نصیر ترابی غزل : شبِ فراق میں چہرہ نُما گزرتی ہے - نصیر ترابی

غزل
شبِ فراق میں چہرہ نُما گزرتی ہے
کبھی چراغ بکف بھی ہوا گزرتی ہے

دلوں کی راہ میں دریا بھی آئے تھے کیا کیا
اب اس سفر میں زمیں زیرِ پا گزرتی ہے

وہ رات گھر میں پریشان و سر گراں گزری
جو رات شہر میں نغمہ سَرا گزرتی ہے

تمام رات فضا میں وہی ہے گریۂ میرؔ
کسے خبر پسِ دیوار کیا گزرتی ہے

نہ آئی ساعتِ جاناں کہ جس کو آنا تھا
اور ایک ساعتِ جاں بارہا گزرتی ہے

کھلا یہی کہ شکست آشنا بھی ہے کیا کیا
وہ اک نگہ جو نَبرد آزما گزرتی ہے

ہم اہلِ ہجر کو صحرا ہی ایک رستہ تھا
اب اس طرف سے بھی خلقِ خدا گزرتی ہے

کبھی یہ حال کہ مل کر بھی جی نہ بھرتا تھا
اور اب بغیرِ سلام و دعا ، گزرتی ہے

رفاقتوں کے یہ موسم بھی دیکھنا تھا نصیرؔ
ہماری عمر بھی ہم سے جدا گزرتی ہے
نصیر ترابی
1978ء
 
Top