سید عمران

محفلین
چھوٹی آنٹی کی بڑی بیٹی عذرا کی شادی تھی۔ سارا خاندان آنٹی کے گھر جمع ہوگیا۔ دن بھر کام کاج ہوتے اور رات بھر ہنگامہ۔ بچوں کی لاٹری نکل آئی ۔ سب کو شادی سے زیادہ اسکول نہ جانے کی خوشی تھی۔ ان دنوں ہماری بڑی ڈیمانڈ تھی۔ ہر ایک ہم سے سامان منگواتا۔ ہم ہر ایک سے اپنا کمیشن طلب کرتے۔ کافی پیسے جمع ہوگئے تھے۔ دنیا پیسے والوں کے دیوانی ہوتی ہے۔ بچے ہمارے ارد گرد منڈلانے لگے۔ ہم بھی حاتم طائی بن گئے۔
اس دوپہر کھانا کھا کر سب کمروں میں سونے چلے گئے، ہم بچوں کو لے کر باہر چلے گئے۔ بڑے سارے کیفے میں داخل ہوکر صاف ستھری میز کر گرد جا براجمان ہوئے۔ سب کے لیے کولڈ ڈرنک منگوائی۔ بچہ پارٹی خوش ہوگئی ۔ کیفے سے اکڑتے ہوئے نکلے اور جاکر پان والے کی دوکان پہ کھڑے ہوگئے۔ میٹھے پان مشکل سے منہ میں ٹھونسے۔ آدھے کھائے آدھے کپڑوں اور منہ پہ لگائے۔ اب سامنے والے پارک کا رخ کیا۔ خوب پھول توڑے، گھاس نوچی۔ درختوں پر چڑھے اترے ۔ اور تھک کر درخت کے سائے میں لیٹ گئے۔
دوپہر سے شام ہوگئی۔ وقت کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ لیٹے لیٹے ایک طرف دیکھا جھولے والا اوپر نیچے گول دائرے میں جھولا جھلا رہا ہے۔ سب جھولے میں بیٹھ گئے۔ جھولا نیچے آتا تو گدگدی ہوتی، سب زور زور سے شور مچانے لگتے۔ ہمارا ٹائم پورا ہوا تو جھولے والے نے اترنے کا اشارہ کیا۔ ہم نے منع کرنے کا اشارہ کیا۔ پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ اس کی مٹھی گرم کی۔ اس نے دوبارہ جھلانا شروع کردیا۔ خیالوں کی سیر کی طرح جھولے کی سیر میں بھی مزہ آنے لگا۔ پیسے ہماری جیب سے اس کی جیب میں منتقل ہوتےگئے۔ کب مغرب ہوئی معلوم نہ ہوا۔ اچانک مسجد سے ہمارا نام لے کر اعلان ہونے لگا۔ جس کو معلوم ہو وہ بچے گھر پہنچا دے۔ جھولے والے کو معلوم نہیں تھا۔ لیکن ہمیں معلوم تھا ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
گھر پہنچے تو سین ہماری منشا کے مطابق آن تھا۔ شادی والے گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ شام کو سب سو کر اٹھے تو بچے غائب تھے۔ آس پاس خبر لی کہیں پتا نہ چلا۔ پریشان ہو کر مسجد میں اعلان کروادیا۔ اگر نہ کرواتے تو ہم تھوڑا اور مزے اڑالیتے۔ یہ بڑے بھی رنگ میں بھنگ ڈالنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ ہمارے ساتھ جو ہونے والا تھا وہ ہماری منشا کے مطابق ہرگز نہ تھا۔ لیکن تقدیر کا لکھا اٹل۔ اسے کون مٹا سکتا ہے۔ ہم نے بھی نہیں مٹایا۔ہمارے ساتھ جو حسنِ سلوک ہوا وہ گھر گھر کی کہانی ہے۔ اسے دہرانے سے معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔
بڑی دعوتوں پر بڑے پھوپھا اپنے چپڑاسی کی بیٹی لے آتے۔ وہ گھر کے کام کاج میں بھی ہاتھ بٹاتی تھی اور سب کے ساتھ ہنستی بولتی بھی تھی ۔ اس کا رنگ خوب کالا تھا، اور نام تھا گوری۔
سردیوں کا موسم تھا۔ رات سب بچے بڑے کمرے میں رضائیوں میں دُبکے سورہے تھے۔ ہم جاگ رہے تھے۔ صبا نے کہا نیند نہیں آرہی، کیا وجہ؟ ہم نے بتایا:
’’شام کی دُھنائی۔ مارے ذلت کے نیند نہیں آرہی۔‘‘
صبا سے بڑی بڑی تیز مزاج تھی۔ سب اسے ہری مرچ کہتے تھے۔ ہری مرچ سوتی بن رہی تھی، ہماری باتوں سے اٹھ بیٹھی۔ کمر سہلانے لگی۔ چھوٹی آنٹی کے مُکّے رہ رہ کر اپنی یاد دِلا رہے تھے۔ ہم نے پیچھے مُڑ کے دیکھا گوری ہنستی ہوئی سو رہی تھی۔ اس کے دانت اس طرح آگے کو نکلے ہوئے تھے کہ رنجیدگی میں بھی ہنستی نظر آتی۔ اسےجنازوں پہ نہیں لے جایا جاتا تھا۔
’’اس کے مزے ہیں۔ آرام سے سو رہی ہے۔‘‘ہری مرچ نے دانت پیسے۔
’’ جب ہماری پٹائی ہورہی تھی تو دانت نکالے ہنس رہی تھی۔‘‘ صبا نے اس سے بھی زیادہ دانت پیسے۔
’’ابھی مزہ چکھاتے ہیں۔ صبا کاجل لاؤ۔‘‘‘ ہمارے ذہن میں کوئی اور آئیڈیا جگمگانے لگا۔
کاجل آگیا۔ ہم نے خوب دلجمعی سے گوری کے منہ پر آرٹ کے جمالیاتی حسن بکھیرنا شروع کردئیے۔ آنکھوں کے گرد لمبی لکیریں لگائیں۔ یہ لکیریں ڈرائنگ کے ٹیچر نے سورج کے گرد کھینچنی سکھائی تھیں۔ اب کام آرہی تھیں۔ ہونٹوں کو سیاہ کردیا ۔ جب سوتے میں گوری ذرا مسکراتی تو پھیلے ہوئے کالے سیاہ ہونٹ دیکھ کر ہری مرچ اور صبا ایک دوسرے پر گر گر جاتیں۔
اس رات کوئی نہ سویا۔ سب صبح کا تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے۔ سب سے پہلے چھوٹی آنٹی جگانے آئیں۔ ایک ایک کرکے سب اٹھنے لگے۔ گوری بھی اٹھ گئی۔ اسے دیکھ کر آنٹی نے زور سے چیخ ماری۔ ان کی چیخ سن کر بڑی آنٹی ہاتھ پاؤں پُھلائے بھاگی بھاگی آئیں۔
’’توبہ گوری، یہ تم ہو، میں تو ڈر گئی گھر والوں کے بیچ کون گھسا سورہا ہے۔‘‘ گوری کو پہچان لیا گیا تھا۔ گوری زور زور سے مسکرانے لگی۔ آنکھوں کے گرد جوکروں جیسی لکیریں اور پھیلے ہوئے کالے سیاہ ہونٹ بڑے بڑوں کی ہنسی چھڑا دیتے۔ بڑی آنٹی سنجیدہ مزاج تھیں مسکرا کر رہ گئیں۔ چھوٹی آنٹی سے ہنسی برداشت نہیں ہوئی۔ وہیں کرسی پر بیٹھ گئیں۔ بڑی آنٹی نے ڈانٹ لگائی :
’’خبردار گوری اب جو مسکرائیں تو۔‘‘
گوری گھبرا کر اور زور سے مسکرائی۔ چھوٹی آنٹی کے قہقہے لگ گئے۔
بڑے کمرے میں مچا شور سن کر شال اوڑھے اماں آگئیں۔ صورتحال کا جائزہ لیا اور ہمیں گھورا۔ ہم تین ایک کونے میں دبکے بیٹھے تھے۔
’’اب ہم نے کیا کردیا؟‘‘ اماں کے گھورنے پر سب سراپا احتجاج بن گئے۔
اماں نے گوری کو واش بیسن پر جانے کا اشارہ کیا اور ہمیں دادا کے کمرے میں آنے کا۔دادا کے کمرے میں جو ہوا وہ ناشتہ سے پہلے نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کمرے کی طرف جاتے ہوئے گوری کی چیخوں کی آواز سنائی دی۔
اس نے واش بیسن پر لگے آئینہ میں اپنا منہ دیکھ لیا تھا!!!
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
آپ کا انداز بیان بہت زبردست ہے۔
رہ رہ کے مجھے شفیق الرحمٰن اور ان کےکردار یاد آتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
برسات کا موسم تھا۔ بڑے سارے لاؤنج میں کھڑکی کے پاس صوفے بچھے تھے۔ سب صوفوں پر نیم دراز لیٹے ہیں۔ کھڑکی سے آتی ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہوا جارہا ہے۔ نعمت خالہ کچن میں تھیں۔ پکوڑے تلے جانے کی خوشبو سارے لاؤنج میں پھیل رہی تھی۔ گڑیا سامنے صوفے پر بیٹھی خواتین کا میگزین کھولے اس پر جھکی ہوئی ہے۔
فلسفی کہیں سے مینڈک کا ڈسیکشن (Dissection) دیکھ کر آرہا تھا۔ چہرے پر جوش و خروش کے آثار نمایاں تھے۔
’’معلوم ہے آج میں نے کیا دیکھا ہے؟‘‘ فلسفی کے لہجہ میں پوشیدہ جذبات سب کو نظر آرہے تھے۔
’’معلوم ہے۔ آئینہ۔‘‘ گڑیا منہ بنا کر بولی۔
’’نہیں۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’مینڈک۔‘‘
’’ کوئی نئی چیز نہیں دیکھ لی۔‘‘ بے زاری سے جواب دیا۔
’’افوہ۔ مینڈک کا آپریشن دیکھا ہے۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ میگزین کا معائنہ جاری رہا۔
’’تم نے دیکھا ہے کبھی؟‘‘
’’نہیں۔ بیماری کیا تھی؟‘‘
’’کس کو؟‘‘
’’مینڈک کو۔‘‘
‘‘کیوں؟‘‘
’’ آپریشن کیوں کیا گیا؟‘‘
’’اُف۔ میٹرک میں کرنا پڑتا ہے۔‘‘
’’میں تو میٹرک نہیں کروں گی۔ اتنا گندا کام کرنا پڑتا ہے۔‘‘ گڑیا ابکائیاں لیتی اٹھ گئی۔
’’رات کو ہم بھی مینڈک کا آپریشن کریں گے۔‘‘ فلسفی نے اس کے جانے کا نوٹس نہیں لیا۔
’’لیکن مینڈک کہاں سے آئے گا؟ اسے پکڑیں گے کیسے؟ لٹائیں گے کس پر۔۔۔؟‘‘ چیتا بولنے لگا۔ فلسفی نے ہاتھ سے روک دیا:
’’سب ہوجائے گا تم بس دیکھتے جاؤ۔‘‘
ہم بس دیکھنے لگے۔ اس نے ایک بڑا سا پلاس لیا۔ نعمت خالہ کی ٹوٹی ہوئی ہوائی چپل، کچن سے بے کار چھری، چند کیلیں اور کرکٹ کا ایک بیٹ۔
’’کچھ تو بتاؤ، مینڈک ملے گا کہاں سے ؟‘‘ ہم نے چیتے کی بات دہرائی۔
’’لان سے۔ برسات کا موسم ہے، رات کو خوب مینڈک ملیں گے۔‘‘
رات ہوگئی۔ سب لان میں آگئے۔ مینڈک ادھر سے ادھر پھلانگتے پھر رہے تھے۔
’’ان میں سب سے بڑا مینڈک تلاش کرو۔‘‘ فلسفی خود بھی تلاش میں لگ گیا۔
ایک موٹا تازہ مینڈک جو سب کا سردار لگ رہا تھا اچانک پودوں کے پیچھے سے چھلانگ لگا کر سامنے آگیا۔ فلسفی نے فوراً بیٹ سے حملہ کیا۔ بے چارہ غش کھاکے وہیں ڈھیر ہوگیا۔ ہلا جلا کر دیکھا کہ زندہ تو نہیں ہے۔ مکمل اطمینان کے بعد پلاس سے پکڑ کر ہوائی چپل پر الٹا لٹا دیا گیا۔ چاروں ہاتھ پاؤں کیلوں سے ٹھونکے اور چھری سے پیٹ چاک کردیا۔ تمام اعضائے جسمانی و حیوانی سامنے نمایاں تھے۔ فلسفی بتانے لگا:
’’یہ دل ہے، برابر میں پھیپھڑے، یہ معدہ، جگر اور یہ آنتیں۔‘‘ سب پہلی بار تمام اعضاء اپنی اپنی جگہ سیٹنگ سے لگے دیکھ رہےتھے۔
مینڈک کا معائنہ مکمل ہوگیا تو چیتا بولا:
’’سوئی دھاگہ سے پیٹ سی کر اسے دوبارہ زندہ کردو۔‘‘
’’یہ کام ڈاکٹر بھی نہیں کرسکتا۔‘‘
’’ڈاکٹر آپریشن کے بعد دوبارہ زندہ کردیتا ہے۔‘‘ چیتے نے نئی معلومات دیں۔
’’وہ زندہ نہیں کرتا۔ مریض اصل میں مرا ہوا نہیں ہوتا صرف بے ہوش ہوتا ہے۔‘‘
’’تم نے بے ہوش کیوں نہیں کیا؟‘‘ چیتے کو غصہ آنے لگا۔
’’بے ہوش کرتے تو اسے زیادہ تکلیف ہوتی۔ ‘‘
’’تم نے اسے مارا کیوں؟‘‘ چیتے کو اس خونِ ناحق کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ اس کا پارہ آسمان کو چھونے لگا۔
فلسفی اس کا بگڑتا موڈ دیکھ کر تیزی سے اندر کی جانب لپکا۔ چیتا اس کے پیچھے دوڑا۔ ڈرائنگ روم میں فلسفی ٹی وی کے سامنے کھڑا تھا۔ بھاگنے کی راہیں مسدود تھیں۔ چیتے نے چھوٹا اسٹول اٹھا کر اس پر حملہ کیا۔ فلسفی پیچھے ہوا اور زور دار چھناکے سے ٹی وی اسکرین ہزاروں ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی۔
نعمت خالہ کا غصہ، گڑیا کی مسالے دار شکایت، خالو کا غضب اور ہمارا حشر نشر۔

مینڈک کا خونِ ناحق رنگ لا کر رہا!!!
 
آخری تدوین:
Top