ہمیں سر جھکانا نہ آیا کبھی بھی ------- برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
-------
فعولن فعولن فعولن فعولن
---------------
ہمیں سر جھکانا نہ آیا کبھی بھی
انہیں سر اٹھانا نہ آیا کبھی بھی
-----------
محبّت جو کرتے ہیں ڈرتے نہیں ہیں
ہمیں منہ چھپانا نہ آیا کبھی بھی
------------
محبّت کریں گے بھلا کس طرح وہ
جنہیں دل لبھانا نہ آیا کبھی بھی
-------------
یہ الفت کی باتیں نہیں اُن کے بس میں
جنہیں غم چھپانا نہ آیا کبھی بھی
------------
مرے گھر میں آئے گا محبوب بن کر
سماں وہ سہانا نہ آیا کبھی بھی
---------------
کیا ہے جو احسان ہم نے کسی پر
نہ اس کو وہ کر کے جتایا کبھی بھی
------------------
کبھی شام ڈھلتے ہی آتا تھا ملنے
زمانے ہیں گزرے نہ آیا کبھی بھی
----------
بٹائے ہیں غم ہم نے دنیا میں رہ کر
نہ دل کو کسی کے دکھایا کبھی بھی
-------------
تجھے یاد ارشد کرے گا زمانہ
تُو چاہے نہ ان کو ہے بھایا کبھی بھی
 

عظیم

محفلین
ردیف 'کبھی بھی' کی بجائے صرف 'کبھی' بہتر لگ رہی ہے

بحر کا بھی کچھ مسئلہ نہیں ہے
فعولن فعولن فعولن فعل کی جا سکتی ہے
مثلاً
محبت جو کرتے ہیں ڈرتے نہیں
۔۔اب ایک بار آپ تبدیل کر لیں پھر ان شاء اللہ دیکھتے ہیں
 
عظیم
(عظیم بھائی بحر تبدیل کر دی ہے ۔ اب دیکھ لیں )
----------
فعولن فعولن فعولن فعل
----------
ہمیں سر جھکانا نہ آیا کبھی
انہیں سر اٹھانا نہ آیا کبھی
-----------
محبّت جو کرتے ہیں ڈرتے نہیں
ہمیں منہ چھپانا نہ آیا کبھی
------------
محبّت کریں گے بھلا کس طرح
جنہیں دل لبھانا نہ آیا کبھی
-------------
وہ الفت نبھائیں گے کیسے بھلا
جنہیں غم چھپانا نہ آیا کبھی
------------
مرے گھر میں آئے گا بن کر مرا
سماں وہ سہانا نہ آیا کبھی
---------------
کسی پر جو احسان ہم نے کیا
نہ اس کو وہ کر کے جتایا کبھی
------------------
وہ آتا تھا ملنے سرِ شام ہی
زمانے ہیں گزرے نہ آیا کبھی
----------
زمانے میں رہ کر بٹائے ہیں غم
نہ دل کو کسی کے دُکھایا کبھی
-------------
تجھے یاد ارشد کریں گے سبھی
تُو چاہے نہ ان کو ہے بھایا کبھی
 

عظیم

محفلین
ہمیں سر جھکانا نہ آیا کبھی
انہیں سر اٹھانا نہ آیا کبھی
-----------اب ٹھیک تو ہو گیا ہے مگر مطلب کیا نکلتا ہے؟ دونوں مصرعے صرف دو بیان محسوس ہوتے ہیں

محبّت جو کرتے ہیں ڈرتے نہیں
ہمیں منہ چھپانا نہ آیا کبھی
------------ڈرتے کے ساتھ چھپانا ٹھیک نہیں ہے، اس شعر کو یوں کیا جا سکتا ہے
محبت جو کرتے ہیں شرمائیں کیوں؟
ہمیں....

محبّت کریں گے بھلا کس طرح
جنہیں دل لبھانا نہ آیا کبھی
-------------محبت پچھلے شعر میں بھی ہے، اور وہ بھی پہلے مصرع کے شروع میں ہی، یہاں کریں گے محبت بھلا کس طرح، کیا تو جا سکتا ہے لیکن ایک محبت پر ہی بات کیوں کی جائے؟
دوسرے مصرع میں مجھے لگتا ہے کہ صرف 'دل لبھانا' نہیں 'دل کو لبھانا' ہونا چاہیے تھا

وہ الفت نبھائیں گے کیسے بھلا
جنہیں غم چھپانا نہ آیا کبھی
------------یہ بھی تقریباً پچھلے شعر جیسا ہی شعر ہے۔ الفت کے ساتھ نبھائیں بھی درست نہیں لگ رہا
وہ راہوں پر الفت کی چل پائیں کیا
وغیرہ کیا جا سکتا ہے

مرے گھر میں آئے گا بن کر مرا
سماں وہ سہانا نہ آیا کبھی
---------------'آئے گا' کے ساتھ 'اک دن' 'کسی دن' وغیرہ کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ مرے گھر میں آئے وہ ہو کر مرا، کیا جا سکتا ہے
دوسرے مصرع میں 'سماں' مجھے وقت یا دن کے لحاظ سے عجیب لگ رہا ہے
یہاں 'وہ لمحہ سہانا نہ آیا کبھی' استعمال ہو سکتا ہے

کسی پر جو احسان ہم نے کیا
نہ اس کو وہ کر کے جتایا کبھی
------------------ردیف اور قافیہ بدل گئے ہیں

وہ آتا تھا ملنے سرِ شام ہی
زمانے ہیں گزرے نہ آیا کبھی
----------
زمانے میں رہ کر بٹائے ہیں غم
نہ دل کو کسی کے دُکھایا کبھی
-------------
تجھے یاد ارشد کریں گے سبھی
تُو چاہے نہ ان کو ہے بھایا کبھی
۔۔۔۔۔۔ان میں بھی ردیف اور قافیہ دیکھیں۔
 
الف عین
عظیم
------------
تصحیح کے بعد دوبارا
---------------
انہیں روٹھ جانا نہ آیا کبھی
ہمیں بھی منانا نہ آیا کبھی
----------
محبّت جو کرتے ہیں شرمائیں کیوں
ہمیں منہ چھپانا نہ آیا کبھی
--------
وہ راہوں پر الفت کی چل پائیں کیا
جنہیں دل لبھانا نہ آیا کبھی
-----------
مرے گھر میں آئے وہ ہو کر مرا
وہ لمحہ سہانا نہ آیا کبھی
-------------
کسی پر جو احسان ہم نے کیا
وہ کر کے جتانا نہ آیا کبھی
------------
وہ آتا تھا ملنے سرِ شام ہی
ہے گزرا امانہ نہ آیا کبھی
----------
زمانے میں رہ کر بٹائے ہیں غم
ہمیں دل دُکھانا نہ آیا کبھی
------------
تری یاد ارشد ستاتی رہی
تجھے بھول جانا نہ آیا کبھی
------یا
تمہیں یاد ارشد کی آئے گی پھر
اگر چار دن وہ نہ آیا کبھی
------------
 

الف عین

لائبریرین
شروع کے اشعار درست ہو گئے ہیں
وہ آتا تھا ملنے سرِ شام ہی
ہے گزرا امانہ نہ آیا کبھی
---------- واضح نہیں ہوا،

زمانے میں رہ کر بٹائے ہیں غم
ہمیں دل دُکھانا نہ آیا کبھی
------------ رہ کر کیوں، زمانے والوں کے ساتھ غم بانٹے جا سکتے ہیں

تری یاد ارشد ستاتی رہی
تجھے بھول جانا نہ آیا کبھی
------یا
تمہیں یاد ارشد کی آئے گی پھر
اگر چار دن وہ نہ آیا کبھی
------------ دوسرا متبادل بہتر ہے
 
الف عین
عظیم
وہ آتا تھا ملنے سرِ شام ہی
ہے گزرا زمانہ نہ آیا کبھی
-----------یا
وہ آتا ہے ملنے سرِ شام ہی
اسے بھول جانا نہ آیا کبھی
----------
غموں میں سبھی کے ہی ساتھی رہے
ہمیں دل دُکھانا نہ آیا کبھی
 
Top