قوم پرستی

A Basit

محفلین
پچھلی دو صدیوں سے جن تصورات نے دنیا کے اساسی نظام کو بڑی حد تک متأثر کیا ہے، ان میں ایک نیشنلزم یا قوم پرستی ہے۔ اس تصور کی ابتدا یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے بعد ہوئی۔ اس تصور کا حاصل یہ ہے کہ کسی مخصوص جغرافیائی حدود میں رہنے والے باشندے جو کسی نظام کے تحت زندگی بسر کر رہے ہوں، انھیں ایک قوم مانا جائے۔ اس حد تک یہ تصور محض ایک واقعہ کا نام ہے، جو نظام حکومت کی خاصیت کا اظہار کرتا ہے۔ جب اس واقعہ سے بڑھ کر یہ کہا جاتا ہے کہ ہر فرد کو ہر حال میں اپنی قوم کی حمایت کرنی چاہیے، چاہے وہ حق ہو یا نہ ہو۔ اس تصور میں بے اعتدالی پیداہو جاتی ہے۔ قوم کی ہر حال میں تائید اور رعایت کو نیشنلزم یا قوم پرستی کہا جاتا ہے۔
اس نظریہ میں اورعلاقائیت میں کوئی فرق نہیں ہے۔قوم پرستی کی اس تعریف سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ نظریہ کسی ایک ملک کے باشندوں کو دنیا کے دوسرے انسانوں کے ساتھ ناانصافی کی روش پر آمادہ کر سکتا ہے۔ اس لحاظ سے قوم پرستی کا نظریہ ہر اس آفاقی نظام سے ٹکراتا ہے، جو کہ وحدت بنی آدم کا قائل ہو۔اسلام ایسا ہی ایک آفاقی نظریہ ہے ۔ چناں چہ دو قوموں کے درمیان کشیدگی کی حالت میں بھی انصاف کی تعلیم دیتا ہے۔ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے بھی پھر جائو۔ عدل کرو،یہ خدا پرستی سے زیادہ قریب ہے۔(المائدہ: ۱)
موجودہ حالات میں بد قسمتی سے ملک کے مختلف طبقات کے درمیان یہ جنگ جاری ہے ، جس کے نتیجہ میں اشتعال انگیزی بربریت اور افراط و تفریط کا رویہ سامنے آرہا ہے۔ خاص طور سے طلبہ برادری جسے عدل و انصاف کا پیکر اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل ہونا چاہیے تھا وہ بھی مایوسی کا شکار ہوتی جا رہی ہے ۔ بعض طلبہ کے اندرجارحانہ جذبات کا فروغ ہو رہا ہے تو بعض اپنی زندگی سے مایوس نظر آرہے ہیں ۔
امت مسلمہ کے افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم پرستی کی بحث میں علمی ہتھیاروں سے لیس ہو کر حصہ لیں اور ملک کے عام باشندوں کے سامنے اسلام کا نظام حیات تفصیل کے ساتھ پیش کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جن طبقات کے ساتھ ظلم و زیادتی کا رویہ رکھا جا رہا ہے ان کے ساتھ مل کر ظلم کے خلاف آواز بلند کریں۔
ملک و ملت کے نازک مسائل کا ادراک آج وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اس کے لیے حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنا امت مسلمہ کے تمام افراد کے لیے اشد ضروری ہے ۔ اس سلسلے میں مسلم طلبہ اور نو جوانوں کی ذمہ داری زیادہ ہے اس لیے وہ ملک کی نئی نسل سے براہ راست ربط قائم کرنے اور گفتگو کرنے کی پوزشن میںہیں۔
امت مسلمہ کے اہل علم طبقہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ عصر حاضر کے غالب نظریات اور ان نظریات سے تشکیل پائے عالمی نظام کا تجزیہ پیش کریں۔ یعنی امت کے عوام و خواص کو مغربی افکار و نظریات اور ان کے مہلک اثرات کی شدت کا احساس کرادے۔ اگر چہ یہ فریضہ امت مسلمہ کے مصلحین پچھلی ایک صدی سے بڑی شد و مد سے انجام دیتے رہے ہیں ۔ لیکن یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ وہ دور ابھی مغربی تہذیب و تمدن کو مکمل طور پر عالمی انسانی اقدار اور عالم انسانیت پر اپنے مضر اثرات میں اتنا مکمل نہیں تھا جتنا کہ موجودہ زمانے میں ہے اور با ٓسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یقیناً یہ کام بہت محنت اور لگن کا طالب ہے اور منظم جدو جہد چاہتا ہے۔ الحمد للہ امت کے اندر ایسے افراد موجود ہیں جو یہ کار خیر جو کہ فرض کفایہ کا درجہ رکھتا ہے بحسن خوبی انجام دے سکتے ہیں ؎
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
پچھلے دو سال کے واقعات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک کی تعلیم گاہوں میں انسانیت نواز جذبات ابھی باقی ہیں ، اساتذہ اور طلبہ کی بڑی تعداد، انصاف اور انسانی حقوق کے سلسلے میں سنجیدہ ہے۔ ضرورت ہے کہ ایسے عناصر کے سامنے اسلام کا پیغام پیش کیا جائے۔ اس لیے کہ اسلام کے اندر قیام عدل اور حقوق انسانی کی پاسداری کے لیے مستحکم بنیادیں موجود ہیں۔ کوئی اور نظریۂ حیات فی الواقع اس ضرورت کو پورا نہیں کرتا۔ امت کے نو جوان اگر ملک کے اہل دانش کو اسلام کے تصورات اور تعلیمات سے واقف کرائیں گے تو انسانیت اور ملک کی بہت بڑی خدمات انجام دیں گے ؎
ہر ایک منتظر تیری یلغار کا تیری شوخی فکر و گفتار کا
Abdul Basit
 
Top