سید عمران

محفلین
رات کھانے پر بابا نے قیمہ بنایا ۔ بابا کا قیمہ سب کی پسندیدہ ڈش تھی۔ ڈائننگ ٹیبل پر سب لوگ موجود تھے۔ فلسفی ہمارے بائیں جانب تھا اور آصف دائیں جانب۔ ماحول خاصا خوشگوار ہورہا تھا تبھی ماموں نے اعلان کیا:
’’کل رات کھانا باہرکھائیں گے۔ فائیو اسٹار ہوٹل کے ساتویں فلور پر پورشن بُک ہے۔ کچھ اور مہمان بھی ہوں۔ بّچو، کوئی شرارت نہیں ہوگی۔ سب تمیز سے بیٹھیں گے اور ایٹی کیٹس کا خیال رکھیں گے۔‘‘ آخری جملہ ہمارے لیے تھا۔
تمیز سے رہنا اور ایٹی کیٹس کا خیال رکھنا ایک مشکل کام تھا لیکن آؤٹنگ کی خاطر گوارا تھا۔
’’یقیناً ماموں کے ہاتھ کوئی بڑا پروجیکٹ لگا ہے۔‘‘ فلسفی نے خدشہ ظاہر کیا۔ فلسفی کے تمام خدشات درست ثابت ہوتے ہیں۔
اگلی رات کا انتظار ابھی سے شروع ہوگیا۔
اگلی رات سب فائیو اسٹار ہوٹل کے ساتویں فلور پر تھے۔مہمانوں کی میز الگ تھی، سب گھر والے دوسری میز پر بیٹھے تھے۔ کھانے سے پہلے بطور ایپٹائزر سوپ سرو کیا گیا۔
’’پتہ نہیں سوپ کو ایپٹائزر کیوں کہتے ہیں۔ اس سے تو پیٹ بھر گیا۔‘‘ فلسفی نے سوپ کا تیسرا پیالہ بھرتے ہوئے کہا۔
’’اتنا زیادہ پیو گے تو یقیناً پیٹ بھرے گا۔‘‘ ممانی جل گئیں۔
’’زیادہ استعمال کرنے پر زیادہ بھوک لگنی چاہیے۔ جیسے زیادہ پین کلر کھانے سے زیادہ درد کم ہوتا ہے۔‘‘ فلسفی نے فلسفہ بگھارا ۔ ماموں ہنسنے لگے۔ماموں خوشی اور ناراضگی میں انگریزی بولنے لگتے ہیں:’’یو آر آ بدمعاش آف دا فرسٹ آرڈر۔‘‘
ممانی مزید جل گئیں۔
سوپ سے نمٹنے کے بعد کھانے کا انتظار ہورہا تھا۔ اسی دوران چیتا اٹھا اور کھڑکی کے پاس جا کر نیچے دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد ہمارے پاس آیا اور کان میں سرگوشی کی:
’’آؤ، تمہیں مچھلیاں دکھاؤں۔‘‘
گڑیا نے سن لیا: ’’میں بھی چلوں گی۔‘‘ وہ کرسی سے کھڑی ہوگئی۔
’’کوئی ضرورت نہیں، اپنی جگہ بیٹھی رہو۔‘‘ چیتے نے سختی سے منع کردیا۔ وہ منہ بنا کر بیٹھ گئی۔ بیٹھنے کے بعد بھی منہ بناتی رہی۔
چیتا ہمیں کھڑکی کے پاس لے آیا۔ ہم نیچے دیکھنے لگے۔ نیچے سوئمنگ پول تھا ۔ اس کے چاروں طرف لائٹیں جل رہی تھیں۔ پول کی نیلی ٹائلز سے سارا پانی نیلا لگ رہا تھا۔ اتھل پتھل پانی میں روشنیاں جھلملا نے لگیں ۔ جھلملاتی روشنیوں کے درمیان غیر ملکی خواتین سوئمنگ کر رہی تھیں۔
ڈائننگ ٹیبل پر کھانا سرو ہونے لگا۔
ہم چیتے کو گھسیٹ کر حقیقی دنیا میں لے آئے!!!
 
آخری تدوین:
Top