ننھو من موجی

با ادب

محفلین
ننھو من موجی

ننھو من موجی کی جیون کی ڈھب ہی نرالی تھی ۔ پیدا ہوا تو باوا گزر گئے ۔ مَیَّا نے ہتھیلی کا چھالہ بنایا نہ دن کی فکر نہ رات کا ہوش ۔ ذمے داری ' بردباری کَے بَلا کے نام ہیں ننھو کی جانے جوتی ۔
وہ ہنسی موج مذاق کا آدمی تھا ۔ اِس بیٹھک کی شان ' اُس چوپال کی آن ۔ جہاں بیٹھتا سماں باندھ دیتا ۔ ہنسی ' چٹکلے ' ادائیں سبھی سے مالا مال تھا ۔ وجاہت گھر کی دیوی نہ تھی لیکن لڑکیاں بالیاں ننھو کی دیوانی تھیں ۔ وہ باتیں بگھارنے کاماہرتھا۔ لڑکیاں ہنسی ٹھٹھے پہ فدا ہوئی جاتیں ۔

ننھو نے سنجیدگی نام کی چڑیا کے کبھی درشن کیے ہی نہ تھے ۔ وہ محفل کی جان تھے جہاں ہوتے لوگ باگ گھیرا ڈال کے بیٹھ جاتے ۔ وہ ہر بات پہ لطیفہ کہتے شان سے کِلی اڑاتے عام سی بات پہ ایسا چٹخارہ بھرتے کہ سننے والے لوٹ پوٹ ہوئے جاتے ۔
ننھو کی ان حرکتوں سے اوباش ' آوارہ متأثر رہتے اور شرفاء سے انکو کبھی واہ پڑا نہیں تھا ۔
کہتے ہیں ہر سیر کا سوا سیر ہوا کرتا ہے ۔ ننھو کا سوا سیر ماسٹر رام لال بن کر آئے ۔ ماسٹر رام لال منخنی وجود اور ناٹے قد کے شدھ بنگالی تھے ۔ ننھو ہنسی تماشے کا بادشاہ تو رام لال کی جیون میں ہنسنے کا موقع فقط ایک بار آیا تھا جب انکی مائی بردکھوے کے لیے یہ کہہ کے لے گئی تھیں کہ مسکرائے گا تو جورو آوے گی گھر میں ۔ ورنہ ایسے ہونٹ سیے چھوکرے کو کوئی لڑکی قبول نہ کرے گی ۔ اس دن ماسٹر جورو پانے کی خاطر سارا دن دھیمے دھیمے مسکاتے رہے ۔
جوں ہی لڑکی کے ابا مانے ' رام لال کی پکی شکل پہ پھر سے وہی سنجیدگی ڈیرا ڈال کے بیٹھ گئی ۔ بعد میں جورو آٹھ آٹھ آنسو روتی دہائیاں دیتی ' رام لال کے دھوکے نے ناری کو آگ میں لا جھونکا ۔ نہ وہ اس دن بھانچیں کھلا کے بیٹھتا نہ ہی دونوں کی کنڈلی ملتی ۔

وہی رام لال ننھو کی قسمت کی کالی آندھی بن کے آیا ۔ گاؤں والے نئے نئے آئے اکلوتے ماسٹر کی آؤبھگت اور دل بستگی کی خاطر ننھو کو پکڑ لائے ۔ ننھو لفظوں کا کھلاڑی ' جملے پہ جملہ پھینکے جاتا ۔ لڑکے ہنسی سے دوہرے ہو کے پیٹ پکڑتے اور ماسٹر ٹھس سا بیٹھا پتھر کا مجسمہ لگتا ۔
زندگی کی پہلی سنجیدہ آڈئینس نے ننھو کے دل پہ گہرا وار کر ڈالا ۔ وہ ہر چٹکلے کے بعد ماسٹر کے تأثرات دیکھتا اور ماسٹر کو گوتم بدھ بنا دیکھ کے کوفت سے پاگل ہو اٹھتا ۔ اگلے جملے کی مزید نوک پلک سنوارتا اور ماسٹر کے دل و دماغ پہ ایٹم بم کی صورت داغ دیتا ۔ لیکن ماسٹر کا دل اور دماغ ہیرو شیما نہ بن سکا ۔
اپنے ہتھیار کا یہ حشر ننھو نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا ۔ وہ غم و غصے میں مبتلا ہو چلا تھا ۔ چاہتا تھا چیخ چیخ کے پوچھے کون کافر ہے یہ جسے کے ہونٹ کسی ویرانے کی چڑیل نے سی ڈالے ہیں ۔
ماسٹر ننھو کے جذبات سے بے نیاز اپنے اسی سپاٹ انداز میں پالتی مارے بیٹھے تھے ۔

ننھو کی من موجی طبیعت پہ پہلا وار ماسٹر کی سنجیدگی کی صورت ہوا تھا ۔ بھلا یہ کیسا آدم زاد ہے جسے مسکرانا نہیں آتا ۔ ایسے بھی کوئی ہوتا ہے بھلا ۔
محفل کے اختتام تک ماسٹر ' رام لال ہی رہا لیکن ننھو ' من موجی نہ رہا تھا ۔ اسے دل کا روگ لاحق ہوگیا تھا ۔
تب جب محفل لوٹ پوٹ رہی تھی تب وہ کیوں نہ ہنسا تھا ۔
ایسا بھی کوئی ہوسکتا ہے جو ننھو سے ملے اور خود کو بھول نہ جائے ۔ لیکن ایسا ہو چکا تھا ۔ ننھو دی سپر اسٹار کی چمک ماند پڑ گئی تھی ۔ ننھو کو غم نے آلیا تھا ۔ اسکے ذہن پہ رام لال کا چہرہ نقش ہو کے رہ گیا تھا ۔ وہ کیوں نہیں ہنسا تھا ۔
وہ کیوں خاموش رہا ۔
دن رات صبح شام اسی غم نے ننھو کو بستر سے لگا دیا ۔
ماسٹر اسکول کے بچوں میں گم ہو کے ننھو کو کب کا بھول بھال چکا تھا ۔
گاؤں کے لوگ آتے ننھو کو دیکھتے آہیں بھرتے اور یہ کہہ کہ چل پڑتے کہ ننھو پہ بھوت پریت کا سایہ ہو گیا ہے ۔
ننھو من موجی اب ننھو آسیبی ہو چلا تھا ۔ ذات کے زعم میں گم من اور موج کا کھلاڑی ذات کی نفی سہہ نہ پایا ۔
اب جب مائیں بچوں کو سلانے کے لیے کہانیاں سناتیں تو انکا عنوان " ایک ننھو من موجی تھا " ہوا کرتا ۔
بھوت پریت اور آسیبوں نے خلقِ خدا کی ہر الجھن کا ذمے دار بننا قبول کر لیا ہے ۔ ننھو قصہ پارینہ ہوگیا اور دنیا آج تک نہیں جان پائی کہ ننھو کو کیا فکر کھا گئی تھی ۔

تالیوں کی گونج میں رہنے والا سناٹے کا لمحہ سہہ جاتا تو آج کہانی کچھ اور ہوتی ۔

سمیرا امام
 

با ادب

محفلین
لاجواب
ایسے لمحات ہی انسان کہ زندگی کی ڈگر پر موڑ بن کر آتے ہیں۔ کچھ اچھی راہوں کی طرف لے جاتے ہیں، کچھ اندھی راہوں پر۔

انسانی نفسیات بے حد پیچیدہ ہے ۔ کہاں کس مقام پہ الجھ جائے
ایک الجھن کبھی پوری زندگی کا احاطہ کر دیتی ہے
 
Top