درد و کرب اور ذاتی تجربہ

کوئی لگ بھگ ایک سال قبل ’’اعمالِ قرآنی‘‘ کے نام سے ایک معروف کتاب میں درد ختم کرنے کے لئے دم کا طریقہ پڑھا کہ جہاں درد ہو وہاں ہاتھ رکھ کر سورۃ الاسراء کی آیت نمبر 105 ( وَبِالْحَقِّ أَنزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ۗ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ) تین مرتبہ پڑھ کر اس طرح پھونکیں کہ لعاب کے معمولی ذرات بھی پھونک میں شامل ہوں۔
اتفاقا چند دنوں کے بعد اہلیہ محترمہ کو دردِ سر لاحق ہوا (جو دوسروں کو لاحق کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے) تو سوچا یہ دم کر کے دیکھوں۔ چنانچہ ’’ہمت کرکے‘‘ پیشانی پر ہاتھ رکھا اور دم کر کے پھونک دیا (لعاب کےذرے اڑانے سے قطعی طور پر احتراز کرتے ہوئے، کیونکہ دن میں تارے اڑتے دیکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا)۔ (اگرچہ شوہروں کے ہاتھ سے ملا ہوا آبِ حیات بھی زوجات پر اثر نہیں کرتا لیکن) حیرت انگیز طور پر موصوفہ کے چہرے پر موجود کرب آمیز تاثرات بدلنے لگے اور چند لمحوں کے بعد ہی یہ سوال سننے میں آیا کہ یہ کیسے کیا؟ اس واقعہ کے فورا بعد مجھے اپنے نیک انسان ہونے کا شبہ ہوا، لیکن تھوڑی ہی دیر میں سرزد ہونے والی چند لغزشوں کے باعث یقین ہو گیا کہ یہ صرف اور صرف کلامِ پاک کا کرشمہ تھا۔ اس کے بعد کئی مرتبہ اس دم کا تجربہ کیا جو الحمد للہ ہمیشہ کامیاب رہا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ بعض اوقات پہلی مرتبہ میں درد ختم نہ ہو، تو دوسری اور تیسری کوشش (جس میں زیادہ توجہ سے پڑھنے کی کوشش کی جائے) میں درد ختم یا انتہائی کم ہو ہی جاتا ہے۔
کافی عرصہ تک یہ تمام کوششیں اہلیہ محترمہ تک ہی محدود رہیں۔ بعد ازاں ایک مرتبہ ہماری بڑی ہمشیرہ بمع اہلِ خانہ تشریف لائیں تو ان کے کاندھے میں سخت تکلیف تھی جو گزشتہ ایک ہفتہ سے جاری و ساری تھیں۔ انہوں نے عندیہ ظاہر کیا کہ وہ کسی اسپیشلسٹ کو دکھانے یا غالبا سی ٹی اسکین کروانے کا سوچ رہی ہیں۔ موصوفہ لاہور کے ایک بڑے انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم و تعلم کی خدمات سرانجام دیتی ہیں اور دم درود شاید ان کے لئے آخری آپشن (یہ بھی کر دیکھیں) کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان سے کچھ دیر گفت و شنید کے بعد میں اٹھ کر دوسرے کمرے میں جانے لگا تو موٹی شالز میں لپٹے ان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر چلتے چلتے ہی مذکورہ آیتِ مبارکہ پڑھ کر پھونکی اور باہر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد اس بات کو بھولا بھلایا واپس آیا تو دیکھا کہ وہ ہشاش بشاش بیٹھی ہیں اور بار بار گردن اور کندھے ہلا ہلا کر چیک کر رہی ہیں کہ کہیں دائیں بائیں چھپا درد واپس تو نہیں آنے لگا۔
کلامِ پاک کی برکت سے شفا یاب ہونے کے بعدانہوں نے جب یہ پوچھا کہ کیا پڑھا تھا تو میں نے عاملانہ و جوگیانہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے بات گول کر دی۔ لیکن اس جوگیانہ طرزِ عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے ہی روز خاندان کے اطراف و اکناف سے فون کالز کا سلسلہ جاری ہو گیا کہ مجھے کمر میں درد رہتا ہے اور مجھے سر میں درد رہتا ہے۔ ان فون کنندگان میں چونکہ کچھ غیر محرم پردہ نشینوں کے بھی نام آتے تھے اس لئے میں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ آیت مبارکہ اور دم کا طریقہ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھا اور جس جس کو ضرورت تھی ان کے ہاں پہنچا دیا (واٹس ایپ سے یہ کام آسان ہوجاتا ہے)۔ الحمد للہ! مفت کی پیری مریدی سے بھی بچ گیا اور خلقِ خدا کا فائدہ بھی ہوگیا۔
امید ہے آپ حضرات بھی استفادہ فرمائیں گے اور کامیابی کی صورت میں ناچیز کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں گے۔
نوٹ: یہ میری زندگی کا پہلا اور (تاحال) آخری کامیاب دم ہے، دم درود کے مستقل شعبے سے قطعا کوئی تعلق نہ ہے۔ اس لئے ’’ہل من مزید‘‘ سے محفوظ رکھئے گا۔ تاہم ’’اعمالِ قرآنی‘‘ کتاب سے آیاتِ قرآنیہ پر مشتمل بہت سے مفید دم کے طریقے معلوم کئے جا سکتے ہیں۔
افادۂ عام کے لئے کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک منسلک ہے : https://archive.org/download/AmalEQurani_201809/اشرف علی تھانوی - اعمال قرآنی.pdf
 
آخری تدوین:
تابش بھائی کیا اس کا کوئی طریقہ ہے کہ مضمون ارسال کرنے سے پہلے کسی نظرِ ثانی ٹیم کو ارسال کیا جائے جو کمی بیشی دور کرنے میں معاونت کرے۔ جیسے فیس بک میں ٹائم لائن پر کسی دوسرے کی جانب سے پوسٹ شیئر کرنے سے پہلے ریویو کی آپشن ہوتی ہے؟
 
تابش بھائی کیا اس کا کوئی طریقہ ہے کہ مضمون ارسال کرنے سے پہلے کسی نظرِ ثانی ٹیم کو ارسال کیا جائے جو کمی بیشی دور کرنے میں معاونت کرے۔ جیسے فیس بک میں ٹائم لائن پر کسی دوسرے کی جانب سے پوسٹ شیئر کرنے سے پہلے ریویو کی آپشن ہوتی ہے؟
کوئی طریقہ نہیں۔ ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ جن سے مشورہ لینا ہے ان کے ساتھ مکالمہ شروع کریں اور وہاں پوسٹ فائنل ہونے کے بعد یہاں پوسٹ کریں۔
 

میم الف

محفلین
ما شاء اللہ
اللہ تعالیٰ نے آپ کے دم میں تاثیر رکھی ہے۔
ایک سوال کافی عرصے سے میرے ذہن میں ہے۔
کیا قرآنی آیات کے علاوہ دیگر اوراد و اذکار وضعی اور ساقط الاعتبار ہیں؟
کچھ رہنمائی فرمائیں۔
 
آخری تدوین:
ما شاء اللہ
اللہ تعالیٰ نے آپ کے دم میں تاثیر رکھی ہے۔

اس واقعہ کے فورا بعد مجھے اپنے نیک انسان ہونے کا شبہ ہوا، لیکن تھوڑی ہی دیر میں سرزد ہونے والی چند لغزشوں کے باعث یقین ہو گیا کہ یہ صرف اور صرف کلامِ پاک کا کرشمہ تھا۔

کیا قرآنی آیات کے علاوہ دیگر اوراد و اذکار وضعی اور ساقط الاعتبار ہیں؟
کچھ رہنمائی فرمائیں۔

رہنمائی تو اہلِ علم فرما سکتے ہیں۔ اپنی معلومات کی حد تک عرض کر دیتا ہوں۔ سب سے پہلے قرآنی آیات میں شفا (ظاہری و باطنی) کا وجود تو یقینی ہے۔ دوسرے نمبر پر احادیثِ مبارکہ میں وارد ہونی والی بہت سی دعاؤں سے بھی دم کیا جاتا ہے اور بہت سے عاملین حضرات ان کے بے حد مؤثر ہونے کے قائل ہیں۔ تیسرے نمبر پر کچھ ایسے اذکار ہیں جو قرآن و حدیث میں تو مذکور نہیں ہیں لیکن اہلِ علم اور نیک لوگوں کے بیان فرمودہ ہیں، اور ان میں اللہ تعالیٰ کی کسی خاص صفت کو استعمال کرتے ہوئے جملہ بنایا جاتا ہے۔ ان کی تاثیر کے بھی بہت سے عاملین قائل ہیں اور لوگوں کے ذاتی تجربات بھی ان کے مؤثر ہونے پر شاہد ہیں۔ مثال کے طور پر ’’یا بدیع العجائب بالخیر یابدیع‘‘ کا ورد مشکل حالات کے لئے مؤثر سمجھا جاتا ہے اور یہ جملہ غالبا قرآن کریم یا حدیثِ مبارکہ کا نہیں ہے، بلکہ کسی بڑے عالمِ دین اور بزرگ کا بیان فرمودہ ہے۔
چوتھے نمبر پر کچھ ایسے جملے آجاتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا تذکرہ بھی نہیں ہے، لیکن کسی اللہ والے کی زبان پر وہ جملے جاری ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ان میں تاثیر پیدا فرما دی، یہاں تک کہ آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ان جملوں میں اللہ تعالیٰ نے تاثیر پیدا فرما رکھی ہے۔ ایسے جملوں سے متعلق ایک دلچسپ مثال شیخ سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور و معروف جملہ ہے جو انہوں نے ایک خاص موقع پر شعر کی صورت میں تحریر کیا تھا۔ پورا واقعہ مختصرا یہ ہے کہ شیخ سعدیؒ ایک مرتبہ گدھے پر سوار سفر میں تھے اور قیامِ شب کے لئے کسی جگہ کی تلاش میں تھے۔ اتفاقا ایک کسان کی کٹیا یا کٹیا نما گھر پر گزرے اور کسان سے قیامِ شب لئے جگہ طلب کی۔ کسان نے کہا کہ میری بیوی دردِ زہ میں مبتلا ہے اور آپ کوئی اللہ والے دکھائی دیتے ہیں، لہذا پہلے آپ مجھے تعویذ دیں جس سے میری بیوی پر حالتِ زچگی آسان ہو جائے۔ شیخؒ نے تعویذات سے عدم واقفیت کا اظہار کیا تو کسان اصرار کرنے لگا۔ اس پر شیخ سعدیؒ نے فارسی میں ایک شعر نما جملہ لکھ کر اس کسان کو دیدیا۔ جب اس کسان کی بیوی نے وہ تعویذ استعمال کیا تو اس کے لئے وضعِ حمل آسان ہو گیا۔ شیخ سعدیؒ کا لکھا ہوا جملہ یہ تھا: مرا جا شد خرِ ما نیز جاشد ۔۔۔ زنِ دہقاں بزاید یا نزاید (ترجمہ: مجھے اور میرے گدھے کو رہنے کا ٹھکانہ مل جائے، کسان کی بیوی اولاد جنے یا نہ جنے)۔
اب بظاہر اس جملے میں کوئی دم والی بات نہیں ہے، لیکن نہ معلوم شیخِ سعدیؒ جیسے دانا نے یہ الفاظ کس نیت سے تحریر کئے یا اللہ تعالیٰ کو نہ جانے کیا مقصود تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کلمات میں تاثیر پیدا فرمادی اور آج بھی لوگ اس جملے کے ذریے تعویذ بناتے ہیں اور حالتِ زچگی کے لئے اسے نہایت مؤثر قرار دیتے ہیں۔
اوراد و وظائف کی تیسرے اور چوتھے نمبر پر ذکرہ کردہ صورت میں اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ ان جملوں کا کوئی ایسا معنی نہ ہو جو نظریاتی لحاظ سے کسی اسلامی عقیدے کے خلاف ہو یا اس میں کسی اسلامی حکم یا شعار کی توہین یا اللہ کے مقرب فرشتوں یا بندوں کی توہین کا پہلو نہ پایا جاتا ہے۔
آخر میں ممکنہ اعتراض دور کرنے کے لئے یہ بھی عرض ہے کہ یہ ساری تفصیل ان لوگوں کے لئے ہے جو نظریاتی طور پر دم اور تعویذ وغیرہ کے قائل ہیں۔ بہت سے حضرات اس رائے کے حامل بھی ہیں کہ دم یا تعویذ وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں، بلکہ کچھ لوگ تو اس سے بھی آگے بڑھ کر سرے سے دم وغیرہ کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی صاحب اس نظریے کے حامل ہوں تو اس علمی بحث کو علمی مجالس کے لئے اٹھا رکھیں، یہ جواب صرف دم اور تعویذات کے قائل حضرات کے لئے ہے۔
 
آخری تدوین:

میم الف

محفلین
رہنمائی تو اہلِ علم فرما سکتے ہیں۔ اپنی معلومات کی حد تک عرض کر دیتا ہوں۔ سب سے پہلے قرآنی آیات میں شفا (ظاہری و باطنی) کا وجود تو یقینی ہے۔ دوسرے نمبر پر احادیثِ مبارکہ میں وارد ہونی والی بہت سی دعاؤں سے بھی دم کیا جاتا ہے اور بہت سے عاملین حضرات ان کے بے حد مؤثر ہونے کے قائل ہیں۔ تیسرے نمبر پر کچھ ایسے اذکار ہیں جو قرآن و حدیث میں تو مذکور نہیں ہیں لیکن اہلِ علم اور نیک لوگوں کے بیان فرمودہ ہیں، اور ان میں اللہ تعالیٰ کی کسی خاص صفت کو استعمال کرتے ہوئے جملہ بنایا جاتا ہے۔ ان کی تاثیر کے بھی بہت سے عاملین قائل ہیں اور لوگوں کے ذاتی تجربات بھی ان کے مؤثر ہونے پر شاہد ہیں۔ مثال کے طور پر ’’یا بدیع العجائب بالخیر یابدیع‘‘ کا ورد مشکل حالات کے لئے مؤثر سمجھا جاتا ہے اور یہ جملہ غالبا قرآن کریم یا حدیثِ مبارکہ کا نہیں ہے، بلکہ کسی بڑے عالمِ دین اور بزرگ کا بیان فرمودہ ہے۔
چوتھے نمبر پر کچھ ایسے جملے آجاتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا تذکرہ بھی نہیں ہے، لیکن کسی اللہ والے کی زبان پر وہ جملے جاری ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ان میں تاثیر پیدا فرما دی، یہاں تک کہ آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ان جملوں میں اللہ تعالیٰ نے تاثیر پیدا فرما رکھی ہے۔ ایسے جملوں سے متعلق ایک دلچسپ مثال شیخ سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور و معروف جملہ ہے جو انہوں نے ایک خاص موقع پر شعر کی صورت میں تحریر کیا تھا۔ پورا واقعہ مختصرا یہ ہے کہ شیخ سعدیؒ ایک مرتبہ گدھے پر سوار سفر میں تھے اور قیامِ شب کے لئے کسی جگہ کی تلاش میں تھے۔ اتفاقا ایک کسان کی کٹیا یا کٹیا نما گھر پر گزرے اور کسان سے قیامِ شب لئے جگہ طلب کی۔ کسان نے کہا کہ میری بیوی دردِ زہ میں مبتلا ہے اور آپ کوئی اللہ والے دکھائی دیتے ہیں، لہذا پہلے آپ مجھے تعویذ دیں جس سے میری بیوی پر حالتِ زچگی آسان ہو جائے۔ شیخؒ نے تعویذات سے عدم واقفیت کا اظہار کیا تو کسان اصرار کرنے لگا۔ اس پر شیخ سعدیؒ نے فارسی میں ایک شعر نما جملہ لکھ کر اس کسان کو دیدیا۔ جب اس کسان کی بیوی نے وہ تعویذ استعمال کیا تو اس کے لئے وضعِ حمل آسان ہو گیا۔ شیخ سعدیؒ کا لکھا ہوا جملہ یہ تھا: مرا جا شد خرِ ما نیز جاشد ۔۔۔ زنِ دہقاں بزاید یا نزاید (ترجمہ: مجھے اور میرے گدھے کو رہنے کا ٹھکانہ مل جائے، کسان کی بیوی اولاد جنے یا نہ جنے)۔
اب بظاہر اس جملے میں کوئی دم والے بات نہیں ہے، لیکن نہ معلوم شیخِ سعدیؒ جیسے دانا نے یہ الفاظ کس نیت سے تحریر کئے یا اللہ تعالیٰ کو نہ جانے کیا مقصود تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کلمات میں تاثیر پیدا فرمادی اور آج بھی لوگ اس جملے کے ذریے تعویذ بناتے ہیں اور حالتِ زچگی کے لئے اسے نہایت مؤثر قرار دیتے ہیں۔
اوراد و وظائف کی تیسرے اور چوتھے نمبر پر ذکرہ کردہ صورت میں اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ ان جملوں کا کوئی ایسا معنی نہ ہو جو نظریاتی لحاظ سے کسی اسلامی عقیدے کے خلاف ہو یا اس میں کسی اسلامی حکم یا شعار کی توہین یا اللہ کے مقرب فرشتوں یا بندوں کی توہین کا پہلو نہ پایا جاتا ہے۔
آخر میں ممکنہ اعتراض دور کرنے کے لئے یہ بھی عرض ہے کہ یہ ساری تفصیل ان لوگوں کے لئے ہے جو نظریاتی طور پر دم اور تعویذ وغیرہ کے قائل ہیں۔ بہت سے حضرات اس رائے کے حامل بھی ہیں کہ دم یا تعویذ وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں، بلکہ کچھ لوگ تو اس سے بھی آگے بڑھ کر سرے سے دم وغیرہ کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی صاحب اس نظریے کے حامل ہوں تو اس علمی بحث کو علمی مجالس کے لئے اٹھا رکھیں، یہ جواب صرف دم اور تعویذات کے قائل حضرات کے لئے ہے۔
بہت شکرگزار ہوں، عدیل بھائی۔
نہایت مفید اور معلوماتی جواب تحریر فرمایا ہے آپ نے۔
ذہن مطمئن ہو گیا :)
 
Top