سنگ مرمر اور سے تراشا ہوا یہ شوخ بدن

A Basit

محفلین
سنگ مرمر سے تراشا ہوا یہ شوخ بدن
اتنا دلکش ہے کہ اپنانے کو جی چاہتا ہے

سرخ ہونٹوں پہ بھڑکتی ہوئی یہ رنگین شراب
جس کو پی پی کہ بہک جانے کو جی چاہتا ہے

نرم سینے میں دھڑکتے ہیں وہ نازک طوفاں
جن کی لہروں میں اُتر جانے کو جی چاہتا ہے

تم سے کیا رشتہ ہے کب سے ہے یہ معلوم نہیں
لیکن اس حسن پہ مرجانے کو جی چاہتا ہے

ہم سے بہتر ہے یہ پازیب جو اس پاؤں میں ہے
اسی پازیب میں ڈھل جانے کو جی چاہتا ہے

اپنے ہاتھوں سے سنوارا ہے تمہیں قدرت نے
دیکھ کر دیکھتے رہ جانے کو جی چاہتا ہے

رکھ لے کل کے لیے یہ دوسری پازیب بھی
کل اسی بزم پھر آنے کو جی چاہتا ہے

نا معلوم
 
Top