کریں گے بات نہ اس کی یہ ہم نے ٹھانی ہے

عاطف ملک

محفلین
کریں گے بات نہ اس کی یہ ہم نے ٹھانی ہے
ہمارے دل نے مگر کب ہماری مانی ہے

نہ آرزو ہے کسی نفع کی، نہ خوفِ زیاں
یہ زندگانی بھی کیا خاک زندگانی ہے

اسی کی یاد، اسی کا خیال، اسی کا ذکر
ہمارے پاس تو بس ایک ہی کہانی ہے

مرے تڑپنے کا گر آپ اڑا رہے ہیں مذاق
تو جان لیں یہ گھڑی آپ پر بھی آنی ہے

کتابِ عشق کی مانند ہے تری صورت
پہ دیکھنے کا یہ انداز امتحانی ہے

وہ التجاؤں کا تیری جواب دے کیونکر
سنی ہیں اس نے یہی اس کی مہربانی ہے

کوئی بھی لمحہ نہ خالی ہو یاد سے اس کی
یہی ہے رِیت محبت کی جو نبھانی ہے

عاطفؔ ملک
جولائی ۲۰۱۹​
 
Top