اردو تاریخ نگاری میں جذبات کی آمیزش

جاسمن

لائبریرین
مذہبی طبقہ وہی ہے جو مسجد کے منبر پہ بیٹھ کر باقی طبقے کی سمت طے کرتا ہے یا مذہب کا قلم جس کے پاس ہے
مسجد کے ممبروں پہ اکثر ایسے لوگ بیٹھے ہیں جن کی مذہبی تعلیم یا ناظرہ ہے یا حفظ۔ انہیں تجوید و قرات کی بنیاد پہ امام چنا جاتا ہے۔ ان میں کم لوگ ہیں کہ جنھوں نے کسی مدرسہ سے عالم کا مکمل کورس کیا ہو۔
دونوں طرح کے لوگوں کا سماجی معاشی رتبہ بہت کم ہے۔ ان کے پیچھے دیکھیں تو ان کے والدین کا بھی یہی حال اور والدین کی تعلیم بھی نہیں یا کم۔
ائمہ حضرات کی تنخواہیں اور دیگر سہولیات کے بارے میں کبھی تحقیق کریں تو معلوم ہو کہ کس قدر محروم طبقہ ہے۔ معاشرہ کے اکثر دنیاوی تعلیم یافتہ ان پہ طنزوطعنہ زنی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ مسلسل تحقیر کے رویے ہم دیکھتے ہی ہیں۔ پھر ان ہی پہ "مثالی" ہونے کا دباؤ بھی ہے۔ انھیں ہی عالم سمجھا جاتا ہے۔ دین کا ٹھیکیدار وغیرہ۔
دنیاوی تعلیم یافتہ اور اس طبقہ میں اس قدر دوری ہے کہ دور ہی نہیں ہوتی۔ یہ طبقہ ایلین کی طرح نظر آتا ہے۔
دوسری طرف دیکھیں تو خود یہ لوگ بھی سستی اور کاہلی کا شکار ہیں۔ معاش کے لیے مزید کوئی ذریعہ بھی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگ کرتے بھی ہیں۔ مشکلات ہیں لیکن حرکت میں برکت ہے۔ کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
 
مسجد کے ممبروں پہ اکثر ایسے لوگ بیٹھے ہیں جن کی مذہبی تعلیم یا ناظرہ ہے یا حفظ۔ انہیں تجوید و قرات کی بنیاد پہ امام چنا جاتا ہے۔ ان میں کم لوگ ہیں کہ جنھوں نے کسی مدرسہ سے عالم کا مکمل کورس کیا ہو۔
دونوں طرح کے لوگوں کا سماجی معاشی رتبہ بہت کم ہے۔ ان کے پیچھے دیکھیں تو ان کے والدین کا بھی یہی حال اور والدین کی تعلیم بھی نہیں یا کم۔
ائمہ حضرات کی تنخواہیں اور دیگر سہولیات کے بارے میں کبھی تحقیق کریں تو معلوم ہو کہ کس قدر محروم طبقہ ہے۔ معاشرہ کے اکثر دنیاوی تعلیم یافتہ ان پہ طنزوطعنہ زنی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ مسلسل تحقیر کے رویے ہم دیکھتے ہی ہیں۔ پھر ان ہی پہ "مثالی" ہونے کا دباؤ بھی ہے۔ انھیں ہی عالم سمجھا جاتا ہے۔ دین کا ٹھیکیدار وغیرہ۔
دنیاوی تعلیم یافتہ اور اس طبقہ میں اس قدر دوری ہے کہ دور ہی نہیں ہوتی۔ یہ طبقہ ایلین کی طرح نظر آتا ہے۔
دوسری طرف دیکھیں تو خود یہ لوگ بھی سستی اور کاہلی کا شکار ہیں۔ معاش کے لیے مزید کوئی ذریعہ بھی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگ کرتے بھی ہیں۔ مشکلات ہیں لیکن حرکت میں برکت ہے۔ کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
زبردست! چھوٹے چھوٹے جملوں میں، بڑے بڑے المیے پیش کر دئے گئے.
 
عام مسلمان تو بیچارہ یا تو کم علمی کے باعث یا جہنم کی وعیدوں کے باعث تو اپنا ذاتی نقطہ نظر دینے سے بھی قاصر ہے۔
بالکل درست فرمایا. ہر شخص کو اپنے مذہب سے متعلق گہرا علم ہونا چاہئے. پھر جو مذہب ہی دستور حیات اور ضابطہ اخلاق ہو اس سے دوری کیسے اختیار کی جا سکتی یے.
نظام تعلیم کو اسی طرز کہن پر لے جانے کی ضرورت ہے جہاں ہر اسکول، ہر کالج، ہر یونیورسٹی، اور ہر جامعہ اور مدرسہ مذہب کی گہری اور مضبوط بنیادی اور ضروری تعلیم سے اپنے علمی فرزندوں کو آراستہ و پیراستہ کرنے کے بعد ان کے لیے مختلف شعبہ جات میں تخصصات کے دروازے کهولاکرتا تھا.
اسی نظام تعلیم میں پنپنے والا وہ سنہرا دور تھا جس میں مذہبی اور غیر مذہبی کی اصطلاحات ہی نہیں تھیں. انجینئر بھی دیندار تھے، ڈاکٹر بھی دین دار تھے، سیاستدانوں کے دل و دماغ بھی آسمانی علوم کی روشنی سے تابندہ تھے اور نوکر شاہی کے افکار بھی.
جہاں مفتی اور سائنسدان ہم جماعت رہے ہوتے تهے، جہاں امام مسجد اور وزیراعظم نے بنیادی تعلیم کا دور ایک ہی استاد کے سامنے زانو ٹیک کر گزارا ہوتا تھا.
تب دوریاں نہیں تهیں...تب دوریاں نہیں تهیں.
 

جاسمن

لائبریرین
بالکل درست فرمایا. ہر شخص کو اپنے مذہب سے متعلق گہرا علم ہونا چاہئے. پھر جو مذہب ہی دستور حیات اور ضابطہ اخلاق ہو اس سے دوری کیسے اختیار کی جا سکتی یے.
نظام تعلیم کو اسی طرز کہن پر لے جانے کی ضرورت ہے جہاں ہر اسکول، ہر کالج، ہر یونیورسٹی، اور ہر جامعہ اور مدرسہ مذہب کی گہری اور مضبوط بنیادی اور ضروری تعلیم سے اپنے علمی فرزندوں کو آراستہ و پیراستہ کرنے کے بعد ان کے لیے مختلف شعبہ جات میں تخصصات کے دروازے کهولاکرتا تھا.
اسی نظام تعلیم میں پنپنے والا وہ سنہرا دور تھا جس میں مذہبی اور غیر مذہبی کی اصطلاحات ہی نہیں تھیں. انجینئر بھی دیندار تھے، ڈاکٹر بھی دین دار تھے، سیاستدانوں کے دل و دماغ بھی آسمانی علوم کی روشنی سے تابندہ تھے اور نوکر شاہی کے افکار بھی.
جہاں مفتی اور سائنسدان ہم جماعت رہے ہوتے تهے، جہاں امام مسجد اور وزیراعظم نے بنیادی تعلیم کا دور ایک ہی استاد کے سامنے زانو ٹیک کر گزارا ہوتا تھا.
تب دوریاں نہیں تهیں...تب دوریاں نہیں تهیں.

میرے دل کی بات۔
کاش ایسا ہو۔ میں بھی دیکھ سکوں۔ دنیا و آخرت کی بہتریوں بھلائیوں کے ساتھ۔ خیریت کے ساتھ ۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
 
آخری تدوین:

جان

محفلین
باقی رہی مذہبی طبقہ کی" اکثریت"۔۔۔۔تو یہ بات بھی بغیر تحقیق کے ہم کیسے کہہ سکتے ہیں!
جی بہنا یقیناً 'اکثریت' کا لفظ تحقیقی تناظر میں نہیں بلکہ موجودہ معاشرے اور تاریخی تناظر میں استعمال کیا گیا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں ہی اگر دیکھ لیں تو چند ایک ہی مذہبی جماعتیں ہیں اور انہی کے پاس مسجد کا منبر اور مذہبی تشریح کا قلم ہے۔ اس سے ہٹ کر جو کچھ بھی لکھا جاتا ہے اس پہ کم از کم بھی 'بھٹکا ہوا' یا کفر کے فتوے کا امکان موجود رہتا ہے۔ ابنِ انشاء اسی بابت لکھتا ہے کہ پہلے لوگ اسلام کے دائرے میں لائے جاتے تھے اور آج کل نکالے جاتے ہیں۔
بہرطور وہ انسان ہیں۔ خطا تو وہ بھی کر سکتے ہیں۔
جی بالکل، کوئی بھی انسان بشمول میرے خطا سے آزاد نہیں لیکن اصل مسئلہ خطا پہ ڈٹ جانا ہے۔ ہمیں سنجیدگی سے اس پہ غور کرنے کی ضررت ہے۔ اللہ کریم ہمارے معاملات میں آسانیاں پیدا فرمائیں۔
 

جان

محفلین
میرا آخری مراسلہ سابقہ مراسلوں سے قطع نظر معاشرے کے عمومی طرز عمل سے متعلق تھا. آپ تو "طبقے" سے اپنی مراد واضح فرما چکے تھے. :)
جہاں طبقے سے مراد وضاحت کی تھی میرے اس مراسلے میں 'مکمل' یا 'اکثریت' کا کنٹکسٹ تھا، اس میں یہ شامل نہیں تھا کہ اس طبقے میں شامل کون کون ہے اس لیے دونوں مراسلوں کے کنٹکسٹ میں فرق ہے۔ دوم آپ نے چونکہ میرے مراسلے کا اقتباس لیا تھا تو مجھے یہی گمان گزرا کہ آپ مجھ سے جواب طلب کرنا چاہ رہے ہیں۔
 
آخری تدوین:
دوم آپ نے چونکہ میرے مراسلے کا اقتباس لیا تھا تو مجھے یہی گمان گزرا کہ آپ مجھ سے جواب طلب کرنا چاہ رہے ہیں۔
بہت شکریہ! آپ کی اس وضاحت سے میری معلومات میں اضافہ ہو گیا. در اصل میں محفل میں نیا ہوں. جب بهی کچھ لکھنا ہوتا ہے تو کسی مراسلے کے نیچے جواب پر کلک کر کے لکھتا ہوں اور جب بھی یہ موبائل کے ذریعے کرتا ہوں تو جواب میں اقتباس بھی شامل ہو جاتا ہے. آئندہ احتیاط کروں گا.
 

جان

محفلین
مسجد کے ممبروں پہ اکثر ایسے لوگ بیٹھے ہیں جن کی مذہبی تعلیم یا ناظرہ ہے یا حفظ۔ انہیں تجوید و قرات کی بنیاد پہ امام چنا جاتا ہے۔ ان میں کم لوگ ہیں کہ جنھوں نے کسی مدرسہ سے عالم کا مکمل کورس کیا ہو۔
دونوں طرح کے لوگوں کا سماجی معاشی رتبہ بہت کم ہے۔ ان کے پیچھے دیکھیں تو ان کے والدین کا بھی یہی حال اور والدین کی تعلیم بھی نہیں یا کم۔
ہر امام کسی نہ کسی مدرسے سے فارغ التحصیل ہوتا ہے، اس لیے اس کی ذہن سازی ہی ایسی کی جاتی ہے کہ اس جماعت کے علاوہ یا ایک مخصوص مذہبی تشریح کے علاوہ کچھ ٹھیک ہے ہی نہیں اس لیے ان میں مخالف بات کو سننے کی سکت ہی نہیں ہوتی۔ جب ایسی فضا قائم ہوتی ہے تب جا کر 'دین کے ٹھیکیدار' کے طعنے ملتے ہیں۔ مذہب اور معاشرت کا بہت گہرا تعلق ہے جب آپ یہ تعلق نکال دیں گے تو تناؤ دونوں طرف ہی ہو گا۔
ائمہ حضرات کی تنخواہیں اور دیگر سہولیات کے بارے میں کبھی تحقیق کریں تو معلوم ہو کہ کس قدر محروم طبقہ ہے۔ معاشرہ کے اکثر دنیاوی تعلیم یافتہ ان پہ طنزوطعنہ زنی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ مسلسل تحقیر کے رویے ہم دیکھتے ہی ہیں۔ پھر ان ہی پہ "مثالی" ہونے کا دباؤ بھی ہے۔ انھیں ہی عالم سمجھا جاتا ہے۔ دین کا ٹھیکیدار وغیرہ۔
میں اس سے متفق نہیں، اس طبقے میں بھی معاشرتی کلاسز کی طرح مذہبی کلاسز ہیں یعنی ایلیٹ کلاس سے لے کر غریب کلاس تک۔ یہ اتنا سادہ نہیں بلکہ پورا ایک نیٹ ورک ہے۔
جہاں تک طعنہ زنی کی بات ہے تو میں کسی بھی فردِ واحد بلا تفریق رنگ و نسل و مذہب اس کی مذمت کرتا ہوں لیکن آپ غور کریں تو یہ یک طرفہ ٹریفک نہیں بلکہ دونوں ہی طبقات آپس میں تناؤ کی کیفیت میں ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذہبی طبقہ اپنی تشریح یا جس تشریح کی وہ حمایت کرتا ہے اسے حرفِ آخر سمجھتا ہے جب کہ معاشرت مسلسل ارتقاء کے مراحل میں ہے جب ایک چیز مسلسل بدل رہی ہو اور ایک مسلسل ساکت ہو تو دونوں میں فرکشن کا پیدا ہونا لازم ہے۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
غیرمذہبی طبقے کی جانب سے مدارس اور علماءِ کرام کی جانب جو جو باتیں وابستہ کی جاتی ہے، وہ یا تو غلط، یا ناقص معلومات اور یا جانبدارانہ ہونے کی وجہ سے اپنی اہمیت کھودیتی ہے۔
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ صرف ایک مثال کو مذہبی طبقہ کہہ کر یا صرف ایک شخصیت کو مذہبی طبقہ کہہ کر سب کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی بجائے مکمل تحقیق اور متوازن سوچ رکھ کر بات کی جائے تو اس کا بہت فائدہ ہوگا وگرنہ آج کل جو روِش چل نکلی ہے یہ تصادم کو تو پروان چڑھاسکتی ہے، تعمیری کبھی بھی نہیں ہوسکتی۔
اس کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ ہر شخص قلم اُٹھا کر صرف اپنے خیالات اور جذبات کی عکاسی کرتا پھررہا ہے، باقی تحقیق نام کی کوئی شے دیکھنے کو نہیں ملتی۔
 

جان

محفلین
بہت شکریہ! آپ کی اس وضاحت سے میری معلومات میں اضافہ ہو گیا. در اصل میں محفل میں نیا ہوں. جب بهی کچھ لکھنا ہوتا ہے تو کسی مراسلے کے نیچے جواب پر کلک کر کے لکھتا ہوں اور جب بھی یہ موبائل کے ذریعے کرتا ہوں تو جواب میں اقتباس بھی شامل ہو جاتا ہے. آئندہ احتیاط کروں گا.
ہمیشہ سلامت رہیں، خوش رہیں۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
غیرمذہبی طبقے کی جانب سے مدارس اور علماءِ کرام کی جانب جو جو باتیں وابستہ کی جاتی ہے، وہ یا تو غلط، یا ناقص معلومات اور یا جانبدارانہ ہونے کی وجہ سے اپنی اہمیت کھودیتی ہے۔
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ صرف ایک مثال کو مذہبی طبقہ کہہ کر یا صرف ایک شخصیت کو مذہبی طبقہ کہہ کر سب کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی بجائے مکمل تحقیق اور متوازن سوچ رکھ کر بات کی جائے تو اس کا بہت فائدہ ہوگا وگرنہ آج کل جو روِش چل نکلی ہے یہ تصادم کو تو پروان چڑھاسکتی ہے، تعمیری کبھی بھی نہیں ہوسکتی۔
ویسے آپ کا اپنا رویہ بھی غیرمذہبی طبقہ سے متعلق ایسا ہی ہوتا ہے۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
شعروں میں اب جہاد ہے، روزہ نماز ہے
اُردو غزل میں جتنے تھے کُفّار مر گئے

اخبار ہو رہی ہے غزل کی زبان اب
اپنے شہید آٹھ ، اُدھر چار مر گئے

مصرعوں کو ہم نے، نعرۂ تکبِیر کر دِیا
گِیتوں کے پُختہ کار گُلوکار مر گئے

(بشیر بدرؔ)
 
میں ن
مجھے بھی مضمون پسند آیا ہے۔
جہاں تک بات ریسرچ کی ہے تو واقعی ایک ریسرچر کی زبان جذبات اور کسی بھی طرح کے تعصب اور ہماری پسند و ناپسند سے پاک ہونی چاہیے۔
مجھے نہیں معلوم کہ مذکورہ ریسرچر کو کون سے اساتذہ نے راہنمائی دی۔ ہمیں تو یہی کہا گیا/کہا جاتا ہے کہ تحقیق میں آپ کے جذبات یا آراء نہیں چلتیں۔ میں نے دو حساس موضوعات پہ تحقیق کی ہے اور دونوں میں کئی ایسی باتیں کہ جن کے بارےمیں میری رائے کچھ اور تھی لیکن تحقیق کے نتائج کچھ اور دکھاتے ہیں۔
دوسرے۔۔۔۔"مغرب کی حیا باختہ، اخلاق سوز تہذیب" یہ ریسرچ کی زبان قطعی نہیں ہے۔ اگر کسی تحقیق کے نتیجہ میں کوئی تہذیب اس طرح کی ثابت بھی ہو تب بھی زبان ایسی ہرگز استعمال نہیں ہوگی۔
ے
 
Top