حسان خان

لائبریرین
«علاءالدین عطا ملِک جُوَینی» کی سِتائش میں ایک بیت:
چُنان رمَند و دوَند اهلِ بدعت از نظرش

که از مسیحا دجّال و از عُمَر شیطان
(سعدی شیرازی)
اُس کی نظر سے اہلِ بِدعت اِس طرح دُور بھاگ دوڑ جاتے ہیں کہ جیسے حضرتِ مسیح سے دجّال، اور حضرتِ عُمَر سے شیطان [دُور بھاگ دوڑ جاتا ہے]۔۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
جنابِ «حافظ شیرازی» کی ایک غزل کی ابتدائی دو فارسی-عرَبی ابیات:

می‌دمَد صُبح و کِلّه بست سَحاب
الصَّبُوح الصَّبُوح یا اَصحَاب
می‌چکَد ژاله بر رُخِ لاله
المُدام المُدام یا اَحبَاب
(حافظ شیرازی)


صُبح طُلوع ہو رہی ہے، اور ابر نے [فلک پر] خیمہ و چادر و سائبان باندھ دیا [ہے]۔۔۔ بادۂ صُبح‌گاہی [لے آئیے]! بادۂ صُبح‌گاہی [لے آئیے]! اے اصحاب!

گُلِ لالہ کے چہرے پر شبنم ٹپک رہی ہے۔۔۔ شراب [لے آئیے]! شراب [لے آئیے]! اے دوستان!
 

حسان خان

لائبریرین
جنابِ «حافظ شیرازی» ایک بیت میں ایک قُرآنی عِبارت کو اِقتِباس کرتے ہوئے کہتے ہیں:

چشمِ حافظ زیرِ بامِ قصرِ آن حُوری‌سِرِشت
شیوهٔ جَنّاتُ تَجْرِي تَحْتِهَا ألأَنهَار داشت
(حافظ شیرازی)


اُس [جانانِ] حُورفِطرت کے قصر کے بام کے زیر میں «حافظ» کی چشمِ [گِریاں] کی طرز و حالت ویسی تھی کہ گویا وہ باغاتِ پُردرخت ہوں کہ جن کے زیر سے نہریں جاری ہیں۔۔۔۔

(یعنی چشمِ «حافظ» زیرِ بام سے معشوق کے قصر کی جانب نگاہ کر رہی تھی اور اشک بہا رہی تھی۔ اور چشمِ «حافظ» سے اشک ویسے جاری تھے کہ جیسے درختانِ باغ کے زیر سے آبِ رواں جاری ہو۔ بہ علاوہ، اِس بیت میں «حافظ» نے قصرِ جاناں کو جنّت سے، جبکہ اپنی چشم کے اشکوں کو جنّت کے اندر بہنے والی نہروں سے تشبیہ دی ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
سَیرِ صحرایِ جُنون کُن که ز غم بازرَهی
غمِ ایّام در آن بادیه بِسیار کم است
(محمد فضولی بغدادی)

صحرائے جُنوں کی سَیر کرو تاکہ غم سے نِجات پا لو!۔۔۔ اُس بِیابان میں غمِ ایّام بِسیار کم ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کسی «حنیفه» نامی معشوق کے لیے تیموری پادشاہ «ظهیرالدین محمد بابُر» کی ایک فارسی رُباعی:

(رباعی)
رُویِ چو مهِ حنیفه را بنده شوَم
مُویِ سیهِ حنیفه را بنده شوَم
خُویِ تبه‌اش گرچه بلایِ جان است
خُویِ تبهِ حنیفه را بنده شوَم

(ظهیرالدین محمد بابُر)

میں «حنیفہ» کے ماہ جیسے چہرے کا غُلام ہو جاؤں!۔۔۔ میں «حنیفہ» کے سیاہ بالوں کا غُلام ہو جاؤں!۔۔۔ اُس کی عادتِ تباہ [و فاسِد] اگرچہ بلائے جان ہے۔۔۔۔ میں «حنیفہ» کی عادتِ تباہ کا غُلام ہو جاؤں!

× «بنده شوم» کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے: ۔۔۔غُلام ہو جاؤں گا!
 

حسان خان

لائبریرین
«یمینُ‌الدَّوله سُلطان محمود غازی غزنوی» کی سِتائش میں ایک بیت:
تا جنگِ بندگانْش بِدیدند مردُمان

کس در جهان همی‌نبَرَد نامِ روستم
(فرُّخی سیستانی)
جب سے مردُم نے اُس کے غُلاموں کی جنگ دیکھی [ہے]، جہان میں کوئی شخص «رُستَم» کا نام نہیں لیتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
شہرِ لاہور کے اوّلین فارسی شاعر جنابِ «مسعود سعد سلمان لاهوری» بھی شاہنامہ‌خواندہ تھے۔ اِس کے اِثبات کے لیے مندرجۂ ذیل بیت دیکھیے جو شاعر نے حاکمِ پنجاب «سیف‌الدوله محمود بن سُلطان ابراهیم غزنوی» کی سِتائش میں کہی تھی اور جس میں اُنہوں نے ممدوحِ خود کو «شاہنامہ» کی دو اساطیری شخصیتوں «رُستَم» اور «کَیقُباد» کے ساتھ مُشابِہ ٹھہرایا ہے:

آن به گهِ کوشش چون روستَم
وان به گهِ بخشش چون کَیقُباد
(مسعود سعد سلمان لاهوری)


وہ [شاہ کہ جو] بہ وقتِ جنگ و جدَل «رُستَم» کی مانند ہے۔۔۔ اور وہ [شاہ کہ جو] بہ وقتِ عطا و بخشِش «کَیقُباد» کی مانند ہے۔
 
از حيا با چرب طبعان بر نيايد هيچ کس
آب در هر جا که ديدم زيردست روغن است

بیدل دھلوی
ترجمہ
حیادار، چرب زبان سے نہیں جیت سکتا، دیکھا گیا ہے کہ چکنائی ہمیشہ پانی کے اوپر ہی رہتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
«منوچهری دامْغانی» کی ایک خَمریّہ نظم سے ایک بیت:

پس از نمازِ دِگر روزگارِ آدینه
نبیذ خور که گُناهان عفْو کُنَد ایزد

(منوچهری دامغانی)

بہ روزِ جُمعہ نمازِ عصر کے بعد شراب پِیو کیونکہ/تاکہ خُدا گُناہوں کو مُعاف کر دے [گا]!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
«شراب» کی سِتائش میں «منوچهری دامغانی» کی پانچ ابیات:

مَی بر کفِ من نِه که طرب را سبب این است

آرامِ من و مُونِسِ من روز و شب این است
تریاقِ بُزُرگ است و شفایِ همه غم‌ها
نزدیکِ خِردمندان مَی را لقب این است
بی مَی نتوان کرد شادی و طرب هیچ
زیرا که بدین گیتی اصلِ طرب این است
معجونِ مُفرّح بُوَد این تنگ‌دلان را
مر بی‌سلَبان را به زِمِستان سلَب این است
آی آنکه نخوردَستی مَی گر بِچَشی زان
سَوگند خوری، گویی: شهد و رُطَب این است
(منوچهری دامغانی)

میرے دست پر شراب رکھو (یعنی مجھے شراب تھماؤ) کیونکہ طرب کا سبب یہ ہے۔۔۔ میرا آرام اور میری مُونِس شب و روز یہ ہے۔۔۔ یہ تریاقِ بُزُرگ ہے، اور تمام غموں کی شِفا ہے۔۔۔ خِرَدمندوں کے نزدیک شراب کا لقب یہ ہے۔۔۔ شراب کے بغیر ذرا بھی شادمانی و طرَب نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ کیونکہ اِس جہان میں طرَب کی اصل و اساس یہ ہے۔۔۔۔ یہ [شراب] تنگ‌دل اشخاص کے لیے معجونِ فرح‌آور ہے۔۔۔ [جبکہ] موسمِ سرما میں بے‌لباس اشخاص کے لیے لِباس یہ ہے۔۔۔ اے وہ کہ جس نے شراب نوش نہیں کی ہے۔۔۔ اگر تم اُس میں سے [ذرا سی] چکھ لو تو قسم کھا کر کہو گے کہ: شہد و خُرما یہ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
قُرآن میں آیا ہے کہ «اِبلیس» نے یہ کہہ کر تکبُّر کا اِظہار کیا تھا کہ: "خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ" ([اے خُدا!] تم نے مجھے آتش سے خَلق کیا)۔۔۔ قرنِ یازدہُم و دوازدہُمِ عیسوی کے ایک فارسی شاعر «حکیم عُثمان مُختاری غزنوی» ایک مدحیہ قصیدے میں «خواجه ابوالحسن علی بن محمد بن حُسین وزیر معروف به عمید رئیس» کی سِتائش کرتے ہوئے اور مذکورہ قُرآنی عِبارت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ز حِشمتِ تو نگُفتی خَلَقْتَنِي مِنْ نَار
اگر بِدیدی در صُلبِ آدمت اِبلیس
(حکیم عُثمان مُختاری غزنوی)


اگر «اِبلیس»، «آدم» کے صُلب میں تم کو دیکھ لیتا تو وہ تمہارے دبدَبہ و شُکوہ و جلال کے باعث یہ نہ کہتا [اور تکبُّر نہ کرتا] کہ: "[اے خُدا!] تم نے مجھے آتش سے خَلق کیا"۔۔۔

==============

وہ اشخاص اب کہاں چہرہ چُھپاتے پِھریں گے جن کی ناقِص رائے یہ ہے کہ کلاسیکی مدحیہ قصائد شعریت اور مضمون‌آفرینی سے عاری و خالی ہوتے ہیں؟ :)
 
به جناب کرم افسون ورع پیش مبر
بی‌گناهی گنهی نیست که آنجا بخشند

بیدل دھلوی
ترجمہ
صاحبِ مغفرت کے ہاں تقویٰ کا جادو نہیں چلتا بے گناہی تو گناہ نہیں کے وہاں بخشا جائے
 

حسان خان

لائبریرین
«سُلطان محمود غزنوی» کے دربار کے ملِکُ‌الشُّعَراء «عُنصُری بلخی» کی سِتائش میں ایک بیت:

او رسولِ مُرسَلِ این شاعرانِ روزگار
شعرِ او فُرقان و معنی‌هاش سرتاسر سُنَن

(منوچهری دامغانی)

وہ اِن شاعرانِ زمانہ کا رسولِ مُرسَل ہے۔۔۔ اُس کی شاعری قُرآنِ فُرقان، اور اُس کے معانی تماماً سُنّتیں ہیں۔ (یعنی اُس کی شاعری اور اُس کے معانی بالترتیب قُرآن و سُنّت ہیں۔)
 

حسان خان

لائبریرین
جنابِ «حافظ شیرازی» کی ایک غزل سے دو ابیات:

مَی‌خواره و سرگشته و رِندیم و نظرباز
وان کس که چو ما نیست در این شهر کُدام است
با مُحتَسِبم عیب مگویید که او نیز
پیوسته چو ما در طلبِ عیشِ مُدام است
(حافظ شیرازی)


ہم مَیخوار [و آوارہ] و سرگشتہ و رِند و نظرباز ہیں۔۔۔۔ [لیکن] اِس شہر میں کون سا شخص ایسا ہے جو ہم جیسا نہیں ہے؟ (یعنی اِس شہر میں ہمہ اشخاص ہی ہم جیسے ہیں۔)

مُحتَسِب سے میرا عَیب مت کہیے کیونکہ وہ بھی ہماری مانند ہمیشہ عَیش و شادکامیِ دائمی (یا عَیش و شادکامیِ شراب) کی طلب میں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا گنجِ غمت در دلِ ویرانه مُقیم است
همواره مرا کویِ خرابات مقام است
(حافظ شیرازی)


جب سے تمہارے غم کا گنجینہ [میرے] دلِ ویرانہ میں مُقیم ہے، میرا مقام [و مسکن] ہمیشہ کُوئے خرابات ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
فارسی-تُرکی شعری روایت میں شہرِ «اِصفہان» کے سُرمے مشہور رہے ہیں۔ تاہم، «قُدسی مشهدی» ایک فارسی بیت میں «مُلکِ کشمیر» کی سِتائش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر «اصفہان» کسی وقت «کشمیر» کا نام صلَوات کے بغیر لے تو اُس کا عِلاج سنگِ سُرمہ ہے۔ یعنی «اصفہان»، کہ جو عالی‌ترین سُرمے کا سرچشمہ ہے، اگر وہ بھی «کشمیر» کی سِتائش میں کوتاہی کرے تو یہی سمجھا جائے گا کہ اُس کی بِینائی ضعیف ہے اور خود اُس کو تقویتِ بینائی کے لیے سُرمے کی حاجت ہے۔

صِفاهان راست سنگِ سُرمه تدبیر
چو بی صلوات گوید نامِ کشمیر
(قُدسی مشهدی)


«اصفہان» اگر «کشمیر» کا نام صلَوات کے بغیر کہے تو «اصفہان» کا عِلاج و تدبیر سنگِ سُرمہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
«هِلالِ عید» کے بارے میں ایک کشمیری شاعر کی ایک فارسی بیت:

یا رب این حلقهٔ رخشنده هِلالِ عیدست
یا که تیغی‌ست که حلقِ رمَضان بِبْریدست
(میرزا محمد علی آزاد کشمیری)


یا رب! [آیا کیا] یہ حلقۂ رخشَندہ و تاباں «ہِلالِ عید» ہے؟۔۔۔ یا پھر یہ اِک تیغ ہے کہ جس نے ماہِ رمَضان کے حلق کو کاٹ دیا ہے؟ِ
 

حسان خان

لائبریرین
«سُلطان محمود غزنوی» کے دربار کے ملِکُ‌الشُّعَراء «عُنصُری بلخی» کی سِتائش میں دو ابیات:

شعرِ او فردوس را مانَد که اندر شعرِ اوست
هر چه در فردوس ما را وعده داده ذُوالمِنَن
کوثر است الفاظِ عذبِ او و معنی سلسَبیل
ذوقِ او انهارِ خَمر و وزنش انهارِ لبَن
(منوچهری دامغانی)


اُس کی شاعری فِردوس سے مُشابہت رکھتی ہے کیونکہ اُس کی شاعری میں ہر وہ چیز ہے کہ جس کا فِردوس میں [ہونا] خُدائے ذُوالمِنَن نے ہم سے وعدہ کیا ہے۔۔۔۔ اُس کے الفاظِ شیریں «کوثر» ہیں، اور [اُس کے] معنی «سلسَبیل» ہیں۔۔۔ اُس کی لذّت «شراب کی نہریں»، اور اُس کا وزن «شِیر کی نہریں» ہیں۔

=========

«عُنصُری بلخی» اور «منوچهری دامْغانی» ہر دو شاعروں پر سلام ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
ہم میں سے کئی اشخاص کو شاعری کہنے کا اِتنا زیادہ اِشتِیاق ہوتا ہے کہ وہ شاعری کے بُنیادی قواعد و قوانین سے آشنا ہوئے بغیر ہی شاعری کرنے کی کوششوں کا آغاز کر دیتے ہیں، اور نتیجتاً اکثر و بیش‌تر اوقات اُن کے قلموں سے نِکلنے والی شاعری نادُرُست ہوتی ہے، بلکہ ہرگز "شعر" کہلانے ہی کی لائق و سزاوار نہیں ہوتی۔ ایسے اشخاص کو ہماری زبانِ فارسی کے ایک شاعرِ مُسلّم‌الثُبوت جنابِ «منوچهری دامغانی» کی اِس نصیحت کی جانب توجُّہ دینی چاہیے:

شعر ناگُفتن بِه از شعری که باشد نادُرُست

بچّه نازادن بِه از شش‌ماهه بِفْکندن جَنین
(منوچهری دامغانی)

شاعری نہ کہنا اُس شاعری سے بہتر ہے کہ جو نادُرُست ہو۔۔۔ بچّہ نہ جَننا، شش‌ماہہ جَنین (فِیٹَس) گِرانے سے بہتر ہے۔ (یعنی قبل از اِتمامِ و اِکمالِ جَنین، سقطِ حمل کر دینے سے بہتر ہے کہ بچّہ جنا ہی نہ جائے!)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یا رب چه چشمه‌ای‌ست محبّت که من ازان
یک قطره آب خوردم و دریا گِریستم
(واقف لاهوری)


یا رب! محبّت اِک کیسا چشمہ ہے کہ میں نے اُس میں سے [فقط] ایک قطرہ آب پِیا [لیکن بعد ازاں] میں نے بحر [کے بقَدر] گِریہ کیا!

× مذکور در بالا بَیت «تذکرهٔ مصطَبهٔ خراب» میں ایک صاحبِ دیوان کشمیری شاعر «میرزا محمد علی آزاد کشمیری» سے منسوب کی گئی ہے۔ لیکن «دیوانِ واقفِ لاهوری» کی دو مختلف طباعتوں میں مجھ کو یہ بیت نظر آ گئی ہے، اور لہٰذا میں مُطمئِن ہوں کہ یہ بیت «واقفِ لاهوری» کی ہے۔
 
Top