ بحث کر رہے ہیں، یہ بھی دیکھ لیجیے۔ اج کل تو میں بہت کنفیوژ ہو جاتا ہوں۔
 
اب یہ بھی بتاؤں اس شعر کی حقیقت کیا ہے۔ در اصل عظیم نے ایک غزل لکھی تھی جسے وہ ماشااللہ خاں کو سنانے آئے جو رجز سالم کے وزن میں تھی اور ایک مصرع لاعلمی میں رمل محذوف میں چلا گیا۔
انشااللہ خاں بھی وہیں موجود تھے جنہوں نے عظیم بیگ سے گھات کی اور کہا یہ غزل آپ مشاعرے میں ضرور پڑھیں۔ جب عظیم نے غزل پڑھی تو انشا نے فوراً تقطیع کا مطالبہ کر ڈالا۔ انہیں وہاں جو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا وہ خیر اس پر انشا نے مخمس پڑھا:

گر تو مشاعرے میں صبا آج کل چلے
کہیو عظیم سے کہ ذرا وہ سنبھل چلے
اتنا بھی حد سے اپنی نہ باہر نکل چلے
پڑھنے کو شب جو یار غزل در غزل چلے
بحر رجز میں ڈال کے بحر رمل چلے"

اس طرح پر عظیم نے بھی مخمس پڑھا جس میں یہ شعر موجود تھا

شہزور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق​
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنے کے بل چلے​
 
شہزور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنے کے بل چلے
بسمل صاحب! امید ہے آپ کا چشمۂ آب حیات جاری و ساری ہوگا!
میرے پاس آب حیات از مولوی محمد حسین آزاد صاحب کا جو پی ڈی ایف نسخہ ہے اس میں صفحہ 263 پر یہ شعر یوں دیا ہوا ہے:
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
یعنی اس میں "گھٹنوں" بصیغۂ جمع ہے جبکہ آپ نے جلی حروف کے ساتھ دو مرتبہ بصیغۂ واحد لکھا ہے!
اگر آپ کی نظر سے کہیں واقعی بصیغۂ واحد گزرا ہے تو نوازش فرماکر مطلع کیجئے گا۔
تسلی کے لئے میں اپنے نسخے سے مطلوبہ صفحے کی تصویر تحمیل کر رہا ہوں:
wp_ss_20190826_0001%2B%25282%2529.png
 
Top